حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رح. عظیم محدث، باکمال محقق.

از: محمد خالد حسین نیموی قاسمی
سابق معین المدرسین دار العلوم دیوبند یوپی


عظیم محدث ، ماہر تاریخ، مشہور مصنف اور ممتاز صاحب قلم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی رحلت پر اب ایک سال کا عرصہ مکمل ہوگیا، اس پورے عرصے میں دبستانِ علم و تحقیق سونا سونا سا محسوس ہوتا رہا، حضرت کا وصال بہت بڑا حادثہ تھا …ذاتی طور پر میرے لیے، مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے لیے اور علم دوست طبقہ اور ذوقِ تحقیق کے حامل حلقہ کے لیے.
حضرت اعظمی میرے محسن ومربی بھی تھے اور استاذ وسرپرست بھی. دارالعلوم دیوبند میں اس عاجز کو دیگر دروس کے علاوہ خاص طور پر ، حضرت والا سے طحاوی شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا .حضرت کا اختصاص علم تاریخ اور نقد حدیث میں تھا. جرح وتعدیل پر آپ کا کلام لاجواب ہوا کرتا تھا. سیال قلم کے مالک تھے اور نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی بھی بھرپور انداز میں کیا کرتے تھے. اس عاجز نے سال ہفتم میں طلبہ کے ایک آل دارالعلوم مقابلہ کے لیے” علماء ھند اور خدمت حدیث” کے عنوان پر مقالہ لکھاتھا …مقابلہ کے شرکاء میں منتہی درجہ کے طلبہ بھی شامل تھے…. حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی جو اس موضوع پر اتھارٹی اور سند کی حیثیت رکھتے تھے، انھیں ممتحن مقرر کیا گیا… حضرت نے تمام مقالات کو بنظر غائر چک کیا اور اس عاجز کو پچاس میں سے پچاس یعنی سو بٹا سو 💯 نمبر سے ممتاز قرار دیا… الحمدللہ حضرت اعظمی کا دستخط شدہ مقالہ اور درج کردہ نوٹ بندہ کے پاس اب بھی محفوظ ہے… اتناہی نہیں؛ بلکہ امتیازی مقام حاصل کر نے کی خوشی میں حضرت نے بطور اعزاز دعوت بھی کی اور حوصلہ افزائی فرمائی… بعد میں اس پورے مقالہ کو حضرت نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والی ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں دو قسطوں میں نمایاں طور پر شائع بھی کروایا، جو یقیناً حضرت اعظمی کی اعلیٰ ظرفی اور خورد نوازی کی بڑی مثال ہے .اس ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت اعظمی کو اسماء رجال پر بھی بڑی مہارت تھی اس مقالہ میں اس عاجز نے صاحب مجمع بحار الانوار کا نام جیسا کہ مشہور ہے علامہ طاہر پٹنی لکھا تھا، حضرت نے متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ محمد بن طاہر پٹنی لکھیں.ان کا نام صرف محمد ہے، طاہر ان کے والد کا نام ہے،بعض اردو مؤرخین نے معاملے کو خلط ملط کردیا ہے..
جب یہ عاجز دارالعلوم دیوبند میں معین مدرس تھا تو مختلف مواقع پر حضرت کے قیمتی مشورے ہمارے لیے مشعل راہ ہوا کرتے تھے. حضرت کی ادارت کے زمانے میں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کا معیار کافی بلند ہوا.. مضامین کے انتخاب میں کافی دقت نظر سے کام لیا کرتے تھے.اس عاجز کو ماہنامہ دارالعلوم کے لیے مضامین لکھنے کا حکم بھی کرتے اور مضامین کو ماہنامہ میں شائع بھی فرماتے تھے .حضرت اعظمی کی فکر مندی اور کوششوں کے نتیجے میں ماہنامہ دارالعلوم کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا…. ایک طویل عرصہ تک ادارت سنبھالنے کے بعد حضرت اعظمی نے صرف علوم حدیث سے اور رسول اکرم کے افعال، اقوال وتقریرات سے اشتغال کے لیے دیگر تمام مشاغل سے اپنے کو فارغ و سبکدوش کرلیا تھا.
آپ کی حالت اس شعر کا مصداق بن گئی تھی:
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھا رہوں تصور جانا ں کیے ہوئے.
دن رات بس اپنے مشام دل وجان کو قال اللہ وقال الرسول کے صداء جاں بخش سے معطر کرتے رہتے تھے…سند حدیث اور متن حدیث کی تحقیق پر سینکڑوں صفحات کے مطالعہ کی عطر کشید کرکے طلبہ کے سامنے مہارت کے ساتھ پیش فرمادیتے تھے.
حضرت اعظمی انتہائی وسیع النظر اور ممتاز محدثین کے عاشق زار تھے…. مشہور حنفی محدث ومحقق علامہ ظہیر احسن شوق نیموی… جن کے بارے میں امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری فرما یا کرتے تھے کہ ان کے معیار کا محدث گذشتہ تین سو سال میں پیدا نہیں ہوا(روایت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی. ہندوستانی مسلمان) ….علامہ کشمیری نے ان کی عظمت پر مشتمل ایک قصیدہ تحریر فرمایاہے.. علامہ کشمیری کی طرح حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی بھی ان کے اور ان کی کتاب آثار السنن کے عاشق زار تھے…. ایک مرتبہ بخارا اور سمرقند کے کچھ طلبہ کسب فیض کے لیے دار العلوم دیوبند پہنچے، اس وقت کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے ان کے لیے مختصر نصاب تیار کرنے کی ذمہ داری حضرت اعظمی کو دی… انھوں نے آثار السنن وبعض دیگر کتابوں کو ان کے لیے مقرر کیا.. پھر حضرت مولانا ارشد مدنی کے سامنے آثار السنن کی وجہ ترجیح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتاب اس معیار کی ہے کہ اسے دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں داخل ہونا چاہیے، جس طرح بہار کے مدارس اور پاکستان کے مدارس میں داخل نصاب ہے.
اس عاجز سے دارالعلوم دیوبند میں حضرۃ الاستاذ ادیب العربیہ مولانا نور عالم خلیل امینی نور اللہ مرقدہ کی تصنیف مفتاح العربیہ اول ودوم کی تدریس متعلق تھی. یہ عاجز خود مصنف کتاب حضرت امینی کی نگرانی میں تدریس کی خدمت انجام دیتا .. بعض ذمہ داروں کا خیال تھا کہ اسی گھنٹے میں القراءۃ الواضحہ جزو اول کو بھی پڑھایا جائے. اس کے لیے الگ سے گھنٹہ مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے … اس معاملے کو حضرت امینی نے نصاب کمیٹی کے ذمہ دار مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے سامنے رکھا، حضرت اعظمی ان دونوں کے لیے الگ الگ گھنٹے رکھنے کے نصاب کمیٹی کے مقاصد کو ذمہ داروں کے سامنے تفصیل سے مؤثر انداز میں رکھا… چنانچہ دونوں کے لیے الگ الگ گھنٹے برقرار رہے.
فقہِ حدیث پر اعلی مہارت کی وجہ سے وہ کئی معاملات میں شاندار و جاندار رائے پیش کیا کرتے تھے.. اہل علم کے مابین ان کی علمی آراء کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی.
بابری مسجد کی شہادت کے فورا بعد حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری نوراللہ مرقدہ، طلبہ و اساتذہ سے خطاب فرما رہے تھے… آپ نے فرمایا کہ ہماری بدعلمی کی وجہ سے بھی زوال آتاہے اور ناکامی ہاتھ لگتی ہے… ایک واقعہ مشہور ہے کہ مجاہدین کے دستے کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.. کمانڈر نے اپنے فوجیوں سے مشورہ کیا کہ لگتا ہے کہ ہم سے رسول اللہ کی کوئی نہ کوئی سنت چھوٹ رہی ہے… غور کرنے پر معلوم ہوا کہ مسلسل سفر کی وجہ سے مسواک کی سنت کی ادائیگی نہیں ہوپا رہی تھی.. چنانچہ کمانڈر نے اس سنت کی احیاء کا حکم دیا… اور دیکھتے دیکھتے پورا کا پورا اسلامی دستہ بڑی بڑی ٹہنیاں توڑ کر مسواک کرنے
میں مصروف ہوگیا ، دشمن کے جاسوسوں نے جب مخالف فوج کو بتایا کہ یہ کیفیت ہم نے دیکھی ہے..وہ دانت مانجھ رہیں ہیں؛ لگتا ہے ہمیں کچا ہی چبا جائیں گے… یہ سن کر دشمن کی فوج پر رعب چھا گیا اور بغیر لڑے دشمنوں نے علاقے کو خالی کر دیا.. اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد مفتی سعید صاحب پالنپوری نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ واقعہ کب کا ہے اور اس کیا حقیقت ہے؟ لیکن اس میں شاندار پیغام ہے فرائض وسنن کے اہتمام کے لیے…. یہ سن کر مجلس میں موجود حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے برجستہ کہاکہ حضرت! یہ واقعہ بنی امیہ کے زمانے کا ہے اور قتیبہ بن مسلم باہلی کے ساتھ پیش آیا.اسی طرح امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں سیدنا عمر بن عاص کے ساتھ پیش آیا . .. اور فلاں فلاں کتاب میں مذکور ہے…
اس پر حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری نے مولانا حبیب الرحمن کی زبردست پذیرائی کی اور فرمایا کہ اس واقعہ کی دار العلوم دیوبند کے سب سے بڑے ماہرِ تاریخ نے تصدیق کی ہے.. بس واقعہ کی صداقت کے لیے اتناہی کافی ہے.
حضرت کے سیال وگہربار قلم سے درجنوں کتابیں وسائل شایع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں.
حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اپنے زمانے کے اکابر کا بھی بڑا احترام کیا کرتے تھے..
اپنے ہمنام عظیم محقق محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے بڑے مداح تھے.. ان کے نام سے لوگوں کو اشتباہ نہ ہو اس کے پیش نظر ایک زمانے تک اپنی نسبت جگدیش پوری لکھا کرتے تھے..ان کی وفات کے بعد اعظمی نسبت لکھنا شروع کیا.
حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی اور ان کے پورے خانوادہ سے بڑی محبت رکھتے تھے. جمعیت علماء کی ہر تحریک میں شانہ بشانہ شامل رہتے تھے…. اور اپنی بے باک تحریروں سے جمعیت علماء ہند کی مختلف تحریکوں کو تقویت بخشنے کا کام کیا کرتے تھے.
رمضان المبارک کی آخری ساعتوں میں ان کا انتقال ان کی عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے… اللہ تعالیٰ انھیں ان کی خدمات جلیلہ کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین یا رب العالمین.

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے