خورشید عالم داؤد قاسمی٭
مشرق وسطی میں واقع غاصب ریاست اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قیام ظلم وجبر، قبضہ وغصب اور قتل وغارتگری سے ہوا ہے۔ اب اس ریاست کی افواج، پولیس، دفاعی عملے اور ادارے، وزیر ومنتری، سپاہی وسنتری،حکمراں و قائدین اور خواص و عوام سب کے سب اگر ظلم وناانصافی، قتل وغارتگری اور دوسروں کے ملکیت کو قبضہ کرنے کی بات کریں اور اسے عملی جامہ بھی پہنائیں؛ تو اس میں بہت زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج یہی سب کچھ اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ اس ریاست کا قیام ہی قیام ، عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر کیا گیا۔ اس کے وجود میں آتے ہی، لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ جنھوں نے اپنی شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنی دھرتی پر رہنے کو ترجیح دی، انھیں تشدد واذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر حکومت کی نگرانی میں حملے کیے گئے اور انھیں قتل کیا گیا۔ عدل وانصاف کو بالائے طاق رکھنے کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ اگر دنیا کی تاریخ مطالعہ کیا جائے؛ تو ایسا کہیں نہیں ملے گا کہ عوامی مطالبہ اور جد وجہد کے بغیر،کسی بین الاقوامی سازش کے تحت، ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کے لیے ،دوسروں کی زمین پر ایک نئے ملک کا قیام عمل میں آیا ہو۔ پھر دوسرے ممالک سے اس خاص مذہب کے ماننے والوں کو لاکر، وہاں بسایا گیا ہو۔ ہمیں یہی سب کچھ اسرائیل کے قیام میں نظر آتا ہے کہ عوامی مطالبہ کے بغیر، ایک بین الاقوامی سازش کے تحت، یہودیوں اور صہیونیوں کےلیے فلسطین میں، اسے قائم کیا گیا اور مختلف ممالک سے یہودیوں اور صہیونیوں کو لاکر وہاں آباد کیا گیا۔کوئی بھی فہم سلیم رکھنے والا شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا۔
گذشتہ سال رمضان کے مبارک ومسعود موقع پر، 7/مئی 2021ء کو غاصب ریاست کی قابض فوج نے مسجد اقصی میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کرکے اپنی درندگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس بار پھر یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ قابض دہشت گرد فوج کی طرف سے بروز: جمعہ 15/اپریل 2022 سے، مسجد اقصی میں، نمازیوں اور روزہ داروں پر درندگی وحیوانیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ کسی امتیاز کے بغیر، مسجد اقصی میں عبادت میں مشغول خواتین و مرد حضرات ان کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہتھیار سے لیس دہشت گرد فوجی عملہ بوڑھے کے ساتھ دکھا مکی کررہا ہے۔ کرسی پر بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ضعیف و کمزور لوگوں کو پولیس دھکا مار کر زمین پر گرا دیتی ہے اور وہ منھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مصلے پر بیٹھ پر ذکر و اذکار میں مشغول ضعیف لوگوں کو جوتے کی نوک سے دھکا مارا جاتا ہے اور وہ زمین پر گرجاتے ہیں۔ آنسو گیس کا استعمال کرکے لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ جو فلسطینی نوجوان اپنی بہادری وشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے،دہشت گرد مسلح پولیس اور افواج کے عملے کی کاروائی کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں؛ تو انھیں اوندھے منھ لٹاکر، ان کے دونوں ہاتھ ان کے پیٹھ پر باندھ دیا جاتا ہے۔ پھر انھیں گرفتار کرکے، کسی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اسرائیل افواج کی طرف سے، مسجد اقصی میں بہ روز: جمعہ، 15/اپریل 2022 کو مسلمانوں پر، تشدد کی ابتدا یوں ہوئی کہ اس دن یہودیوں کے کسی نام نہاد تہوار کے نام پر، انتہا پسند یہودیوں کے کئی گروہ، طاقت اور شدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسجد اقصی میں، یہودی رسومات کی ادائیگی کے لیے داخل ہوگئے۔ مسجد اقصی میں موجود روزہ دار مسلمانوں نے ان انتہا پسندیہودیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ پھر کیا تھا! قابض اسرائیلی افواج کے عملے کو ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا۔ انھوں نے اس نام نہاد یہودی تہوار کی آڑ میں، نمازیوں اور روزہ داروں کو، مسجد اقصی میں ہی، تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس میں تقریبا 150 فلسطینی زخمی ہوئےاور چار سو فلسطینی گرفتار کیے گئے۔ خبر رساں ادارہ”وفا” کے مطابق: "جمعہ کو اسرائیل فوج نے مسجد اقصی کے صحنوں پر دھاوا بولا۔ انھوں نے نمازیوں پر آنسو گیس چھوڑے اور صوتی بم برسائے۔ اس کے نتیجے میں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے والے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔اسرائیلی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مسجد اقصی سے تقریبا تین سو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔”
اب جمعہ کے دن سے ہی قابض افواج نمازیوں کو مسجد اقصی سے نکال رہی ہے۔ ان کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ جو لوگ مزاحمت کی کوشش کرتے ہیں، ان کے ساتھ تشدد سے پیش آرہی ہے۔ اب یہ بھی خبر ہے کہ اس شدت پسندی کے ساتھ، اسرائیلی حکام نے مغربی کے کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس کے درمیان، رابطے کے لیے استعمال ہونے والی تمام گزرگاہوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان حکام کے بیان کے مطابق یہ بندش ہفتے کی شام تک جاری رہے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکوریٹی کی صورت حال کے پیش نظر اس میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
ابھی جو فلسطینی مسلمان مسجد اقصی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو جانے سے روکا جارہا ہے۔ جوفلسطینی مسجد اقصی میں ہیں، ان کوقابض افواج طاقت کا استعمال کرکے بھگار رہی ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی قابض افواج کے اذیت وتشدد اور طاقت کے استعمال کی ویڈیو پائی جارہی، اسے دیکھ کر بہت رنج و افسوس ہوتا ہے۔ کسی ویڈیو میں یہ منظر پیش کیا گیا ہے کہ کئی قابض افواج ایک معذور شخص کو دھکے دے رہی ہے اور وہ شخص اپنے بے بسی ولاچاری کا اظہار کرتے ہوئے، پیچھے قدم لوٹائے جارہا ہے۔ کسی ویڈیو میں یہ دکھ رہا ہے کہ چند مسلمان فلسطینی لڑکیوں کو کئی خاتون قابض افواج رگید رہی ہیں اور ان خواتین افواج کی مدد کے لیے ان کے پیچھے فوج کے کئی مرد افراد ہیں۔ ایک ویڈیو میں یہ دردناک منظر قید کیا گیا ہے کہ ایک فلسطینی مسلمان اپنے ایک کم عمربچے کے ساتھ جارہا ہے۔ اسے قابض افواج دوڑا دوڑا کر پیٹ رہی اور اس بچہ چیختے چلاتے، خود کو بچانے کے لیے بھاگ رہا ہے۔ ایک ویڈیو ایسی بھی سوشل میڈیا پر ساجھا کی گئی، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کچھ خواتین ، قبلی مسجد میں خواتین والے سیکشن میں عبادت میں مشغول ہیں۔ ان کو اسرائیلی افواج نے باہر سے بند کردیا۔ وہ خواتین اندر سے "اللہ اکبر” کا نعرہ لگا رہی ہیں اور دہشت گرد اسرائیلی افواج اس کے باہر کھڑی ہے۔
اسلامی اور عرب ممالک ، جیسے: ترکی، سعودی عرب، یمن، متحدہ عرب امارات، عراق، لیبیا، پاکستان، ایران، مصر، اردن وغیرہ نے مسجد اقصی پر اس حالیہ اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے دوسرے عرب ممالک،اسلامی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد اقصی پر اسرائیلی حملے کو روکیں۔ مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان سفیر احمد حافظ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے اس حملے اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ تشدد کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ ترجمان نے تشدد اور اشتعال انگیزی کو اس کی تمام شکلوں میں مستردکرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوج کی قبلہ اول پر چڑھائی فلسطینیوں کو مشتعل کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ کے درمیان فون پر بات چیت کی گئی جس میں مسجد اقصی کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔
اس اسرائیلی تشدد کے بعد سے پورے طور پر مسجد اقصی میں دہشت گرد افواج کا قبضہ ہے۔ان کی ایک بڑی تعداد مسجد اقصی میں موجود ہے۔ مسجد اقصی کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ ان کو مسجد اقصی سے نکالنے کے لیے فلسطینی حکام نے اپنے عرب برادر ممالک اردن اور مصر کو "بیت المقدس” (یرشلم) کی موجودہ صورت حال سے واقف کرایا اور اس حوالے سے مشاورت کی ہے۔ یہ دونوں ممالک قابض اسرائیلی ریاست کے ساتھ رابطے میں ہیں؛ تاکہ مسجد اقصی سے اسرائیلی فوج کو نکالا جاسکے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی کچھ ہوتا ہے؛ تو قابض اسرائیلی افواج مسجد اقصی میں داخل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو وہاں سے بھگانا شروع کردیتی ہے۔ اسی طرح کی صورت حال ابھی بھی مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ ان قابض افواج کا یہ عمل بین الاقوامی قراداد وں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی صہیونی ریاست کا اصل نشانہ قبلۂ اولّ: مسجد اقصی ہے۔ اس طرح کے عمل سے اسرائیلی حکومت، اس عوام اور افواج مسجد اقصی پر اپنا مذہبی تسلط بڑھانے کی کوشش میں لگے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسجد اقصی پر قبضہ کرلیا جائے اور اسے ہیکل سلیمانی میں تبدیل کردیا جائے۔ اب فلسطینی مسلمانوں کو خدشہ ہونے لگا ہے کہ ہیبروں میں واقع "ابراہیمی مسجد” کی طرح مسجد اقصی کو بھی اسرائیلی صہیونی ریاست اپنے طاقت و تشدّد کی بدولت کہیں دو حصے میں تقسیم نہ کردے۔ پھر آہستہ آہستہ پوری مسجد اقصی پر ہی قبضہ کرلے۔اگر ایسا ہوتا ہے؛ تو یہ امت مسلمہ کی بہت بڑی توہین ہوگی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ پوری امت مسلمہ کو بیک آواز مسجد اقصی اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائے۔ سالوں سال سے جو فلسطینی مسلمان مسجد اقصی کی حفاظت اور آزادی کے لیے اسرائیلی افواج کا ظلم وستم برداشت کررہے ہیں اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ اسلام کے ہیرواور سورما ہیں۔ وہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور شکریے کے مستحق ہیں۔ ہم ان سورماؤں اور ابطال کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ••••
٭مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ