امداد الحق بختیار
استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
اسلام کی بنیاد جن پانچ ستونوں پر قائم ہے، زکاة ان میں سے ایک اہم ستون ہے، زکاة کو مالی عبادتوں میں وہی مقام حاصل ہے ، جو نماز کو بدنی عبادتوں میں حاصل ہے،جس طرح نماز سے روحانی اور جسمانی طہارت حاصل ہوتی ہے اسی طرح زکاة سے ہمارے مال کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کثرت سے دونوں کو ایک ساتھ”أَقَیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ“کے پیراے میں بیان کیا ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر اسلام میں زکاة ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے: (۱) وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاةِ فَاعِلُونَ(سورہ موٴمنون/۴) وہ ایمان والے کامیاب ہیں جو اپنی زکاة ادا کرتے ہیں۔ (۲) وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَاب․․․․․․(سورہ بقرہ/۱۷۷)اور کامل نیکی یہ ہے کہ مال کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، فقیروں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں مال خرچ کرے۔(۳) إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون․(سورہ بقرہ/۲۷۷)جو ایمان لائے،انہوں نے نیک عمل کیے، نماز قائم کی اور زکاة ادا کی، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر اوربدلہ ہے، اس دن نہ وہ خوف زدہ ہوں گے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
چوں کہ اسلام میں زکاة کی عبادت کو ایک مہتم بالشان مقام حاصل ہے؛ اسی لیے جہاں زکاة ادا کرنے کے بڑے فضائل اور بشارتیں وارد ہوئی ہیں، وہیں زکاة نہ ادا کرنے پر بڑی خوفناک خدائی وعیدیں بھی قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہیں، چناں چہ اللہ کا ارشاد ہے: (۱) وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ․ یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُون․(سورہ توبہ/۳۴،۳۵)جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں انہیں خرچ نہیں کرتے ، انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری سناوٴ، جس دن جہنم میں اس سونے اور چاندی کو انگار بنایا جائے گا، پھراس انگار سے ان کی پیشانی، پہلو اور پشت کو داغا جائے گا اور جہنم کے داروغہ ان سے کہیں گے: یہی وہ خزانہ ہے، جسے تم نے جمع کرکے رکھا تھا، چناں چہ اب اس کا عذاب چکھو۔اورصحیح بخاری شریف میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد بھی مذکور ہے: جسے اللہ نے مال عطا کیا، پھر اس نے اس مال کی زکاة ادا نہیں کی، تو قیامت کے دن اس کے مال کو ایسا گنجا سانپ بنایا جائے گا، جس کی آنکھوں پے دو کالے نشان ہوں گے، اس سانپ کو اس شخص کے گلے میں ڈالا جائے گا پھر وہ سانپ اس کی دونوں بانچھیں(یعنی منھ کے دونوں کنارے) پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:جو لوگ اللہ کے عطا کردہ مال میں بخل کرتے ہیں وہ اپنے اس عمل کو باعث خیر نہ سمجھیں؛ بلکہ یہ ان کے لے شرکا باعث ہے، عنقریب قیامت کے دن اسی مال کو ان کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا، جس میں وہ بخل کررہے ہیں۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۴۵۶۵)
لہٰذا ہمارے پاس سونے ،چاندی اور زیورات کی شکل میں مال ہو یا بینک بیلنس کی شکل میں ہو، گھروں یا دوکانوں کا کرایہ آرہا ہو،ہمیں اہتمام کے ساتھ سب کی زکاة نکالنی چاہیے؛ جیسے اسلام میں روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنا ضروری ہے، اسی طرح سال میں ایک بار زکاة نکالنا فرض ہے، اور جیسے ظہر کی فرض نماز چار رکعت کے بجائے کوئی دو ہی رکعت پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسی طرح پورے مال کی مکمل زکاة نکالنے سے زکاة کا فریضہ ادا ہوتا ہے، کم زکاة ادا کرنے سے یہ فریضہ ادا نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مطابق زکاة ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمارے مال میں خیروبرکت عطا فرمائے۔(آمین)