محمد اللہ خلیلی قاسمی
دارالعلوم دیوبند وہ عظیم چمنستان ہے جہاں ہر سال بلبلان علم اور پروانگان فکر و دانش کی ایک کھیپ آتی ہے اور دارالعلوم میں خیمہ زن ہو کر قال اللہ و قال الرسول کے ملکوتی زمزموں کا حصہ بن جاتی ہے۔ اپنا وقت مقررہ گزار کر اور اپنی میٹھی بولیاں بول کر یہ بلبلیں اڑ کر چلی جاتی ہیں۔ یہ طائران خوش نوا کہیں اپنا نشیمن بناتی ہیں یا کسی نشیمن میں اپنی تگ و دَو ، جد و جہد، خوش خلقی و راستبازی اور صلاحیت و صالحیت کی بنیاد پر اپنا آشیانہ بنالیتی ہیں ۔ ان میں بعض ایسے سعادت مند اور خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جواپنی خوش نوائی اور شیریں مزاجی کی وجہ سے وہ مقام حاصل کرلیتے ہیں کہ ہر ایک قلب و نگاہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور ہر کبیر وصغیر کے دل میں ان کا نقش قائم ہوجاتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند ایسا مرکز ہے جہاں ایسی خوش نصیب اور سعید روحیں جمع ہوتی ہیں جو اس چشمہٴ صافی سے سیراب ہوکر خلق خدا میں اس نعمت کی تقسیم کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دارالعلوم دیوبند گذشتہ ڈیڑھ صدیوں سے بر صغیر کی ایسی مردم ساز فیکٹری ہے جہاں علمی و مذہبی لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی خوش نصیب شخصیات میں ہمارے ممدوح حضرت مولانا معز الدین قاسمی گونڈوی کا شمار ہے جو اس مادرعلمی میں تربیت پاکر علم و عمل کے افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر ابھرے۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ اور تعلیم
مولانا معز الدین صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں درجہ پنجم عربی میں داخلہ لیا۔ یہ شوال ۱۴۰۲ھ مطابق اگست ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب دارالعلوم ایک نہایت پرآشوب دور سے گذر کر دوبارہ کھلا تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں اجلاس صد سالہ کے بعد اہتمام اور مجلس شوری کے درمیان اختلاف کی ایسی ناگفتہ بہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ اس کی وجہ سے دارالعلوم کی بنیادیں ہل گئی تھیں۔ قصہ المختصر دارالعلوم مسلسل کئی ماہ تک قال اللہ و قال الرسول کے زمزموں سے محروم رہا، خدا خدا کرکے دارالعلوم کھلا اور نئے داخلے ہوئے تو داخل ہونے والے ان خوش نصیبوں میں ایک نام ’معز الدین گونڈوی‘ کا بھی تھا۔
آپ کی ولدیت ، سکونت اور تاریخ پیدائش ریکارڈ میں اس طرح درج ہے:معز الدین احمد ابن عبد الحمید ، ساکن دتلو پور ضلع گونڈہ یوپی۔ ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش: ۳/مارچ ۱۹۶۳ء مطابق ۶/ اکتوبر ۱۳۸۲ھ درج ہے۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا عبد الحمید صاحب قاسمی مد ظلہ ، دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل ہیں ۔ انھوں نے چار سال دارالعلوم رہ کر تعلیم حاصل کی اور ۱۳۷۹ھ مطابق ۱۹۵۹ء میں دورہٴ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادی اور حضرت محمد ابراہیم صاحب بلیاوی اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جیسے اساطین علم شامل ہیں۔
مولانا معز الدین صاحب نے جلد ہی اپنی ذہانت و فطانت، محنت و جد وجہداور تعلیمی شغف کے باعث اپنے ساتھیوں میں نمایاں مقام بنالیا۔ پہلے ہی سال (درجہٴ پنجم عربی )کے سالانہ امتحان منعقدہ شعبان ۱۴۰۳ھ مطابق مئی ۱۹۸۳ء میں انھوں نے بہترین نمبرات حاصل کیے ۔ بعد کے امتحانات میں بھی وہ اعلی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے۔ ذیل میں امتحان سالانہ کے نمبرات کی تفصیل درج ذیل ہے:
درجہٴ پنجم عربی کے امتحان سالانہ منعقدہ شعبان ۱۴۰۳ھ میں حاصل کردہ نمبرات اور اساتذہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
نمبر شمار
کتاب/ موضوع
استاذ
نمبرات
۱
ہدایہ اول و ثانی:
حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی
۴۶
۲
نور الانوار:
حضرت مولانا لقمان الحق صاحب بجنوری
۴۸
۳
مقامات حریری:
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی
۴۵
۴
البلاغة الواضحة :
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی
۴۵
۵
عقیدة الطحاوی:
حضرت مولانا لقمان الحق صاحب بجنوری
۴۸
۶
ملا حسن :
حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری
۴۴
۷
علم مدنیت:
حضرت مولانا عزیز احمد بی اے صاحب فیض آبادی
۴۰
۸
تاریخ جغرافیہ:
حضرت مولانا عزیز احمد بی اے صاحب فیض آبادی
۴۰
درجہٴ ششم عربی کے امتحان سالانہ منعقدہ شعبان ۱۴۰۴ھ میں حاصل کردہ نمبرات اور اساتذہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
نمبر شمار
کتاب/ موضوع
استاذ
نمبرات
۱
جلالین شریف :
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی
حضرت مولانا حامد میاں صاحب امرہوی
۴۵
۲
حسامی:
حضرت مولانا مفتی محمدامین صاحب پالن پوری
۵۰
۳
میبذی:
حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی
۵۰
۴
الفوز الکبیر:
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی
۴۴
۵
دیوان متنبی :
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی
۴۸
۶
سائنس :
حضرت مولانا عزیز احمد بی اے صاحب فیض آبادی
۴۵
۷
حفظان صحت :
حضرت مولانا عزیز احمد بی اے صاحب فیض آبادی
۴۵
درجہٴ ہفتم عربی کے امتحان سالانہ منعقدہ شعبان ۱۴۰۵ھ میں حاصل کردہ نمبرات اور اساتذہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
نمبر شمار
کتاب/ موضوع
استاذ
نمبرات
۱
مشکوة المصابیح :
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری
حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی
۴۶
۲
ہدایہ اخیرین:
حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی
حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی
۴۷
۳
بیضاوی شریف:
حضرت مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری
۵۰
۴
شرح عقائد:
حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی
۵۰
۵
نخبة الفکر:
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری
۴۵
۶
سراجی:
حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی
۴۸
۷
اختبار:
۴۷
دورہٴ حدیث میں اعلی نمبرات سے کامیابی
مولانا موصوف نے ۰۵-۱۴۰۶ھ دورہٴ حدیث میں داخل رہے ، اس سال دورہٴ حدیث میں کل ۵۸۲(پانچ سو بیاسی) طلبہ شریک تھے۔ دورہٴ حدیث شریف کے امتحان سالانہ منعقدہ شعبان ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں دوم پوزیشن سے کامیاب ہوئے۔بلاشبہ ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز اور تمغہٴ امتیاز تھا۔ آپ دارالعلوم کے ممتاز ترین طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔ اپنی اعلی استعداد و صلاحیت، ذہانت و فطانت ، اسباق کی پابندی، اساتذہ کے احترام ، مطالعہ وکتب بینی اور علمی سرگرمیوں سے لگاوٴ کی وجہ سے ان کا طلبہ کے درمیان ایک اہم مقام تھا۔
دورہٴ حدیث شریف کے امتحان سالانہ منعقدہ شعبان ۱۴۰۶ھ مطابق اپریل ۱۹۸۶ء میں حاصل کردہ نمبرات اور حضرات اساتذہٴ کرام کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
نمبر شمار
کتاب
استاذ
نمبرات
۱
بخاری شریف:
حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب بلند شہری، شیخ الحدیث
حضرت مولانا عبد الحق صاحب (شیخ ثانی) اعظمی
۴۵
۲
مسلم شریف:
حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی
حضرت مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری
۵۰
۳
ترمذی شریف:
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی صدر المدرسین
۵۰
۴
ابو داوٴدشریف:
حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری
حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی
۴۹
۵
نسائی شریف:
حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی
۴۲
۶
ابن ماجہ شریف:
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری ، ناظم تعلیمات
۴۵
۷
موطا امام مالک:
حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری
۴۹
۸
موطا امام مالک:
حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی
۵۰
۹
طحاوی شریف:
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
۵۰
۱۰
شمائل ترمذی:
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدارسی
۴۸
رفقائے درس اور احباب
دار العلوم میں آپ کے رفقائے درس میں متعدد ایسے نام ہیں جو اس وقت ہندوستان کے طول و عرض میں شہرت رکھتے ہیں؛ ان میں سے کچھ حضرات کے اسمائے گرامی درج کیے جا رہے ہیں: حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی ،حضرت مولانا عبداللہ صاحب معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند، معروف مفکر و صاحب قلم مولانا عبدالحمید صاحب نعمانی ، مولانا قاری شفیق احمد صاحب بلند شہری استاذ تجوید دارالعلوم دیوبند، ، مولانا مفتی ریاست علی صاحب رامپوری استاذ جامع مسجد امروہہ، ڈاکٹر مولانا مشتاق تجاروی استاذ شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، مولانا انیس احمد آزاد بلگرامی دہلی، مولانا لطیف الرحمن بہرائچی مقیم مکہ مکرمہ ، مولانا مظاہر حسین رام پوری استاذ مدرسہ شاہی مرادآباد، مولانا اشتیاق احمد صاحب بہرائچی ، مولانا عبد الجلیل رسولپوری ، مفتی محمد ارشد مظفرنگری، مولانا ڈاکٹر عبید الرحمن لکھیم پوری معالج دارالشفاء دارالعلوم دیوبندوغیرہ۔
دارالعلوم میں طالب علمی کے زمانے میں دیگر درجات میں تعلیم حاصل کرنے والے کچھ دیگر احباب بھی تھے جس کے ساتھ تعلیمی و علمی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے ، ان میں سب قابل ذکر نام حضرت مولانا مفتی سلمان منصور پوری کا ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں بطور معین مدرس
دارالعلوم دیوبند میں معین المدرسی ایک اہم اعزاز ہے ؛ کیوں کہ اس کے لیے ان فضلاء کا انتخاب ہوتا ہے جو اعلی علمی صلاحیت ، ذوق تدریس اور اخلاق و عمل میں اپنے ساتھیوں کے درمیان ممتاز ہوں۔ دارالعلوم دیوبند میں یہ معمول رہا ہے کہ جماعت کے ممتاز فضلاء کو معین مدرسی کے لیے منتخب کیا جاتا رہا ہے اور ان سے ابتدائی عربی درجات کی کتابیں پڑھوائی جاتی ہیں۔ شوال ۱۴۰۶ھ مطابق جولائی ۱۹۸۶ء میں یہ قرعہٴ فال ہمارے ممدوح مکرم مولانا معز الدین احمد گونڈوی کے نام نکلا جو اپنی صلاحیت و صالحیت اور ذہانت و ذکاوت کی بنیاد پر خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرچکے تھے۔
دارالعلوم میں اس وقت آپ کے ساتھ مولانا سیف اللہ سہرساوی بھی معین المدرس بنائے گئے تھے، جب کہ دو معین المدرسین پہلے سے موجود تھے: مولانا خورشید انور اور مولانا شبیر احمد صاحب۔ اول الذکر حضرت مولانا خورشید انور گیاوی اس وقت دارالعلوم دیوبند کے ناظم مجلس تعلیمی (ناظم تعلیمات) اور درجہٴ علیا کے استاذ ہیں۔
۷-۱۴۰۶ھ کے تعلیمی سال کے نقشہٴ اسباق میں اساتذہٴ دارالعلوم کی فہرست میں ایک نام مولانا معز الدین صاحب کا بھی ہے جن کو تدریس کے لیے درج ذیل کتابیں تفویض کی گئیں:
سال اول عربی
میزان الصرف، پنج گنج
سال دوم عربی
ہدایة النحو،النحو الواضح، تیسیر المنطق
سال سوم عربی
نور الایضاح، قدوری
مولانا مرحوم نے نہایت محنت اور کامیابی اس تدریسی ذمہ داری کو ادا کیا۔ جن طلبہ کو آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا وہ شہادت دیتے ہیں کہ مولانا موصوف ایک محنتی اور مقبول استاذ تھے ۔ وقت کے بہت پابند تھے اور طلبہ کو بھی پابند بناتے۔ محنت سے کتابوں کو حل کرتے اور عبارات کو زبانی یاد کراتے۔ ان کو تدریسی خوبیوں کے ساتھ تربیت کا بھی بہترین سلیقہ تھا، طلبہ کی مزاج شناسی کا ہنر جانتے تھے، نفسیاتی اعتبار سے تعلیم و تربیت کے عادی تھے۔ مولانا قاری اسجد الحسینی صاحب ، نگراں تحفیظ القرآن دارالعلوم دیوبند ، مولانا بشیر احمد صاحب پرتاب گڑھی، مولانا عبد الرشید صاحب پرتاب گڑھی وغیرہ آپ کی معین مدرسی کے زمانے کے شاگرد ہیں۔
غرضے کہ مولانا کے اندر ایک مقبول اور بافیض مدرس بننے کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں، لیکن قضا و قدر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ ابھی معین المدرسی کا پہلا سال ہی مکمل ہوا تھا کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی جوہر شناس نگاہوں نے انھیں جمعیة علمائے ہند کے لیے منتخب کرلیا۔
مدنی دارالمطالعہ کی ترتیب نو اور ترقی میں مولانا کا کردار
دارالعلوم دیوبندایک بے مثال تعلیمی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نظیر علمی وثقافتی مرکز بھی ہے۔ یہاں کی سرگرمیاں صرف دائرہٴ تعلیم ہی میں محدود نہیں، بلکہ یہاں کے مشاغل میں آفاقیت و تنوع اور مجموعی مزاج میں وسعت و کشادگی ہے۔ یہاں رہ کر ایک طالب علم صرف دریائے علم کے آبدار موتیوں سے دامنِ مراد بھرنے پر اکتفا نہیں کرتا ہے ، بلکہ وہ یہاں زندگی کا مفہوم سیکھتا ہے اور معاشرہ میں رہنے کا ہنر بھی، یہاں اسے اخلاق و ادب کی تعلیم بھی ملتی ہے اور علمی و فکری غذا بھی۔ یہاں طالب علم کی صلاحیتیں اس طرح پروان چڑھتی ہیں جیسے کوئی پودا موافق موسم میں نشو ونما پاتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں داخل طلبہ کی نصابی سرگرمیوں کے علاوہ تقریر و تحریر اور مطالعہ کا اہم پلیٹ فارم طلبہ کی انجمنیں ہوتی ہیں ۔طلبہ کی مختلف صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں دارالعلوم میں قائم یہ انجمنیں اہم کردار کرتی ہیں۔ انجمنوں کے اس ماحول سے طلبہ کے اندر گوناگوں علمی و انتظامی، تقریری و تحریری اور سماجی وسیاسی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ انہی نوخیز ونوعمر طلبہ میں انشاء پرداز بھی ہوتے ہیں، فصیح اللسان مقرر بھی، دنداں شکن مناظر بھی اور شاعر و منتظم بھی۔ انجمنوں کی مختلف سرگرمیوں سے ان کے جوہر کھلتے ہیں اور ان کے اندر ملک و ملت کی خدمت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
دارالعلوم کی انھیں انجمنوں میں نمایاں ترین انجمن ’ مدنی دارالمطالعہ ‘ بھی ہے جو ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی۔مولانا مرحوم کو نہ صرف اس انجمن سے وابستہ ہوکر استفادہ کے مواقع حاصل ہوئے بلکہ انھوں نے اس انجمن کی زلف برہم کو سنوارنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلے یہ انجمن صوبہ یوپی کے طلبہ کے لیے مخصوص تھی، ۱۹۸۱ء میں دارالعلوم کی نشأة ثانیہ کے بعد اس کو تمام طلبہ کے لیے عام کردیا گیا ۔ دارالمطالعہ کی لائبریری غیر منظم حالت میں تھی، دارالمطالعہ کی عمارت میں نمی کی وجہ سے کتابوں کی جلدیں خراب ہورہی تھیں؛ جس کی وجہ سے استفادہ میں رکاوٹ تھی اور طلبہ کا رجوع بھی بہت کم تھا۔ چناں چہ مولانا معز الدین احمد صاحب نے لائبریری کی ترتیب نو کا بیڑا اٹھایا۔ اس وقت مدنی دارالمطالعہ کی نگراں حضرت مولانا سید اسجد مدنی صاحب مدظلہ تھے جو مولانا معزالدین صاحب کے ہم درس تھے۔ چناں چہ مولانا مرحوم نے باقاعدہ نیا رجسٹر طبع کرایا، پھر سب کتابوں کو فن وار الگ کرکے رجسٹر میں ان کا اندراج کیا۔ انھوں نے حسب ضرورت کتابوں کی جلد سازی بھی کروا ئی اور اس طرح لائبریری کو پوری طرح سے مرتب اور منظم کردیا۔ مولانا کی ان کوششوں سے طلبہ کا رجوع بڑھ گیا ۔ دوسری طرف مولانا مرحوم نے نہایت پابندی کے ساتھ برسوں تک عصر سے لے کر مغرب تک دارالمطالعہ کھول کر بیٹھتے رہے تاکہ باذوق طلبہ اس لائبریری سے استفادہ کریں اور اپنی تقریری و تحریری صلاحتیوں کو نکھارنے کے لیے اس پلیٹ فارم کا استعمال کریں۔
مدنی دارالمطالعہ کی طرف سے مختلف علمی و تاریخی موضوعات پر مضمون نگاری کے مسابقے بھی منعقد ہوتے تھے جس میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اس میں کامیاب ہونے والوں کو سالانہ اجلاس میں انعامات دیے جاتے تھے۔ مدنی دارالمطالعہ کا سالانہ اجلاس بہت تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کیا جاتا تھا جس کا نظم و انتظام مولانا معز الدین صاحب پوری تندہی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
مولانا معزالدین صاحب نے اپنے مدنی دارالمطالعہ کے احباب کے ساتھ مل کر انجمن کا تقریری مشق کے لیے ایک نیا شعبہ قائم کیا جو ’بزم شیخ الاسلام‘ کے نام سے موسوم کیا گیا، جس کے تحت حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی سے منسوب حلقے بنائے گئے۔ ان حلقوں سے مربوط ہوکر طلبہ ہر ہفتہ بعد نماز جمعہ درسگاہوں میں تقریری مشق کرتے تھے۔ بزم شیخ الاسلام کی نگرانی اور ہفتہ واری تقریری حلقہ جات کی تیاری میں مولانا مرحوم کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح مدنی دارالمطالعہ کے تحریری سرگرمیوں کو بھی انھوں نے پروان چڑھایا اور اس کے ترجمان دیواری رسالہ ماہنامہ ’آزاد‘ کی تیاری میں بھر پور حصہ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے ماہنامہ آزاد کا مطبوعہ ایڈیشن بھی نکالا۔
مولانا مرحوم اور ان کے رفقاء کی ان بے لوث کوششوں کے سبب مدنی دارالمطالعہ طلبہٴ دارالعلوم کی سب سے بڑی انجمن بن گئی اور اس کی طرف طلبہ کا رجوع بڑھ گیا۔ اس وقت سے مدنی دارالمطالعہ طلبہٴ دارالعلوم کی تقریری و تحریری صلاحتیوں کو نکھارنے اور سنوارنے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے۔ یقینا اس بار آور درخت کی نشو و نما اور تعمیر ترقی میں جنھوں نے اپنا خون جگر دیا وہ اللہ کے دربار میں اس کے لیے اجر عظیم کے مستحق ہیں۔ ہمیں بجا طور پر اللہ تعالی کی ذات عالی سے امید ہے کہ مدنی دارالمطالعہ کی خدمات کی شکل میں مولانا مرحوم نے جو صدقہٴ جاریہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے اس کا انھیں بہترین اجر ملے گا۔
اساتذہ سے تعلق و محبت
مولانا مرحوم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کا اپنے تمام اساتذہ سے بڑا والہانہ اور مخلصانہ تعلق تھا۔ حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری کے ساتھ مولانا کا تعلق انتہائی خصوصی تھا۔ وہ حضرت قاری صاحب کے گھر کے ایک فرد جیسے تھے اور تاعمر حضرت نے ان کے ساتھ ایک بیٹے کا معاملہ کیا۔ دوسری طرف مولانا معز الدین صاحب نے بھی اطاعت و فرماں برداری، جاں نثاری و وفا شعاری اور خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اسی طرح دیگر اساتذہٴ دارالعلوم کو آپ کے ساتھ خصوصی تعلق اور آپ پر کامل اعتماد تھا جن میں حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری، حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی، حضرت مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمی اور حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کابرین کے ساتھ حسن ادب کے ساتھ ان کی بے تکلفی قابل صد رشک تھی۔ دہلی جانے کے بعد بھی اساتذہ کے ساتھ ان کا تعلق حتی کہ ان کے معاملات ان سے متعلق رہے۔ وہ ان اکابر کا کام نہایت سلیقے، خوش اسلوبی اور کمال امانت و دیانت کے ساتھ ادا کرتے اور ان بزرگوں کی دعائیں لیتے۔
جمعیة علمائے ہند کے پروگراموں اور خاص طور پر ادارة المباحث الفقہیہ کے سیمیناروں کے انعقاد میں اکابر کے ساتھ ان کے تعلق کا بھی اثر تھا کہ اکابر مولانا معز الدین صاحب کی دعوت کا خاص خیال رکھتے تھے اور ان کے اصرار کے سامنے سپر ڈال دیتے تھے اور بالآخر ان کے مسلسل ’تعاقب‘ کی بدولت شریک اجلاس بھی ہوتے تھے۔ حضرات اکابر کے ساتھ ان کے اسی خصوصی تعلق کی بات تھی کہ مولانا موصوف کے انتقال کو ان بزرگوں نے بہت محسوس کیا اور گویا کہ ان کا قریبی عزیز اور فرزند ُان کے چھن گیا۔
تحریکی ذہن، تعمیری سوچ
مولانا معز الدین صاحب ذہانت و فطانت، اعلی استعداد و صلاحیت کے ساتھ متحرک مزاج، محنتی اور دھن کے پکے شخص تھے۔ ان کی فکر نہایت سنجیدہ اور سوچ بہت مثبت اور تعمیری تھی۔ بہترین انتظامی و انصرامی صلاحیت کے مالک تھے۔ ہر کام کو خوب سلیقے کے ساتھ کرنے اور انجام تک پہنچانے میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔ خود بھی کام کرتے اور احباب سے بھی حسب صلاحیت کام لینے کا ہنر جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اساتذہ ان پر مکمل اعتماد کرکے کام ان کے سپرد کردیتے تھے اور وہ مفوضہ کام کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دینے میں اپنی پوری قوت جھونک دیتے تھے۔
اکتوبر ۱۹۸۶ء کے اخیر میں دارالعلوم دیوبند نے ملک میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے تعاقب و تدارک کے لیے ’عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت‘ منعقد کیا جس کے کنوینر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب مدظلہم تھے جن سے مولانا معز الدین صاحب کا نہایت قریبی تعلق تھا۔ چنان چہ اس اجلاس کے نظم و انتظام میں اپنی طبعی افتاد کے مطابق مولانا معز الدین صاحب کا حضرت قاری صاحب کے ساتھ شریک ہونا اور اس کی سرگرمیوں میں ان کا بیش از بیش ہاتھ بٹانا ایک فطری معاملہ تھا۔ چناں چہ مولانا معز الدین صاحب نے عالمی اجلاس کے نظم و نسق میں حضرت قاری صاحب کو اپنا خصوصی تعاون پیش کیا۔ اجلاس سے قبل کی تیاریوں، اجلاس کے درمیان کا نظم و انتظام اور اجلاس کے بعد دفتر تحفظ ختم نبوت کی دیکھ ریکھ کے سلسلے میں حضرت قاری صاحب کو مکمل تعاون پیش کیا اور دفتر کے نظم و نسق کو خوبی کے ساتھ انجام دیا۔
بالآخر ، مولانا مرحوم کی انھیں خوبیوں اور گوناگوں صفات کی وجہ سے حضرات اکابر کی نظر انتخاب ان پر پڑی اور وہ جمعیة علمائے ہندکی خدمت کے لیے قبول کرلیے گئے۔ جمعیة علمائے ہند میں انھوں نے اعلی انتظامی و علمی خدمات انجام دیں۔ حضرت مولانا محمد میاں صاحب دیوبندی کے بعد ادارة المباحث الفقہیہ کی از نشأة ثانیہ اور اس کی ترقی مولانا مرحوم کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ جمعیة علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کی تاریخ، ان کی شخصیات، رجال کار اور فضلاء و علماء پر ان کی نظر بڑی وسیع اور ان کا مطالعہ بڑا گہرا تھا۔ نسبتاً ایک مختصر سی زندگی گزار کر وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن اپنے علم و فکر، کردار وعمل، ذہانت و صلاحیت، پاکیزگی و طہارت، محنت و جد وجہد، جرأت و خود داری ، محبت و جاں نثاری اور خدمت و وفا شعاری سے اس کاروان رفتہ کا حصہ بن گئے کہ جس کے لیے زبان و قلم سے بے ساختہ یہ شعر نکلتا ہے:
بہ آں گروہ کہ از ساغر وفا مست اند
سلام ما برسانید ہر کجا ہست اند
مآخذ و مراجع:
ذاتی معلومات کے علاوہ مضمون کی تیاری میں جن مضامین و مواد سے مدد لی گئی وہ حسب ذیل ہیں:
n تعلیمی کوائف، فراہم کردہ دفتر تعلیمات ، دارالعلوم دیوبند
n نقشہٴ اسباق مدرسین و درجات بابت شوال ۱۴۰۲ھ تا شعبان ۱۴۰۳ھ، دفتر تعلیمات، دارالعلوم دیوبند
n نقشہٴ اسباق مدرسین و درجات بابت شوال۱۴۰۳ھ تا شعبان ۱۴۰۴ھ، دفتر تعلیمات، دارالعلوم دیوبند
n نقشہٴ اسباق مدرسین و درجات بابت شوال ۱۴۰۴ھ تا شعبان ۱۴۰۵ھ، دفتر تعلیمات، دارالعلوم دیوبند
n نقشہٴ اسباق مدرسین و درجات بابت شوال ۱۴۰۵ھ تا شعبان ۱۴۰۶ھ، دفتر تعلیمات، دارالعلوم دیوبند
n نقشہٴ اسباق مدرسین و درجات بابت شوال ۱۴۰۶ھ تا شعبان ۱۴۰۷ھ، دفتر تعلیمات، دارالعلوم دیوبند
n ایک مخلص رفیق کی رحلت، مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری
n حضرت مولانا معز الدین صاحب گونڈوی نور اللہ مرقدہ:مخلص اور معاون دوست اور ملت اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ، مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری
n اسلاف کے پاکیزہ خوابوں کی حسین تعبیر ہے تو، مولانا قاری محمد اسجد الحسینی
n آہ میرے استاذ محترم، عبد الرشید قاسمی اوگئی پور سگرا سندر پورضلع پرتاپ گڑھ