محمد اللہ خلیلی قاسمی ، دیوبند
khaliliqasmi@gmail.com | 9457049675
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ایک عظیم انسان تھے۔ وہ سچ مچ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک تحریک تھے۔خدا نے انھیں مختلف خصوصیات و کمالات اور اوصاف و محاسن سے نوازاتھا۔ اگر وہ ایک طرف عالم ربانی اور مرشد روحانی تھے تو دوسری طرف زبردست اسلامی مفکر اور مشہور دانشور و ادیب تھے۔ایک جانب وہ اخلاق وانسانیت اور معصومیت و مقبولیت کے پیکر تھے تو دوسری جانب زہد و استغناء ، اعتدال و توازن، خلوص وہمت، عزیمت و استقلال اور غیرت و حمیت اسلامی کی مکمل تصویر تھے۔ آپ کی علمی ، دینی، اور فکری زندگی پورے پون صدی پر محیط ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عہد ساز اور انقلاب آفریں انسان تھے۔بیسویں صدی کی علمی و فکری تاریخ آپ کے تذکرے کے بغیر سونی رہے گی۔
سادات رائے بریلی اور اکابر دیوبند
حضرت مولانا علی میاں ندوی خاک ہند کے مجاہد اعظم سید احمد شہیدقدس سرہ کے چمنستان علم و عزیمت کے گل سر سبد تھے۔ حضرت سید احمد شہید نے تیرہویں صدی کے نصف اول میں اپنے رفقاء کے ساتھ وعوت جہادکی غرض سے پورے ہندوستان کادورہ کیا تھا جس کے دوران وہ دیوبندبھی کئی دنوں تک مقیم رہے تھے۔ حضرت مولانا علی میاںنے اپنی تصنیف’ سیرت سیّد احمدشہید‘ میں اس کاتفصیلی ذکر کیاہے اور دارالعلوم دیوبند میں اپنی ایک تقریر میں اس درسگاہ کے ساتھ اپنے قدیمی تعلق کوبڑے واشگا ف انداز میں بیان فرمایاہے:
”میری نیازمندی کی تاریخ اس سے زیادہ وسیع اورطویل ہے کئی پشتوں سے میراتعلق اس درسگاہ عالی مقام سے رہا ہے ، یہاں کی زمین ان لوگوں کے آنسووٴں سے نم ہے اوریہاں کی فضا ان کی دعاوٴں اورآہوں سے اب بھی معطر ہوگی جوقافلہ بناکر اس سرزمین سے گزرے۔“ (۱)
حضرت مولانا کے والد محترم مولانا حکیم سید عبد الحئی صاحب (سابق ناظم ندوة العلماء) ایک بلند پایہ عالم ومحقق تھے ، انھیں عربی اور اردو دونوں زبانوں پر بیک وقت عبور حاصل تھا آپکی آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب ”نزہة الخواطر “ (جس کا موجودہ نام ’الاعلام بمن في الھند من الأعلام) مشہور آفاق ہے، جس میں سیکڑوں ہندوستانی علماء کے حالات لکھے گئے ہیں۔ اس کتاب کی آخری جلد میں متعدد اکابرین دیوبند کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح انھوں نے اپنی ایک دوسری کتاب ’دہلی اور اس کے اطراف میں‘ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی وغیرہ اکابرین دیوبند کا ذکر بہت محبت و عقیدت سے کیا ہے۔ اس سے معلو م ہو تا ہے کہ حکیم عبدالحئی صاحب کے اکابر دیوبند سے گہرے روابط تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے فرزنداکبر ڈاکٹر عبد العلی صاحب کوباقاعدہ دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ اکابر دیوبند کو بھی اس خاندان سے بڑی محبت وعقیدت تھی ۔ حضرت مولانا پرانے چراغ میں لکھتے ہیں:
”راقم سطور حضرت سید احمد شہید کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جن سے حضرت مولانا نانوتوی اور حضرت مولانا گنگوہی کا تعلق عقیدت کا نہیں بلکہ عشق کا تھا۔اور اس کا اندازہ راقم سطور کے والد ماجد حکیم عبد الحئی صاحب (سابق ناظم ندوة العلماء) کی کتاب ’دہلی اور اس کے اطراف ‘ سے ہوسکتاہے، جس میں مولانا نے اپنی دیوبند اور گنگوہ کی حاضری اور وہاں کے بزرگوں اور قابل احترام ہستیوں کے سید صاحب کے ساتھ اظہار عقیدت و محبت کا تفصیل سے تذکرہ کیاہے۔“ (۲)
حضرت مولانا کے والد حکیم سید عبدالحئی صاحب اس وقت ہی انتقال کر گئے تھے جب حضرت مولانا ابھی بچے تھے۔حکیم صاحب کے بعد آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کے برادر اکبر ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (سابق ندوة العلماء لکھنوٴ) کی زیر تربیت آپ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔ڈاکٹر عبد العلی صاحب نے آپ کی تعلیم ، اصلاح اور تربیت پر بھرپور توجہ دی ، جس کا اعتراف مولانا نے جابجا اپنی تحریروں میں کیا ہے۔انھیں ہمیشہ برادر معظم، مرشد و مربی اور ولی نعمت کے القاب سے یاد فرمایا ہے۔ڈاکٹر عبدالعلی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فاضل، حضرت شیخ الہند کے فیض یافتہ اور حضرت شیخ الاسلام مدنی کے عاشق زار و مسترشد خاص تھے۔حضرت مولانا لکھتے ہیں:
”راقم سطور کے برادر معظم ڈاکٹر مولانا عبدالعلی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب کے تلمیذ رشید تھے۔ بھائی صاحب جب تک دیوبند میں رہے حضرت شیخ الہند کے الطاف و عنایات سے سرفراز رہے۔“ (۳)
ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں:
” مولانا سید حسین احمد مدنی خاندان کے اکثر بزرگوں کے شیخ و مرشد تھے اور خود بھائی صاحب انھیں سے بیعت تھے اور ان کی محبت و عقیدت سے سرشار تھے۔سیاسی خیالات میں بھی خاندان و ماحول کا رجحان مولانا ہی کی طرف تھا۔ “ (۴)
آپ کی والدہ محترمہ (جن کا آپ کی تربیت میں بڑا ہاتھ تھا) اور حتی کی گھر کی عورتیں حضرت مدنی سے اصلاحی تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت مولانا فرماتے ہیں:
” ہمارے گھر کا ہر ہر فرد حضرت مدنی کا معتقد تھا، یہاں تک کہ گھر کی خواتین بھی حضرت مدنی سے بیعت تھیں۔ہمارے گھر کا ماحول یہ تھا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ دن حضرت مدنی کی صحبت میں گذارنا اور آپ کے درس حدیث میں شریک ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ “ (۵)
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند و پاک کے ہنگامہ خیز موقع پر حضرت مدنی کی رائے اور سیاسی بصیرت عام مسلمانوں کی خواہش و جذبات اور اس وقت کی قیادت کی سیاسی فکر سے بالکل مختلف تھی۔عام مسلمان تو کیا، بڑے بڑے علماء و اکابر قیام پاکستان کے جذباتی نعروں کی رو میں بہہ گئے تھے اور وطن عزیز کو چھوڑ کر پاکستان جارہے تھے۔یہ بڑا نازک اور پیچیدہ موقع تھا۔اس وقت حضرت مدنی کی سیاسی فکر کی اتباع بجائے خود ایک آزمائش تھی، خصوصاً ایسی جگہوں پر جہاں لیگیوں کا زور تھا۔لکھنوٴ بھی ایک ایسی جگہ تھی جہاں مسلم لیگ کے جھنڈے قدرے تیزی کے ساتھ لہرا رہے تھے؛کیوں کہ وہ اس قومی تحریک کا بڑا مرکز تھا۔ اسی لکھنوٴ میں حضرت مولانا علی میاں کا خاندان بھی تھا، جس کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں:
”اس وقت مولانا (مدنی) کی عقیدت و محبت اور ان کے خلوص و للہیت پر اعتماد ایک جزیرہ سا بن کر رہ گیا تھا ، جس کے چاروں طرف ناراضگی، برہمی اور بدنامی کا سمندر پھیلا ہواتھا۔ اس سمندر کی موجیں اس جزیرے کے کنارے سے آکر ٹکراتیں اور واپس جاتیں…… لکھنوٴ میں ہمارا مکان بھی اسی جزیرے پر واقع تھا۔اسی لیے ہمیں بھی ناراضگی کی ان لہروں کا تجربہ کرنے کا موقع ملا۔“ (۶)
ایسے حالات میں جب کہ ملک کے ناموافق حالات اور تقسیم کی وجہ سے بڑے بڑے علمی و سیاسی خاندان پاکستان ہجرت کر رہے تھے، ایسے حالات میں اس حسنی خانوادہ کا علمائے دیوبند خصوصاً حضرت مدنی سے تعلق کی وجہ سے سیاسی رجحان اور ملک سے ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ یقینا ہندی مسلمانوں کے لیے بہت خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل واقعہ ہے۔
حضرت مولا نا نے اکابر دیوبند سے کیا حاصل کیا؟
کسی شخصیت کی تشکیل میں خاندان، ماحول، خود اس شخصیت کے ذاتی اوصاف اور سب سے بڑھ کر اس کی قسمت اپنا رنگ دکھاتی ہے۔مگر اسباب و مسببات سے مربوط اس دنیا میں خود اس شخصیت کی محنت و مشقت ، جہد و لگن، بزرگوں کی اصلاح و تربیت اور رہ نمائی و دست گیری سے بھی انکار کی گنجائش نہیں اور در حقیقت عالم ظاہر میں یہی وہ اسباب و عناصر ہیں جو کسی عظیم شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔حضرت مولانا کے علم و ادب کی تاریخ تو ندوة العلماء سے وابستہ ہے۔ لیکن آپ کی روحانی ، فکری، اور اخلاقی تاریخ کا سہرا اکابر دیوبند کے سر ہے۔ اسی لیے یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت مولانا کی سوانح اکابر دیوبند کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ آپ کی فکر میں انقلابی سوز وساز، قلم میں زبردست تسخیری طاقت اور مزاج میں عزیمت و استقلال اور توازن و اعتدال پیداکرنے میں اکابر دیوبند کا ہاتھ ہے، جس سے آپ مقبول عام اور مشہور آفاق ہوئے۔؛ کیوں کہ شہرت و مقبولیت کی بنیاد زبان و ادب سے کہیں زیادہ فکر کی گہرائی ، نگاہ کی بلندی اور خیالات کی پرواز پر ہوتی ہے۔ خود حضرت مولانا نے پوری اخلاقی جرأت کے ساتھ اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے:
”میری زندگی میں وہ بڑا مبارک دن اور بڑی سعید گھڑی تھی جب مولانا احمد علی صاحب لاہوری امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور سے نیاز حاصل ہوا۔ میری زندگی کے دو بڑے موڑ ہیں جہاں سے زندگی نے نیا راستہ (اور جہاں تک میرا خیال ہے بہتر اور مبارک راستہ) اختیار کیا۔ پہلا موڑ جب مولانا احمد علی صاحب سے تعلق پیدا ہوا۔ دوسرا موڑ اس وقت آیا جب خدا نے مولانا محمد الیاس صاحب کے پاس پہنچایا ۔ اگر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو میری زندگی اچھی یا بری ، بہر حال موجودہ زندگی سے بہت مختلف ہوتی، اور شاید اس میں ادب و تاریخ اور تصنیف و تالیف کے سوا کوئی ذوق اور رجحان نہ پایا جاتا۔ خدا شناسی و خدا رسی اور راہ یابی و راست روی تو بڑی چیزیں ہیں مولانا کی صحبت میں کم ازکم خدا طلبی کا ذوق ، خدا کے نام کی حلاوت اور مردان خدا کی محبت ، اپنی کمی اور اصلاح و تکمیل کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا اور ہم عامیوں کے لیے یہی بڑی دولت ہے۔ “ (۷)
حضرت مولانا احمد علی لاہوری حضرت شیخ الہند کے شاگرد حدیث اور دارالعلوم دیوبند کے مجاہد جلیل مولانا عبیداللہ سندھی کے انقلابی افکار کے سب سے بڑے وارث وامین تھے۔اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب خوانِ شیخ الہند کے خوشہ چیں اور قاسم العلوم ولخیرات حضرت نانوتوی کی بے چین روح کی زندہ تصویر تھے۔حضرت مولانا علی میاں نے دونوں سے بھرپور استفادہ کیا اور خود مولانا ہی کے بقول آپ کی زندگی میں یہیں سے انقلاب برپا ہوا۔ایک دوسری جگہ حضرت مولانا علی میاں مفسر قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے درس قرآن کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مولانا کے اندر آپ کے جد امجد سید احمد شہید کی پُر عزیمت اور مجاہدانہ شان شیخ الہند کے اسی شاگرد کے زیر سایہ ہی پروان چڑھی تھی:
” تیسرا مرکزی مضمون جذبہ جہاد، بغض فی اللہ اور انگریزوں سے شدید دشمنی اور نفرت کا مضمون تھا۔میری نشو نما اس وقت تک علمی و ادبی فضا اور ندوہ کے ماحول میں ہوئی تھی۔خاندان میں بھی انقلاب زمانہ اور انگریزی تعلیم کے اثرسے یہ تذکرے بہت کم رہ گئے تھے۔حقیقتاً مولانا ہی کے درس سے اس نئی دنیا سے آشنائی ہوئی، اور معلوم ہوا کہ علم و مطالعہ ، فکر و نظر اور ادب و شعر کے علاوہ بھی کچھ مقاصد و حقائق اور کچھ لذتیں اور ذائقے ہیں، اور انسانوں کی کوئی قسم ایسی بھی ہے جس کے لیے دین صرف خبر نہیں بلکہ نظر، یا دریافت نہیں بلکہ یافت کا معاملہ ہے :
سرّ دیں مارا خبر اوررا نظر # او درون خانہ ما بیرون در(۸)
ہندوستان پر برطانوی سامراج کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبد العزیز قدس سرہما کی مجاہدانہ روح سید احمد شہید اور ان کے رفقاء میں منتقل ہوئی تھی، اور جہاد ۱۸۵۷ء کے جاں باز ، حوصلہ مند اور غیور مجاہدین میں بھی وہی روح کارفرما تھی جس نے آگے چل کر ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی داغ بیل ڈالی اور جہاد آزادی ٴ ہند کے لیے شیخ الہند کو کھڑا کیا جو سراپا ولی اللہی و قاسمی مشن کے علم بردار تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان سے وابستہ رہنے والے ایک ایک فرد میں یہ چنگاری پھیلی جن میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھی اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا علی میاں نے شیخ الہند کی وہی آفاقی روح ایک طرف حضرت مولانا احمد علی صاحب سے حاصل کی جو براہ راست حضرت شیخ الہند کے شاگرد ہونے کے علاوہ مولانا عبید اللہ سندھی کے جلیل القدر شاگرد تھے۔ دوسری طرف آپ نے حضرت شیخ الاسلام مدنی کے ہاتھوں اپنے جد امجد سید احمد شہید کی قیمتی وراثت پائی جو سچ پوچھیے ان کی زندگی کا اصل سرمایہ تھی۔ وہی عزم و حوصلہ، وہی فخامت و شہامت، وہی جہد وعزیمت، وہی قیادت و خود اعتمادی اور وہی استقلال و ثبات قدمی کا جوہر جو سید احمد شہید کی تلوار میں سمایا ہواتھا حضرت مولانا علی میاں کے قلم کی روشنائی میں جذب ہوگیاتھا۔وقت اور حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میں اس مرد مجاہد کا اسلحہ بھی بدلتا رہا۔ مگر دونوں میں ایک ہی شان تھی؛ انقلاب انگیز اور عہد ساز شان، اللہ اکبر!یہ اسی روح کا تسلسل تھا جو کاروان ولی اللہی کے ایک ایک فرد میں پائی جاتی تھی۔ حضرت مولانا علی میاں صاحب نے یہ وراثت تو پہلے لاہور میں حاصل کی ، اور پھر دیوبند میں حضرت شیخ الاسلام مدنی کے در اقدس پر۔ آپ خود رقم طراز ہیں:
” (حضرت مدنی نے) مطالعہ کے لیے بعض سیاسی کتابیں ’حکومت خود اختیاری‘ وغیرہ اور حضرت نانوتوی کے رسائل عنایت فرمائے۔ دیوبند کے قیام کی برکت تھی کہ انگریزوں سے نفرت (جس کے جراثیم میرے اندر قدرتی طور پر تھے) میں شدت پیدا ہوئی اور بعد میں اتنا اضافہ ہوا کہ ایک انگریز ہی نہیں بلکہ سارا یورپ ہی اس وقت کفر و مادیت کا علم بردار ہے اور اس کے زوال کے بغیر دین و اخلاق کا عروج اور اسلام کی دعوت کا پھلنا پھولنا مشکل ہے۔یہ کسی ایک حکومت ، کسی ایک ملک کی غلامی کا سوال ہی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب ، ایک مستقل نظام فکر اورایک عالم گیر دعوت کا ہے۔ اور اس میں شبہہ نہیں کہ اس میں ماحول اور مولانا( مدنی) کی صحبت اور مطالعہ کو خاص دخل ہے۔ “ (۹)
۱۳۶۰ھ /۱۹۴۱ء میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی سے ملاقات ہوئی اور تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوئے۔ تبلیغی تحریک کی توسیع و ترقی میں نمایاں خدمات انجام دیں۔حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے جذبہٴ دعوت ، سوزدروں اور دل دردمند نے آپ کو بہت متاثر کیا، جیسا کہ مولانا کی کتاب ’مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔حضرت مولانا نے اسی میخانے سے عرفان محبت کا جام پیا اور پوری ملت کا غم درد وغم اور پوری امت کی اصلاح کی فکر کا لے کر نکلے اور جذبہٴ دعوت و اصلاح سے سرشار ہو کر مشرق و مغرب اور عرب و عجم کی حد بندیوں کو توڑتے ہوئے پوری پوری امت میں دعوت کا صور پھونک دیا اور مادیت و لادینیت سے نبرد آزما ہوگئے۔ عالم گیر دعوت، مادیت و لادینیت سے پنجہ آزمائی اور اسلامی غیرت و حمیت حضرت مولانا کی زندگی کا امتیازی وصف تھا جس کا بیج اکابر دیوبند نے ڈالاتھا۔
اسی طرح جماعت دیوبند کے شیخ وقت حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب سے آپ کا خصوصی تعلق تھا۔ آپ نے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری سے بیعت بھی ہوئے اور منازلِ سلوک طے کر کے چاروں سلسلوں میں خلافت حاصل کی۔ان دونوں حضرات کی سوانح حیات بھی آپ نے بڑی محبت اور عظمت کے ساتھ رقم کی ہے۔
حضرت مولانا کی دارالعلوم دیوبند طالب علمانہ حاضری
آج سے تقریبا پون صدی قبل جب قافلہٴ آزادی طرح طرح کے مسائل، موہوم کامیابیوں اور مصائب کی گرد میں لپٹا ہواتھا، ایسے وقت میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کی زندگی کاایک پہلو یہ تھا کہ وہ سلطنت برطانیہ کے مقابلے میں ایک عظیم مجاہد تھے ، مگر دوسری ان کے درس حدیث اور اصلاح وتزکیہ کا پورے برصغیر میں ڈنکا بج رہا تھا۔حضرت مولانا علی میاں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (ناظم ندوة العلماء) کے حکم سے ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۹۳۲ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے حلقہٴ درس میں بیٹھ کر چار ماہ بخاری و ترمذی پڑھی۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے فقہ اور قاری اصغر علی صاحب سے روایت حفص کے مطابق تجوید کا درس لیا۔ مولانا ایک موقع پر اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں:
”میں خدا کے سامنے سجدہ ریز اور ثنا خواں ہوں کہ جو کبھی یہاں طالب علم کی حیثیت سے حاضر ہوتا تھا اور اپنے لیے اس کو بڑی سعادت کی بات سمجھتا تھا، اس کو اس وقت خطاب کرنے کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ ابھی شاید یہ وفا شعار اور درد آشنا سرزمین مجھے بھولی نہ ہوگی۔ میں اس سعادت و توفیق پر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الاسلام مدنی کی زندگی میں طالب علمانہ اور نیاز مندانہ حاضری اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس کو اپنے لیے سرمایہٴ سعادت سمجھتا ہوں اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے۔“ (۱۰)
حضرت مولانا اور دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا کی کتابوں میں بے شمار مقامات پر دارالعلوم دیوبند اور تحریک دیوبند کے سلسلہ میں تعریفی و توصیفی تبصروں اور تاریخی حقائق کا ذکر ملتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کچھ اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔
حضرت مولانا کاردان زندگی میں رقمطراز ہیں :
” دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں جس کو ازہر ہندکہنا ہر طرح درست ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ جامعہ ازہر مصر سے بھی فائق ہے۔ اصلاح عقائد اور اشاعت کتاب وسنت کی تاریخ سازدعوت ہے وہ درحقیقت خاندان ولی اللہی کے تجدید ی کانامے کاامتداد او رتسلسل ہے۔ ،، (۱۱)
حضرت مو لانا نے اپنی کتاب ” مسلم ممالک میں اسلامیت ومغربیت کی کش مکش ‘میں ہندوستان کی دینی تحریکوں اور تجدیدی کارگاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے نمبر پر دارالعلوم دیوبند کا تعارف کر ایا ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ بھی ہے :
”اس تحریک او راس کے قائدین نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر دین کی محبت شریعت کے مقابلے میں زبردست استقامت وصلابت پیداکر دی (جوکسی اور ایسے ملک میں دیکھنے کو نہ ملی جس کا مغربی تہذیب اورمغر بی اقتدار سے واسطہ پڑاہو ) دیوبند اس رجحان کا علم برادار اور ہندوستان میں قدیم اسلامی ثقافت وتہذیب وتربیت کا سب سے بڑامرکزتھا۔“ (۱۲)
پاجا سراغِ ذندگی میں دارالعلوم دیوبند کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں:
”میں سمجھتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کے حق میں ازالہٴ حیثیت عرفی کا جرم ہوگا اگر کہا جائے کہ دارالعلوم چند مخصوص کتابوں کے پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس کے ایک مرکز کی حیثیت سے قائم ہوا تھا، اس سے بڑھ کر اس کے بانیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوسکتی۔ ایسا کہنے والوں کو ان بزرگوں کی روحوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا ، جس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ یہ محض ایک مدرسہ ہے تو حضرت شیخ الہند تڑپ اٹھتے تھے، ان کے نزدیک یہ اسلام کا ایک قلعہ، اس کے داعیوں اور مجاہدوں کی تربیت کی ایک چھاوٴنی اور سلطنت مغلیہ کے گل ہونے والے چراغ کا بدل بلکہ نعم البدل تھا۔“(۱۳)
کاروان زندگی میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”اس درس گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اختلافی مسائل کے بجائے توحید و سنت پر اپنی توجہ مرکوز کی( اور یہ وہ وراثت و امانت ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ، شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے وسیلہ سے اس کو ملی اور ابھی تک اس کو عزیز ہے۔دوسری خصوصیت اتباع سنت کا جذبہ اور فکر ہے۔ تیسری خصوصیت تعلق مع اللہ کی فکر اور ذکر وحضوری اور ایمان و احتساب کا جذبہ ہے۔ چوتھا عنصر اعلاء کلمة اللہ کا جذبہ اور کوشش اور دینی حمیت و غیرت۔ یہ چار عناصر مل جائیں تو دیوبند بنتا ہے۔ اگر ان میں کوئی عنصر کم ہوجائے تو دیوبندیت ناقص ہے۔ فضلائے دارالعلوم دیوبند کا یہی شعار رہا ہے اور وہ ان چار چیزوں کے جامع رہے ہیں۔“(۱۴)
حضرت مولانا نے ان عبارات کے اندر بڑے بلیغ انداز میں دارالعلوم دیوبند کے پس منظر،اس کے مقاصداور خدمات جلیلہ کو سمو دیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کی رکنیت شوریٰ
دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کی آئینی و قانونی اور عملی حیثیت ’ہیئت حاکمہ‘ کی ہے، یہ مجلس دارالعلوم دیوبند کی تمام املاک کی ملکیت اور پورا نظم و نسق اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ۱۳۸۲ھ/ ۱۹۶۲ء سے تاحیات (تقریباً ۳۸/ سال تک ) دارالعلوم دیوبند کی اس موقر مجلس کے رکن رکین رہے ۔ وہ باقاعدگی سے مجلس شوریٰ کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے اور دارالعلوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم دیوبند کے تاریخ ساز صد سالہ اجلاس اور اس کی تیاریوں میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عالم عرب کے مہمانوں کی دعوت ، ضیافت و اکرام اور اجلاس کے نظم و انتظام میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اسی طرح صد سالہ اجلاس کے بعد دفتر اہتمام اور مجلس شوریٰ کے مابین نزاع میں آپ نے نہایت دلسوزی اور اخلاص کے باہمی مصالحت کی کوشش کی جو بدقسمتی سے کامیاب نہ ہوسکی۔
دارالعلوم دیوبند اور ندوة العلماء لکھنوٴ
حضرت مولانا بڑے ہی وسیع الظرف اور معتدل مزاج تھے، انھوں نے نظریاتی اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر حقائق کا اظہار و اعتراف کیا ہے ۔ گزشتہ سطور سے یہ واضح و نمایاں تأثر ملتا ہے کہ ندوہ اور دیوبند میں نظریہٴ تعلیم اور طرز فکر کے اختلاف کے علاوہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے۔خود مولانا اورآپ سے قبل آپ کے والد محترم اور برادر اکبر دونوں بیک وقت ندوة العلماء کے ناظم اور اکابر دیوبند کے منظور نظر رہے ہیں۔نعض حقیقت ناشناس اور متعصب و تنگ نظر یہ سمجھتے ہیں کہ ندوہ اور دیوبند دو الگ الگ مکتبِ فکراور مختلف فکری دھاروں کانام ہے، مگر حقیقت واقعہ کچھ اور ہے۔حضرت مولانا نے دونوں کے اختلافات سے صرفِ نظر کر کے دونوں کو ایک ہی شمع کی روشنی ، ایک ہی دل کی آواز اور ایک ہی مقصد کا حامل قرار دیاہے۔ایک تقریر میں آپ طلبہٴ دیوبند سے خطاب فرمارہے ہیں:
”آپ اس مدرسے میں تعلیم پارہے ہیں ، اس مدرسے کا آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ اس نئے چیلنج کو قبول کریں۔یہاں اگر کوئی آئے تو اس کویہاں کوئی ہلچل نظر نہیں آئے گی، لیکن اس کی تہہ میں طوفان سوئے ہوئے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی موج ایسی اٹھ سکتی ہے جو الحاد و بے دینی کے مرکزوں کو متزلزل کر سکتی ہے تو اسی بحر الکاہل سے۔ ملک میں تجدید و احیائے دین کا جو کچھ کام ہوا ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کا کارنامہ ہے۔ کیا دیوبند کیا سہارن پور، کیا دہلی ،کیا لکھنوٴ؟ ہم سب انھیں کے خوان نعمت کے ریزہ چیں ہیں……. عزیزو! مولانامحمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوة العلماء کو کس چیز نے تڑپایا ؟ ایک کو یہاں دوسرے کو وہاں۔ میں ان دونوں میں کچھ فرق نہیں سمجھتا۔ایک ہی نور باطن اور ایک ہی فراست ایمانی دونوں میں کام کرہی ہے۔“ (۱۵)
حضرت مولانا اور اکابر دیوبند کے علمی، دینی اور ملی کارنامے
حضرت مولانا نے اپنی مختلف تحریروں میں علمائے دیوبند کی علمی و دینی خدمات اور ان کے تجدید و احیائے دین کے عظیم الشان کارناموں کا جو اعتراف فرمایا ہے وہ اس مختصر مضمون کے دائرہ سے باہر ہے۔حضرت شیخ الاسلام مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، اور مولانا محمد الیاس وغیرہم کے علاوہ علمائے دیوبند کی ایک طویل فہرست ہے جن سے مولانا مرحوم کے انتہائی قریبی، نیازمندانہ و ارادتمندانہ یا محبانہ و دوستانہ تعلقات تھے۔حضرت مولانا نے جن حضرات سے اپنے تعلق و محبت اور نیاز مندی و ارادت کا کھل کر تذکرہ کیا ہے ان میں حکیم الامت حضرت تھانوی، سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی،مصلح الامت حضرت مولانا وصی اللہ ،حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی ، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب اور مولانا سعید احمد اکبرابادی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز فرزند حضرت مولانا منظور احمد نعمانی سے آپ کے قدیمی محبانہ و مخلصانہ تعلقات تو کسی ایسے شخص سے مخفی نہ ہوں گے جسے آپ کی شب و روز کی سرگرمیوں کا قدرے بھی علم ہوگا۔مولانا نعمانی آپ کے یار غار تھے، جذبہ و فکر کے اتحاد اور دعوتی مزاج و مذاق نے آپ دونوں کو باہم اس طرح وابستہ کردیا تھا جیسے گلاب کے ساتھ خوشبو۔یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں آج سے تقریباً ساٹھ سال قبل مولانا مودودی کی نوزائیدہ تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ لیکن جب ان کی بے چین و بے قرار روحوں کی تشنگی وہاں نہ بجھی تو انھوں نے بانیٴ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کے میخانہ کا رخ کیا اور وہاں سے امت کی اصلاح کے جذبہ سے سرشار ہو کر نکلے۔
اس مختصر تحریر میں اکابر دیوبند سے آپ کی غایت درجہ عقیدت و محبت کا نقشہ کھینچنا مشکل ہے، تاہم سرسری طور پر کچھ اقتباسات ہدیہٴ قارئین ہیں جن سے مکمل تصویر نہ سہی کم از کم خد و خال کی جھلک تو نظر آہی جائے گی۔آپ حضرت مدنی کے بارے میں لکھتے ہیں:
” مولانا کو بہت سے لوگ ایک عالم اور محدث کی حیثیت سے جانتے ہیں، بہت سے لوگ ایک سالک اور شیخ طریقت کی حیثیت سے جانتے ہیں ، بہت سے لوگ ایک سیاسی رہ نما اور مجاہد کے حیثیت سے جانتے ہیں اور اس میں شبہہ نہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کی ذات کو ان فضائل سے آراستہ کیاہے، لیکن میری کوتاہ نظر میں دو صفتیں آپ کی زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں جنھوں نے آپ کو آپ کے معاصرین میں ممتاز بنایا تھا ؛ ایک عزیمت دوسرے حمیت۔“ (۱۶)
حکیم الاسلام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
”حضرت تھانوی کا اسم گرامی احترام اور عقیدت کے ساتھ بچپن ہی سے کان میں پڑا …… اس کے بعدنہ تھانہ بھون حاضری کا اتفاق ہوا نہ لکھنوٴ مولانا کے قدوم سے مشرف ہوئے۔ البتہ مکاتبت ، معنوی و علمی استفادہ اور محبت و عقیدت کا تعلق ہمیشہ رہا“ (۱۷)
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی دار العلوم دیوبند کے فرزند جلیل ، حضرت شیخ الہند، علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے شاگرداور ماہنامہ الرشید و القاسم دار العلوم دیوبند کے مدیر تھے ۔حضرت مولانا علی میاںاور ان کے تعلقات انتہائی قابلِ رشک تھے۔ مولانا نے پرانے چراغ میں ان کا تذکرہ کس محبت ، کس اچھوتے اور البیلے انداز میں کیا ہے وہ پڑھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے۔مولانا لکھتے ہیں:
”میں ان کے علم و تحریر کے ہزاروں مداحوں میں ایک مداح تھا، ان کے مضامین و تصنیفات کوشوق سے پڑھتااور کبھی استفادہً خط و کتابت بھی کرلیتا۔ مولانا کو بھی میرے حالات اور علمی مشاغل سے بزرگانہ دلچسپی تھی…..مولانا عالموں میں عالم ، ادیبوں میں ادیب ، مورخوں میں مورخ ، فقیہوں میں فقیہ ، محدثوں میں محدث اور مفسروں میں مفسرتھے۔ فارسی اور اردو کا یکساں مذاق تھا ۔ شعر و شاعری کا ذوق اور سخن شناشی و سخن سنجی دونوں سے حصہ وافر ملاتھا۔ اس لئے مولانا سے ایسی مناسبت معلوم ہوئی جو ان کے بہت سے معاصروں سے محسوس نہیں ہوئی ۔ …… بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ وسعت نظر ، وسعت مطالعہ ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں ان کی نظیر اس وقت ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل ہے و الغیب عند ا للہ۔ تصنیف و تالیف کے لحاظ سے وہ عصر حاضر کے عظیم مصنفین میں شمار کئے جانے کے مستحق ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کردیا ہے وہ بیسیوں آدمیوں کو محقق اور مصنف بنا سکتا ہے اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیا ہے جو یورپ میں پورے پورے ادارے اور منظم جماعتیں کرتی ہیں، ان جیسا آدمی برسوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اور اب ان جیسا آدمی شاید برسوں میں بھی پیدا نہ ہو :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے # بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا (۱۸)
اکابر علماء دیوبند کے متعلق حضرت مولانا کے ان تاثرات کا سلسلہ کافی طویل ہے اس لئے اختصاراً اب صرف حکیم الاسلام حضرت مونا قاری محمد طیب صاحب کے متعلق آپ کے خیالات کا ذکر کرکے اس باب کو بند کیا جارہا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں:
” مولانا قاری محمد طیب صاحب کی ذاب زمانی رقبہ کے لحاظ سے بھی ، زمانی رقبہ تو ۸۸سال اور معنوی رقبہ اس لئے وسیع ہے کہ علم وفضیلت و بصیرت، وسعت علم اور علم کی پختگی و رسوخ ، خدمت دین اور اس کے اصلاح و وعظ و ارشاد ان سب پہلووٴں اور گوشوں پر ان کی زندگی محیط تھی ۔ واقعہ یہ ہے کہ شاید (کم از کم ہندوستان میں) کسی علمی و دینی شخصیت کو ایسی ہر دل عزیزی عام شہرت و مقبولیت اور مختلف دینی اداروں اور جماعتوں کا اعتماد حاصل ہوا ہوگا، جو ان کو حاصل تھا، اس کے ساتھ ان کو طویل عرصہ تک دار العلوم دیوبند جیسے عظیم و جلیل اور بین الاقوامی شہرت کے ادارے کی خدمت اور ترقی کا موقع ملا…….. حسن تقریر اور دعوتی و اصلاحی رنگ ان کا امتیاز تھا جس سے ہزاروں انسانوں کو فائدہ پہنچااور ہزاروں دلوں میں دین کے احترام کا جذبہ اور علماء کے متعلق حسن طن پیدا ہوا، ایسا خوش بیان مقرر واعظ ، وسیع المعلومات اور نورانی شکل کا عالم مشکل سے دیکھنے کو ملتا تھا جس پر پہلی نظر پڑتے ہی قلب شہادت دیتا کہ کہ یہ فطرتاً معصوم ہیں۔(۱۹)
آخری بات
پورے مضمون میں اس بات بھر پور کوشش کی گئی ہے کہ کہیں مبالغہ آمیزی کا تصور نہ ابھر جائے اور حقیقت نگاری سے گریز نہ ہوجائے؛ اس لیے زیادہ تر اپنے الفاظ و عبارات کے بجائے جابجا حضرت مولانا ہی کی تحریروں کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ پورے مضمون میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا نے اکابر و علمائے دیوبند سے کیا حاصل کیا، ان کے متعلق آپ کے افکار کیا تھے۔ اس کے علاوہ قطعاً یہ کوشش نہیں کی گئی ہے کہ توڑ مڑوڑ کر خواہ مخواہ مولانا کی پوری زندگی کو اکابر دیوبند سے وابستہ اور انھیں کا کارنامہ قرار دے دیا جائے۔ مولانا ایک عالمی اور آفاقی انسان تھے ، آپ نے بہت سے چشموں کا پانی پیا، بہت سے گلشنوں سے خوشہ چینی کی، بہت سے ارباب علم و عمل سے استفادہ کیا، ندوہ و دیوبند کے علاوہ انھوں نے عرب کے نامور عربی ادباء و مفکرین کی تحریروں سے اپنی زبان و ادب پر سان چڑھائی تھی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار و خیالات سے اپنی فکر و نظر کو جلا بخشی۔ نہ آپ خالص ندوی تھے اور نہ خالص دیوبند کے فیض یافتہ، نہ محض اقبال کی فکر سے متاثر تھے اور نہ ہی عربی ادباء کے ادب سے۔ وہ ندوہ کی تاریخ و ادب، اقبال کی خود داری و غیرت ، عربوں کی فکر و نظر اور دیوبند کے اعتدال و توازن ، حمیت اسلامی اور سوز و ساز کے بیک وقت جامع تھے۔ایک آفاقی شخصیت کو آفاقی عینک ہی سے دیکھنا اور آفاقی معیار پر ہی اتارنا چاہیے۔ مسلک و مذہب اور فکر و نظر کے دائرے میں اس کو مقید کرنا اس شخصیت کے ساتھ ظلم اور اس کی سوانح نگاری کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ایک بار حضرت مولانا نے ایک ایسے ہی موقع پر اپنے بارے میں فرمایا تھا:
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا بڑے ژرف نگاہ اور کشادہ دل تھے۔ آپ کا برتاؤ بہت روادارانہ اور غیر متشددانہ تھا۔ مگر وسعت ظرفی اور کشادہ دلی کا دائرہ وہیں تک وسیع تھا جہاں تک فروعی مسائل کا معاملہ تھا، ورنہ جس جگہ دین و عقیدہ ، حق و باطل اور کفر و اسلام کی بات آجاتی وہیں آپ کی شمشیر خارا شگاف بے نیام ہوجایا کرتی۔ آپ شعلہ بھی تھے اور شبنم بھی۔ جس طرح آپ میں ریشم کی طرح نرمی تھی اور شبنم کی طرح خنکی تھی اسی طرح آپ میں فولاد کی سی سختی اور پہاڑوں جیسے استقامت بھی تھی۔مرد موٴمن کی شان یہی ہوتی ہے، بقول علامہ اقبال:
ہو حلقہٴ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم ِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے موٴمن
حوالہ جات:
(۱) پاجا سراغِ زندگی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، مجلس نشریات اسلام کراچی ، ص ۱۳۰
(۲) پرانے چراغ،مولانا ابوالحسن علی ندوی، مکتبہ فردوس لکھنوٴ ۱۹۷۵ء، ج ۳، ص ۴۴
(۳) پرانے چراغ، جلد سوم ، ص ۱۹۶
(۴) پرانے چراغ، جلد سوم، ص ۱۰۳
(۵) ہفت روزہ الجمعیة، ۲۵/فروری تا ۲ مارچ ۲۰۰۰ء، مولانا علی میاں نمبر،ص ۱۲
(۶) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۳۴
(۷) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۳۴
(۸) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۴۲
(۹) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۹۱
(۱۰) پاجا سراغ ِ زندگی، ص۱۲۹
(۱۱) کاروان زندگی، مولانا ابوالحسن علی ندوی،مکتبہ اسلام لکھنوٴ ۲۰۰۵ء، جلد دوم ،ص ۳۰۰
(۱۲) مسلم ممالک میں اسلامیت ومغربیت کی کش مکش ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ص۹۰
(۱۳) پاجا سراغِ زندگی، ص ۱۳۵
(۱۴) کاروان زندگی، جلد دوم ،ص ۳۱۱-۳۱۰
(۱۵) پاجا سراغِ زندگی، ص ۱۴۶، ۱۴۸
(۱۶) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۰۵
(۱۷) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۳۱، ۱۱۹
(۱۸) پرانے چراغ، جلد اول، ص ۶۲،۹۳
(۱۹) پرانے چراغ، جلد سوم، ص ۱۳۱،۱۴۳