حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی برصغیر میں دینی تعلیمی تحریک کے قائد اعظم

مولانا محمد اللہ قاسمی

حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۲۴۸ھ /۱۸۳۲ء – ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء) ،دارالعلوم دیوبند کے موٴسس ، فکری قائد اور جماعت علمائے دیوبند کے سرخیل تھے۔ آپ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور ولی اللّٰہی خوان علم کے آخری خوشہ چینوں میں سے تھے۔۱۸۵۷ء اور مابعد کے طوفانی اور بلاخیز دور میں حضرت نانوتوی نے اپنی تحریروں میں ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے جن کا اس زمانہ کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ سامنا ہوا۔اس طرح اسلامی عقیدہ و عمل کے بے شمار موضوعات پراپنے البیلی اور معقولی انداز تحریر سے اسلامیان ہند کو ایسا علمی لٹریچر فراہم کیا جس سے ابھی تک اس کا دامن خالی تھا۔ دوسری طرف آپ نے عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں کے مقابلہ میں اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کردیا ۔
حضرت نانوتوی کا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ ہندوستان میں علوم دینیہ کی نشاة ثانیہ کے لیے تعلیمی تحریک کا احیاء اور مدارس دینیہ کے لیے وہ رہنما اصول وضع کرنا ہے جن پر مدارس دینیہ کی بقا و ترقی کا انحصار ہے۔حضرت نانوتوی بر صغیر میں دینی تعلیمی تحریک کے بانی اور قائد اعظم تھے جنھوں نے مسلم دور کی سابق روایات سے ہٹ کر مضبوط بنیادوں پر اسلامی تعلیم کا نظام قائم کیا ۔ آج اسی نظام تعلیم کی برکت سے اسلامی تعلیم و تربیت اور خالص دینی شناخت کے حوالہ سے برصغیر پورے عالم اسلام میں ایک ممتاز اور مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت نانوتوی کا زمانہ
حضرت نانوتوی ہندوستانی تاریخ کے ایک ایسے دور سے تعلق رکھتے ہیں جب اسلامی شان و شوکت اور سطوت و حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور پورا ملک غیر ملکی تسلط سے کراہ رہا تھا۔ حضرت نانوتوی نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے خلاف برپا ہونے والی پہلی جنگ آزادی میں بھر پور حصہ لیا ۔ ۱۸۵۷ء کی ہندوستانیوں کی تحریک آزادی کے پسپا ہونے کے نتیجہ میں انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا ۔ فاتح فرنگیوں نے جنگ آزادی میں ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں اور ان کے علماء کے خلاف سخت انتقامی کاروائی شروع کی ۔علمائے کرام اور دینی طبقہ نے انگریز وں کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں کے مظالم کا نشانہ بھی یہی بنے۔ ہزاروں علما اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اور بہت سے حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر ہندوستان سے ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا علمی مجلسیں سونی پڑگئیں، مدرسے برباد، مسجدیں ویران اور خانقاہیں بے نام ونشان ہوگئیں۔
دوسری طرف عیسائیوں کی تبلیغی اور مشنری جماعتوں نے ہندوستان پر یلغار کردی تھی۔ انھوں نے ہندوستانیوں کو لالچ یا خوف دلا کر بہر صورت عیسائی بنانے کی ٹھان لی ۔ اس سلسلہ میں انھیں حکومت برطانیہ کی پوری سرپرستی اور مدد حاصل تھی۔ خود مسلمانوں میں بھی دینی شعور رخصت ہوچکا تھا اور جہل و ضلال مسلم قلوب پر چھاتا جارہا تھا۔ مسلمانوں میں پیمبری سنتوں کے بجائے جاہلانہ رسوم و رواج، شرک و بدعت اور ہوی پرستی زور پکڑتے جا رہے تھے۔ مشرقی روشنی چھپتی جارہی تھی اور مغربی تہذیب و تمدن کا آفتاب طلوع ہو رہا تھا جس سے دہریت و الحاد، فطرت پرستی ، بے قیدیٴ نفس اور آزادیٴ فکر کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر بیمار نگاہوں میں دھندلی نظر آرہی تھی۔
ہندوستان کی امت مسلمہ ایسے سخت حالات سے دوچار تھی کہ اس کی اصل کیفیت کا بیان مشکل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی و سیاسی اور اجتماعی زندگی پر ایسا بھیانک اور پرخطر وقت کبھی نہ آیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کا قیام
ان اعصاب شکن حالات میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور ان کے رفقائے کرام نے اللہ تعالی کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہٴ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اور اس کے زخموں سے چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔یہ کام دیوبند میں ایک ایسے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی ۔ حضرت نانوتوی اور ان کے عالی مرتبت رفقاء نے اس جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ اس تحریک کو پروان چڑھایاکہ وہ ایک ایسا گھنا اور تناور شجرہٴ طیبہ بن گیا کہ اس وقت صرف بر صغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اسی کے زیر سایہ ، اتباع شریعت وسنت اور تعلیم قرآن وحدیث کا سفر طے کررہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت نانوتوی دارالعلوم دیوبند کے قیام کی منصوبہ بندی میں ابتدا سے ہی شریک تھے۔ حضرت حاجی محمد عابد صاحب نے چندہ کی تحریک کے بعد حضرت نانوتوی کو خط لکھا اور آپ کو حالات سے مطلع کیا ۔ (۱) مدرسہ کے لیے سب سے پہلے استاذ کی تقرری بھی حضرت نانوتوی کے ذریعہ عمل میں آئی۔ (۲) حضرت نانوتوی نے ابتدا ہی سے اس ادارہ کی سرپرستی فرمائی۔ (۳)حضرت نانوتوی نے دارالعلوم کو صحیح اصول پر چلانے کے لیے اصول ہشت گانہ لکھا ، جس کی تفصیل آئندہ سطور میں آرہی ہے۔ دارالعلوم کے قیام میں جو جماعت شریک تھی، ان میں حضرت نانوتوی کی شخصیت سب سے نمایاں تھی اور انھیں کے فکری منہج کے مطابق دارالعلوم کا ارتقا ہوا۔
دارالعلوم دیوبند : ایک دینی و تعلیمی تحریک
انیسویں صدی عیسوی میں یوروپی استعمار کی چیرہ دستیوں اور پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام پر تصرف اور قبضہ سے ایک عالمگیر سیاسی، سماجی اور دینی بحران پیدا ہوچکا تھا۔ یوروپی استعمار اپنے ساتھ عیسائیت اور الحاد وبے دینی کا ایک سیلاب بلا خیز بھی ساتھ لا رہا تھا۔ پورے عالم اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں کی قوت فکر و عمل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور انڈونیشیا سے مراکش تک کے طول وعرض میں کوئی قابل ذکر تحریک موجود نہ تھی جو اس نازک صورت حال میں مغربی استعمال اور الحاد کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ ایسے نازک دور اور عالمگیر سناٹے میں پہلی آواز دیوبند سے اٹھی جو اگرچہ ابتدا میں ہلکی اورنحیف تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ الحاد و بے دینی اور ظلم وبربریت کے سناٹے کو چیرتی چلی گئی اور نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں اس کا ڈنکا بجنے لگا:
تا ابد گوشِ جہاں زمزمہ زا خواہد بود
زیں نواہا کہ دریں گنبدِ گردوں زدہ ایم
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی حیات اجتماعی کی نشاةِ ثانیہ کی تاریخ میں دارالعلوم کی مسلسل تعلیمی اور تبلیغی جد و جہد کا بڑا حصہ ہے۔ دارالعلوم کی طویل زندگی میں حوادث کے کتنے ہی طوفان الٹے او رحالات و سیاسیات میں کتنے ہی انقلاب آئے مگر یہ ادارہ جن مقاصد کو لے کر عالمِ وجود میں آیا تھا، انتہائی استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ ان کی تکمیل میں سرگرم عمل رہا۔ فکر و خیال کے ان ہنگاموں اور فتنہٴ مغرب میں ڈوبی ہوئی تحریکوں کے دور میں اگر بالعموم مدارس عربیہ اور بالخصوص دارالعلوم جیسے ادارے کا وجود نہ ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ آج مسلمان جمود وبے حسی کے کس گردابِ عظیم میں پھنسے ہوئے ہوتے۔ ارشاد و تلقین، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تربیت اور اصلاح خلق کی کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں دارالعلوم کے فضلامصروف عمل نہ ہوں اور ملت اسلامیہ کی اصلاح و تربیت میں انھوں نے اہم کردار ادانہ کیا ہو، دعوت و ارشاد اور وعظ و تبلیغ کے بڑے بڑے جلسوں کی رونق اس وقت بر صغیر میں دارالعلوم ہی کے گرامی قدر علما کے دم سے قائم ہے۔ بڑے بڑے مدارس اسلامیہ کی مسند تدریس کی زینت آج یہی اصحاب ہیں۔
دارالعلوم دیوبند صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ درحقیقت ایک مستقل تحریک اور تجدید دین کا مرکز ہے جس سے ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ پورے ایشیا، مشرقی و جنوبی افریقہ اور یورپ و امریکہ کے کروڑہا کروڑ مسلمان وابستہ ہیں اور اسے اپنا علمی و فکری مرکز سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ دارلعلوم دیوبند کا علمی و فکری فیض ایشیا سے گذر کر افریقہ، یورپ اور امریکہ تک پہنچ چکا ہے۔ان علاقوں میں دارالعلوم کے فیض یافتہ افراد دینی و علمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور مرکزی شہروں میں دارالعلوم کے طرز پر اسلامی درس گاہیں کھل چکی ہیں۔
دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت اور تحریک ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت و ہمہ گیریت، بلندپروازی اور مقبولیت و تاثیر میں حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ علیہ کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اگر مدرسہٴ دیوبند کو ابتدا ہی سے حضرت نانوتوی کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہرطرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
حضرت نانوتوی کے اصول ہشت گانہ
حضرت نانوتوی نے دینی تعلیم کی اس تحریک کو جس کی داغ بیل مدرسہٴ دیوبند کی شکل میں ڈالی گئی تھی منظم، دیر پا اور موٴثر تر بنانے کے لیے ایک دستور العمل تحریر فرمایا جس میں انھوں نے دارالعلوم دیوبنداوراس کے منہاج پر جاری دیگر مدارس دینیہ کے لیے کچھ اصول وضع کیے۔ یہی اصول دارالعلوم دیوبند ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے تمام اسلامی مدارس کے لیے رہنما اصول یا دستورِ اساسی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت نانوتوی کی یہ تحریر دارالعلوم کے تاریخی ریکارڈ میں محفوظ ہے اور ”اساسی اصول ہشت گانہ “ کے عنوان سے ماہنامہ القاسم کے دارالعلوم نمبر (مجریہ ۱۳۴۷ھ) میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ اصول ہشت گانہ حسب ذیل ہیں:
(۱) اصل اول یہ ہے کہ تا مقدور کارکنان مدرسہ کی ہمیشہ تکثیر چندہ پر نظر رہے، آپ کوشش کریں اور وں سے کرائیں خیراندیشان کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے۔
(۲) ابقاء طعام بلکہ افزائش طعام طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیراندیشان مدرسہ ساعی رہیں۔
(۳) مشیران مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدا نخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی کہ اہل مدرسہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفتِ رائے اور اوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھر اس مدرسہ کی بناء میں تزلزل آجائے گا۔ القصہ یہ کہ دل سے ہروقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو، اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہارِ رائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیت نیک اس کو سنیں، یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو بدل و جان قبول کریں گے اور نیز اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امورِ مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیرِ مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی وارد و صادر جو علم و عقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو، اور نیز اسی وجہ سے ضروری ہے کہ اگر اتفاقا کسی وجہ سے کسی اہل مشورہ سے مشورہ کی نوبت نہ آئے اور بقدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتد بہ سے مشورہ کیا گیا ہو تو پھر وہ شخص اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتے ہیں۔
(۴) یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین باہم متفق المشرب ہوں اور مثل علماء روزگار خود ربیں اور دوسروں کے درپے توہین نہ ہوں خدا نہ خواستہ جب اس کی نوبت آئیگی تو پھر اس مدرسہ کی خیر نہیں۔
(۵) خواندگی مقررہ اس انداز سے ہو جو پہلے تجویز ہوچکی ہو یا بعد میں کوئی انداز مشورے سے تجویز ہو ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر آباد ہوگا تو بے فائدہ ہوگا۔
(۶) اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسی جاگیر یا کارخانہ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔
(۷) سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔
(۸) تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسن نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے۔
اصول ہشت گانہ کی خصوصیات
عوامی تعلق اور عام مسلمانوں میں تعلیم کا فروغ: اصول ہشت گانہ سے ہندوستان میں مضبوط و مستحکم دینی تعلیمی نظام کی بنیاد پڑی۔ اس کا بنیادی اصول یہ تھاکہ مدارس کو حکومت و امراء کی سرپرستی سے نکال کر اسے جمہور اور عوام سے جوڑا گیا ۔ عوام کے چندوں سے چلنے والے اس نظام میں استحکام بھی تھا اور سماج کے ہر طبقہ سے بھر پور ربط بھی،جس کی وجہ سے تعلیم سماج کے ہر حلقہ میں پہنچنے لگی۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم ہونے والے اداروں کے ذریعہ مسلمانوں کے ہر طبقے میں تعلیم و تعلم کا فروغ ہوا جو اس سے پہلے اتنی وسیع سطح پر کبھی نہ ہوا تھا۔
شورائی اور جمہوری نظام : دوسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ مدارس کا نظام شورائی بنیادوں پر قائم ہو تاکہ اس کی کارکردگی زیادہ بہتر ہواور اس کے نظام میں شفافیت ہو۔ گویا ہندوستان میں جمہوری سیاسی نظام شروع ہونے سے پون صدی قبل ہی دارالعلوم نے جمہوری اداروں کی بنیاد رکھ دی تھی۔
قابل ذکر بات ہے کہ دارالعلوم کا آغاز جس معمولی حالت اور بے سرو سامانی کے ساتھ ہوا تھا اس کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم کے نظم و نسق کا مشاورت کے اصول پر مبنی ہونا تعجب خیز معلوم ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت جمہوری نظام سے لوگ عام طور پر ناآشنا اور نامانوس تھے۔ دارالعلوم نے اس وقت اسلامی طرز پر مجلس شوری کی بنیاد رکھی اور اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلا کر قوم کے سامنے ایک عمدہ مثال قائم کردی۔ اسی طرز فکر کا نتیجہ تھا کہ انتظامات میں بڑی وسعت کے ساتھ جمہوری انداز قائم ہوگیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنے تحریر فرمودہ ہشت نکاتی دستور العمل کی تیسری دفعہ میں اس امر پر زور دیا ہے کہ مشیران ہمیشہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی کو مد نظر رکھیں اور اپنی رائے کی مخالفت اور تنقید کو ناگوار نہ سمجھیں ورنہ مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا۔ اخلاص اور اظہار آزادی رائے، جمہوری نظام کے یہ دو عمدہ اصول ہیں جن سے بہتر کوئی دوسرا طریق کار نہیں ہوسکتا۔ اس تجویز سے تعمیری نکتہ چینی کی راہ کھل گئی جو کسی ادارہ کی ترقی کے لیے بڑی ضروری ہے۔
عوامی چندہ: آج سے ڈیڑھ سو سال قبل بلا شبہہ ایک عجیب و غریب بات تھی کہ عوامی چندے کی بنیاد پر ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے جو حکومت کے اثرات سے آزاد ہو۔ آنے والے عوامی دور کے پیش نظر یہ ایک زبردست پیش بینی اور پیش بندی تھی۔ اب جب کہ بڑی بڑی ریاستیں خواب و خیال ہوچکی ہیں اور زمینداریاں ختم ہوگئی ہیں، مگر کشمیر سے آسام تک ہزاروں دینی مدرسے چل رہے ہیں اور ان پر حکومت کی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس سے عوامی چندہ کی اہمیت و افادیت اور مدارس کی بنیادوں کے استحکام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اوقاف کے سابقہ طریقہ کے بجائے عوامی چندے کا یہ طریقہ بہت کامیاب اور بڑا نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ دینی مدارس کے قیام اور دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کے لیے یہ ایک ایسا مفید اور مستحکم طریقہ تھا جس نے دینی تعلیم کے فروغ کو عوامی چندہ کی تحریک میں تبدیل کردیا۔ چندہ کے سلسلے میں یہ اصول رہا ہے کہ اس میں نہ تو چندہ کے لیے کوئی لازمی مقدار مقرر کی گئی ہے اور نہ مذہب و ملت کی کوئی تخصیص روا رکھی گئی ہے۔
حکومتی امداد سے احتراز اور توکل علی اللہ: حضرت نانوتوی  کے اس دستور العمل میں سرکار اور امراء کی شرکت کو مضر اور نقصان دہ بتایا گیا ہے ، بلکہ ایسے فراد کے چندہ کو موجب برکت محسوس کیا گیا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو۔ اس اصول سے مدارس میں درآنے والے بہت سے فتنوں کا سد باب ہوگیا۔ حکومتی امداد سے سرکاری دخل اندازی کے راستے کھلتے ہیں اور اسی کے ساتھ دیگر مفاسد در آتے ہیں۔ آج سرکاری مدارس کا جو برا حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس طرح اس اصول کی روشنی میں حضرت نانوتوی نے جس تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھی وہ زمان و مکان کی قیدوں سے آزاد ایک ایسی مستحکم تحریک تھی جو زمانے کی الٹ پھیر، حکومتوں کے آواگون اور دیگر پابندیوں سے ماورا و محفوظ تھی۔
حضرت نانوتوی  نے مدرسہ کے لیے مستقل ذریعہ آمدنی کو بھی نقصان دہ اور باعث اختلاف و انشقاق تصور کیا۔ توکل علی اللہ ، خوف و رجا اور توجہ الی اللہ کو اس کی بقا و ترقی کی ضمانت سمجھا۔ دارالعلوم کی تاسیسی جماعت کے ایک دوسرے رکن حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی نے اس کو نظم میں اس طرح ڈھالا ہے:
اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لیے
کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہو جائے گا
پھر یہ قندیل معلق اور توکل کا چراغ
یوں سمجھ لینا کہ بے نور و ضیاء ہوجائے گا
دارالعلوم دیوبند اور اس کا نصاب و نظام تعلیم
۱۸۵۷ء کے تاریخی حادثہٴ انقلاب میں تقریباً ملک سے ساری نامور درس گاہیں برباد کردی گئیں اور خصوصاً ملک کا شمالی حصہ جو اس تحریک کا مرکز تھا اور دینی علوم و فنون کا گہوارہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اس واقعہ کے تقریباً دس سال بعد جب دیوبند میں دارالعلوم بنیاد پڑی ، اس کے نصاب میں ماضی قریب کے تینوں علمی گہواروں ؛ مدرسہ رحیمیہ دہلی، فرنگی محل لکھنوٴ اور خیرآباد کی خصوصیات کو جمع کیا گیا۔دارالعلوم دیوبند نے ایسا نصاب مرتب کیا جو حالات زمانہ سے بالکل ہم آہنگ تھا اور اسلامی ہند کے تمام نظامہائے تعلیم کی خوبیوں کا جامع تھا۔ دارالعلوم نے ولی اللہی نصاب سے قرآن و حدیث، فرنگی محل کے نصاب سے فقہ اور خیرآباد کے نصاب سے معقولات کو لے کر ایسا جامع و حسین گلدستہ تیار کیا کہ جس کی دل آویز خوشبو کی کشش سے دیوبند میں ہند و بیرون ہند کے طالبان علوم اسلامیہ کا جمگھٹا لگ گیا۔ دارالعلوم دیوبند کا یہی نصاب تعلیم تقریباً ڈیڑھ صدیوں سے ہندوستان کے اکثر مدارس میں مروج ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ان علوم کی عظمت کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا بلکہ انھیں ترقی دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اس نصاب کی خصوصیت یہ ہے کہ طالب علم میں امعان نظر اور قوت مطالعہ پیدا کرنے کا لحاظ اس میں زیادہ رکھا گیاہے۔ اگر چہ اس نصاب کی تحصیل کے معاً بعد کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہو تا، مگر یہ صلاحیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے کہ طالب علم محض اپنے مطالعہ اور محنت سے جس فن میں چاہے کمال پیدا کر لے۔ حضرت نانوتوی کے الفاظ میں:
”جمیع علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم کے لیے یہ مدرسہ اور سہارن پور کا مدرسہ بلا تأمل عمدہ سامان ہے اور ان شاء اللہ یہاں کے طالب علم بشرط تکمیل باقی علوم قدیمہ و جدیدہ کو بوجہ قوت استعداد بسہولت جلد حاصل کرسکتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان مدارس میں علاوہ تعلیم مذہبی غرضِ اعظم قوت استعداد کی فقط علومِ دینی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فنون دانشمندی کی تکمیل بھی حسب قاعدہ سابقہ کی گئی ہے۔“ (۴)
دارالعلوم کا نظام تعلیم سابق مدارس کے روایتی نظام سے ہٹ کر زمانے کے تقاضوں کی بنیاد پر جدید انداز کا تھا۔ اس نظام میں تعلیم کے اوقات کی تعیین، طلبہ کی درجہ بندی اور تعلیمی سال کا تعین کیا گیا تھا۔ باقاعدہ تعلیمی سال کا آغاز ہوتا، سال کی تکمیل پر امتحان سالانہ ہوتا ، کامیاب طلبہ کو انعامات دیے جاتے اور فارغ ہونے والے طلبہ کو دستار فضیلت دی جاتی۔ دوسری طرف مفت تعلیم کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اس پر مکمل طور پر عمل کیا گیا۔
دارالاقامہ اور مطبخ: عہد اسلامی کے مدارس میں عموماً مستقل عمارتوں اور مطبخ کا نظام نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن دارالعلوم دیوبند نے ابتدا ہی سے دارالاقامہ قائم کیا اور طلبہ کے قیام کے لیے مستقل عمارت کی بنیاد ڈالی۔ علیحدہ مدرسہ کی عمارت کے سلسلہ میں ذمہ داران مدرسہ متامل بلکہ معترض تھے، لیکن حضرت نانوتوی ہی کے کوشش اور حکمت عملی سے دارالعلوم کے لیے علیحدہ عمارت کی بنیاد ڈالی گئی کیوں کہ اس مدرسہ کا جو پرشوکت تصور حضرت نانوتوی کے ذہن میں تھا وہ کسی اور کے ذہن میں نہیں تھا، ان کی فراست کے سامنے یہ مدرسہ سے دارالعلوم ہونے والا تھا۔ (۵) مدرسہ کے لیے مستقل عمارت کے اس رجحان سے دینی تعلیم کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔
دارالعلوم کے طرز پر تعلیمی اداروں کا قیام
حضرت نانوتوی نے اپنی ایمانی فراست سے چھپتے ہوئے اقتدار کا نعم البدل تعلیمی راہ سے حریت فکر کی بقاء و ارتقاء کو قرار دیا۔ اس سلسلہ میں دیوبند کے مدرسے کے قیام اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کے ساتھ اس مقصد کی اہمیت کے پیش نظر ملک گیر پیمانے پر قائم کرنا شروع کیا اور بہ نفس نفیس خود جا کر مرادآباد، گلاؤٹھی، امروہہ اور مظفر نگر میں مدارس قائم کیے۔ حضرت نانوتوی نے جا بجا اپنے متوسلین کو زبانی اور خطوط کے ذریعہ قیام مدارس کی ہدایت فرمائی۔ چناں چہ بہت سے مدارس حضرت کی زندگی ہی میں قائم ہوگئے تھے۔ (۶) بریلی میں حضرت نانوتوی نے بریلی کے اکابر و عمائد کے مشورہ سے مصباح التہذیب کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اسی طرح میرٹھ میں آپ نے مدرسہٴ اسلامی کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ (۷)ان مدارس میں مرادآباد کا مدرسہ شاہی، امروہہ کا مدرسہ جامع مسجد آج بھی قائم ہیں اور اہم علمی و دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان مدراس نے دارالعلوم کے ہی نظام و نصاب کو اپنا یا۔ پھر اسی طرز پر مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر سے باہر تک یہ سلسلہ پھیل گیا۔ اس وقت ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ افغانستان، وسط ایشیا، انڈونیشیا، ملیشیا، برما، تبت، سیلون اور مشرقی و جنوبی افریقہ، یورپ ، امریکہ و آسٹریلیا کے ممالک میں دارالعلوم کے طرز کے مدارس قائم ہیں اور حضرت نانوتوی کے مقرر کردہ اصول کی روشنی میں سرگرم عمل ہیں۔ دارالعلوم اور دیگر مدارس نہ صرف انھیں اصولوں پر قائم ہیں بلکہ ان پر کاربند رہنے کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
جدید تعلیم اور حضرت نانوتوی
ہندوستان میں مسلم حکومت کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمانوں تعلیم سے آراستہ کرنے کی جو کوششیں ہندوستانی علماء و مفکرین نے کیں ان میں سرِفہرست حضرت نانوتوی اور سرسید احمد خان تھے۔ سب سے پہلے مدرسہٴ دیوبند۱۸۶۶ء میں قائم ہوا، پھر نو سال کے بعد ۱۸۷۵ء میں علی گڈھ میں مدرسة العلوم (مسلم یونیورسٹی) کا قیام عمل میں آیا۔ سرسید احمد خان اور حضرت نانوتوی نے دہلی میں ایک ہی علمی مرکز سے کسب فیض کیا تھا۔ سرسید نے مدرسة العلوم کے ذریعہ مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی اور ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں سائنس کا نعرہ دیا۔ لیکن حضرت نانوتوی نے مسلمانوں کی دینی و اسلامی شناخت کی حفاظت اور علوم اسلامیہ کی بقا و اشاعت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام علوم کی تعلیم کا نظم کیا۔ تاریخ کے اس موڑ پر جب کہ مغربی تمدن اپنی پوری جلوہ سامانیوں اور طمطراق کے ساتھ مشرقی تہذیب و تمدن پر حملہ آور تھا، مغربی افکار پرانی اقدار و روایات کی جگہ لے رہے تھے، نیا مغربی نظام اپنے تمام سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور عسکری نظریات کے پرانے مشرقی نظام کو یکسر بدل رہا تھا، ایسے پرآشوب دور میں حضرت نانوتوی نے علومِ اسلامیہ کی بقا و اشاعت کو مدرسہٴ دیوبند کا مقصد بنایا: وہ خود فرماتے ہیں:
”سو اہل عقل پر روشن ہے کہ آج کل تعلیمِ علوم جدیدہ تو بوجہ کثرت مدارس سرکاری اس ترقی پر ہے کہ علوم قدیمہ کو سلاطین ِزمانہٴ سابق میں بھی یہ ترقی نہ ہوئی ہوگی۔ ہاں، علوم عقلیہ کا تنزل ہوا کہ ایسا تنزل کبھی کسی کارخانہ میں نہ ہوا ہوگا۔ ایسے وقت میں رعایا کو مدارسِ علوم جدیدہ کا بنانا تحصیل لا حاصل نظر آیا، اور صرف بجانبِ علوم عقلی اور نیز ان علوم کی طرف جن سے استعدادِ علومِ مروجہ اور استعدادِ علومِ جدیدہ یقینا حاصل ہوتی ہیں، ضروری سمجھا گیا۔ “ (۸)
تاریخ شاہد ہے کہ دارالعلوم دیوبند اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب رہا ، اس نے نہ صرف پورے برصغیر میں اسلام کی حفاظت و اشاعت کا سامان پیدا کیا بلکہ پورے دنیا میں اسلامی علوم و افکار کی اشاعت کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا۔ جب کہ دوسری طرف مدرسة العلوم علی گڈھ جو قرآن و سائنس کے اجتماج و امتزاج کے اعلان سے اٹھا تھا وہ زیادہ دن تک اپنی ڈگر قائم نہ رہ سکا اور بالآخر ایک خالص جدید علوم کا ادارہ بن کر رہ گیا۔
جدید و قدیم علوم کے سلسلہ میں حضرت نانوتوی  کی رائے تھی کہ دونوں کو دو مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے پڑھا جائے ورنہ دونوں کے ایک ساتھ پڑھنے کسی میں بھی کما حقہ کمال پیدا نہیں ہوگا یا پلڑا کسی ایک طرف جھک جائے گا جیسا کہ مدرسة العلوم کے ساتھ ہوا جو پہلے کالج اور پھر یونیورسٹی بن گیا۔ حضرت نانوتوی نے۱۹/ ذی قعدہ ۱۲۹۰ھ(۱۸۷۳ء) یوم جمعہ کو دارالعلوم کے جلسہٴ اسناد کے موقع پر اپنی مشہور تقریر میں اس موضوع پر بھی روشنی ڈالی ہے، وہ فرماتے ہیں:
” زمانہٴ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب علوم کے حق میں باعث نقصانِ استعداد رہتی ہے، ہاں بعد تحصیل فنون دانش مندی جس کو خاص تحصیلِ استعداد کے لیے ہی تجویز کیا ہے، اگر اور فنونِ قدیمہ و جدیدہ کو حاصل کیا جائے گا تو البتہ مقدار زمانہٴ تحصیل برابر رہے گا۔ اس تقدیم و تاخیر سے مطلب بخوبی حاصل ہوگا اور استعداد ہر علم کی بخوبی حاصل ہوگی۔ اس لیے علومِ نقلیہ اور ان کے ساتھ علوم دانشمندی کو داخلِ تحصیل کیا، اس کے بعد اگر طلبہٴ مدرسہ ہذامدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موٴید ہوگی۔ کاش گورنمنٹ ہند بھی قیدِ عمر طلبہٴ نو داخل کو اڑادے تاکہ رفاہِ عام رہے اور سرکار کو بھی معلوم ہو کہ استعداد کسے کہتے ہیں۔“ (۹)
کیا حضرت نا نوتوی علوم جدیدہ کے مخالف تھے؟
اسی سے یہ بات بھی بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت نانوتوی اور علمائے دیوبند علوم جدیدہ کی تحصیل کے بالکل مخالف نہیں تھے، بلکہ جیسا کہ اوپر کے پیراگراف سی بخوبی واضح ہے ، بلکہ اس امر کے خواہش مند تھے کہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ بعد میں علوم جدیدہ حاصل کریں اور اس سے ان کی استعداد کامل ہوگی۔ نیز، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں میں اس وقت عمر کی قید تھی جس کی وجہ سے شاید مدارس میں علوم دینیہ حاصل کرنے کے بعد علوم جدیدہ کی تحصیل میں رکاوٹ ہوتی تھی۔ بعض حلقوں میں حضرت نانوتوی اور دیگر علمائے دیوبند کی طرف علوم جدیدہ اور انگریزی کی مخالفت کی جو بات منسوب کی جاتی ہے وہ سراسر اتہام و الزام ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
چناں چہ اسی پس منظر میں ۱۳۲۱ھ(۱۹۰۳ء) میں دارالعلوم کی جانب سے ایک تجویز کی گئی کہ ایسے طلبہ کو جو کم از کم انٹرنس پاس ہوں اور دارالعلوم میں داخلہ لینا چاہیں تو ان کو دس پندرہ روپیہ ماہانہ کے وظائف دیے جائیں، اسی طرح دارالعلوم سے فراغت کے بعد جو طلبہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہیں ان کے لیے بھی وظائف مقرر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سالانہ روئداد کے الفاظ یہ ہیں کہ ”دونوں صورتوں میں مسلمانوں کے لیے بہت سے فوائد ہیں“۔ (۱۰)
اور پھر ۱۳۲۸ھ (۱۹۱۰ء) کے مشہور جلسہٴ دستار بندی میں جدید تعلیم یافتہ ممتاز اور سربرآوردہ ہستیاں شریک ہوئیں ، علی گڈھ سے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بطور نمائندہ اس جلسہ میں شریک ہوئے اور قدیم و جدید علوم کے اجتماع کی تجویز پاس ہوئی کہ علی گڈھ کالج کے گریجویٹ طلبہ کو دارالعلوم دیوبند میں داخل کرکے اسلامی علوم و فنون کی تعلیم سے استفادہ کا موقعہ دیا جائے۔ صاحبزادہ آفتاب احمد خان نے تجویز پیش کی کہ دارالعلوم کے تعلیم یافتہ علی گڈھ کالج انگریزی پڑھنے جایا کریں۔ (۱۱)
خلاصہٴ کلام
حجة الاسلام حضرت نانوتوی جہاں ایک طرف عالم ربانی، شیخ وقت، مجاہد جلیل اور اسلامی مفکر تھے وہیں دوسری طرف وہ برصغیر کی دینی تعلیمی تحریک کے روح رواں اور قائد اعظم تھے۔ یہی تحریک برصغیر میں مسلمانوں کے بقا و تحفظ اور اسلام کی نشأة ثانیہ کی بنیاد ہے اور اب یہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
حواشی:
(۱) تذکرة العابدین، بحوالہ سوانح قاسمی، جلد دوم، صفحہ ۲۵۰
(۲) سوانح قاسمی، مولانا مناظر احسن گیلانی، جلد دوم، صفحہ ۲۵۰
(۳) سوانح عمری حضرت نانوتوی ، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی، صفحہ ۳۹، مطبوعہ مع سوانح قاسمی جلد اول
(۴) روئداد ہشتمی سالانہ مدرسہٴ عربی دیوبند بابت ۱۲۹۰ھ ، تقریر حضرت نانوتوی
(۵) سوانح قاسمی، مولانا مناظر احسن گیلانی، جلد دوم ، صفحہ ۲۲۷، ۲۲۸
(۶) دارالعلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات، حضرت قاری محمد طیب صاحب ، صفحہ ۴۶
(۷) مولانا محمد قاسم نانوتوی : حیات و خدمات، مولانا اسیر ادروی، صفحہ ۱۵۶، ۱۵۵
(۸) روئداد ہشتمی سالانہ مدرسہٴ عربی دیوبند بابت ۱۲۹۰ھ ، تقریر حضرت نانوتوی
(۹) روئداد ہشتمی سالانہ مدرسہٴ عربی دیوبند بابت ۱۲۹۰ھ ، تقریر حضرت نانوتوی
(۱۰) تاریخ دارالعلوم ، سید محبوب رضوی، جلد اول ، صفحہ ۲۰۸
(۱۱) سوانح قاسمی، مولانا مناظر احسن گیلانی، جلد دوم ، صفحہ ۲۹۶

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے