حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی: شخصیت کے چند نمایاں پہلو

۱۳۲۵-۱۴۱۷ھ/ ۱۹۰۷-۱۹۹۶ء

محمد اللہ خلیلی قاسمی

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ایک عظیم صاحب نسبت بزرگ، عالم ربانی، مفتی بے مثل اور جامع علمی شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بہت سے کمالات و خصوصیات سے نوازا تھا۔ آپ دارالعلوم دیوبند صدر مفتی رہے اور اور مظاہر علوم سہارن پور میں بھی افتاء کی فرائض انجام دیے۔ مسند افتاء پر فائز ہونے کے علاوہ، دارالعلوم میں صحیح بخاری، سنن نسائی ودیگر کتب حدیث و فقہ کی تدریس بھی آپ سے متعلق رہی۔ نہایت منکسر المزاج ، وسیع المطالعہ ،ذاکر و شاغل ،فراخ حوصلہ اور سیر چشم بزرگ تھے۔
حالات زندگی
۸-۹ /جمادی الثانی ۱۳۲۵ھ/ ۱۹/جولائی ۱۹۰۷ء کو شب جمعہ میں گنگوہ میں پیدا ہوئے ۔حسن اتفاق یہ کہ ٹھیک اسی تاریخ میں دو سال قبل قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  کا انتقال ہوا تھا۔ اس طرح گویا حضرت گنگوہی کی علمی وراثت ملنے کا غیبی اشارہ تھا۔آپ کے والد محترم حضرت مولانا حامد حسن گنگوہی رحمة اللہ علیہ حضرت شیخ الہند کے خاص شاگردوں میں تھے اور آپ نے ہی انھیں نہٹور ضلع بجنور میں درس و تدریس کے لیے بھیجا جہاں انھوں نے دینی و علمی خدمات میں اپنی پوری زندگی گزار دی۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گنگوہ اور نہٹور میں حاصل کی ۔ ۱۳۴۱ھ /۱۹۲۳ء میں مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گئے ۔ پھر ۱۳۴۸ھ /۱۹۲۹ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور ۱۳۵۰ھ /۱۹۳۲ء میں دارالعلوم میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی و دیگر اساتذہ سے تکمیل حدیث کی۔پھر ۱۳۵۱ھ /۱۹۳۳ء میں مظاہر علوم سہارن پور جاکر شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی اور حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری اور حضرت مولانا منظور احمد خان سے استفادہ کیا۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور کے ماہر فن اساتذہ و مشائخ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔
۱۳۵۱ھ /۱۹۳۳ء ہی سے مظاہر علوم ہی میں تقرر ہوگیا جہاں آپ تقریباً ۲۰/سال تک افتا اور درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔پھر مدرسہ جامع العلوم کانپور میں ۱۳۷۱ھ /۱۹۵۲ء سے ۱۳۸۴ھ/ ۱۳۶۴ھ تک تقریباً ۱۴/سال مسند صدارت و افتا پر فائز رہے۔ کان پور کے لوگوں پر آپ کے علم و فضل ،زہدو تقویٰ اور بزر گی کا بڑا اثر رہا اور آپ نے وہاں کے مسلمانوں کو بڑا علمی و روحانی فیض پہنچایا۔ وہاں کا قدیم مدرسہ جامع العلوم عرصہ سے تنزلی اور گمنامی میں پڑا ہوا تھا، حضرت مفتی صاحب کی برکت سے دوبارہ ترقی اور شہرت کی بلندی پر پہنچ گیا۔
۱۳۸۵ھ /۱۹۶۵ء میں آپ کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں مفتی کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔دارالعلوم دیوبند میں آپ فتاویٰ نویسی کے علاوہ صحیح بخاری جلد دوم ، سنن نسائی اورحدیث و فقہ کی دیگر کتابوں کا درس بھی آپ سے متعلق رہا، خصوصاً شعبہٴ افتاء کے طلبہ کی تربیت بھی فرماتے تھے۔ ۱۴۰۱ھ /۱۹۸۱ء میں دارالعلوم میں اختلافات کے وقت مستعفی ہوکر مظاہر علوم چلے گئے تھے۔ بعد میں ارباب دارالعلوم کی درخواست پر دیوبند میں قیام پر راضی ہوگئے تھے، البتہ مختلف عوارض کی وجہ سے دارالافتاء سے باضابطہ متعلق نہیں رہے۔
۱۳۸۶ھ /۱۹۶۶ء میں آپ مظاہر علوم کے سرپرست بنائے گئے۔ علاوہ ازیں، ملک و بیرون ملک کے مختلف مدارس اور اداروں کی سرپرستی بھی فرماتے تھے۔
اپریل ۱۹۹۶ء /ذی الحجہ۱۴۱۶ھ کو آپ کا افریقہ کا آخری سفر ہوا۔ وہاں طبیعت خراب ہوئی تو جوہانسبرگ کے پارک لین ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے اور بالآخر ۲/ستمبر ۱۹۹۶ء مطابق ۱۸/ربیع الثانی ۱۴۱۷ھ کو انتقال ہوا۔ ساؤتھ افریقہ کے شہر ہیزل دین (Hazel Dene) سے چار کلومیٹر کی دوری پر ایلسبرگ (Elsburg) کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
یادگارِ اسلاف شخصیت
حضرت مفتی صاحب کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبسے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ آپ کی قیام گاہ ذاکرین کے ذکر سے معمور رہتی تھی۔ دارالعلوم میں مسجد چھتہ میں قیام رہتا جو بڑے بڑے علماء و مشائخ کی قیام گاہ رہ چکی ہے۔ آپ کے پاس ہمہ وقت علماء و طلبہ اور عام مسلمانوں کااجتماع رہتا تھا۔ کوئی علمی پیاس بجھانے آتا، کوئی زیارت و ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور کوئی بیعت و اصلاح کے مقصدسے ۔ مسجد چھتہ میں ہر وقت چہل پہل رہتی اور علم و ذکر کی نورانی مجلس قائم رہتی تھی۔ مسجد چھتہ کی رونق گم گشتہ حضرت مفتی صاحب  کی برکت سے ایک بار پھر لوٹ آئی تھی اور بازار معرفت ایک بار پھر گرم ہوگئی تھی۔ آپ کو دیکھ کر علما ئے سلف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔
پاکستان، بنگلہ دیش، ساؤتھ افریقہ ، زامبیا ودیگر ممالک میں آپ کے مسترشدین کافی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کا روحانی فیض آپ کے خلفاء کے ذریعہ بھی جاری ہوا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ساؤتھ افریقہ، انگلینڈ ، فرانس وغیرہ کے تقریباً ڈیڑھ سو علماء و سالکین کو آپ نے خلافت نے نوازا۔ دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی اور دیگر بہت سے مشاہیر علماء آپ کے خلیفہ ہیں۔
جامع علمی شخصیت
حضرت مفتی صاحب کو علم تفسیر و حدیث، فقہ و کلام اور دیگر تمام علوم دینیہ میں کامل مہارت تھی۔ فقہی کلیات و جزئیات کا کافی استحضار تھا۔ آپ کا حافظہ بہت قوی اور مطالعہ بہت وسیع تھا۔ آپ کی ذات روشن ذہن اور مجتہدانہ بصیرت کی حامل تھی۔ اللہ تعالی نے آپ کو بڑی جامعیت عطا فرمائی تھی۔ علم و عمل، خلوص و للہیت تقوی و دیانت ، خدمت خلق، تزکیہٴ نفس، تعبیر خواب، فتوی نویسی اور اتباع سنت وغیرہ تمام اوصاف و کمالات میں اللہ تعالی نے آ پ کو بلند مقام عطا فرمایا تھا۔
فرق باطلہ کی تردید میں حضرت مفتی صاحب ید طولی رکھتے تھے۔ قادیانیت ، رضاخانیت اور مودودیت کا مطالعہ کافی گہرا تھا۔ فرق باطلہ کے خلاف مناظروں میں بھی فرماتے تھے اور مخالفین کو لاجواب کرنے میں بے مثال تھے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا۔ راقم السطور ۱۹۹۵ء میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کے نسائی کے سبق میں شریک تھا۔ آپ نے کسی قادیانی اپنے مناظرہ کا واقعہ سنایا ۔ قادیانی کا کا استدلال تھا کہ مرزا غلام احمد کی نبوت کی دلیل یہ ہے کہ اس کے پاس وحی آتی تھی۔ حضرت مفتی صاحب نے کہا کہ وحی آنا تو نبوت کی دلیل نہیں ؛ اس لیے کہ وحی تو عورتوں کے پاس آتی تھی جیسا کہ قرآن میں ہے: وَاَوْحَیْنَا اِلٰی اُمِّ مُوْسَی اَنْ اَرْضِعِیْہِ(سورة القصص ۲۸، آیت ۷) جب کہ اللہ تعالی نے قرآن میں صاف صاف فرمادیا کہ صرف مردوں کو نبی اور رسول بنایا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:وَمَا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ(سورة الانبیاء۲۱، آیت ۷)۔ صر ف یہی نہیں بلکہ وحی انسانوں کے علاوہ حیوانات کو بھی ہوئی ہے، قرآن میں اللہ تعالی ارشاد ہے: وَاَوْحَی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ (سورة النحل۱۶، آیت ۶۸)۔ اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے جمادات کو بھی وحی کی گئی ہے، جیسا کہ سورة الزلزال میں اللہ تعالی نے زمین کی طرف وحی کی نسبت کی ہے، ارشاد ہوا : اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا (1) وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا (2) وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَہَا (3) یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا (4) بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحَی لَہَا (سورة الزلزلة ۹۹، آیت ۱-۵) ۔ مفتی صاحب نے اس قادیانی مناظر سے کہا کہ اگر وحی کا آنا نبوت کی دلیل ہے تو کیا ام موسی، نحل یا ارض کو بھی نبی مانا جاسکتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا کہ وحی کی ایک اور قسم ہے جو شاید مرزا غلام احمد کو آئی ہو اور اس میں ہمیں کوئی شبہ نہیں،قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَاِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَآئِہِمْ لِیُْجَادِلُوْکُمْ (سورة الانعام ۶، آیت ۱۲۱) یعنی شیطان اپنے چیلوں کو سکھاتا پڑھاتا ہے تاکہ وہ اہل حق سے جھگڑا کریں۔ بالآخر مفتی صاحب کے اس جواب سے قادیانی مناظر بھونچکا رہ گیا۔
علمائے زمانہ آپ کی فقیہانہ بصیرت اور علمی گہرائی کی معترف و مداح رہے ہیں۔ آپ کی حکمت وبصیرت سے لاینحل مسائل لمحوں میں حل ہوجاتے تھے اور انداز تکلم ایسا تھا کہ مشکل سے مشکل بات مخاطب کے دل نشیں ہوجائے۔ اللہ تعالی نے آپ کو خوش طبعی اور بذلہ سنجی سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔
فقہی خصوصیات و کمالات
حضرت مفتی صاحب جیسی جامع شخصیت کے متعدد اہم گوشے ہیں جو اُن کو دوسرے بہت سے علماء و مشائخ سے ممتاز بناتے ہیں۔ تاہم تفقہ فی الدین اور علم شریعت آپ کی اہم خصوصیات تھیں۔ آپ کو اللہ تعالی نے بصیرت و تیقظ، فقہی مسائل میں کمالِ درک، کثرتِ مطالعہ، استحضار علوم، رسوخ فی العلم، فقہ و اصول فقہ میں اختصاصی مہارت، فہم سلیم اور احوال زمانہ سے بھر پور واقفیت عطا فرمائی تھی۔ یہی وہ ساری خصوصیات تھیں جن کی بنیاد پر آپ اپنے تمام اقران و امثال میں ممتاز و مخصوص مقام رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ہندوستان کے اسلامی علوم و فنون کی دو عظیم مراکز دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور کے مفتیٴ اعظم ہوئے اور آپ نے متعدد مدارس کے دارالافتاؤں کی مکمل رہبری و رہ نمائی کی سعادت حاصل کی۔ آپ سے شرف تلمذ پاکر مفتی بننے والوں کی تعداد سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے ۔ اس وقت ملک و بیرون ملک اکثر دارالافتاؤں میں آپ کے تربیت یافتہ تلامذہ فقہ و شریعت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
حضرت مفتی صاحب کے فتاوی پر اکابر کو اعتماد ابتدا سے ہی رہا ۔ اسی کمال اعتماد کی بنا پر مظاہر علوم اور دارالعلوم دیوبند میں فتوی نویسی کے عظیم منصب پر اکابرین نے آپ کا تقرر فرمایا۔ اگر کسی مسئلہ میں مفتیان کرام کی رائے مختلف ہوتی تو حضرت مفتی صاحب کی رائے اور تحقیق ہی عام طور پر آخری رائے اور فیصلہ کن سمجھی جاتی۔
حضرت مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند کے مسلکِ اعتدال کے بے مثال نمائندہ تھے۔ ایک طرف آپ نے دین کے سلسلہ تصلب اختیار کیا اور دوسری طرف امت کی واقعی ضروریات میں بھی یسر کے پہلو پر نظر رکھی۔ ایک طرف آپ فقہ حنفی پر سختی سے پابند تھے اور عقائد و عبادات میں فقہ حنفی سے خروج کو کسی صورت گوارا نہیں کرتے تھے؛ لیکن معاملات اور خاص کر معاملات کی نئی صورتوں میں ائمہ فقہ سے بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت تلفیق کے بھی قائل تھے۔بدعات و رسوم کے سلسلہ میں حضرت مفتی صاحب کا انداز یہ تھا کہ پہلے یہ طے فرماتے کہ کسی بھی رسم یا روایت کو بر بنائے عبادت انجام دیا جارہا ہے اور التزام کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے یا نہیں؛ اگر دین سمجھ کر التزام کے ساتھ کسی کام کو کیا جاتا اور اس کے تارک کو ملامت کی جاتی تو اب اس کے بدعت گردانتے۔ دوسری طرف اجتہاد کا دروازہ کھول کر ہر کس و ناکس کو امورِدین میں دخل اندازی کا موقع فراہم کرنے واکوں اور تجدد و اباحت اور آزاد خیالی و کج فکری کے داعی لوگوں کے خلاف بھی آپ نے واضح انداز اختیار کیا اور تحقیق کے نام پر من مانی تشریحات کو سند ِ جواز دینے اور امت کو سہولت دینے کے پرفریب عنوان پر آزادانہ طرز فکر اپنانے کی سختی سے مخالفت کی۔ اس کے باوجود آپ کے یہاں تکفیر کے بارے میں احتیاط کا پہلو نمایاں رہتا اور اگر صراحةً کسی معاملہ میں تکفیر کی نوبت آبھی جاتی تو راست جملوں سے بچتے ہوئے اصولی انداز اختیار کرتے اور لکھتے کہ’ ’ایسے عقائد اپنانے سے ایمان سلامت نہیں رہتا“۔
حظر و اباحت کے مسائل میں عرف کو مدار بنا کر جواز و عدمِ جواز کا فیصلہ فرماتے اور اس کے لیے صرف بیانِ حکم پر اکتفا فرماتے۔ معاشرت و تمدن کے سلسلہ میں وہ مسائل جن میں امت مسلمہ دوسری اقوام کی نقالی کرنے لگی ہے جیسے لباس ، رہن سہن اور رسوم و عادات ، ان مسائل میں اگر وہ امور غیر مسلم اقوام کے شعار کی حیثیت رکھتے تو بر بنائے تشبہ ممنوع ہونے کا فتوی دیتے اور جو امور غیر مسلمین کا شعار نہ ہوتے ان کے مباح ہونے کا فتوی دیتے ، لیکن اجتناب کی بھی تلقین کرتے۔ معاملات کی وہ مسائل جن کا تعلق ایسے امور سے ہوتا جن کے متعلق قطعی تحقیق نہ ہوتی تو کوئی قطعی حکم نہ لگاتے ، مثلاً کوکاکولا، سینٹ، صابون، بسکٹ، ٹوٹھ پیسٹ وغیرہ کے سلسلہ میں کہتے کہ ان اشیاء میں نجس اجزا کی ملاوٹ کی تحقیق نہیں اس لیے ان کے متعلق حرمت کا فتوی نہیں دیا جاسکتا۔
حضرت مفتی صاحب کی علمی یادگاروں میں سب سے ممتاز فتاوی محمودیہ ہے جو پچیس جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ آپ کے فتاوی کا یہ انسائیکلوپیڈیا اپنی جامعیت کے اعتبار سے بے نظیر ہے جس میں فقہ و فتاوی، تفسیر آیات، تشریحات حدیث ، فرق باطلہ کی تردید کے ساتھ ساتھ جدید مسائل پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
مفتی محمد اللہ خلیلی قاسمی
ناظم شعبہٴ انٹرنیٹ و آن لائن فتوی ویب، دارالعلوم دیوبند
موبائل: 91-9457049675
ای میل : khaliliqasmi@gmail.com

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے