دینی مدارس کی بین الاقوامی تحریک اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند


محمد اللہ خلیلی قاسمی
khaliliqasmi@gmail.com

برصغیر ہند میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے اپنی سیاسی مصالح کے پیش نظر اسلامی علوم و فنون کی قدیم درسگاہوں کو یکسر ختم کردیا تھا۔ علماء و اہل علم کی بڑی تعداد کو تہہ تیغ کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مدارس کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ ہندوستان میں مسلم سلطنتوں کے زمانے میں مدارس کا نظام عموماً اوقاف کی آمدنیوں یا مسلم حکمرانوں، نوابوں اور امراء و روٴساء کی سرپرستی میں چلتا تھا۔ مسلم حکمرانوں اور مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد برطانوی تسلط کے زمانے میں شدید ضرورت تھی کہ نہ صرف اسلامی علوم و فنون اور اسلامی تہذیب کی بقا کے لئے بلکہ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ایک دینی و تعلیمی تحریک شروع کی جائے جو مسلمانوں کو الحاد و بے دینی کے فتنہ عظیم سے محفوظ رکھ سکے۔ غیور اور باہمت علماء نے اس عظیم ضرورت کا بروقت ادراک کیا اور اسی کے نتیجہ میں دارالعلوم دیوبندکا قیام عمل میں آیا۔
دارالعلوم دیوبند صرف ایک دینی تعلیم کا مدرسہ نہیں تھا،بلکہ وہ ایک دینی و تعلیمی تحریک تھی۔ اس تحریک کے بنیادی عناصر ’اصول ہشت گانہ‘ میں وضع کیے گئے جن سے آئندہ ہندوستان میں مضبوط و مستحکم دینی تعلیمی نظام کی بنیاد پڑی۔ پہلا بنیادی اصول یہ تھاکہ مدارس کو حکومت و امراء کی سرپرستی سے نکال کر اسے جمہور اور عوام سے جوڑا گیا ۔ عوام کے چندوں سے چلنے والے اس نظام میں استحکام بھی تھا اور سماج کے ہر طبقہ سے بھر پور ربط،جس کی وجہ سے تعلیم سماج کے ہر حلقہ میں پہنچنے لگی۔ دوسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ مدارس کا نظام شورائی بنیادوں پر قائم ہو تاکہ اس کی کارکردگی زیادہ بہتر ہواور اس کے نظام میں شفافیت ہو۔ گویا ہندوستان میں جمہوری سیاسی نظام شروع ہونے سے پون صدی قبل ہی دارالعلوم نے جمہوری اداروں کی بنیاد رکھ دی تھی۔
دارالعلوم دیوبند نے نصاب بھی ایسا مرتب کیا جو حالات زمانہ سے بالکل ہم آہنگ تھا اور اسلامی ہند کے تمام نظامہائے تعلیم کی خوبیوں کا جامع تھا۔ دارالعلوم نے ولی اللہی نصاب سے قرآن و حدیث، فرنگی محل کے نصاب سے فقہ اور خیرآباد کے نصاب سے معقولات کو لے کر ایسا جامع و حسین گلدستہ تیار کیا کہ جس کی دل آویز خوشبو کی کشش سے دیوبند میں ہند و بیرون ہند کے طالبان علوم اسلامیہ کا جمگھٹا لگ گیا۔
دارالعلوم کے طرز پر مدارس کا قیام
ہندوستان میں مدارس کا سابقہ نظام تیرہویں ہجری تک تقریباً ختم ہوچکا تھا، کہیں کہیں مقامی حیثیت کے حامل کچھ خزاں رسیدہ مدارس کا وجود برائے نام باقی تھا جن میں علوم معقولہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حدیث و تفسیر وغیرہ کی تعلیم کا بہت ہی کم رواج تھا، اس کے برعکس دارالعلوم کا قیام ولی اللّٰہی طرزِ فکر پر عمل میں آیا تھا، اس لئے یہاں علوم معقولہ کے بجائے زیادہ اہمیت علوم منقولہ تفسیر و حدیث اور فقہ کو دی گئی ۔ دارالعلوم کے قیام کے بعد بر صغیر میں جتنے بھی دینی مدارس جاری ہوئے ان میں بھی کم و بیش دارالعلوم کے اسی طریقہ کو پسند کیا گیا۔ قیام دارالعلوم کے چھ ماہ بعد رجب ۱۲۸۳ھ (نومبر۱۸۶۶ء) میں سہارنپور میں مدرسہ مظاہر علوم جاری ہوا تو اس میں بھی وہی نصاب جاری کیا گیا جو دارالعلوم میں جاری تھا، پھر رفتہ رفتہ دارالعلوم کے نقش قدم پر مختلف مقامات میں دینی مدارس جاری ہوگئے۔ ۱۲۸۵ھ/ ۱۸۶۶ء کی روداد میں تحریر ہے: ”ہم نہایت خوشی ظاہر کرتے اس امر پر کہ اکثر حضرات باہمت نے اجراء مدارس عربی کو توسیع دینے میں کوشش کرکے مدارس بمقامات مختلفہ دہلی، میرٹھ، خورجہ، بلند شہر و سہارنپور وغیرہ میں جاری فرمائے اور دوسری جگہ مثل علی گڑھ وغیرہ اس کار کی تجویزیں ہورہی ہیں“۔ (۱)
دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر اس وقت جومدارس جاری ہوئے دارالعلوم کی رودادوں میں تفصیل سے اس کے حالات لکھے گئے ہیں، ۱۲۹۷ھ/ ۱۸۸۰ء کی روداد میں تحریر ہے: ”ہم کمال خوشی سے یہ بات ظاہر کرتے ہیں اور منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال میرٹھ، گلاوٴٹھی، دان پور میں مدارس اسلامی جدید جاری ہوئے اور ان کا تعلق کم و بیش اس مدرسہ (دارالعلوم دیوبند) سے ہوا اور ان مقامات کے باشندوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور خدائے عز وجل کی جناب میں دعا کرتے ہیں کہ ان مدارس کو قیام ہو اور روز بروز ترقی پکڑیں اور بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کے مسلمانوں کو اس کارِ خیر کی تقلید کی توفیق ہو، اے خدا پاک! وہ دن دکھلا کہ کوئی بستی اس دولت پائیدار سے خالی نہ رہے اور ہر گلی کوچے میں علم کا چرچہ ہو او رجہل عالم سے کافور ہو، آمین!“۔(۲)
مشہور شہر میرٹھ میں حضرت نانوتوی نے اپنے آخری زمانہٴ قیام میرٹھ میں ایک اسلامی مدرسہ قائم کیا تھا، یہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی شاخ تھا، اس کے اولین اساتذہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل فضلا ء تھے۔ مفتی عزیزالرحمن دیوبند اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی جو علی الترتیب بعد میں دارالعلوم کے مفتیٴ اعظم اور مہتمم ہوئے، اس مدرسہ کے مسند درس کو زینت بخشتے رہے، مولانا قاضی زین العابدین سجاد اور مولانا سراج احمد میرٹھی جیسی مقتدر ہستیاں اس مدرسہ کے اولین طلبہ میں شامل تھیں۔
مرادآباد مدرسہ کے قیام کے بارے میں ۱۲۹۷ھ کی روداد میں لکھا ہوا ہے: ”مرادآباد ایک مشہور و معروف شہر ہے وہاں کے غریب مسلمانوں نے حسب ایماء حضرت نانوتوی عرصہ دو تین سال سے ایک مدرسہ اسلامی جاری کیا، اگرچہ اوائل میں یہ کارخانہ مختصر تھامگر ماشاء اللہ یہ مدرسہ اچھے عروج پر ہے اور یوماً فیوماً امید ترقی ہے۔ واقعی اس مدرسہ کے جملہ کارپردازان نہایت زیرک اور امانت دار و دیانت دار ہیں، خداوند تعالیٰ ان کی سعی میں برکت عطا فرمائے اور اس کارخانہ کو قائم رکھے۔ اور زیادہ تر ترقی بخشے۔ آمین۔(۳)
مرادآباد کا یہ مدرسہ جامعہ قاسمیہ کے نام مرادآباد کی شاہی مسجد میں قائم ہے ۔ دارالعلوم کے ابتدائی دور میں جو مدارس جاری ہوئے ان میں مظاہر علوم سہارن پور کے بعد جامعہ قاسمیہ نے سب سے زیادہ ترقی کی۔مشہور علمائے کرام کی کوششوں کے باعث اس مدرسہ کوبڑی شہرت حاصل رہی اور یہاں سے پڑھ کر مشہور علماء پیدا ہوئے۔
حرمین شریفین میں دارالعلوم کے طرز پر مدارس کا قیام
دارالعلوم کے قیام کے بعد ہی مکہ مکرمہ میں مشہور عالم دین حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مدرسہ صولتیہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ شعبان ۱۲۹۰ھ (۱۸۷۳ء) میں دارالعلوم کے ہی خطوط پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں ہی ایک دوسرا مدرسہ مولانا اسحاق امرتسری نے قائم کیا جو دارالعلوم کے فیض یافتہ تھے۔ مدینہ منورہ میں حضرت مولانا سید احمد فیض آبادی ( خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیو برادر اکبر حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ) نے ۱۳۴۰ھ (۱۹۲۱ء) میں مدرسہ العلوم الشرعیہ قائم فرمایا۔ یہ مدرسہ اہل مدینہ کے بہت بافیض ثابت ہوا اور مدتوں تک ان مدرسہ کا شمار سعودی عرب کے بڑے مدرسوں میں ہوتا تھا اور اس کے فضلاء میں نمایاں اہل علم و فضل پیدا ہوئے۔ (۴)
مدرسہ صولتیہ اور مدرسہ شرعیہ کی پرانی عمارتیں حرم مکی اور حرم مدنی کے بہت قریب تھیں ، لیکن اب وہ حرم کی توسیع کے بعد حرمین شریفین کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ دونوں مدرسے اس وقت تک قائم ہیں، لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر نظام و نصاب میں کافی تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔
ہند وستان میں اسلامی مدارس کا جال
اس موقع پر یہ بات یاد رہے کہ آج مدارس کا قیام کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا مگر ڈیڑھ سو سال پہلے کا خیال کیا جائے جب اس طرح کے مدارس کا رواج نہیں تھا، اور لوگ قیامِ مدارس کے طریقے اور ان کی ضرورت سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ ان حالات میں حکومت کی امداد و اعانت کے بغیر صرف مسلمانوں کے چندہ کے بھروسے پر دینی مدارس جاری کرنا ایک زبردست کام تھا۔دارالعلوم دیوبند کا علمی فیضان محض عالم بنادینے تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اس کے ہمہ گیر افراد نے ایسا ماحول بھی پیدا کیا جس سے جابجا دینی مدارس قائم ہوتے چلے گئے، دارالعلوم کے قیام کے بعد ملک میں جس کثرت سے دینی مدارس قائم ہوئے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس وقت مسلمانوں میں دینی مدارس قائم کرنے کا شدید جذبہ موجود تھا؛ لیکن اجراء مدارس کے قدیم وسائل چوں کہ یکسر ختم ہوچکے تھے اس لیے ہمتیں پست ہوگئیں تھیں، مگر جب دارالعلوم دیوبند نے پہل کی تو مسلمانوں کے سامنے ایک نئی شاہ راہ کھل گئی اسی کے ساتھ بعض مدارس کے منتظمین نے دارالعلوم کی حیثیت کو مرکزی قرار دے کر مناسب سمجھا کہ اپنے اپنے مدرسوں کو دارالعلوم دیوبند کے زیر اثر ایک سلسلے میں منسلک کردیں۔
اس وقت سے لے کر اب تک برصغیر کے طول و عرض میں بحمداللہ بے شمار دینی مدارس جاری ہوچکے ہیں، اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ جو مدرسے دارالعلوم کے مزاج و مذاق سے ہٹے ہوئے ہیں یا دارالعلوم کے نصاب تعلیم کی اتباع نہیں کرتے ہیں ان کا نظام بھی دارالعلوم کے وضع کردہ بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج برصغیر میں جس قدر بھی دینی مدارس نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر یا اس کے قائم کردہ اثرات سے جاری ہوئے ہیں؛ اس طرح دارالعلوم دیوبند کا وجود اسلام کی جدید تاریخ میں ایک عہد آفریں حیثیت رکھتا ہے، اور یہیں سے اس وقت پورے برصغیر میں دینی تعلیم گاہوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔
دارالعلوم کے مزاج و منہاج پر اس وقت پورے ہندوستان کے طول و عرض میں بلاشبہہ ہزاروں مدارس قائم ہیں جن میں بہت سے مدرسوں کا دارالعلوم سے باقاعدہ الحاق بھی ہے۔ ہندوستان کے جملہ مدارس کو باہم مربوط کرنے کے لئے رابطہ مدارس عربیہ دارالعلوم دیوبند کا مرکزی دفتر سرگرم عمل ہے جس سے اس وقت ڈھائی ہزار سے زائد مدارس عربیہ باضابطہ مربوط ہوچکے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے ملک کے دینی مدارس کا یہ ارتباط جماعت دیوبند کی شیرازہ بندی ، علمی تنظیم، فکری اتحاد اور یگانگتِ باہمی کا ایک مفید اور موٴثر ذریعہ ہے۔
ہندوستان میں موجود مدارس کا کوئی حتمی اعدا و شمار موجود نہیں تاہم چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد ہے۔ یہ تعداد ان لاکھوں مکاتب کے علاوہ ہے جو تقریباً ہر مسجد اور مسلم محلہ میں قائم ہوتے ہیں۔(۵)
پاکستان و بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے دینی مدارس
پاکستان میں بھی اسی نہج پر ہزاروں مدرسے قائم ہیں جن کے بڑے مدرسوں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان مدارس میں جن میں دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوریہ کراچی، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ کھٹک، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ فاروقیہ کراچی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں وفاق المدارس کے تحت دس ہزار کے قریب مدراس کا متحدہ پلیٹ فارم بھی قائم ہے جن میں اکثریت دیوبندی مدارس کی ہے۔ پاکستانی مدارس میں افغانستان، سینٹرل ایشیائی ممالک اور یورپ و امریکہ کے طلبہ بھی کثیر تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان مدارس کا نظم و نسق بھی معیاری ہے اور ان کے زمینی رقبہ اور تعداد طلبہ بھی بہت زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی دینی مدارس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جن میں جامعہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری(چاٹگام، بنگلہ دیش) کا سب سے قدیم اور بڑا مدرسہ ہے جو ۱۸۹۶ء میں قائم ہوا ۔(۶) اس کے علاوہ چٹاگانک، ڈھاکہ، سلہٹ وغیرہ میں متعدد بڑے مدارس موجود ہیں جن میں جامعہ عربیہ اسلامیہ زیری پٹیا قائم شدہ ۱۹۱۰ء(۷)، جامعہ اسلامیہ یونسیہ برہمنباریہ قائم شدہ ۱۹۱۴ء(۸) ، حضرت مولانا اطہر علی سلہٹی کا قائم کردہ کشور گنج میں جامعہ امدادیہ (۹)، حضرت مولانا شمس الحق فریدپوریکا ۱۹۵۰ء میں قائم کردہ جامعہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ(۱۰) ، جامعہ محی السنہ میخل چاٹگام ،جامعہ اسلامیہ عزیز العلوم بابو نگر قائم شدہ ۱۹۲۴ء(۱۱)، جامعہ لطفیہ انوار العلوم حمید نگر(۱۲)، جامعہ رحمانیہ ڈھاکہ (۱۳)، جامعہ اسلامیہ نانو پور قائم شدہ ۱۹۷۵ء (۱۴) ، جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم چریا قائم شدہ ۱۹۴۳ء (۱۵)، جامعہ اسلامیہ دارالعلوم مدنیہ جتراباری ڈھاکہ قائم شدہ ۱۹۶۹ء(۱۶) ، جامعہ مدنیہ انگورہ محمد پور(سلہٹ) قائم شدہ ۱۹۶۱ء(۱۷) وغیرہ اہم اور بڑے مدارس ہیں۔ مرکز التحقیق الاسلامی(اسلامک ریسرچ سینٹر ) بشوندرا ڈھاکہ بھی بنگلہ دیش کا نمایاں ادارہ ہے جس میں فقہ و فتاوی اور دیگر موضوعات پر تخصصات کے کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں پرائیویٹ مدارس کو قومی مدارس کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کے دو سو مدارس میں دورہٴ حدیث کی تعلیم دی جارہی ہے جب کہ تین سو سے زائد اداروں میں تکمیلات (یعنی دورہٴ حدیث سے فراغت کے بعد کے تخصصاتی کورسز)کے درجات قائم ہیں۔ علاوہ ازیں، ثانوی، ابتدائی عربی اور حفظ کے مدارس کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہے۔ (۱۸)
قابل ذکر بات یہ ہے ان مدارس میں ذریعہٴ تعلیم اردو زبان ہی ہوا کرتی تھی، لیکن اب بنگلہ زبان اس کی جگہ لے رہی ہے اور عربی زبان کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔
ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ برصغیر کے قریب دیگر ملکوں جیسے مشرق میں برما، شمال میں نیپال، مغرب میں افغانستان و ایران اور جنوب میں سری لنکاوغیرہ میں بھی درس نظامی کے بے شمار مدارس دارالعلوم کے طرز پر قائم ہیں۔
بر اعظم افریقہ کے دینی مدارس
براعظم افریقہ میں درس نظامی کے دینی مدارس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مشرقی اور جنوبی افریقہ کے ممالک زامبیا،تنزانیہ، موریشش،ملاوی ، کانگو وغیرہ میں ہندوستانی نسل کے علماء و اہل ثروت نے بہت سے مدارس قائم کیے ہیں جو براعظم افریقہ میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ خاص طور پرساؤتھ افریقہ میں دارالعلوم کے طرز کے سیکڑوں چھوٹے بڑے مدارس قائم ہیں، جہاں افریقہ، یورپ اور امریکہ تک کے طلبہ داخل رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں گذشتہ صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی میں افریقی ممالک خصوصاً ساوٴتھ افریقہ کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد ہوا کرتی تھی، لیکن ویزہ کے سلسلہ ہندوستانی حکومت کی پابندیوں اور دیگر مشکلات کی وجہ سے یہ تعداد کم ہوتے ہوتے بالکل صفر تک آچکی ہے۔ اس صورت حال کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ساؤتھ افریقہ میں آہستہ آہستہ متعدد اہم اور بڑے مدرسے قائم ہوگئے جو دارالعلوم دیوبند کے نہج پر چل رہے ہیں ۔ اس حکمت عملی سے نہ صرف ساوٴتھ افریقہ کے مسلمان دینی تعلیم کے سلسلہ میں خود کفیل ہوگئے بلکہ یہ مدارس بین الاقوامی حیثیت کے حامل ہوگئے اور ان میں متعدد افریقی، ایشیائی اور یوروپی ممالک کے طلبہ تعلیم پا رہے ہیں۔یہ ادارے نظم و نسق کے اعتبار سے بہت اعلی معیار پر قائم ہیں کیوں کہ اس ملک میں معیار زندگی بھی بلند ہے اور ان مدارس میں متمول خاندانوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ساؤتھ افریقہ میں دینی مدارس کا نظام عموماً ہندوستانی نسل کے گجراتی مسلمانوں نے قائم کیا ہے جو اس ملک میں اپنی پوری دینی و فکری اور جماعتی خصوصیات کے ساتھ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے دینی مدارس کے قیام کے ساتھ تبلیغی جماعت کے مراکز اور تصوف و سلوک کی خانقاہیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ حکومت کی جمہوری اور انصاف پسند پالیسیوں کی وجہ مسلمانوں کو دینی مدارس کے قائم کرنے اور ان کا نظام چلانے میں بہت سی سہولیات حاصل ہیں۔ نیز، ہندوستانی نسل کے مسلمانوں کی اس ملک کی آزادی اور ترقی میں نمایاں خدمات رہی ہیں ۔یہاں کے مسلمان دینداری و امانت داری ، اخلاق و رواداری اور امن و امان جیسی خصوصیات کی وجہ سے اچھی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے علماء عموماً دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور کے تعلیم یافتہ ہیں۔ قدیم فضلاء میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو حضرت علامہ انور شاہ کشمیری یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں، تعلیم و تصوف میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ، حضرت مولانا شیخ محمد زکریا کاندھلوی، حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی اور حضرت مونالا مفتی محمود حسن گنگوہی سے وابستہ حضرات کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے۔
جنوبی افریقہ کے مدارس بنیادی طور پر دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سے وابستہ ہیں اور تعلیمی و فکری طور پر انھیں مراکزکو اپنا رہ نما تسلیم کرتے ہیں ، لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی تعلیمی نظام میں مفید اصلاحات و تغیرات کو بھی راہ دی ہے جو ہندوستان میں نظر نہیں آتی۔ تقریباً اکثر مدارس نے ملکی تعلیمی نظام کو دینی تعلیم کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کردیا ہے کہ بچہ لازمی قومی تعلیم بھی حاصل کرلیتا ہے اور دینی تعلیم سے بھی محروم نہیں رہتا۔ نیز، چوں کہ ساوٴتھ افریقہ کی سرکاری زبان انگریزی ہے اور وہاں کے باشندے انگریزی زبان بولتے ہیں؛ اسی لیے بہت سے مدارس نے درس نظامی کی اردو کے بجائے انگریزی میں تدریس شروع کردی ہے ۔ علاوہ ازیں، متعدد مدارس نے نصاب میں بھی اہم تبدیلیاں کی ہیں اور پورے تعلیمی دورانیہ کو کم کیا ہے۔ نیز، بعض مدارس میں روایتی کورسز سے ہٹ کر کچھ دیگر کورسز جیسے امامت کورس اور دعوت کورس وغیرہ بھی قائم ہیں۔
واٹر وال اسلامک انسٹیٹیوٹ جنوبی افریقہ کا قدیم ترین دینی ادارہ ہے جو ۱۹۴۰ء میں قائم ہوا۔یہ ادارہ سینڈٹن میں قائم ہے جوہانسبرگ اور پریٹوریا کے درمیان واقع ہے۔ اس ادارہ کے بانی مولانا محمد بن موسیٰ بن موسیٰ اسماعیل میاں (متوفی ۱۹۶۳ء) ہیں جو حضرت علامہ انورہ شاہ کشمیری  کے شاگرد اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ (۱۹)یہ جنوبی افریقہ کا پہلا اقامتی ادارہ تھا۔ اس ملک کے مسلمانوں پر اس ادارہ کے گہرے اثرات ہیں۔ بعد میں مولانا ابراہیم میاں اور مفتی احمد میاں اس ادارہ کے ذمہ دار ہوئے۔
دارالعلوم نیو کیسل (کوازولو نٹال) کا قیام ۱۹۷۱ء میں ہوا ، اس کے بانی مولانا محمد قاسم محمد سیما ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے۔اس مدرسہ میں چھ سالہ فضیلت کورس پڑھایا جاتا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ تدریس کی زبان انگریزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مدرسہ میں غیر ملکی طلبہ کی کثرت ہے۔(۲۰)
المدرسة العربیة الاسلامیة (دارالعلوم آزاد ویل) ساوٴتھ افریقہ کے اہم اور بڑے مدارس میں ہے۔ مولانا عبد الحمید فاضل دیوبند نے اس مدرسہ کو ۱۹۸۱ء میں قائم کیا تھا۔ اس وقت اس مدرسہ میں پانچ سو سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور دورہٴ حدیث کی تعلیم کے علاوہ دارالافتاء اور شعبہٴ دعوت وغیرہ قائم ہیں۔ (۲۱)
دارالعلوم زکریا (لینیشیا ،جوہانسبرگ) ساوٴتھ افریقہ کا اہم ترین اور بڑا مدرسہ ہے جو ۱۹۸۳ء میں قائم ہوا۔ اس مدرسہ کے بانی مولانا مفتی شبیر احمد سالوجی (خلیفہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی) ہیں۔ اس مدرسہ میں دورہٴ حدیث کے ساتھ تکمیل افتاء و تکمیل ادب عربی کے درجات قائم ہیں۔ مدرسہ میں غیر ملکی طلبہ بھی کثیر تعداد میں داخل ہوتے ہیں۔ اس مدرسہ نے عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں اہم علمی اور تحقیقی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ یہ جماعت تبلیغ کا بھی مرکز ہے۔ (۲۲)
مدرسہ انعامیہ کیمپر ڈاوٴن(کوازولو نٹال) : یہ مدرسہ اپنے دارالافتاء اور مفتی ابراہیم دیسائی کی وجہ سے مشہور ہے ، مدرسہ کی مقبول عام فتوی ویب سائٹ سے دنیا بھر کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر استفتاء ات کے جوابات انگریزی میں دیے جاتے ہیں۔ (۲۳)
مدرسہ تعلیم الدین اسپنگو بیچ بھی ساؤتھ افریقہ کا اہم مدرسہ ہے جس میں عالمیت کی تعلیم ہوتی ہے۔ اس مدرسہ کے مہتمم مولانا ابراہیم صالح جی ہیں جو حضرت مولانا مسیح اللہ جلال آبادی اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی کے خلفاء میں ہیں۔ (۲۴)
مدرسہ جامع العلوم نیو ٹاؤن (جوہانسبرگ) اس مدرسہ کے بانی مولانا سلمان پانڈور اور مولانا احمد درویش ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی  کے خلفاء میں ہیں ۔ (۲۵)
اسی طرح دارالعلوم ابو بکر پورٹ ایلزبتھ اور جامعہ محمودیہ اسپرنگس وغیرہ میں بھی عالمیت کی تعلیم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں دیگر مدارس بھی ہیں جن میں دارالعلوم کے طرز پر عربی تعلیم کا نظم قائم ہے۔
برطانیہ کے بڑے دینی مدارس
بر اعظم یورپ میں خصوصاً برطانیہ میں متعدد بڑے دارالعلوم اور مدارس قائم ہیں جہاں درس نظامی کی تعلیم ہوتی ہے اور دارالعلوم کے طرز پر دینی تعلیم کا بہترین نظم موجود ہے۔برطانیہ کے بڑے دینی مدارس میں دارالعلوم بری، دارالعلوم لندن، دارالعلوم برمنگھم، دارالعلوم لیسٹر ، دارالعلوم بولٹن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں کے دینی مدارس کا رنگ بھی ساوٴتھ افریقہ کے مدارس کی طرح ہے جس میں عموماً حفظ و تجوید کے ساتھ عالمیت کی تعلیم ہے۔ عالمیت کی تعلیم کا دورانیہ عموماً چھ سال ہوتا ہے۔کچھ مدارس میں عالمیت کی تکمیل کے بعد افتاء وغیرہ کے درجات بھی قائم ہیں۔ ان مدارس کا ذریعہٴ تعلیم بھی عموماً اردو ہے، لیکن عربی اور اسلامیات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قومی لازمی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے مدارس میں فیس کا نظام بھی قائم ہے۔ علاوہ ازیں، برطانوی حکومت کے ادارہ Ofsted کی زیر نگرانی ان مدارس کے تعلیم اور دیگر سہولیات کو ایک متعین معیار پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں کے مدارس نظم و ضبط اور سہولیات کے اعلی معیار پر ہیں۔ برطانیہ کے مدارس میں غیر ملکی طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں جو عموماً نیوزی لینڈ، ری یونین اور امریکہ و کناڈا سے تعلق رکھتے ہیں۔
دارالعلوم بری کی تاسیس ۱۹۷۳ء میں عمل میں آئی ، اس مدرسہ کے سربراہ حضرت مولانا محمد یوسف متالا صاحب ہیں جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی  کے شاگرد اور ان کے خلیفہ ہیں۔ یہ برطانیہ کا سب سے بڑا اور قدیم مدرسہ ہے جس میں پانچ سو سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حضرت مولانا یوسف متالا صاحب برطانیہ کی بافیض شخصیات میں سے ہیں جو برطانیہ وغیرہ میں متعدد مدارس و معاہد کی سرپرستی کرتی ہیں ۔ (۲۶)
جامعہ ریا ض العلوم لیسٹر بھی برطانیہ کا اہم مدرسہ ہے جسے مولانا محمد سلیم دوھرات صاحب نے قائم کیا ہے۔ اس مدرسہ میں حفظ و تجوید کے ساتھ عالمیت کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ کے ایک نمایاں ادارہ اسلامک دعوة اکیڈمی (IDA)کے تحت قائم ہے جس کا قیام ۱۹۹۱ء میں عمل میں آیا ۔ یہ برطانیہ میں متنوع اقسام کی علمی و دعوتی خدمات دینے والا اہم ادارہ ہے۔ (۲۷)
برطانیہ کے دارالحکومت لند ن میں قائم ہونے والا دارالعلوم لندن برطانیہ کے قابل ذکر مدارس میں ہے۔ اس کی تاسیس ۱۹۸۸ء میں عمل میں آئی۔ اس میں سات سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مدرسہ میں حفظ و تجوید کے ساتھ عالمیت کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ (۲۸)
دارالعلوم بولٹن(گریٹر مانچسٹر) بھی برطانیہ کا اہم مدرسہ ہے جو ۱۹۹۳ء میں قائم ہوا۔ اس مدرسہ میں بھی حفظ کے ساتھ عالمیت کی تعلیم کا نظم ہے۔(۲۹)
دارالعوم بلیک برن (لنکاشائر) جس کو جامعة العلم والھدیٰ بھی کہاجاتا ہے، برطانیہ کے اہم مدرسوں میں سے ہے جس کو مفتی عبد الصمد احمد صاحب نے ۱۹۹۷ء میں قائم کیا۔ اس میں عالمیت کے ساتھ افتاء کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ (۳۰)
دارالعلوم برمنگھم قائم شدہ ۱۹۸۴ء (۳۱) اور دارالعلوم لیسٹر (۳۲) میں بھی حفظ کے ساتھ عالمیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ان مدارس کے علاوہ برطانیہ میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کے مدارس بھی قائم ہیں۔
امریکہ و کناڈا میں دینی مدارس
امریکہ و کناڈا میں درس نظامی کے متعدد مدارس قائم ہیں جو حفظ و تجوید اور عالمیت کی تعلیم دیتے ہیں۔
کناڈ امیں سب سے اہم ادارہ الرشید اسلامک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے ۱۹۸۰ء میں مولانا مظہر عالم صاحب نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کی کے ایماء پر قائم کیا تھا۔ پہلے یہ ادارہ مونٹریال میں تھا اور بعد میں کورنوال (اونٹاریو)منتقل ہوگیا۔ اس مدرسہ میں اس وقت نو سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مدرسہ میں حفظ کی تعلیم کے ساتھ عالمیت اور افتاء کی تعلیم کا نظم ہے۔ (۳۳)
کناڈا کا دوسرا اہم مدرسہ دارالعلوم کناڈا ہے جو اونٹاریو میں قائم ہے۔ اس مدرسہ میں بھی حفظ اور اردو کی تعلیم کے ساتھ عالمیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔(۳۴)
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں متعدد مدارس درس نظامی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ان مدارس میں دارالعلوم مدنیہ بفیلو (نیو یارک) امریکہ کا اہم مدرسہ ہے جسے مولانا اسماعیل میمن نے ۱۹۸۶ء میں قائم کیا۔ اس مدرسہ میں حفظ کے ساتھ عالمیت اور افتاء کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مدرسہ میں ڈھائی سوسے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ (۳۵)
انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن ۱۹۸۹ء میں شکاگو میں قائم ہونے والا امریکہ کا دوسرا اہم مدرسہ ہے (۳۶)جس کے بانی مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب ہیں جو دیوبند کے باشندہ، دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ تجوید اور مولانا محمد نعیم محدث دارالعلوم دیوبند کے صاحب زادے ہیں۔ اس ادارہ میں حفظ القرآن کے ساتھ عالمیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔
امریکہ و کناڈا میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کے مدارس بھی قائم ہیں۔ نیز، متعدد مدارس آن لائن بھی ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ درس و تدریس کے سہولیات مہیا کرتے ہیں۔
امریکہ و کناڈا کے علاوہ ویسٹ انڈیز میں بھی ایسے مدارس قائم ہوچکے ہیں جو دارالعلوم کے نہج پر علوم دینیہ کی تدریس و اشاعت میں مشغول ہیں۔ دوسری طرف مشرق میں ملیشیا، تھائی لینڈ، فیجی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ میں بھی درس نظامی کے مدارس قائم ہیں۔ خاص طور پر ملیشیا میں متعدد اہم مدارس ہیں جہاں حفظ و عالمیت کی تعلیم ہوتی ہے۔
خلاصہٴ کلام
دنیا بھر میں پھیلے دیوبندی مدارس کا دارالعلوم دیوبند یا مظاہر علوم وغیرہ مدارس سے کوئی آفیشیل اور باضابطہ رابطہ نہیں ہوتا ہے، وہ محض اس بنیاد پر دیوبندی مدارس سمجھے اور کہے جاتے ہیں کہ اس کے موٴسسین اور طلبہ و اساتذہ دیوبندی مکتبِ فکر کے حامل ہیں اور ان مدرسوں میں جو نصاب تعلیم رائج ہے وہ بنیادی طور پر درس نظامی ہے۔
مطلع دیوبند سے پھوٹنے والی علم کی یہ روشنی اس وقت الحمد للہ پورے عالم کو روشن کیے ہوئے ہے۔ ان مدارس سے استفادہ کرنے والے علماء و فضلاء پوری دنیا میں دینی علوم کی تدریس وتصنیف، دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت میں مشغول ہیں۔اس وقت دارالعلوم دیوبند نہ صرف ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش بلکہ افغانستان، وسط ایشیا، ملیشیا، تھائی لینڈ، برما، تبت، سیلون اور مشرقی و جنوبی افریقہ، یورپ ، امریکہ و آسٹریلیا کے ممالک کے مسلمانوں کے لیے ایک بین الاقوامی دینی تعلیم کی تحریک کا مرکز بن گیا ہے۔
حوالہ جات
(۱)روداد دارالعلوم دیوبند ۱۲۸۵ھ: ص۷۰
(۲)روداد دارالعلوم دیوبند ۱۲۹۷ھ: ص۶۳-۶۱
(۳) روداد دارالعلوم دیوبند ۱۲۹۷ھ: ص۶۳-۶۱
(۴) تاریخ دارالعلوم دیوبند ، جلد اول ، مرتبہ سید محبوب رضوی: ص ۴۵۶
(۵) مدرسہ ایجوکیشن ، مرتبہ محمد اللہ خلیلی قاسمی، ص ۷۸-۷۷
(۶)darululum-hathazari.com
(۷) jamiaislamiaziri.org
(۸) https://en.wikipedia.org/wiki/Jamia_Islamia_Yunusia,_Brahmanbaria
(۹) تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد دوم، ص۱۴۰
(۱۰) تاریخ دارالعلوم دیوبند، دوم، ص ۱۶۰
(۱۱) https://en.wikipedia.org/wiki/Al-Jamiatul_Islamiah_Azizul_Uloom_Babunagar
(۱۲) www.borunamadrasha.com
(۱۳) rahmaniadhaka.com
(۱۴) www.jamiaislamiaobaidia.com
(۱۵) chariamadrasha.org
(۱۶) https://en.wikipedia.org/wiki/Jamia_Islamia_Darul_Uloom_Madania
(۱۷) http://www.jameamadania.com/
(۱۸) https://en.wikipedia.org/wiki/Qawmi_Madrasas
(۱۹) تاریخ دار العلوم دیوبند ، جلد دوم ، ص ۱۵۳
(۲۰) http://darululoomnewcastle.co.za
(۲۱) http://www.dua.org.za
(۲۲) http://duz.co.za
(۲۳)www.askimam.org
(۲۴) http://alhaadi.org.za
(۲۵) افریقہ اور خدمات فقیہ الامت، مرتبہ مفتی فاروق احمد میرٹھی، ص ۲۶۹، ۲۷۸
(۲۶) https://en.wikipedia.org/wiki/Darul_Uloom_Bury
(۲۷) www.jru.org.uk – www.idauk.org
(۲۸)www.darululoomlondon.co.uk
(۲۹) boltondarululoom.org
(۳۰) www.jamiah.co.uk
(۳۱) www.darululoom.org.uk
(۳۲) www.darululoomleicester.org
(۳۳)www.alrashid.ca
(۳۴) www.ducanada.org
(۳۵) www.madania.org
(۳۶) www.iieonline.or

Related Posts