عصمت دری کے بڑھتے واقعات: اسباب و علاج

محمد اللہ خلیلی قاسمی
حالیہ کچھ برسوں میں ہندوستان کے اندر عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تقریباً روزآنہ ہی عصمت دری اور جنسی چھیڑ چھاڑ کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہی ۲۶/ منٹ پر ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق صرف ہندوستان کے دارالحکومت شہر دہلی میں مارچ ۲۰۰۴ء سے اپریل ۲۰۰۵ء کے درمیان عصمت دری کے ۳۱۸/ کیس درج کیے گئے، جب کہ ۲۰۰۵ء میں عصمت دری کے تقریباً ۶۰۰/ واقعات درج کیے گئے۔ NCRBکی رپورٹ کے مطابق ملک میں ۲۰۰۳ء کے اندر ۱۸۱۰۰/افرادپر عصمت دری کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔اکتوبر ۲۰۰۳ء تک ملک بھر کی عدالتوں میں عصمت دری زیر سماعت مقدمات کی تعداد ۵۶۰۰۰/ ہزار تھی۔
واقعہ کا انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ کچھ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آرہے ہیں جس میں صنف نازک کو عصمت دری کا شکار بنانے والا اس کا اپنا باپ یا کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا ہے۔۱۹۹۷ء ہی میں ساکشی وائلنس انٹروِنشن سینٹرنے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی تھی جس میں انھوں نے نئی دہلی کی ۳۵۰/ اسکولی لڑکیوں سے انٹرویو لیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ۶۳/ فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ انھیں اپنے گھر کے ہی کسی فرد کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہونا پڑا۔ جس میں سے تقریباً ایک تہائی لڑکیوں نے بتایا کہ ان کا جنسی استحصال کرنے والے یا تو باپ ہوتے تھے یا دادا یا فیملی کا کوئی قریبی مرد ساتھی۔
تاہم موجودہ اعداد و شمار تو وہ واقعات ہوتے ہیں جو پولیس اسٹیشنوں میں درج کیے جاتے ہیں، جب کہ اس نوعیت کے جرائم کی ایک بڑی تعداد تھانوں میں درج ہونے سے رہ جاتی ہے۔ لوگ عزت و ناموس کے نام پر یا پھر ملزم کے خوف سے رپورٹ ہی درج نہیں کراتے۔۲۷/ نومبر ۲۰۰۵ء ٹائمز آف انڈیا کے انٹرنیٹ شمارے کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں عورتوں کے خلاف جرائم میں صرف پانچ فیصد پولیس اسٹیشن تک پہنچ پاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار ان واقعات عصمت دری، جنسی چھیڑچھاڑ اور جنسی تشدد وغیرہ کے ہیں جو جرائم شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف سخت قوانین بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک رہی بات باہمی رضامندی سے زنا اور جسمانی تعلقات کی تو ان کا کوئی ذکر و شمار بھی نہیں ہے۔ یہیں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کھلے معاشرے میں جہاں باہمی رضامندی سے جسمانی تعلقات جرم نہیں ہیں، جہاں ملک کے تقریباً تمام ہی بڑے شہروں میں لائسنسی طوائف خانے کھلے ہوئے ہوں ، عصمت فروشی اور فحاشی کے اڈے موجود ہوں اور شہوانی خواہشات کی تکمیل کے تمام وسائل مہیا ہوں ،وہاںآ خر عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ بہ ظاہرہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوں جوں معاشرے میں کھلا پن اور آزادی کو فروغ ملتا اسی رفتار سے ان جرائم کی شرح گھٹتی جاتی۔ لیکن اس کے برعکس اس میں کافی اچھال آتا جارہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسانی نفسیات یہ ہے کہ اگر اس کی خواہشات کوبے لگام چھوڑ دیا جائے تو وہ کسی حد پر جا کر نہیں رک پاتی۔ آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ مغرب کی نقالی کی دھن میں ، ترقی کے نام پر تیزی کے ساتھ تباہی و بربادی کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مغرب جس آزادی و بے راہ روی کا تجربہ کرکے آج رجعت قہقری کی سوچ رہا ہے ، افسوس کہ آزادی اور ہوسناکی کا وہی پس خوردہ اب برصغیر اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہتھیانے کی فکر میں لگے ہیں۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ جوں جوں ہمارا ملک گلوبلائزیشن اور مغربی نقالی کی طرف بڑھ رہا ہے، یہاں جرائم خصوصاً عورتوں کے خلاف جرائم کا تناسب اسی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارا ہندوستانی سماج اور ہماری تہذیب کا منظر نامہ انتہائی تیزی سے بدل رہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے اندر پارٹی کلچر، ڈیٹنگ کلب، فیشن شو، مقابلہ حسن جیسی چیزوں کا خوب چلن ہوا ہے۔ فلم انڈسٹری کی اخلاق باختگیاں اور حیاسوزیاں کیا کم تھیں،اس کے علاوہ سیٹیلائٹ اور کیبل ٹیلی ویژن بڑی تعداد میں منظر عام پر آئے ہیں اور بے لاگ جو مناظر چاہتے ہیں نشر کرتے ہیں۔ مزید برآں ، انٹرنیٹ اور سی ڈی کے ذریعہ پورنوگرافک(فحش ) مواد ہر کس و ناکس کے دسترس کے اندر ہے۔ ملکی و مقامی زبانوں کی فلموں اور دیگر ٹی وی چینلوں پر جو مناظر نشر کیے جاتے ہیں وہ سب فحاشی و عریانیت کو فروغ دے رہے ہیں اور اسی فحاشی کے کلچر کو اعلی سطحی اور فیشن ایبل طرز زندگی کے طور پر پیش کیاہے ہیں۔
اسی طرح یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہماری عورتیں مغرب کی نقالی میں عریانیت، کم لباسی، بے حیائی اور فیشن ایبل طرز زندگی اختیار کرنے میں بہت دور جا نکلی ہیں۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے اچھے پہلوٴ وں جیسے نظم و ضبط کی پابندی، محنت و جفا کشی، رواداری، شفافیت، ایمان داری، عدم کرپشن اور نظافت وغیرہ کو تو نظر انداز کردیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس سطحی فیشن ، طرز زندگی اور ظاہری چکاچوند کو یہ سمجھ کر نہایت شوق سے اپنالیا جاتا ہے کہ ان کی نقالی کر کے ہم بھی ترقی یافتہ اور معزز ہوجائیں گے۔ آج جس تیزی کے ساتھ ہمارا طرز زندگی ، ہماری عورتوں کی پوشش و آرائش اور ہمارے نوجوانوں کا جنسی رجحان بدل رہا ہے ، اسی تیزی کے ساتھ ہماری معاشرے کا تانا بانا بھی بکھرتا جا رہا ہے۔
ملک میں عورتوں کے خلاف بڑھتے جنسی تشدد کے متعلق جو صاحب عقل و دانش بھی ذرا غور و فکر سے کام لے گا ، اس پر یہ حقیقت بالکل آشکارا ہوجائے گی کہ موجود ہ ماحول اور مجرمانہ ذہنیت کا ذمہ دار صرف اور صرف بدلتا سماجی رخ ہے۔ امریکہ ، جو مغربی تہذیب کا گڑھ ہے، جہاں بے محابا جنسی تعلقات ایک عام سی بات ہے، وہاں عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات بے پناہ ہیں۔ امریکہ کے اندر ہر۹۰ سکنڈ میں ایک عورت عصمت دری کا شکار ہوتی ہے۔ وہاں ۱۹۹۵ء میں354670(تین لاکھ چون ہزار چھ سو ستر) عورتیں زنابالجبر یا جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ گزشتہ دو سالوں کے اندر 770000سات لاکھ سات ہزار سے زیادہ عورتیں عصمت دری یا جنسی حملہ کا شکار ہوئیں۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ہمارا معاشرہ مغرب کی طرح آزاد جنسی ماحول کی طرف جائے گا ، تباہی و سماجی عدم تحفظ کی رفتار بھی بڑھتی جائے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب اس نظام سے اکتا کر جو جوا اپنے سر سے پھینکنا چاہ رہا ہے ہم ہیں کہ اسی کو ترقی و دانشوری کا معیار بنائے بیٹھے ہیں۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ ایمان و یقین ہے کہ اس سلسلے قرآن و حدیث کی جو رہنمائی ہے وہ انسانی سماج کی تعمیر و ترقی اور تحفظ و بقا کی ضمانت ہے۔ ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ اسلام کی سماجی تعلیمات میں تمام معاشرہ کے لیے سکون و اطمینان اور امن و بھائی چارہ کی گارنٹی دے سکتی ہیں۔ ہمارا موجودہ سیاسی و سماجی نظام جو انسان کا خودساختہ نظام ہے وہ ناقص اور نفاق سے پُر ہے۔ اس میں برائی کی اصل کو ختم کرنے کے بجائے شاخوں کی تراش و خراش کی جاتی ہے۔ مثلاً عصمت دری اور جنسی تشدد کو جرم قرار دیا گیا ہے ، لیکن اس کے چوردروازوں کو پوری آزادی کے ساتھ کھلا رکھنے کی بھی چھوٹ دے دی گئی۔ یہاں زنا بالرضاء پر کوئی قدغن نہیں ہے، فحش فلموں پر کوئی پابندی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس سلام نے برائی و بے حیائی کے انھیں چور دروازوں کو بند کر کے برائی کی جڑ پر تیشہ چلایا ہے۔ اولاً سلام نے عورتوں اور مردوں کو عام حالات میں ستر پوشی کا حکم دیا ہے۔ عورتوں کو حکم ہے کہ وہ گھر کی چہار دیواری میں اپنے خانگی فرائض کی دائیگی سے دلچسپی لیں اور باہر نکلنے سے حتی الامکان احتراز کریں۔ اگر کبھی نکلنے کی ضرورت بھی پیش آئے تو ہتھیلی اور پنجوں کے علاوہ پورے بدن کا پردہ کر کے نکلیں۔ اسلام نے کچھ قریبی رشتہ داروں (محارم )کا استثناء کر کے اجنبی مردوں اور دور کے رشتہ داروں سے پردہ کی تلقین کی ہے۔مزید برآں ، مرد اور عورت دونوں کو حکم ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

اعداد و شمارانٹرنیٹ پردرج ذیل ویب حوالوں سے لیے گئے ہیں:
sify.com New Delhi, the rape capital of India
Indiatimes.com Debates and views on rape in India, Sun, Nov 27, 2005,
US Department of Justice, 2000

2013 میں لکھا گیا مضمون

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے