امداد الحق بختیار
استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ جل شانہ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔اللہ کے باتوفیق بندے ہی اس قدر جانتے ہیں اور اس کے انوار وبرکات سے پورے طور پر مستفید ہوتے ہیں؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کر تے تھے:
اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کی مہینے تک پہنچا دیجئے۔(مجمع الزوائد:۴۷۷۴) رمضان سے دو مہینہ پہلے ہی اس کا انتظار اور اشتیاق وہی کر سکتا ہے جسے رمضان المبارک کی صحیح قدر وقیمت معلوم ہو۔
اگر ہم بھی چاہتے ہیں رمضان کی برکتوں سے محظوظ ہوں ، تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کریں،اس مہینہ کے اعمال اور عبادات کوپورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں ،ادنی کوتاہی سے بھی مکمل احتیاط کی کوشش کریں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ مقدس مہینہ ہمیں گزاریں ، نفس اور شیطان سے دوری اختیار کریں۔ اور درج ذیل کاموں پابندی اور اچھے طریقے سے ادا کریں۔
(۱) روزہ کا اہتمام
رمضان المبارک کی سب سے بڑی عبادت روزہ رکھنا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اے ایمان والوں! تمہارے اوپر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔(سورة بقرة: ۱۸۳) اور رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض قرار دئے ہیں۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶) رمضان کے روزوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جو حضرات ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتے ہیں، ان کے گزشتہ سب گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ (بخاری:۳۸، مسلم: ۷۶۰) اسی طرح یہ روزے کل قیامت کے دن ہمارے لیے سفارش کریں گے اور جہنم کے عذاب سے بچانے میں اہم کردار ادا کریں گے(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶)رمضان المبارک کے روزوں کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ آپﷺ کے اس مبارک ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے:جو شخص سفر یا بیماری جیسے کسی شرعی عذر کے بعد رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے پھر اگر وہ اس کی قضاء کے طور پر عمر بھر بھی روزے رکھتا رہے تو رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔(ترمذی: ۷۲۳)
ان تمام ارشادات نبوت سے یہ قیمتی ہدایت ملتی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں تمام مسلمانوں کو روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔بغیر کسی عذر شرعی کے روزے قضا کرنا انتہائی درجہ کی محرومی ہوگی۔
(۲) گناہوں سے بچنا
رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیزیہ ہے کہ ہم گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔ آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے:
جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے الجھے اور غلط باتیں کرے پھر بھی روزہ دار اس سے کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ جناب! میرا روزہ ہے۔(بخاری: ۱۹۰۴)
اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ روزہ کی خاص فضیلتیں اور برکتیں انہی کو حاصل ہوتی ہیں، جو گناہوں سے حتی کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔
ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے روزوں کی حفاظت کے لیے، سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں، جہنم کے تمام دروازے بند کردیتے، یعنی شر کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، جب اللہ کی طرف سے ہمارے روزوں کی حفاظت کا اتنا اہتمام ہے تو اگر ہم خود اپنے روزوں کو غلط چیزوں سے محفوظ نہ رکھ سکیں تو یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہوگی۔
(۳) افطار کی اہمیت
رمضان کے مبارک مہینہ میں جہاں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے افطار کا انتظام کرنا باعث ثواب ہے، وہیں مسافروں، غریبوں اور راہگیروں کا بھی ہمیں خیال رکھنا چاہیے، یہ ایک بڑی فضیلت اور فائدے کی چیزہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع ہمیں صرف رمضان کے مہینہ میں ہی پورے طور پر ملتا ہے، آپﷺ فرماتے ہیں:
جس نے کسی روزے دار کو اس مہینہ میں افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا، نیز افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ صحابہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک میں افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے( تو کیا غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)آپﷺ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو افطار کے لیے روزہ دار کودودھ کی تھوڑی لسی یا تھوڑا پانی ہی پیش کردے، اس طرح آپﷺ نے فرمایا: لیکن جو کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخلہ تک کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶)
تراویح کی پابندی
رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک اہم اور روزانہ ادا کی جانے والی عبادت تراویح کی نماز بھی ہے، نبی پاکﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں قیام یعنی تراویح کی نماز کوا فضل عبادت مقرر کیا ہے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶)ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون ہے:جو حضرات رمضان کی راتوں میں نفل یعنی تراویح کی نماز پڑھیں گے ان کے پچھلے سب گناہ معاف کردئے جائیں گے۔(بخاری:۳۷، مسلم:۷۵۹)
لہٰذا اختلاف کے رد عمل (Side Effect) سے متاثر ہوئے بغیر ہمیں رمضان کی راتوں کو تراویح اور تہجد سے زندہ رکھنا چاہیے، بیس رکعات تراویح کا اہتمام کرنا چاہئے، اسی پر صحابہ کا عمل تھا، اور اس وقت سے اب تک تقریبا 80 فیصد امت کا بھی اسی پر عمل ہے، یہاں میرا مقصود کسی کو غلط قرار دینا نہیں ہے، بس رمضان کی انمول ساعتوں کے پیش نظر ایک خیرخواہانہ دعوت عمل ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں ہمارے نامہ اعمال میں درج ہو سکیں۔
خیر خواہی کا مہینہ
اس مہینہ کی صحیح قدر اسی وقت ہوگی، جب ہم اس کے ایک ایک پیغام کوملحوظ رکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، رمضان المبارک کی ایک بڑی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں صبر ، غم خواری اور خیر خواہی کی دعوت دیتا ہے، پیارے نبی کا مقدس ارشاد ہے: یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶) یعنی ہمیں اس مہینہ میں طبیعت کے خلاف اور ناپسندیدہ باتوں کو بہت ہی تحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے، نیز اس لیے آپﷺ اس مہینہ میں کثرت سے سخاوت فرماتے تھے اور لوگوں پر خرچ کرتے تھے، اگرچہ آپ کی سخاوت پورے سال جاری رہتی تھی۔(بخاری:۶)
شب قدر کی تلاش
شب قدر بڑی انمول نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک رات صرف اس امت کو عطا کی ہے، غالب گمان یہی ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ اور اس کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے، اس رات کی فضیلت اور منفعت انتہائی عظیم ہے، اس رات کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی بہتر قرار دیا ہے (سورہ قدر) اسی مہینہ میں رسول اللہﷺ اس کی تلاش کے لیے اور اسے پانے کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے(متفق علیہ) اور امت کو بھی اس کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے۔(بخاری: ۲۰۲۰)
اعتکاف
رمضان کی خاص اور اپنی نوعیت کی ایک انوکھی عبادت اعتکاف ہے،رسول اللہﷺ پابندی سے اخیر عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، اس خصوصی عبادت کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اعتکاف کی وجہ سے جو عبادتیں وہ نہیں کرپاتا ان کا ثواب بھی اسے ملتا ہے،آپﷺ کا فرمان ہے: وہ اعتکاف کی وجہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکی کرنے والے بندوں کی طرح اس کی نیکیاں جاری رہتی ہیں اور اس کے نامہٴ اعمال میں لکھی جاتی رہتی ہیں۔(ابن ماجہ: ۱۷۸۱)
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے تعلق ختم کرکے بندہ اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہوجائے،اس کے در پہ پڑجائے اور بالکل علیحدہ ہوکر اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہے۔
اعتکاف کے اپنے ذاتی فوائد اور فضائل کے ساتھ ایک اہم اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بندہ کوشب قدر مل جاتی ہے، اور وہ اس کی فضیلت اور ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔
قرآن اور رمضان
قرآن کریم کا رمضان المبارک کے مہینہ کے ساتھ خاص تعلق ہے، رمضان میں ہی قرآن نازل کیا گیا(سورہ بقرہ: ۱۸۵، سورہ قدر) اسی وجہ سے نبی ﷺ اس مبارک مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، حتی کہ آپﷺ جبریل امین کو رحمت والے اس مہینہ میں قرآن سناتے تھے(بخاری: ۶) لہٰذا ہم سب کو اس مقدس مہینہ میں کتاب الٰہی کے تعلق سے دو کام کرنے چاہیے: (۱) زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت کرنی چاہیے، بعض سلف سے مروی ہے کہ وہ اس مہینہ میں 60 سے 70 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیاکرتے تھے، ہمیں بھی کثرت تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے، (۲) دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ علماء کی سرپرستی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اللہ کا پیغام اور اس کے احکام ہمیں معلوم ہوسکیں۔
رمضان کی قیمتی ساعتیں
رمضان المبارک کے فضائل، برکات، فوائد اورمنافع کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس ماہ کے لیے بالکل فارغ کرلیں، صرف اور صرف عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کریں، ایک ایک گھڑی کا حساب لگائیں، کوئی ساعت ضائع ہوجائے تو اس پر افسوس کریں، ایک مہینہ اللہ کے در پر پڑے رہیں، گیارہ مہینہ کے مسائل اللہ حل فرمادیں گے، اس کی قیمتی ساعتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ماہ میں کسی بھی نفل کام کرنے پر فرض عبادت کا ثواب ملتا ہے ، اور ایک فرض ادا کرنے پر ستر فرض کا ثواب ملتا ہے، اللہ کے نبی کا ارشاد گرامی ہے:
اس مہینہ میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور جو اس مہینہ میں فرض عبادت ادا کرے کا تو دوسرے مہینہ کے ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ (شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶)لہٰذا ہمیں رمضان المبارک کیہر گھڑی میں کسی نہ کسی فرض، سنت یا نفل عبادت میں مشغول رہنا چاہیے، کوئی لمحہ اس سے خالی نہ جائے۔
جہنم سے نجات کا پروانہ
اس مہینہ کی ایک بڑی کشش اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں، انہیں جہنم سے چھٹکارا اور نجات کا پروانہ عطا فرماتے ہیں، اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قیمتی نعمت بلکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد مشکل سے ہاتھ آتا ہے، بلکہ بارش کی طرح اللہ کی طرف سے مغفرت کے پروانے نازل ہوتے ہیں،ذرا سی محنت اور کوشش سے بھی یہ عظیم نعمت حاصل ہوسکتی ہے، آسانی کے ساتھ اس نعمت کے حصول کا اندازہ پیارے نبی ﷺکے اس ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں آپﷺ جبریل امین کی اس بد دعا پر ” آمین “فرماتے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں: ” جسے رمضان کا مہینہ ملا، اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور جہنم میں داخل کیا گیا، اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے“اگر یہ نعمت دشوار ی سے ملتی تو نہ جبریل امین ایسی بد دعا دیتے اور نہ ہی رحمة للعالمین ﷺ اس پر آمین کہتے۔(صحیح ابن حبان: ۹۰۷)
کیا ہم نے رمضان کی قدر کی؟
یہ ایک اہم سوال ہے کہ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم نے رمضان کی قدر کی یا نہیں؟ اس کے فوائد اور برکات ہمیں حاصل ہوئے یانہیں، اس اہم سوال کے جواب کا اہم پیمانہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”لعلکم تتقون“ (سورة بقرة: ۱۸۳) یعنی رمضان اور روزہ کا مقصد ہے تقویٰ کا حصول، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تقویٰ آیا یا نہیں؟
اس کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رمضان گزرنے کے بعد بھی اگر ہماری زندگی پہلے کی طرح ہی گناہوں میں رہی، کوئی تبدیلی نہیں آئی تواس کا مطلب ہے کہ ہم نے رمضان کی کما حقہ قدر نہیں کی، اس کے مکمل فوائد ہمیں حاصل نہ ہوسکے۔
اوراگر رمضان کے بعد ہماری زندگی کا ورق پلٹگیا، ہم عبادتوں کا اہتمام کرنے لگے، گناہوں سے بچنے لگے، حقوق ادا کرنے لگے، نبیﷺ کی سنت کی پیروی کرنے لگے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایک اچھی تبدیلی آگئی، تو یہ بالکل کھلی اور واضح علامت ہے کہ ہمارا رمضان قبول ہوا، ہم نے اس کی قدر کی اور اس کے فوائد، ثمرات اور برکات سے بہرہ ورہوگئے۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو رمضان کی کما حقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے انوار اور برکات سے مستفید فرمائے۔(آمین)