( محمد اللہ خلیلی قاسمی ، شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند )
بشکریہ: ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ستمبر اکتوبر 2009
گذشتہ ۵/ مئی ۲۰۰۹ء کو پاکستان میں بر صغیر کے مشہور و متبحر عالم ربانی حضرت مولانا سرفراز خان صفدر (رحمة اللہ علیہ) کا سانحہٴ انتقال پیش آیا۔ ملکی سرحدوں اور ہندوستان و پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کے تعلقات کی وجہ سے کتنے ایسے آفتاب و ماہتاب ہیں جو سرحد کے اس پار چمک دمک رہے ہیں لیکن ہم اہل ہند کو ان کی عظمت اور اہمیت کاصحیح اندازہ نہیں ہوپاتا۔ تاہم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر (رحمة اللہ علیہ)کا معاملہ پھر بھی مختلف ہے، آپ کی عظیم الشان جامع علمی شخصیت اور بلند پایہ علمی خدمات کا شہرہ ہندوستان کے دینی و علمی مراکز تک محیط ہے اور علوم اسلامیہ کا ہر طالب علم آپ کی محققانہ اور بابصیرت تصنیفات کے حوالے سے آپ کو خوب جانتا ہے۔
آپ امام اہل سنت کے لقب سے جانے جاتے تھے اور آپ کی عظیم شخصیت کو بجا طور پر فخر دیوبند اور ترجمان اہل حق کے طور پر جانا جاتا تھا۔ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف اور جملہ علوم اسلامیہ میں آپ کو تبحر حاصل تھا۔ عقائد اہل سنت کی تشریح اور اہل حق کے مضبوط دفاع میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کا شمار ان چند گنے چنے کثیر التصانیف علمائے دیوبند میں ہوتا ہے جس فہرست میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة الله عليه کا نام آتا ہے۔ تقریباً ایک صدی پر محیط زندگی میں آپ نے متعدد میدانوں میں جو علمی ، دینی، دفاعی اور اصلاحی خدمات انجام دی ہیں وہ بلاشبہہ آپ کو زندہ جاوید بنانے کے لیے کافی ہیں۔
ولادت اور تعلیم
آپ متحدہ ہندستان کے مانسہرہ (صوبہ سرحد) کے ایک گاؤں ڈھکی چیڑاں داخلی کڑمنگ میں ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اسم گرامی محمد سرفراز خان ابن نور محمد خان ابن گل احمد خان تھا۔ بچپن میں ہی والدہ فوت ہوگئیں۔ والد صاحب گو امی تھے، لیکن انھوں نے طلب علم کے لیے گھر سے دور بھیجا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مانسہرہ ہی میں مولانا غلام غوث ہزاروی سے حاصل کی ۔ اسی دوران ۱۹۳۱ء میں والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اپنے برادر خورد کے ساتھ یتیمی اور بے کسی کی حالت میں برسوں یہاں وہاں بھٹکتے رہے ۔ آخر کار کچھ خیر خواہوں کی رہنمائی سے سیالکوٹ و ملتان کا رخ کیا اور وہاں علمی تشنگی بجھائی۔ وڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں مولانا محمد اسحاق رحمانی (شاگرد مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمة الله عليه) سے ابتدائی عربی کتب پڑھیں۔ ۱۹۳۷ء میں جہانیاں منڈی ضلع ملتان میں مولانا غلام محمد لدھیانوی ( شاگرد حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه) کے زیر سایہ علمی منازل طے کیے۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے آپ نے جامعہ انوارالعلوم گجرانوالہ میں داخلہ لیا جس کے مہتمم مولانا عبد العزیز صاحب رحمة الله عليه فاضل دیوبند اور صدر مدرس علامہ عبد القدیر خان کیملپوری (شاگرد حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه ) تھے۔
آپ نے ۱۹۴۱ء میں اپنے چھوٹے بھائی مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور دورہٴ حدیث میں داخل ہوئے۔ دیوبند میں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه سے بخاری و ترمذی پڑھی، جب کہ امام المنطق والفلسفہ علامہ ابراہیم بلیاوی رحمة الله عليه سے مسلم شریف اور شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی امرہوی رحمة الله عليه سے ابو داؤد شریف کی تکمیل کی۔ اس سال دورہٴ حدیث میں ۳۳۳ طلبہ داخل تھے، جبکہ پورے دارالعلوم میں طلبہ کی تعداد ۱۹۹۵ تھی۔ اسی سال حضرت مدنی رحمة الله عليه کو مرادآباد میں ایک تقریر کی پاداش میں گرفتار کرلیا گیا ۔ اس موقع پر طلبہٴ دارالعلوم نے حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا، حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدر اس تحریک میں طلبہ کے نمائندے تھے اور انھوں نے بڑے دانشمندانہ طریقے سے اکابرین دارالعلوم کے ساتھ مل کر اس ہنگامہ سے دارالعلوم کو بچایا ورنہ یہ خدشہ پیدا ہوچکا تھا کہ برطانوی حکومت اس بہانے سے دارالعلوم کو بند کردیتی۔
تدریس و دینی سرگرمیاں
تکمیل تعلیم کے بعد آپ نے مدرسہ انوارالعلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ (گجرانوالہ ، پنجاب) میں تدریس کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۳ء میں آپ گکھڑتشریف لائے جو اس زمانے میں شرک و بدعت کا گڑھ تھا۔ یہاں آپ نے جامع مسجد میں خطابت اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور نہایت صبر آزما حالات میں کام کیا ، لوگوں کو توحید و سنت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ گکھڑ میں ہی آپ نے گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ۱۹۴۳ء میں درس قرآن شروع کیا جس کا سلسلہ نصف صدی سے زیادہ مدت تک قائم و دائم رہا۔ ۱۹۵۵ء میں آپ نے اپنے بھائی کے قائم کردہ جامعہ نصرة العلوم گجرانوالہ میں مدرس ہوئے جہاں آپ نے شیخ الحدیث کے عہدہ تک ترقی کی اور ۲۰۰۱ء تک بخاری شریف پڑھاتے رہے۔ ۲۰۰۱ء میں مرض کی شدت کی وجہ سے بخاری شریف پڑھانا چھوڑ دیا۔
زمانہٴ طالب علمی ہی سے خطابت کے سلسلے میں مشہور تھے۔ آپ کی گرمیٴ گفتار اور تقریری صلاحیت کو دیکھ کر طالب علمی ہی کے زمانے میں دیوبند کے مشہور مجاہد آزادی شاعر علامہ انور صابری نے آپ کو ’صوبہ سرحد کا ابو الکلام آزاد‘ کے لقب سے نوازا۔ چناں چہ آپ نے متحدہ ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک آزادی میں جمعیة علما ہند کے پلیٹ فارم سے شریک ہوتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی اس میں بھرپور حصہ لیا۔ بالآخر گرفتار ہوئے اور پہلے گجرانوالہ جیل اور پھر نیو سینٹرل جیل ملتان کو سنت یوسفی سے زندہ رکھا۔ نو ماہ جیل میں رہے۔ زنداں کی تنہائی و خلوت کی زندگی سے آپ کی تحریری زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کی مختصر خود نوشت سوانح کے مطابق آپ نے اپنی کتاب ’ایک اسلام‘ کا مسودہ نیو سینٹرل جیل ملتان میں ہی تیار کیا۔ جیل میں بھی آپ کے علمی و دینی ذوق کی حد یہ تھی کہ تدریس و تصنیف کا سلسلہ ممکنہ حد تک جاری رکھتے۔
پاکستان میں اٹھنے والی دیگر تحریکات جیسے تحریک نفاذ شریعت اور تحریک نظام مصطفی میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کے دوران ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جب ایف ایس ایف کے کمانڈر نے وارننگ دی کہ اگر انہوں نے ریڈ لائن عبور کی تو انہیں گولی مار دی جائے گی ۔ آپ نے تمام لوگوں کو روک کرکہا کہ آپ لوگ گواہ رہو، میں نے ۶۳ سال کی سنت عمر گزار لی ہے، میں شہادت کی تمنا رکھتا ہوں۔ چناں چہ آپ نے سب سے پہلے اس ریڈ لائن کو پار کر کے اس چیلنج کو قبول کیا۔
طریقت میں آپ کے شیخ حضرت مولانا حسین علی (وان بھچراں ضلع میانوالی ) تھے جو نقشبندی مجددی شیخ خواجہ محمد عثمان درمانی کے خلیفہ اور امام ربانی قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليهکے شاگرد رشید تھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے گل سرسبد، امام الموحدین حضرت مولانا حسین احمدصاحب شیخ القرآن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ انھیں کے تلمیذ و مجاز، ان کی فکرو سوچ کے امین اور سلوک و احسان اور تفسیر و بیان میں ان کے علمی جانشین تھے۔
جامع علمی شخصیت
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمة الله عليه ایک بے مثال علمی شخصیت کے مالک تھے ۔ ایک طرف آپ نے مدارس میں نصف صدی سے زائد مدت تک مسند درس سجا رکھی تھی جہاں سے چالیس ہزار سے زائد طالبین علوم نبوت نے آپ سے استفادہ کیا جو اس وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی جگہوں پر انتہائی اہم اور قائدا نہ کردار ادا کررہے ہیں۔خصوصاً فن حدیث پر آپ کو بے انتہا عبور حاصل تھا ، چناں چہ بر صغیر کے ممتاز ترین محدثین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔دوسری طرف آپ شیخ طریقت تھے جہاں لوگ آپ سے استرشاد کا تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد نقشبندی مجددی سے جو دولت قرآن آپ کو ملی تھی اسے بھی آپ نے گکھڑ میں نصف صدی سے زائد مدت تک پابندی کے ساتھ عوام و خواص کو تقسیم کیا۔ درس و تدریس اور تفسیر قرآن و خطابت جمعہ کی بے انتہا مشغولیت کے باوجود آپ نے تحریری میدان میں بھی قلم کی جولانی دکھائی اور مختلف موضوعات پر تقریباً ساٹھ کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جو اپنی علمی وقعت، تحقیقی بلندی اور اسلوب و زبان کی متانت کے لحاظ سے قابل صد رشک ہیں۔ آپ بہترین خطیب بھی تھے، پوری عمر جامع مسجد گکھڑ کے محراب و منبر کو آپ نے اپنے علمی و اصلاحی خطبوں سے رونق بخشی۔ مگر بایں ہمہ تواضع کا یہ عالم تھا کہ تحقیقی تحریروں اور علمی رفعتوں کے سبب علمی حلقوں میں جب آپ کو بجا طور پر امام اہل سنت کے لقب سے پکارا جاتا تو آپ کا رد عمل یہ ہوتا: ”جی ہاں میں اہل سنت والجماعة کی جامع مسجد کا امام ہوں“۔
دفاع حق اور فرق با طلہ کا تعاقب
دیوبند ہی میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه نے آپ کو ’صفدر‘ کا لقب عطا فرمایا تھا، جو بعد میں حرف بحرف آپ پر صحیح ثابت ہوا۔ اہل حق کے دفاع اور فرق باطلہ کے تعاقب کا سلسلہ گکھڑ کے اہل بدعت سے شروع ہوا ۔ آپ نے بعد میں فتنہٴ غیر مقلدیت، فتنہٴ انکار حدیث ، فتنہٴ قادیانیت کو زبردست علمی دلائل سے رد کیا اور حق کی اشاعت و ترویج کا حق ادا کردیا۔ آپ نے جس فتنہ اور فتنہ پرور کا تعاقب کیا، اس کو گھر تک پہنچاکر دم لیا۔ مگر بایں ہمہ آپ نے ہمیشہ متانت و سنجیدگی اور قوت استدلال سے بات کی، کٹر سے کٹر مخالف بھی آپ کی حذاقت و صداقت اور اعتدال کا قائل اور آپ کے زور استدلال کا معترف تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف کو سند و حجت کا درجہ حاصل ہے اور ایسے تمام اختلافی مسائل جن پر ہندوپاک میں ایک عرصہ سے میدان کار زار اور جنگ و جدل کا اکھاڑہ برپا تھا، آپ نے نہایت مدلل و محقق انداز میں مبرہن فرمادیا۔ بلاشبہ امام اہل سنت نوراللہ مرقدہ دین و مذہب اور مسلک کے معاملہ میں مضبوط و متصلب ضرور تھے، لیکن متعصب نہیں تھے۔یہی وہ اعتدال تھا جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عزیز جہاں بنادیا تھا، اپنے تو اپنے پرائے اور مخالف بھی آپ کی عظمت کے قائل تھے۔ بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہوگا کہ جس نے قریب قریب تمام فروعی مسائل اور فرق باطلہ کی تردید میں مدلل و محقق انداز میں لکھا ہو، اور ان کی کھل کر تردید کی ہو، مگر اس کے باوجود اسے ہر فرقہ کے لوگ بلکہ عوام و خواص اور جاہل و عالم، عظمت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں ۔
کبھی کبھی کسی موضوع پر آپ سے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، علامہ بنوری اور مفتی محمود (رحمہم اللہ) کتاب لکھنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ، شیخ الحدیث مولانا عبد الحق حقانی، حضرت قاری محمد طیب، امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، حافظ حدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن اعظمی، علامہ خیر محمد جالندھری ، علامہ شمس الحق افغانی، مفتی سید مہدی حسن، شیخ الحدیث مولانا محمد عبد الرحمن کیملپوری وغیرہ اکابر حضرات نے آپ کی تحریروں کی تعریف کی ہے اور ان پر اپنی گراں قدر تصدیقات ثبت کی ہیں۔
تصنیفات کی فہرست
ذیل میں حضرت مولانا سرفراز صفدر خان رحمة الله عليه کی تصنیفات کی ایک فہرست پیش کی جارہی ہے :
(۱) تفسیر قرآن (آٹھ جلدیں) (۲) خزائن السنن: دو جلدوں میں جامع ترمذی کی شرح (۳) احسن الباری (۴) گلدستہٴ توحید (۵) راہ سنت (۶) تبرید النواظر (آنکھوں کی ٹھنڈک )، (۷) تفریح الخواطر (حاضر و ناظر) (۸) دل کا سرور (۹) تنقید متین بر تفسیر نعیم (۱۰) مسئلہٴ نور و بشر (۱۱) عبارات اکابر (۱۲) تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور (۱۳) احسن الکلام مسئلہ فاتحہ خلف الامام (۱۴) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۱۵) طائفہٴ منصورہ (۱۶) ازالة الریب عن عقیدة علم الغیب (۱۷) آئینہ محمدی (۱۸) درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ (۱۹) چہل مسئلہ حضرات بریلویہ (۲۰) اظہار الغیب فی کتاب اثبات علم الغیب (۲۱) ملا علی قاری اور مسئلہٴ علم غیب (۲۲) المسلک المنصور (۲۳) اتمام البرہان فی رد توضیح البیان(چار جلدیں) (۲۴) عمدة الاثاث (طلاق ثلاث) (۲۵) مقام ابی حنیفہ رحمة الله عليه (۲۶) الشہاب المبین (سماع موتی) (۲۷) سماع موتی (۲۸) ینابیع (تراویح) (۲۹) ہدایة المرتاب الی طریق الثواب فی تحقیق المعجزات (۳۰) ضوء السراج فی تحقیق المعراج (۳۱) اطیب الکلام (۳۲) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارة الطحاوی (۳۳) حکم ذکر بالجہر (۳۴) اخفاء الذکر (۳۵) ارشاد الشیعة (۳۶) عیسائیت کا پس منظر (۳۷) توضیح المرام فی نزول المسیح (۳۸) مقالہ ختم نبوت (۳۹) مرزائی کا جنازہ اور مسلمان (۴۰) صرف ایک اسلام (منکر حدیث غلام جیلانی برق کی کتاب ’دو اسلام‘ کے رد میں) (۴۱) انکار حدیث کے نتائج (۴۲) شوق حدیث (۴۳) مودودی کا غلط فتوی (۴۴) تبلیغ اسلام (۴۵) بانی دارالعلوم دیوبند (۴۶) باب جنت (۴۷) چالیس دعائیں (۴۸) مسئلہٴ قربانی (۴۹) حلیة المسلمین (داڑھی) (۵۰) شوق جہاد (۵۱) راہ ہدایت (۵۲) خطبات امام اہل سنت (تین جلدیں) وغیرہ
امام اہل سنت قدس سرہ کی جملہ کتابیں خصوصاً عقائد و ایمانیات سے متعلق تحریریں نہایت ہی ایمان افروز اور بصیرت افزا ہیں۔ ان کتابوں نے بلامبالغہ ہزارہا ہزار ڈانواں ڈول افراد کو شکوک و شبہات سے بچایا اور ان کے دین و ایمان کا تحفظ کیا۔
وفات
۹۵/ سال کی طویل عمر گزارنے کے بعد آپ ۵/ مئی ۲۰۰۹ء مطابق ۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو دو بجے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرماگئے۔ جنازے میں دو لاکھ سے زیادہ سوگوار فرزندان توحید نے شرکت کی اور اس عالم ربانی ، محقق دوران اور شیخ وقت کو سپرد خاک کیا۔ اللّٰھم اغفرہ وارحمہ وارفع درجاتہ فی جنات النعیم!