حضرت مولانا احمد على صاحب سہارن پور یؒ كا نسخہٴ صحيح بخارى

عبيد الله شميم قاسمى
چند روز پہلے پڑوس كے ايك اہل حديث عالم مولانا ثناء الله زاہدى صاحب نے حضرت مولانا احمد على صاحب سہارن پوریؒ كے صحيح بخارى كے نسخہ كى تعريف كرتے ہوئے كہا كہ اس وقت بعض علماء كى تحقيق سے بہت ہى شاندار طباعت ہوئى ہے، جس ميں تصحيح اور رموز واوقاف كے اہتمام كے ساتھ اختلاف نسخ كو بھى بيان كيا گيا ہے۔
نسخہ سہارن پوری كيا ہے، اس ميں كس طرح كا كام ہوا ہے، ذيل ميں مختصرا اس كا تذكره كيا جاتا ہے، سب سے پہلے حضرت مولانا احمد على سہارن پوریؒ كى شخصيت سے واقفيت ضرورى ہے، آپ كے مختصر سوانحى حالات پيش ہيں۔
شہرسہارن پور کے جس علمی وروحانی خمیرسے حضرت مولانا وجیہ الدین صاحب سہارن پورى،فقیہ الاسلام حضرت مولانا سعادت علی صاحب سہارن پوری جیسے سینکڑوں اکابر امت اور اساطين ملت اور زعماء پیداہوئے ،اسی متبرک خمیر سے خمخانۂ شاہ اسحاق محدث دہلویؒ کے جرعہ نوش،سید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ کے استاذ محدث کبیر حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ۱۲۲۵ھ ۱۸۱۰ء میں سہارنپور میں پیداہوئے۔
نام ونسب
حضرت محدث سہارنپوری ؒ ،سہارنپور کے ایک ایسے انصاری خاندان کے چشم وچراغ تھے جو اپنی ممتاز علمی،دینی، روحانی اور عظیم المرتبت شخصیات کی وجہ سے مشہور ومعروف ہے،آپ کا سلسلۂ نسب اسی طرح ہے۔
مولانا احمدعلی بن شیخ لطف اللہ شیخ محمد جمیل بن شیخ احمد بن شیخ محمد بن شیخ بدرالدین بن شیخ صدرالدین بن شیخ ابو سعید شیخ جوہر انصاریؒ (خلیفہ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ۔
تعلیم وتربیت
آپ نے بڑى عمركے بعد تعليم حاصل كرنا شروع كيا تھا، سب سے پہلے میرٹھ تشریف لے گئے وہاں حفظ قرآن کے ساتھ ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی ،میرٹھ کے بعد سہارنپور میں حضرت مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپوریؒ سے عربی کی ابتدائی کتب پڑھنے کا شرف حاصل کیا حضرت اقدس مولانا مفتی الٰہی بخش قدس سرہ کے پاس کاندھلہ پہنچے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا،وہاں زیادہ عرصہ نہ گزراتھا کہ مفتی کا انتقال ہوگیا۔تو علم کی سچی تڑپ اور پیاس دہلی کھینچ کرلے گئی جہاں استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلیؒ کی محفل درس قائم تھی اور دنیائے علم وعرفان کی برگزیدہ ہستیاں کتابی علوم کے ساتھ روحانی تعلیم بھی حاصل کررہی تھیں۔حضرت محدث سہارنپوریؒ بھی حضرت مولانا مملوک العلی ؒکے دریائے علم میں غوطہ زنی کرنے لگے،ایک طویل مدت تک حضرت مولانا مملوک العلیؒ کے دربارگہربارمیں علمی وروحانی تعلیم وتربیت میں مصروف رہے اسی دوران سید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ حضرت مولانا مملوک العلی ؒ سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے پہنچے چنانچہ مولانا مملوک العلی نے دیگرکتابیں خودپڑھائیں مگرگلستاں سعدی کا سبق حضرت محدث سہارن پوریؒ کے سپردکیاحالانکہ ابھی حضرت سہارنپورى علم حاصل کررہے تھے اس طرح تعلیم کے دوران تعلم کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
حضرت مولانا احمد علیؒ نے بخاری شریف کا اکثر حصہ اپنے تایا حضرت مولانا شاہ وجیہ الدین محدث سہارن پوریؒ سے پڑھا، مولانا وجیہ الدین ؒکو فقہ وتفسیر اور حدیث وغیرہ میں نہایت درجہ مہارت تھی آپ کے فتاوی معاصرعلماء کی نظروں میں مستند اور معتبر تھے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ آپ کے فتاوی کو خاص اہمیت دیتے تھے آپ کے اساتذہ میں حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ بھی ہیں۔
دہلی کے قیام کے دران حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ مکۃ المکرمہ ہجرت فرماگئے جس کی وجہ سے آپؒ سے استفادہ کا موقع نہ مل سکا جس کا حضرت محدث سہارن پوریؒ کو نہایت درجہ احساس اور قلق تھا چنانچہ اپنے استاذحضرت مولانا مملوک العلیؒ کی رفاقت میں مکۃ المکرمہ تشریف لے گئے اور حضرت شاہ ؒ کے پاس ایک سال سے کچھ زائد عرصہ رہ کر صحاح ستہ کادرس حاصل کیا اور اسی دوران حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔مکۃ المکرمہ میں حضرت محدث سہارن پوریؒ کے معمولات میں سے یہ تھا کہ فجر کے بعدسے ظہرتک احادیث کی کتابوں کو نقل فرماتے تھے اور ظہرکے بعد سے حضرت شاہؒ صاحب کی مجلس درس میں حاضرہوتے تھے اسی مجلس میں صحاح ستہ کومکمل فرمایا۔
۱۲۶۱ھ میں تعلیم سے فراغت اور حضرت شاہ ؒسے خدمتِ حدیث شریف کی سند وجازت عطاہوئی ، پھر وہاں سے ہندوستان تشریف لاکر دہلی مین قیام فرمایا اور حدیث نبوی کی تعلیم کے ساتھ حدیث کی اعلیٰ کتب بخاری،مسلم،ترمذی،ابودائود،مشکوٰ المصابیح وغیرہ کی تصحیح حواشی او تعلیق کی طرف متوجہ ہوئے پھر ان تصحیح شدہ کتابوں کی طباعت کیلئے پریس خریدا جو ’’مطبع احمدی‘‘سے مشہور ومعروف ہوا۔اس مطبع نے حدیث کی بے مثال ،ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔
خدمت حدیث شریف
حضرت محدث سہارنپوریؒ کی زندگی کا سب سے اہم،ممتاز اور معیاری کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے کتب خانہ کا وہ کام انجام دیا جوصدیوں سال سے امت مسلمہ پرقرض چلاآرہا تھا یعنی آپ نے کتب حدیث کی نہایت محنت،مشقت،باریک بینی،عرق ریزی،دقت نظری اور غایت اہتمام سے نہ صرف تصحیح کی بلکہ ان کی تعلیق عمدہ حواشی بے مثال بین السطور بھی رقم فرمائے ،چنانچہ بخاری شریف ،ترمذی شریف،مشکوٰۃ المصابیح پرنہایت عالمانہ،فاضلانہ اور محققانہ حواشی ثبت فرمائے اور ان کی اغلاط کی تصحیح کافریضہ انجام دیا،مسلم شریف کی تصحیح کے بعد ہندوستان میں سب سے پہلی مرتبہ شرح نووی کے ساتھ اپنے مطبع سے شائع کیا ،ابوداود شریف کی تصحیح کے دوران کئی قدیم نسخوں کوسامنے رکھا، بخاری شریف کا حاشیہ آپ کے تمام حاشیوں اور کاوشوں میں اہمیت کا حامل ہے جس میں غیر معمولی کاوش سے کام لیا،متعدد علماء اور حدیث نبوی کے متخصصین وماہرین سے مددلی تقریباً دس سال سے زیادہ عرصہ اسی بخاری شریف کی خدمت میں لگ گیا لیکن جب طبع ہوکر منظرعام پر آئی تو بڑے بڑے علماء آپؒ کی دقت نظری کے قائل ہونے پر مجبورہوئے ،ہرچہار جانب سے پذیرائی کی گئی اور آپ کی اس خدم کو عوام وخواص نے اتنا سراہا کہ دنیا کے چپہ چپہ میں جہاں جہاں علوم نبوی کی تعلیم ہوتی ہے وہاں آپ كى نکتہ آفرینی، حذاقت ومہارت،آپ کے علوم کی رفعت ، حدیث نبوی پر کامل دسترس ہونے کی تعریف وستائش کی جاتی ہے اور ان شاء اللہ تاقیام قیامت بخاری شریف کے ساتھ حضرت محدث سہارن پوری کا نام روشن رہے گا ۔
غرض ان تمام کتابوں کی غائرانہ وماہرانہ تصحیح وتحشیہ کے بعد بڑے اہتمام سے چھپوایا طباعت کے بعد بھی مزید تحقیق وتفتیش میں لگے رہے، پہلى مرتبہ بخارى شريف جلد اول۱۲۶۷ھ موافق ۱۸۵۱ء ميں ، اور جلد ثانى ۱۲۷۰ھ ميں شائع ہوئى، اس كے دس سال بعد مطبعہ بولاق قاہره سے ۱۲۸۰ھ ميں شائع ہوئى اور دوسرا ایڈیشن ۱۲۸۲-۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸۶۵-۱۸۶۶ء ميں شائع ہوا، جس ميں اسماءرجال اور كنى كا اضافہ كيا، اس کے بعد تیسرے ایڈیشن کے وقت سابقہ ایڈیشنوں کی اغلاط کودورکیا، اور اس كے بعد سے اب تك مختلف مطابع سے شائع ہو رہى ہے ۔
حضرت محدث سہارن پوریؒ نے رمضان ۱۲۷۳ھ (۱۸۵۷ء)تک دہلی میں حدیث کی بے مثال علمی خدمات کیساتھ درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا لیکن۱۸۵۷ء کے خونچکاں فسادات کا لامتناہی سلسلہ جس نے پورے ہندوستان بالخصوص دہلی کو تہ وبالا اور زیروزبرکرکے رکھ دیا تھا دہلی کے مسلمانوں پرتشددوظلم کے جو پہاڑتورے گئے وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،ہزاروں بے قصور وں کو خنزیر کی کھالوں میں بھر کر نذرِآتش کیا گیا چوّن ہزار علماء کو پھانسیاں دی گئیں ،تین لاکھ قرآن کے نسخے جلاکر جمنا کے حوالے کردیا گیا ،ہزاروں زندہ لوگوں کوباندھ کر دریا بردکیا گیا ،معصوم ماؤں بہنوں اور عفت مآب بیٹیوں کو سفید فام درندوں اور بشکل انسان شیطانوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر انہیں گولیوں سے بھون دیا ،سینکڑوں عفت مآب ماؤں اور بہنوں نے اپنی عصمت کی حفاظت وصیانت اور اپنے پاک وصاف دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کی خاطر کنویں اور دریامیں کود کرجان دیدی،چنانچہ بعض کنویں ایسی معصوم مریموں کی لاشوں سے بھرگئے تھے،عام مسلمانوں کی املاک اور جائدادوں کوہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مکانات کو نذرِآتش کیا گیا غرض دہلی مسلمانوں کیلئے مقتل بن چکا تھا ایسی صورت میں مسلمان اپنی جان بچاکر دہلی سے ہجرت کررہے تھے حضرت مولانا احمد علی ؒ محدث سہارن پوری بھی بڑی مشکل سے دہلی سے ہجرت پرمجبور ہوئے،آپ کا تاریخی پریس عیسائی درندوں کے جبروتشددکاشکار ہوگیا،چنانچہ دہلی سے سہارنپور تشریف لائے اور ڈیڑھ دوسال تک حدیث کی خدمت اور درس دینے میں مصروف رہے ،پھر میرٹھ کے مشہور رئیس شیخ الٰہی بخش لال کرتی کے یہاں پانچ سوروپے ماہوار ملازمت اختیار کرلی۔
ملازمت سے استعفاء
حج بیت اللہ سے فراغت کے بعد آپ ہندوستان آئے اور رئیس صاحب کی ملازمت سے استعفاء دیکر سہارنپور تشریف لائے اور کچھ عرصہ تک اپنے دولت کدہ پردرس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا جو مظاہرعلوم کے لئے بڑی سعادت اور خوشی کی بات تھی چنانچہ مظاہرعلوم کی قدیم روداد میں کئی جگہ اس خوشی ومسرت کا بڑے کھلے لفظوں میں اظہارکیاگیا ،چنانچہ ۱۲۹۱ھ کی روداد میں مرتب لکھتے ہیں۔
’’طالب علموں وعلوم دینیہ کے شائقین کو مژدہ ہوکہ امسال مولوی احمد علی مدفیوضہ کلکتہ سے ترک تعلق کرکے سہارنپورمیں مقیم ہیں غرض اصلی یہی ہے کہ جس قدربن پڑے علوم دینی کے پڑھانے میں اوقات صرف کیجئے ، چنانچہ طالب علم حدیث مسافت بعیدہ سے یہ مژدہ سنکر فراہم ہوگئے اور کچھ مدرسہ مظاہرعلوم کے طالب علم بھی ان سے پڑھتے ہیں،اکثر روزدرس وتدریس میں گزرتا ہے بلکہ رات کو بھی بعض طالب علم پڑھتے ہیں اور ان کے سہارنپور کے قیام سے کتابوں کی مددبھی طالب علموں کو بہت ملتی ہے‘‘۔
اپنے دولت کدہ پرتقریبا ایک سال تک درس حدیث دیتے رہے پھر جب مظاہرعلوم کی باقاعدہ عمارت (مدرسہ قدیم)۱۲۹۱ھ سے ۱۲۹۲ھ تک مکمل ہوئی تو آپؒ مدرسہ کی اس عمارت میں منتقل ہوگئے تاحیات مظاہرعلوم میں درس دیتے رہے،مظاہرعلوم میں آپ کی خواہش وتمنا کے مطابق ایک درس گاہ خاص کردی گئی جہاں آپ طلبہ پر علوم کی بارش برساتے تھے،آپ نے اپنی کتب بھی اسی درسگاہ میں رکھیں تاکہ طالبان علوم زیادہ سے زیادہ فیض اٹھاسکیں،ان تمام توجہات اور بے پایاں عنایات کے باوجود آپ نے پوری زندگی مظاہرعلوم کی حسبۃً للہ خدمت انجام دی چنانچہ مظاہرعلوم کی روداد میں ہے۔
’’الحمد للہ علی احسانہ کہ اس مدرسہ کے حال پر خداوندسبحانہ نے کتنا بڑا کر م فرمایا اور اس کی بیکسی پررحم کھاکرکیسا مدرس بغیر تنخواہ عنایت کیا کہ اگر دوسوروپئے ماہوارصرف کرکے ہم مدرسہ کی آراستگی ایسے مدرس کے وجود باجود سے چاہتے تو ہرگز میسر نہ ہوتا چشم بددورگویا آفتاب علم بانی روح سعادت پرتاباں ہے اور نیز اعظم سماء رفعت اسی مدرسہ پردرخشاں ہے،خداوند جتنا بڑا تونے انعام فرمایا ہے اتناہی اس کے شکر کی توفیق عطافرما‘‘۔
حضرت محدث سہارن پوریؒ مظاہرعلوم میں درس دینے کے ساتھ ساتھ اپنے دولت کدہ پربھی متعدد طلبہ کو درس دیتے رہے اورا ن کے طعام وغیرہ کا خود ہی تکفل فرماتے تھے ، مولانا احمد علی صاحبؒ کے تعلم کا یہ حال تھا کہ فجر سے عشاء تک طلبہ کی بھیڑ لگی رہتی تھی حتی کہ گھرسے مدرسہ آتے وقت راستے میں بھی طلبہ کو پڑھاتے جاتے تھے،یہی نہیں عصر کے بعد جب تفریح کیلئے گھوڑے پرسوار ہوتے اس و قت بھی علوم نبوی کے شائقین ساتھ ساتھ دوڑتے اور علم حاصل کرتے تھے۔
آپ نہایت درجہ کے شریف النفس،خلیق،شفیق،رفق ونرمی میں ممتاز ،سخاوت ودریادلی میں بیمثال امانت ودیانت کی باوقارہستی تھے،روزانہ نئی پوشاک زیب تن کرتے اور اتارے ہوئے کپڑے غریبوں کو تقسیم فرمادیتے تھے چنانچہ آپ کی مذکورہ بالاصفات وخصوصیات کی وجہ سے ہرشخص آپ کا گرویدہ اورمداح تھا۔زہدوورع،عبادت وریاضت اور خلوص وللٰہیت کے نیرتاباں تھے ،آپ کے تقوی وتقدس کے کئی واقعات زبان زد ہیں اور جن کا تذکرہ مظاہرعلوم کی رودادوں ،تاریخ مظاہرعلوم اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرمدنیؒ کی آپ بیتی وغیرہ میں موجود ہے۔
حضرت محدث سہارن پوریؒ کو دارالعلوم دیوبند سے بھی بہت محبت اور انسیت تھی جس کو آپ کے شاگردِرشید حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۵؍محرالحرام ۱۲۸۳ھ کو قائم فرمایا تھا،چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی س سے پہلی عمارت ’’نوردہ‘‘کی بنیاد کے وقت سب سے پہلاپتھر حضرت محدث سہارنپوریؒ نے اپنے دست حق پرست سے رکھا تھا ،آپ کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ نے ایک ایک انیٹ رکھی۔
دارالعلوم دیوبند کے اکابرکے رائے یہ تھی کہ شروع شروع میں دارالعلوم کو کچے مکان کی طرح بنایا جائے مگرحضرت محدث سہارن پوریؒ اپنی مؤمنانہ فراست اور دوراندیشی کی وجہ سے فرمایا کہ دارالعلوم پختہ تعمیر کیا جائے چنانچہ الحمد للہ اسی پرعمل ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت محدث علیہ الرحمہ نے اپنی حیات مبارکہ کے اکثر اوقات دینی خدمات میں صرف کئے چنانچہ درس وتدریس لے کر مدارس اسلامیہ کی امدادواعانت ،اکابر واسلاف کی تشریف آوری پران کی ضیافت ،طالبان علوم دینیہ کے قیام وطعام کی کفالت ،اصلاح معاشرہ کیلئے دوردراز کے اسفار اور دینی دعوت ،بدعات ورسومات کی بیخ کنی اور اکابر واسلاف کی زریں روایات کی حفاظت بیواؤں کا نکاح نہ کرنے کی رسم ورواج کو قوت وشدت سے مخالفت،اور مختلف لوگوں کو وعظ ونصیحت علمی دینی کتب کی تصنیفات وتالیفات اور ان کی طباعت واشاعت ہرمیدان میں اپنی ناقابل فراموش خدمات چھوڑی ہیں۔
ممتاز تلامذہ آپ کے ممتاز تلامذہ کی تعداد اتنی طویل ہے کہ اگر ان تمام حضرات کے صرف اسماء گرامی ذکرکئے جائیں تو رسالہ کے کئی صفحات بھرجائیں گے تاہم چند وتلامذہ جو اپنے وقت کے یگانہ روزگار اور علوم دینیہ کے بحرذخار تھے یہ ہیں طائفۂ دیوبند کے روحانی پیشواسید الطائفہ حضرت اقدس حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ ،امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،حجۃ الاسلام حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ،محدث کبیر حضرت مولانا احمد حسن امروہویؒ،فخر الاماثل حضرت مولانا مظہر نانوتویؒ،زبدۃ العلماء حضرت مولنامحمد یعقوب نانوتویؒ،حضرت مولانا محمد احسن نانوتویؒ، حضرت مولانا عبداللہ انصاری انبہٹویؒ،حضرت مولانا مولانا عبد العلی میرٹھیؒ،مناظراسلام حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ،(بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ)،ادیب دوراں حضرت علامہ شبلی نعمانیؒ، مولانا سلامت الله جيراج پورىؒ، حضرت مولانا مفتی عبد اللہ ٹونکیؒ،حضرت مولانا محمد سلیمان پھلواریؒ اور حضرت مولانا سید تجمل حسین بہاریؒ وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جن میں سے ہر شخص اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔
وفات
۱۲۹۷ھ کے اوائل کے میں حضرت مولانا محدث سہارنپوریؒ فالج کا شکار ہوگئے،سردرداور بخار بھی تیز ہوگیا چنانچہ عیادت کے سلسلہ میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒدس بارہ روز کیلئے سہارنپورتشریف لائے پھر واپس دیوبندچلے گئے لیکن حضرت محدث سہارنپوریؒ کے مرض میں افاقہ کے بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا چنانچہ اسی مرض میں ۶؍جمادی الاولیٰ ۱۲۹۷ھ مطابق ۱۷؍اپریل ۱۸۸۰ء شنبہ کے دن تقریباً بہتر (۷۲)سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
آپؒ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردخاک کئے گئے ۔
نسخہٴ سہارنپوری
حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری نے جو نسخہ مختلف نسخوں سے مقارنہ كركے تيار كيا تھا اور پھر اس كو ايسے قيمتى حواشى سے مزين كيا جو شرح كے درجہ ميں ہے، اس كى ترتيب كيا تھى، ذيل ميں مختصراً اس كى طرف اشاره كيا گيا ہے ۔
آپ كے سامنے حضرت شاه اسحاق صاحب محدث دہلوى كے سامنے پڑھا ہوا بخارى شريف كا نسخہ تھا، اس نسخے كو مختلف نسخوں سے مقارنہ كركے ايك جامع نسخہ بنايا اور اختلاف نسخ كو حاشيہ (نالى) ميں رموز كے ساتھ بيان كيا۔
صحیح بخاری کے مختلف نسخوں کے رموز وعلامات
علامات مراد علامات مراد
ف فربرى ذ ابوذر هروى
ه كشميهنى شحج شيخ ابن حجر
ح حموى قت ابوالوقت
س مستملى سف نسفى
عس عساكر صغ صغانى
مہ كريمہ ك اكثرنسخ
خس سرخسى كن ابوالسكن
ص اصيلى جا ابواحمد جرجانى
قا قابسى بو ابن شبويہ
مر مروزى
مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری ؒ کے یہاں بعض رموز اور ملتے ہیں جن کا مقدمہ میں کوئی ذکر نہیں ہے، جیسے: (سمک) (شمک) (حس) (حجعہ) (بق) وغیرہ، ان علامات سے کون لوگ مراد ہیں یہ مجہول ہے، اسی طرح یونینی کے یہاں گیارہ رموز پائے جاتے ہیں،جن کی مراد معلوم ہے، اور تین رموز کی مراد معلوم نہیں، وہ تین رمز یہ ہیں: (ح) (عط) (ضع)۔
بعض کلمات پر (ن) کی علامت پائی جاتی ہے، جو دوسرے نسخہ کی طرف اشارہ ہے، سہارنپوری کے یہاں بعض نسخوں کے وہ رموز بھی ثابت ہیں جو نسخہ سلطانیہ میں نہیں پائے جاتے۔ بخاری کے نسخے جو یونینی کے سامنے نہیں اور حضرت سہارنپوری کے یہاں ثابت ہیں: نسخہ فربری، نسخہ مروزی، نسخہ ابن حجر، نسخہ نسفی، نسخہ صغانی، نسخہ ابن السکن، نسخہ ابن الشبویہ، البتہ نسخہ سمعانی سہارنپوری کے سامنے نہیں ہے۔
امام رضى الدين صغانى (متوفى ۶۵۰ھ )كا نسخہ جس كى تعريف علامہ انور شاه كشميرى نور الله مرقده نے فيض البارى ميں كى ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ الله نے فتح البارى ميں (۱۱۰) مرتبہ اس كا ذكر كيا ہے، مولانا سہارن پورى نے نسخہ صغانى سے بطور خاص مقارنہ كيا، يہى وجہ ہے كہ صغانى كا نسخہ اور مولانا كے نسخے كى عبارت ملتى ہے، البتہ پورى كتاب ميں بانسٹھ (۶۲) جگہيں ايسى ہيں، جہاں پر نسخہ صغانى كا ذكر كياہے۔
حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری كا حاشيہ
حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری كا حاشيہ شرح كے درجہ ميں ہے، آپ نے بخارى شريف كى مختلف شروحات كو سامنے ركھ كر ايسا جامع حاشيہ لكھا كہ ايك قارى كو حديث كے معانى اور مختلف جگہوں پر ائمہ كے اختلاف كو سمجھنے ميں پورى مدد ملتى ہے۔
بخارى شريف كى بہت سى ايسى شروحات كا حوالہ بھى ہے جو اس زمانے ميں غير مطبوعہ تھيں، مولانا نے ان كے مخطوطات حاصل كركے قيمتى فوائد كو ان ميں سے نقل كيا؛ ان ميں آج بھى بہت سى ايسى كتابيں ہيں جو ابھى تك منصہ شہود پر نہيں آسكى ہيں اور ناياب ہيں۔ ايك سرسرى نظر ان كتابوں پر ڈالتے ہيں جن كا حاشيہ بخارى ميں حوالہ ديا گيا ہے۔ مولانا نے چونسٹھ (۶۴) كتابوں كا نام شمار كرايا ہے، جن سے ان حواشى ميں استفاده كيا ہے، مگر پورا حاشيہ ديكھنے بعد اندازه ہوتا ہے كہ مولانا نے اور بھى كتابيں كا حوالہ ديا ہے، گرچہ ان كا نام نہيں شمار كرايا ہے۔ ان كتابوں كى فہرست ذيل ميں پيش كى جاتى ہے۔
شروحات بخارى ميں:
(۱) فتح البارى، اور ، حافظ ابن حجر عسقلانى ، (۲) مقدمہ فتح البارى، (۳) عمدة القارى علامہ عينى، (۴) ارشاد السارى علامہ قسطلانى، (۵) الكواكب الدرارى (شرح الكرمانى) علامہ كرمانى، (۶) الخير الجارى، مخطوط، مولانا يعقوب البنانى لاہورى، (۷) التوضيح ابن الملقن، (۸) التنقيح لألفاظ الجامع الصحيح علامہ زركشى، (۹) التوشيح ، حافظ جلال الدين سيوطى، (۱۰) فيض البارى، مخطوط مولانا عبد الأول جون پورى، (۱۱) غاية التوضيح، عثمانى علامہ عثمان سندى صديقى برہان پورى
مسلم كى شروحات ميں :
(۱۲)شرح الامام النووي
مشكاة شريف كى شروحات ميں:
(۱۳) الكاشف عن حقائق السنن علامہ طيبى، (۱۴)مرقاة المفاتيح، ملا على القارى، (۱۵)لمعات التنقيح، شيخ عبد الحق محدث دہلوى، (۱۶)اشعة اللمعات، شيخ عبد الحق محدث دہلوى، (۱۷)حاشية السيد جمال الدين محدث على مشكاة المصابيح
اور كتب حديث ميں:
(۱۸) جامع الأصول، (۱۹)تيسر الأصول، (۲۰)صحيح مسلم، (۲۱) سنن ترمذى، (۲۲)سنن ابى داود، (۲۳) سنن النسائى، (۲۴)سنن ابن ماجہ، (۲۵) موطا امام مالك، (۲۶)المسوّى شرح موطأ امام مالك، (۲۷)موطأ امام محمد، (۲۸)شرح موطأ امام محمد، ملا على القارى، (۲۹)كتاب الآثار، (۳۰)شرح معانى الآثار، امام طحاوى، (۳۱)مشكل الآثار، امام طحاوى
اور لغات حديث ميں:
(۳۲)مجمع بحار الانوار ، علامہ طاہر پٹنى، (۳۳)النهاية ، ابن الاثير، (۳۴)الدر النثير، امام جلال الدين سيوطى، (۳۵)مشارق الانوار، قاضى عياض
اور كتب لغت ميں:
(۳۶) القاموس، امام مجد الدين فيروزآبادى، (۳۷)صراح، لغت فارسى
اور أسماء رجال كى كتابوں ميں:
(۳۸) تقريب التہذيب، حافظ ابن حجر، ) ۳۹ (تهذيب الأسماء، امام نووي، (۴۰) الكاشف، امام ذہبى، (۴۱) المغنى في ضبط الأسماء، علامہ طاہر پٹنى
أصول حديث كى كتابوں ميں:
(۴۲) شرح النخبة، (۴۳) جواہر الأصول، وغيره
اور كتب فقہ ميں:
(۴۴) الدر المختار، (۴۵) رد المحتار على الدر المختار، (۴۶) ہدايہ، (۴۷) فتح القدير، (۴۸) الكفاية، (۴۹) شرح وقايہ، (۵۰) كنز الدقائق، (۵۱) الكافى، (۵۲) البحر الرائق، (۵۳) الاشباه والنظائر
اور أصول فقہ كى كتابوں ميں:
(۵۴) أصول الشاشى، (۵۵) حسامى، (۵۶) التوضيح والتلويح:
اور كتب تفسير ميں:
(۵۷) بيضاوى، (۵۸) جلالين، (۵۹) معالم التنزيل، (۶۰)تفسير مظهرى
اور كتب نحو ميں:
(۶۱) كافيہ، (۶۲) شرح كافيہ، ملا عبد الرحمن جامى
اور كتب سير ميں:
(۶۳) سيرت حلبيہ، (۶۴) الاستيعاب، (۶۵) تاريخ ابن حبان وغيره
اس كے علاوه بھى بہت سى كتابيں ہيں، جن سے حضرت سہارن پورى نے استفاده كيا ہے جيسے مسند امام احمد، المواہب اللدنية، اور حاشيہ ميں ان كا حوالہ بھى ديا ہے۔
حضرت سہار ن پورى رحمہ الله كا حاشيہ بخارى شريف كے ساتھ فارسى رسم الخط ميں بر صغير ميں شائع ہوتا رہا ہے، اس بات كى ضرورت تھى كہ اس كو جديد طرز پر شائع كركے عالم اسلامى عربى كے سامنے پيش كيا جائے، الله تعالى نے يہ عظيم خدمت حضرت مولانا ڈاكٹر تقى الدين ندوى صاحب دامت بركاتہم كے ليے مقدر كى تھى جو نصف صدى سے زائد عرصہ سے حديث شريف كى خدمت كر رہے ہيں، ان كى كتابيں عرب وعجم ميں مشہور ہيں اور اس ميدان ميں انہيں تجربہ بھى ہے، چنانچہ جديد طرز پر مزيد نسخوں سے مقارنہ كركے تحقيق وتعليق كے بعد اولا پندره (۱۵) جلدوں ميں ۲۰۱۱ء ميں شائع كيا، اس كے بعد ہندوستانى علماء اور طلبہ كى رعايت كرتے ہوئے بڑى تختى ميں اسے چھ جلدوں ميں (۲۰۱۵ء ، ۲۰۱۸ء، ۲۰۲۰ء ميں ) شائع كيا۔ الله تعالى ان كى اس خدمت كو قبول فرمائے اور اس كا بہترين بدلہ عطا فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے