*عالم باعمل حضرت مولانا عثمان صاحب معروفى رحمہ اللہ كى رحلت*
*_عبید اللہ شمیم قاسمی_*
١١/فرورى ٢٠٢٢ء بروز جمعہ اچانک يہ خبر صاعقہ بن كر گرى كہ عالم باعمل دارالعلوم بانكسنڈى آسام كے شيخ الحديث حضرت مولانا محمد عثمان صاحب قاسمى معروفى مختصر علالت كے بعد اس عالم فانى سے عالم جاودانى كو كوچ كرگئے، انا لله وانا اليہ راجعون
يہ دنيا چند روزه ہے، اس كى كوئى بھى چيز باقى رہنے والى نہيں ہے جو بھى يہاں آيا ہے اسے ايک دن كوچ كرنا ہے، ارشاد بارى تعالى ہے: {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ} [العنكبوت: ٥٧] ۔
انسان كا جب وقت پورا ہوجاتا ہے تو لاكھ كوششوں كے باوجود آنے والے وقت كو ٹالا نہيں جاسكتا، فرمان خداوندى ہے: {إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [نوح: ٤]، اسى طرح دوسرى جگہ ارشاد ہے: {وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ} [الأعراف: ٣٤].
كسى شاعر نے كہا ہے:
آج وه كل ہمارى بارى ہے
موت سے كس كو رست گارى ہے
حضرت مولانا محمد عثمان صاحب قاسمى نے تقوی وللہیت اور اخلاص سے پُر ايک قابل رشک زندگى گزارى، وه پورى زندگى درس وتدريس سے وابستہ رہے، تقريبا نصف صدى تک اپنے علم وادب كے فيضان سے فرزندان توحيد كو سيراب كرتے رہے۔
مولانا مرحوم ميرے والد صاحب مرحوم كے دوستوں ميں تھے، ميرا انداز ہے تبليغى جماعت كے توسط سے دونوں حضرات ميں تعلق تھا، ميرى مولانا مرحوم سے صرف ايک ملاقات تھى، تقریبا پانچ سال پہلے ایک مرتبہ پورہ معروف جانا ہوا، استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم اعتکاف میں تھے، ستائیسویں شب وہیں گزاری اور مولانا مرحوم سے ملاقات ہوئی، شکل دیکھ کر کہنے لگے کہ فلاں کے لڑکے ہو، میں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے بتلایا کہ آپ کے والد صاحب مرحوم میرے بہت گہرے دوست تھے، اور بہت دیر تک مختلف واقعات سناتے رہے، پھر میرا نمبر لیا اور ہمیشہ خیریت معلوم کرتے تھے مگر میرے امارات آنے کے بعد تقریبا ساڑھے تین سال سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
آپ کی ولادت ضلع اعظم گڑھ (موجوده مئو)كى مشہور بستى پوره معروف میں ١٩٤٩ء موافق ١٣٦٩ھ كو ايک ديندار گھرانے ميں ہوئی۔ آپ ايک علمى خاندان كے چشم وچراغ تھے، گھر كے ماحول کا اثر بچپن سے ہی آپ پر پڑا، آپ كے والد صاحب كا نام محمد بشير تھا، جو کثیر العیال اور قلیل المال تھے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اور دینی تعلیم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مولانا مرحوم سات بھائی اور ایک بہن تھے، آپ چھٹویں نمبر پر تھے، آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا زین العابدین صاحب رحمہ اللہ سابق صدر شعبہ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارن پور ہندوستان کے مشہور محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مولانا کے انتقال کے بعد اب صرف دو بھائی باحیات ہیں، ایک استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم استاذ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند کے والد حافظ محمد عمر صاحب اور دوسرے قاری ابو بکر صاحب، اللہ تعالی صحت کے ساتھ ان کا سایہ دراز فرمائے۔
مولانا مرحوم کی ابتدائی تعلیم مدرسہ معروفیہ پورہ معروف میں ہوئی، اس کے بعد جامعہ مصباح العلوم کوپاگنج میں داخلہ لیا جہاں بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب دامت بركاتہم سے استفادہ کا موقع ملا، اس کے بعد جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور داخل ہوئے جہاں عربی پنجم تک تعلیم مکمل کی، احیاء العلوم مبارک پور میں آپ نے مفتی محمد یسین صاحب رحمہ الله، اور مولانا عبد المنان صاحب وغیرہ سے استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد عثمان صاحب رحمہ اللہ مصنف "ایک عالمی تاریخ" و"محاسن التواريخ"وغیرہ اور حضرت مولانا زین العابدین صاحب رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔
عربى پنجم تک تعليم مكمل كرنے كے بعد آپ نے ازہر ہند دارالعلوم ديوبند كے ليے رخت سفر باندھا، اور شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠ء) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا ، دارالعلوم کے ذہین، ممتاز اور سنجیدہ طلبہ میں سے تھے۔ آپ كے دورۂ حديث كےاساتذه ميں شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادى رحمہ اللہ تھے جو بخاری شریف پڑھا تے تھے، جن كے درس بخارى كى ايک زمانے تک شہرت رہى ہے، مگر حضرت زندگى كے آخرى مرحلے ميں تھے اور باب کیف کان بدء الوحي پڑھا کر وطن گئے اور پھر واپس نہیں آسكے، اور انتقال ہوگيا۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب ترمذی اور مولانا شریف حسن صاحب ديوبندى مسلم شریف پڑھاتے تھے، ان دونوں بزرگوں میں سے ایک کو بخاری شریف پڑھانی تھی مگر شوری کے فیصلے تک قرعۂ فال حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام نکلا۔ بتانے والے بتلاتے ہيں كہ حضرت حكيم الاسلام رحمہ الله نے بخاری شریف اس انداز سے پڑھایا کہ تمام طلبہ عش عش کرنے لگے۔ ان کے درس میں بیٹھنے والا ہر طالب علم بتا سکتا ہے کہ حکیم الاسلام لقب کا حق دار واقعی انہیں کی ذات گرامی تھی۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب استاذ الاساتذہ تھے ان کا درس کسی زمانے میں بہت مشہور تھا، اس وقت ترمذی شریف میں معرکۃ الآرا مسائل پڑھا نے کے بعد ایک خاص انداز میں آستین چڑھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے، من ادعى غیر ذالک فعلیه البیان، طلبہ جھوم اٹھتے تھے۔ لیکن عمر کی زیادتی اور نقاہت و نسیان کی وجہ سے بجائے ان کے حضرت مولانا شریف حسن صاحب ديوبندى رح کو بخاری شریف ملی اور آپ نے واقعی اس كا حق ادا کر دیا۔ آپ نے بخاری جلد ثانی فقيہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہى رحمہ اللہ سے پڑھى۔ اور ديگر اساتذه فن سے حديث كى كتابيں پڑھ كر شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢ء) میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔
آپ كے رفقائے درس میں مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی ، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی)، مولانا عتیق احمد بستوی استاذ دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ، مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی رحمة الله عليہ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند )، مولانا فضل حق خيرآبادى، مولانا ابو العاص بستوی، مولانا فضل احمد دربھنگوی، مولانا ڈاکٹر نسیم احمد نیپالی، مولانا عبد المعبود دربھنگوی، مولانا عرشی بستوی اور مولانا محمد نثار احمد بستوى رحمہ الله وغیرہ تھے ۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے شوال ١٣٩٢ھ سےزندگى كى آخرى سانس تک مسلسل بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دى۔ جن مدارس ميں تدريس سے وابستہ رہے ان ميں مدرسہ دينيات كہنڈه ضلع اعظم گڑھ، جامع العلوم کوپاگنج، دارالعلوم محمدیہ گھوسی، مہیش پور ضلع غازی پور، جامعة الرشاد اعظم گڑھ، اس کے بعد صوبہ گجرات کے مدرسہ تعلیم الدین آنندو مدرسہ کنزِ مرغوب پٹن میں لگ بھگ بارہ سال خدمتِ حدیث پر مامور رہے، اور اخير ميں دارالعلوم بانسكنڈى آسام ميں شيخ الحديث كے منصب پر فائز ہوئے اور زندگى كى آخرى سانس تک نو سال وہاں خدمت انجام دی۔
حضرت مولانا كو درس نظامى كى كتابوں پر مكمل عبور تھا جس كتاب كا بھى درس آپ سے متعلق ہوتا آپ اس كا حق ادا كرديتے، يہى وجہ تھى آپ كے درس كو طلبہ كے درميان مقبوليت حاصل تھى۔
اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے۔ مولانا مرحوم جہاں بھی رہے، طلبہ و اساتذہ میں بہت مقبول رہے، منتظمین سے بھی اچھے تعلقات رہے، یہی وجہ تھی کہ مدرسہ سے الگ ہونے کے باوجود ملنے کے لیے بلاتکلف چلے جاتے۔
آپ کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب نوگانوی صاحب سے تھا، حضرت کی جانب آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہوئى۔
آپ بہت عمده لكھتے تھے، تصانيف كے بارے ميں تو علم نہيں ہوسكا، ليكن آپ كى تحريريں صاف شستہ اور ادب كا شاہكار ہوتى تھيں، جس كا اندازه آپ کے اس مضمون کو پڑھ کر ہوتا ہے جو آج سے تقریبا پینتالیس سال پہلے (١٩٧٦ء) "تذکرہ مشاہیر پورہ معروف" کے مصنف مولانا محمد عثمان صاحب معروفی رحمہ اللہ کے حالات پر مشتمل ہے، جو مصنف کے مختلف بکھرے ہوئے کاغذات کی روشنی میں ترتیب دیا تھا اور کتاب کے اخیر میں وہ مضمون شامل ہے۔
آپ بہت سى خوبيوں كے حامل تھے، آپ کی سب سے بڑی خوبی تعلقات کو نباہنا تھا، جن سے تعلقات ہوتے اس کو ہمیشہ نباہا اور "صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ، وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ" (مسند أحمد: (28/ 654، رقم: 17452) پر پوری طرح عمل پیرا رہے۔
پورى زندگى درس وتدريس سے وابستگى كے ساتھ جہاں بھی رہے اس علاقے ميں رشد وہدايت كا عمل بھى جارى رکھا، تبلیغی جماعت سے بہت گہرا ربط تھا اور آپ کا وقت بھی وقتا فوقتا اس میں لگتا رہتا تھا اور اس ميدان ميں قابل قدر اصلاحى كوششيں كيں۔ آپ آسام میں رہتے ہوئے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور ایک اچھے مقرر ہونے کی وجہ سے لوگ آپ کی تقریر کو بہت پسند فرماتے تھے۔
آپ كی صحت تو بظاہر ٹھیک نظر آتی تھی مگر کچھ بیماریاں بھی لاحق ہوگئی تھیں، سال گذشتہ آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا، اس موقع پر اہلیہ کی بیماری کے زمانے میں وطن تشریف لائے تھے، مگر آمد کے تین چار روز بعد اہلیہ کا انتقال ہوا، اس کے جلد ہی بعد آپ آسام روانہ ہوگئے، اس طرح آپ کا وہی سفر وطن کا آخری سفر ثابت ہوا۔ کچھ دنوں پہلے آپ کی بیماری کی خبر اور دعائے صحت کی درخواست سوشل میڈیا پر گردش میں تھی، مگر آپ کو افاقہ ہوگیا تھا، دوا علاج جارى تھا كبھى افاقہ ہوجاتا ، كبھى مرض ميں شدت آجاتى، مگر وقت موعود آپہنچا تھا بالآخر ١١/ فرورى ٢٠٢٢ء جمعہ کا دن گزار کر رات ميں تقريبا ساڑھے باره بجے ٧٣/سال (ہجرى اعتبار سے ٧٥/ سال) كى عمر ميں جان جاں آفريں كے سپرد كردى، رحمه الله رحمة واسعة، حدیث شریف میں آیا ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَوْتُ غُرْبَةٍ شَهَادَةٌ". رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ: ١٦١٣] کہ وطن سے دور مسافرت کی موت شہادت ہے، آپ بھی وطن سے دور آسام میں آسودۂ خاک ہوئے۔
اور اپنے پيچھے ہزاروں شاگردوں كو روتا بلكتا چھوڑ كر چلے گئے، آپ کے پسماندگان میں دو صاحب زادے مولوی حافظ عبدالوہاب صاحب جو مدرسہ معروفیہ میں استاذ ہیں اور دوسرے عبد الجبار ہیں جو وطن ہی میں کاروبار کرتے ہیں، اس کے علاوہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم آپ کے بھتیجے ہیں، یہ سب آپ كے ليے صدقہ جاريہ ہیں، قيامت تک اس كا ثواب آپ كو پہنچتا رہے گا۔
الله تعالى آپ كے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس ميں اعلى مقام عطا فرمائے۔