امانت علی قاسمی
آج حجاب کے تعلق سے پورے ملک میں اور خاص طورپر کرناٹک میں عجیب و غریب بے چینی پائی جارہی ہے، حالیہ دنوں میں کرناٹک کے اسکول و کالج میں جو کچھ ہوا اوراس کے جوا ثرات پورے ملک میں دیکھے گئے ،اس نے ملک کے ہر باعزت شہری کو شرم سار کردیا ۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کی قدیم روایات گنگا جمنی تہذیب ہے ، اس ملک میں سینکڑوں سالوں سے ہر مذہب اور ہر کلچر کے ماننے والے لوگ اپنے مذہب اور کلچر پر عمل کرتے رہے ہیں ،کثرت میں وحدت یہاں کا نعرہ رہاہے، اور یہی کی یہاں خوبصورتی تسلیم کی گئی ہے لیکن لگتا ہے کہ اس خوبصورتی کو کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔
حجاب سے آج بعض لوگوں کو دقت ہورہی ہے اور اسے ایک مخصوص یونیفارم سمجھا جارہاہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حجاب مخصوص یونیفارم نہیں ہے ؛بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کا لازمی حصہ ہے اور مسلم عورتوں کاتشخص اور تہذیبی وراثت ہے ، یہ حجاب ان کی عصمت کی بھی حفاظت کرتاہے ۔ان کو عزت و احترام کا مقام عطا کرتاہے ، اور وحشی نما انسانوں اور قلب و نظر کے مریضوں سے ان کو بچاتاہے ۔
آج پڑھے لکھے طبقہ میں یہ تصور عام کیا جارہاہے کہ پردہ کوئی چیز نہیں ہے ؛بلکہ یہ تشدد اور کٹر پنتھی کو ظاہر کرتاہے اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ،اس لیے حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
حجاب در حقیقت عورت کی عصمت کی حفاظت اور اس کی عزت و وقار کے لیے ہے، اسلام نے عورت کی عزت و ناموس کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا ہے ، اسلام سے پہلے جس طرح زنا کی گرم بازاری تھی اور عورت جس قدر بے حیثیت اور لہو و لعب کا آلہ تھی، باپ جس دام میں چاہے بیٹی کو فروخت کردیتاتھا،بیوی شوہر کی چتاپر ”ستی “ہوجا تی تھی عورت کو مالک بننے کا کوئی حق نہیں تھا، ان سب کاتقا ضا تھا کہ عورت کو اس کا حقیقی مقام دیاجائے اور اس پر عملی اقدامات کیے جائیں اور عورت کے ناموس کی حفاظت کی جائے ، اس لیے نہ صرف اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا ؛بلکہ زنا کے تمام راستوں کو بند کردیا، اس پس منظر میں اسلام نے جو اقدامات کیے ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ عورت کے لیے اس کی تمدنی ذمہ داریوں کا محل متعین کردیا ہے کہ وہ گھر ہے،عورت گھر کی ملکہ ہے، اس کی تمام تر رعنائیاں اسی سے ہیں؛ اس لیے عورت زیادہ سے زیادہ گھر میں رہے تاکہ اپنی خاندانی ذمہ داریاں اور نسل نو کی تربیت حسن وخوبی کے ساتھ انجام دے سکے اس سلسلے میں عورت کو پہلی ہدایت یہ کی گئی :
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّةِ الْاُوْلٰی(احزاب :۳۲)
اور گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور جیسے بن سنور کر ایام جاہلیت میں عورتیں گھروں سے نمائش کے لیے نکلاکرتی تھیں اس طرح مت نکلو۔
اس آیت میں پہلا حکم عورت کویہ دیا گیا کہ بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور اگر ضرورت کی وجہ سے نکلنا پڑے تو زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح بن سنور کر نہ نکلیں۔اس کے بعد دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ہوں عورت و مرد دونوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں بلاوجہ غیر محرم پرنگاہ ڈالنا فتنہ کاباعث ہوسکتاہے:
قُلْ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر’‘ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُوٴْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ(نور:۳۰)
اے نبی !مومن مرَدوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں بچا کررکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے ۔اے نبی ﷺ !مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں پست رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں
یہاں دوسرا حکم نگاہوں کو پست رکھنے کادیا گیا اوریہ حکم مرد و عورت دونوں کو دیا گیا ۔تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی سے بات کرنی ہو یا کچھ لینا دینا ہو تو پردہ سے بات کرلے یا لین دین کرلے تاکہ حسن و جمال کی پیکر پر کسی شیطان کی نگاہ نہ پڑ جائے اور دل میں کسی قسم کی بے حیائی کا داخلہ نہ ہوجائے۔
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِن(احزاب :۵۳)
اے مسلمانو! اگر تمہیں نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔
آیت میں اگر چہ خطاب صحابہ سے ہے لیکن اصول تفسیر کا قاعدہ یہ ہے کہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتاہے خاص واقعہ کا ا عتبار نہیں ہوتا اب اگر تعلیم ،معاش ، علاج یا دیگر کسی ضرورت پر عورت کو گھر سے باہر نکلنا پڑے تو یہ حکم دیا گیا کہ پردہ کرکے گھرسے باہر نکلے :
ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُوٴْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(احزاب : ۵۹)
اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر چادورں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ تعالی غفور ورحیم ہے ۔
امام ابوداوٴد نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک خاتون جن کا نام”ام خلاد “ تھا آپ ﷺ کے پاس اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے آئیں جو شہید ہوچکا تھا اس وقت وہ نقاب پہنے ہوئے تھیں ، نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی نے ان کی استقامت پر تعجب کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نقاب پہن کر اپنے بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں ؟ انہوں نے ا س کے جواب میں فرمایا : میرا بیٹا مرا ہے ، میری حیا نہیں مری ۔اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تمہارے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا انہوں نے پوچھا ایسا کیوں ہوگا یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا اس لیے کہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے ( سنن ابی داوٴد،حدیث نمبر:باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم )
ان آیتوں میں غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ حجاب کی تعلیم قرآن کریم میں صراحت سے ثابت ہے،یہ کسی فقیہ کا ا جتہاد نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے جسے مسلمان عورتیں کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتی ہیں اور جو لو گ حجاب کی مخالفت کررہے ہیں وہ درحقیقت ایک مذہب کے ماننے والوں کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے روک رہے ہیں ، جب کہ ملک کا دستور ہر شہری کو اپنے مذہب اور مذہبی کتابوں پر عمل کی آزادی دیتاہے،تعلیم اور یونیفارم کے نام پر کسی کو مذہبی تعلیم پر عمل کرنے سے روکنا باشعور معاشرہ کی علا مت نہیں ہوسکتاہے ۔آج یہ مسئلہ ملک کی پارلیمنٹ او ر عدلیہ دونوں جگہ زیر بحث ہے اور ہر چوک چوراہوں اور ٹی وی ڈیبٹ میں یہ گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے اگر اس کا انصاف پسندانہ جائزہ لیا گیا تو یقین ہے کہ ملک کا ا کثریتی طبقہ بھی حجاب کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا او ر صدیوں پرانی مشترکہ تہذیبی وراثت کو جو لوگ ختم کرکے ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں اسے سمجھے گا ۔اور ملک کی اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گا۔