حضرت حکیم قاری عبد السلام مضطرؔ ہنسوری كا سانحہٴ ارتحال

عبيد الله شميم قاسمى

آج يكم فرورى كو بعد نماز عصر اچانک يہ جانكاہ اطلاع ملى كہ حضرت قارى عبد السلام صاحب مضطر ہنسورى ہمارے درميان نہيں رہے، وه اس دار فانى سے دار بقاء كو كوچ كرگئے، انا لله وإنا إليہ راجعون
يہ دنيا ايک عارضى قيام گاه ہے ہر ذى روح كو موت كا مزه چكھنا ہے ، ارشاد بارى تعالى ہے: {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ } [العنكبوت: 57 ]ہر شخص اپنا مقرره وقت گزار كر يہاں سے بارگاه خدا وندى ميں پہنچ جاتا ہے، ہم اپنى آنكھوں سے روزانہ جنازے اٹھتے ديكھتے ہيں، جوان بھى مرتے ہيں، بچے بھى انتقال كرتے ہيں اور بوڑھے بھى كوچ كرتے ہيں، خوش قسمت ہيں وه افراد جو اپنى زندگى الله رب العزت كے حكموں كے مطابق گزار كر يہاں سے رخصت ہوتے ہيں، حضرت قارى صاحب بھى ان خوش قسمت افراد ميں شامل تھے جن كى پورى زندگى تقوى وطہات سے عبارت تھى، انهوں نے طويل عمر پائى اور الله كے رسول صلى الله عليہ وسلم كى بشارت’’طوبى لمن طال عمره وحسن عمله‘‘ سے بہره ور ہوئے، حضرت قارى صاحب كى عمر ہجرى اعتبار سے سو سال سے متجاوز تھى۔ آپ كى طويل زندگى پر روشنى ڈالنا اور اس كے متعلق كچھ لكھنا يہ تو وہى شخص كرسكتا ہے جس نے آپ كى زندگى كے روز وشب كو قريب سے ديكھا ہو، تاہم آپ كى زندگى سے متعلق كچھ باتيں ذيل ميں سپرد قرطاس كى جارہى ہيں۔
پيدائش اور تعليم:
قارى صاحب کی ولادت 1342ھ مطابق 1924ء ميں قصبہ ہنسور ضلع فیض آباد (حال ضلع امبیڈ کرنگر) ميں ہوئى، دس سال كى عمر ميں يتيم ہوگئے تھے، والد ماجد قارى خليل الله صاحب امام جامع مسجد ہنسور كا انتقال ہوگيا تها، اس ليے یتیمی اور غربت کی وجہ سے مروجہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، بلکہ محض اپنے شوق و محنت اور علماء سے تعلق کی وجہ سے فارسی، عربی، طب و حکمت اور فطری ذوق و رجحان کے باعث شعر و شاعری سے بہرہ ور ہوئے۔ علماء سے تعلق کا انھیں خاص ذوق اپنے والد ماجد سے ملا تھا، کیوں کہ وہ بھی حضرت چاند شاہ ٹانڈوی رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا قدرت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (برہی عادل پور) اور نگ پور کے میاں خانوادے سے خاص تعلق رکھتے تھے۔
اصلاحی تعلق اور اجازت و خلافت
حضرت قارى صاحب ابتدا میں نگپور (نزد جلال پور ضلع امبیڈکرنگر) کے نقشبندی شیخ حضرت میاں خدا بخش صاحب سے بیعت تھے۔ ان کے بعد 1947ء میں جب ملک آزاد ہوا تو شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، جو رمضان المبارک میں سلہٹ آسام میں اعتکاف فرماتے تھے، سلہٹ کے مشرقی پاکستان میں شامل ہونے کے بعد اپنے وطن ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں اعتکاف کرنے لگے۔ چناں چہ اسی دوران قارى صاحب حضرت مدنی قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور چند برسوں تک ان سے استفادہ کا موقع ملا۔ 1957ء میں حضرت مدنی قدس سرہ کے انتقال سے آپ بہت متاثر ہوئے اور طبیعت بہت بے چین رہنے لگی۔ اسی دوران حضرت شیخ الاسلام ؒ کے خلفاء و مجازین میں حضرت مولانا عبد الجبار ہنسوریؒ نے انھیں خلاف و اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اسی بے چینی اور اضطراب کے دنوں میں آپ نے کئی بار خواب میں حضرت مدنی قدس سرہ کو دیکھا کہ وہ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، چناں چہ آپ نے حضرت مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ کا دامن تھام لیا۔
حضرت مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت واسترشاد کا تعلق قائم ہوجانے کے بعد مرشد الامت حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب ؒ سے پہلے سے قائم تعلق اور مضبوط ہو گیا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے خواص متعلقین میں شامل کرلیا اور پھر اجازت بیعت و خلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔ جب مدرسہ ریاض العلوم کی 1973ء میں بنیاد ڈالی تو انھیں مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا۔
*مدرسہ ریاض العلوم سے تعلق اور مجلس شوریٰ کی رکنیت*
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جب 1973ء میں مدر سہ ریاض العلوم گورینی کی بنیاد ڈالی اور اس کی مجلس شوریٰ تشکیل دی، تو انھوں نے پورے ملک سے اپنے خاص متعلقین کو مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا، جن میں ایک نام حضرت حکیم قاری عبد السلام مضطر ہنسوری کا بھی شامل تھا۔ چناں چہ وہ بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس حسن انتخاب پر پورے اترے اور آخر تک مدرسے کی بہبود اور ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ وہ برابر مجلس شوریٰ کے اجلاسات میں جب تک صحت ر ہى شریک ہوتے اور ضروری مشورے دیتے اور مدرسے کے حق اور مفاد کا ہمیشہ خیال رکھتے۔

مسجد ریاض العلوم گورينى میں اعتکاف كا معمول
حضرت مولانا عبد الحليم صاحب اپنے شیخ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اجتماعی اعتکاف میں شرکت فرماتے تھے۔ حضرت شیخ جب مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفاً وکرامۃً ہجرت کی تو حضرت مولانا عبد الحلیم صاحبؒ کو تاکید کی کہ جہاں بھی رہیں وہاں کچھ لوگوں کے ساتھ اعتکاف کا معمول باقی رکھیں۔ چناں چہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جب اپنے چند قریبی احباب اور مخلصین سے مشورہ کیا، ان میں قارى صاحب بھی شامل تھے۔ قارى صاحب نے نہ صرف حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خیال کی تائید و تصویب کی بلکہ پہلے ہی اعتکاف میں اپنا بستر مدرسہ ریاض العلوم کی مسجد میں ڈال دیا اور حتی کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد تک جب تک قویٰ ساتھ دیتے رہے پابندی سے پورے مہینے کا اعتکاف کرتے رہے۔
اعتکاف کے دوران حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاشت کے وقت معتکفین اور مریدین و متعلقین کے درمیان اصلاحی خطاب فرماتے تھے، کبھی کبھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے حضرت مفتی محمد حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ خطاب فرماتے تھے۔ قاری صاحب نے ایسی بہت ساری مجالس کے بیانات اور ملفوظات کو اپنے قلم سے لکھ کر نقل کیا تھا، جس کی کئی نامکمل کاپیاں اب بھی مفتی محمد اللہ صاحب خليلى کے پاس محفوظ ہیں۔
شجرہ طیبہ: شجرہ رشیدیہ اشرفیہ
شجرہ لکھنا اور اسے نظم کرنا ہر سلسلے کے مشائخ کا طریقہ رہا ہے؛ اپنے سلسلے کے سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ نے اردو میں نظم فرمایا اور ان کے خلفاء میں حضرت قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی و حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم قدس اللہ اسرارہما نے زبان فارسی میں نظم فرمایا اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب قدس سرہ نے حضرت حاجی صاحب کے منظوم شجرہ پر تضمین بھی فرمائی۔ نیز مولانا ذوالفقار علی دیوبند رحمۃ اللہ علیہ نے عربی زبان میں شجرہ نظم فرمایا۔ یہ منظوم شجرے مناجات مقبول میں اور دوسری کتابوں میں منقول ہیں۔ فارسی زبان میں حضرت نانوتوی قدس سرہ کا اور اردو زبان میں حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمۃ کا منظومہ شجرہ بہت بابرکت اور بڑی تاثیر والا ہے، لیکن طویل ہے کم فرصت حضرات اس کو معمول نہیں بناسکتے۔ دوسری طرف حضرت گنگوہی قدس سرہ کا فارسی شجرہ بہت مختصر اور جامع ہے کہ اس میں مشائخِ سلسلہ کے اسمائے مبارکہ کا اشارہ ہی فرماکر آخری مصرعہ میں دعا فرما دی گئی ہے۔
چناں چہ قارى صاحب نے توسط ملحوظ رکھ کر شجرہ مبارکہ نظم فرمایا جس میں دعا کی کثرت کے ساتھ مشائخ عظام کا پورا اسم مبارک بھی شامل ہے۔
شعر و شاعری کی تحسین
حضرت قارى صاحب نے مصلح الامۃ حضرت مولاناشاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات اور ان کی شخصیت اور خانقاہ کے شب و روز کے سلسلے میں متعدد نظمیں لکھیں جو ’حالات مصلح الامت‘ میں شائع ہوچکی ہیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے سانحہ ارتحال پر قاری صاحب نے ایک نہایت پُر درد مرثیہ لکھا۔ مرثیہ کا عنوان تھا:”فی روضات الجنات“جس سے 1982ء کی تاریخ نکلتی ہے اور اس کا مطلع تھا:
آئی خبر کہ جان بہاراں چلا گیا
رات آگئی وہ مہر درخشاں چلا گیا
کاروان حجاز کی اشاعت
قارى صاحب کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ’کاروان حجاز‘ بہت اہم ہے۔ یہ 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے ایک چھوٹا مجموعہ ’گلدستہ حرم‘ اور ایک قدرے طویل نظم ’وہابی نامہ‘ 1960ء اور 1970ء میں بالترتیب شائع ہوچکی تھی۔ ’کاروان حجاز‘ کو حضرت مولانا عبد الحليم صاحب نے خود اپنی دل چسپی اور اپنے صرفے سے شائع فرمایا۔ قارى صاحب خود لکھتے ہیں:
”اس کی مقبولیت اور اطمینان و مسرت کے لیے میرے لیے اس سے بڑی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ حضرت اقدس بقیۃ السلف مرشدی و مولائی مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب (رحمہ الله) باوجود شعر و شاعری کے مشغلہ کو ناپسندفرمانے اور موجودہ بے اعتدالیوں کی وجہ سے بالکلیہ احتراز و اجتناب کے کئی مرتبہ سنانے کی فرمائش کی اور سماعت فرمایا اور میری کتاب ’کاروان حجاز‘ بالاستیعاب پوری ملاحظہ فرمائی اور تحسین کے کلمات ارشاد فرمائے اور فرمایا کہ سب آمد ہے، کچھ آورد نہیں۔ اور اشاعت کاحکم فرماکر طباعت کے خرچ کی پوری رقم از راہ ذرہ نوازی و بندہ پروری بکمال شفقت و محبت عطا فرمائی: کلاہِ گوشہ دہقاں بآفتاب رسید۔“ (کوثر و زمزم، صفحہ 19، مطبوعہ 1998ء)
یہ کتاب مکتبہ ریاض العلوم گورینی ضلع جون پور نے شائع کی اور اس پر حضرت مولانا مفتی محمد حنیف صاحب ؒشیخ الحدیث و صدر المدرسین مدرسہ ریاض العلوم نے اس پر ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔ اس مجموعہٴ کلام میں رئیس الواعظین حضرت مولانا ابوالوفا عارفؔ شاہجہاں پوری اور خطیب العصر حضرت مولانا ضمیر احمد اعظمی صدر المدرسین مدرسہ کرامتیہ جلال پور بھی تقریظات بھی شامل تھیں۔
آپ کے شعرے مجموعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ انھیں اپنے وقت کے جید علمائے کرام نے شائع فرمایا۔ کاروان حجاز کے بعد ’شاخ طوبی‘ اور ’حلیہ نبی اکرم ﷺ‘ کو 1985ء اور 1987ء میں بالترتیب حضرت مولانا ضمیر احمد اعظمی ؒ کی سرپرستی میں مدرسہ کرامتیہ جلال پور نے شائع کیا اور حلیہٴ نبی اکرمﷺ کو دوبارہ حضرت مولانا منیر احمد صاحب اور حضرت حاجی رضوان اللہ صاحبؒ (مجازین حضرت مرشد الامتؒ) کے ذریعہ اشاعت السنہ کالینہ ممبئی سے شائع کیا گیا۔ بعد میں یہ کتابیں دہلی، دیوبند اور کراچی سے بھی شائع ہوئیں۔ آپ كے شعرى مجموعہ پر مفكر اسلام حضرت مولانا على مياں ندوى اور شيخ الحديث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمهما الله نے تقريظات لكھ كر درجہ استناد عطا كيا۔
اولاد واحفاد
حضرت قارى صاحب ايک طويل عرصے سے صاحب فراش تھے، زيادتى عمر كے ساتھ بہت سى بيماريوں نے پكڑ ليا تھا، آپ كى بينائى بھى ختم ہوگئى تھى، بالآخر يكم فرورى 2022ء مطابق 28/جمادى الأخرى 1443ھ بروز منگل كو اس دار فانى سے كوچ كيا، آپ كى اولاد اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کی اولاد میں تقریباً دو درجن سے زائد حافظ اور متعدد عالم و مفتی اور مجود و قاری ہوئے جن میں سے بیشتر نے مدرسہ ریاض العلوم سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور مزید اعلی تعلیم کے لیے دیوبند گئے۔
آپ کے چار صاحب زادے ہوئے، اور پانچ صاحبزادیاں بھی ہیں، الحمد للہ سبھی باحیات ہیں۔ بڑے صاحب زادے حکیم عبد المومن صاحب، دوسرے عبد المھیمن اور تیسرے حافظ عبد الباسط صاحب نے حفظ کی تعلیم مدرسہ ریاض العلوم میں حاصل کی۔ اور سب سے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر مفتی محمد اللہ خلیلی قاسمی کی تعلیم دیوبند میں مکمل ہوئی۔ وہ اس وقت دارالعلوم دیوبند میں شعبہ انٹرنیٹ و آن لائن فتوی کے ناظم ہیں اور اردو انگریزی میں متعدد کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ يہ تمام آپ كے ليے صدقہ جاريہ ہوں گے۔
اس مضمون كو معروف صاحب قلم عالم حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمى رحمة الله عليہ كى كتاب ’’حدیث دوستاں‘‘ كے ايک اقتباس پر مكمل كر رہا ہوں، حضرت مولانا لكھتے ہيں:
قاری عبد السلام صاحب مضطرؔ ہنسوری ایک پاکباز اور پاک طینت بزرگ، اکابر بزرگوں کے صحبت یافتہ ، شیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ اور مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی ا ﷲ صاحب علیہ الرحمہ کے دست گرفتہ ، جانِ پُرسوز اور دلِ بریاں کے مالک ، ہنسور ضلع فیض آباد کے رہنے والے ، صاحب نسبت ﷲ والے ہیں۔ حضر ت مولانا عبد الحلیم صاحب جون پوری علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت پائی۔ بہت متواضع اور منکسر المزاج، قسّامِ ازل نے ان کو عارفانہ اور عاشقانہ ذوق سے نوازا ہے ، اشعار بھی خوب کہتے ہیں ، بیت ﷲ شریف اور دربارِ رسالت میں حاضری کی تڑپ ہمیشہ انھیں بے تاب کئے رہتی تھی ، اور اس بے تابی میں ایسے ایسے پُر درد اور پُر سوز اشعار ڈھل ڈھل کر نکلتے تھے کہ پڑھنے والا بھی بے قرار وبے تاب ہوجائے ۔ ایک عرصہ تک وہ اس شورش و بے تابی میں فریاد کی لَے بلند کرتے رہے ، پھر حق تعالیٰ نے انھیں حج بیت ﷲ سے نوازا ، میں نے انھیں مبارکباد دی ، انھوں نے جواب میں ایک پُر درد خط لکھا۔ اس سے ﷲ والوں کے باطنی احوال کی جھلک ملتی ہے ، کہ وہ کس نظر سے اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ۔ (حدیث دوستاں ، از: مولانا اعجاز احمد اعظمی)
الله تعالى حضرت قارى صاحب كى مغفرت فرمائے، ان كے درجات بلند فر مائے اور پسماندگان خصوصا مفتى محمد الله صاحب خليلى، قارى مسعود احمد حليمى(جو قارى صاحب مرحوم كے نواسے ہيں اور جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ ميں كئى سال تک تدريسى خدمات انجام دى) اور ديگر اعزه واقارب كو صبر جميل عطا فرمائے، آمين

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے