1943-2022
عبدالمالک بلندشہری
_نئے برس کا آغاز ہی ہمارے لیے غم انگیز ثابت ہوا عیسوی سال کے پہلے ہی دن نثری مرثیہ قلم بند کرتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور بدن لرز رہا ہے لاریب مغربی اترپریش کے ممتاز عالم دین اور سلسلہ رحیمیہ رائے پور کے بافیض بزرگ حضرت مولانا الحاج محمد اختر کا وصال دینی و علمی حلقوں کا زبردست خسارہ ہے مولانا اپنی خدا ترسی، زہد و قناعت، عبادت و ریاضت اور مہمان نوازی میں معروف تھے ایک عرصہ سے سہارنپور کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ کے عالی وقار مہتمم اور جمعیت علماء ہند ضلع سہارنپور کے صدر تھے
آپ دار العلوم دیوبند کے نمایاں فضلاء میں سے تھے بخاری شریف علامہ فخر الدین مراد آبادی نور اللہ مرقدہ(١٨٨٩-١٩٧٢) سے پڑھنے کا شرف حاصل تھا ان کے علاوہ علامہ ابراہیم بلیاوی قدس سرہ(و١٩٦٧) ،حکیم الاسلام مولانا قاری طیب قاسمی قدس سرہ(١٨٩٧-١٩٨٣) وغیرہ ایسے اساطین فضل و کمال سے شرف تلمذ حاصل تھا _
آپ فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ ریڑھی میں مدرس مقرر ہوئے اور کئی سال تدریسی فرائض بہ خوبی انجام دیئےپھر اراکین شوری کی طرف سے آپ کو باقاعدہ عہدۂ اہتمام تفویض ہوا اور آپ نے کئی دہائیوں تک ادارہ کی انتظامی خدمات انجام دیں آپ کو نظم و نسق کا بہترین ملکہ حاصل تھا آپ کی حکمت عملی اور حوصلہ و لگن کی بناء پر ادارہ نے بہت جلدی ترقی حاصل کرلیآپ کے دور اہتمام میں ادارہ کو تعمیری، تعلیمی اور تربیتی پر اعتبار سے بے پناہ ترقی ملی _
آپ کو بزرگان دین اور اہل اللہ سے عنفوان شباب ہی سے تعلق تھااس سلسلہ میں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری قدس سرہ(١٩٠٥-١٩٩٢) کے دست گرفتہ تھے ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نور اللہ مرقدہ(١٩٢٦-٢٠١٢) کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے تھے مرشدَین کی نگاہوں میں آپ کا بڑا مقام تھا آخر الذکر نے طریقت و تصوف کے سلسلہ میں آپ کو اجازت و خلافت سے بھی نواز رکھا تھا ان کے علاوہ اترپریش کے معروف اور سب سے معمر بزرگ،حضرت مولانا شاہ سید مکرم حسین سنسارپوری دامت برکاتہم العالیہ سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی نیز مولانا محمد احمد خلیفہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی سے بھی اجازت تھی_
الحمد للہ اس ناحیہ سے بھی آپ کا فیضان روحانی عام تھا بیعت و ارشاد کا معمول تھا اور مجالس ذکر کے قیام کا ذوق تھا اس سلسلہ میں آپ سے ہزاروں لوگوں نے فیض پایا آپ کی صحبت میں بلا کی تاثیر تھی واردین و صادرین پہلی ہی ملاقات میں آپ کے چہرہ کی تازگی و شادابی کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے
اس ناکارہ کو محض اللہ کے فضل و کرم سے بارہا مولانا موصوف کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہر ایک ملاقات کے بعد دل میں ان کی خرد نوازی، اپنائیت اور شفقت کی بناء پر عظمت میں اضافہ ہوا ان کا سراپا بھی بڑا دلکش تھا لمبا چوڑا بدن،ریش مبارک سفید، چہرہ سے باطنی انوارات آشکارا، بدن پر سفید سیدھا سادا لباس، سر پر کبھی سرخ اور کبھی سبز رومال،ہاتھ میں عصا، چال باوقار، لہجہ شیریں،فکر بالیدہ اور خیالات پاکیزہ تھے
پہلی ملاقات آدھے گھنٹہ کو محیط تھی اس دوران میں آپ نے میری درخواست پر اپنی مختصر آپ بیتی سنائی اور ادارہ کے قیام کی داستان بھی بیان کی پھر آپ کی مہمان نوازی سے محظوظ ہونے کا موقع ملا آپ کا اندازِ شفقت بڑا نرالا تھا چونکہ آپ اگلے وقت کے انسان تھے اسی لیے پرانے لوگوں کی قدروں کی آپ کے ہاں بہت اہمیت تھی آپ بزرگوں کی پاکیزہ روایتوں کے خود تو امین تھے ہی اپنے خردوں، شاگردوں،متوسلوں اور مریدوں کو بھی اکابر کی روایات کا خوگر بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے اور علم، عمل، فکر، نظریہ،ذوق، مزاج اور مشرب ہر اعتبار سے ان کی پیروی کی اہمیت اجاگر کرتے _
اس مادیت زدہ عہد میں وہی رندان قدح خوار کامیاب ہیں جو ہمہ وقت بادۂ توحید سے سرشار رہتے ہیں جو دیوانے اس نفس پرستی کے زمانہ میں ہر قسم کے سود و زیاں سے بے پرواہ ہوکر عشق و سنت کی قندیلیں فروزاں کئے ہوئے ہیں وہی مسندِ عشق کے حق دار ہیںعلم و ہنر، فضل و کمال اور ٹکنالوجی و ترقی کے اس ہنگامہ خیز دور میں اگر کوئی ذکر اللہ کی مجالس آباد کرکے خدا کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کر رہا ہے اور مخلوق خدا کو راستی،ایمان داری اور اتباع نبوی کی تلقین کررہا ہے سچ مانیے وہ ہر طرح سے لائق رشک اور قابل تقلید ہے_
خدا مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے،خطاؤں سے درگزر فرمائے، پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیں ان کی خوبیوں کو اپنانے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے
١ جنوری ٢٠٢٢ء
Source: Facebook