پھر اُس دن تم سے نعتموں کے بارے میں ضرور بالضرور پوچھا جائے گا

*ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ پھر اُس دن تم سے نعتموں کے بارے میں ضرور بالضرور پوچھا جائے گا*

انسان کو اللہ تعالی نے مختلف صلاحتیں ودیعت کیں ہے اور نعمتیں دیں ہے. اور ان نعمتوں اور صلاحیتوں کو دے کر قرآنِ کریم میں اعلان کردیا ہے کہ وہ ضرور بالضرور روزِ قیامت میں ان نعمتوں کے جائز ناجائز استعمال کے بارے میں پوچھے گا اور حساب لے گا. نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زبان وادب اور اظہار واداء کی نعمت بھی ہے. جنہیں اللہ نے یہ نعمت عطا کی ہے انہیں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور اس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صلاحیت ناجائز اور تخریبی کاموں میں استعمال نہ ہو. آج متعدد مسلمان ادیب ایسے ہیں جو اپنی صلاحیت کا استعمال اللہ کو ناراض اور اسے غضبناک کرنے والے کاموں میں کرتے ہیں. وہ اپنے ادب کو بے ادبی اور فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بناتے ہیں. ایسے بے ادب ادیب، جنسی آوارگی میں مبتلا آواروں، اوباشوں اور کینسر الفکر لوگوں کی واہ واہی پر اور چند عدد ایوارڈ اور لکڑی اور ٹین کے میڈل پر مرتے ہیں اور خود اپنے بدفکر پوشیدہ امراض کو آشکارا کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ادیب کا حقیقی کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ سماج کو ادب سکھائے، اس کی اصلاح کرے اور خامیوں کو اپنے ادب سے دور کرے.

رابندر ٹیگور نے اپنے شہ پارہ بعنوان Dear to all the muses میں ادب کو آرٹ کہا ہے. موجودہ زمانے کے دوسرے ادباء بھی ادب کو آرٹ اور ادیب کو آرٹسٹ وفنکار کہتے ہیں. جس طرح آرٹسٹ اور پینٹر طرح طرح کی تصویریں بناتا ہے اور خاکے تیار کرتا ہے ان کے نزدیک ادیب کو بھی وہی کام کرنے چاہئیں. حقیقت یہ ہے کہ ادیب کی عظیم صلاحیت ایک tool اور آلے یا رنگ وروشنائی کی مانند ہے. رنگ اور ink سے شرمگاہ کی تصویر بھی بنائی جاسکتی ہے اور خانہِ کعبہ کی تصویر بھی سجائی جاسکتی ہے. اگر ادیب شرمگاہ بنارہا ہے تو یہ اس کی انتہائی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے اور وہ ایسا کرکے یقیناً معاشرے میں بے شرمی اور فحاشی کے جراثیم پھیلارہا ہے. اگر وہ مستورات کو اپنے نوکِ قلم سے مکشوفات کررہا ہے اور نسوانی جمالیات کا عنوان لگاکر اور اپنی تحریر میں تڑکا لگانے کے لئے اپنی زبان اور بے ادب ادب سے اس کے کپڑے سرِ عام اتار رہا ہے، خدو خال اور نشیب وفراز کو کاغذ کی سطح پر پیش کررہا ہے تو یہ نہایت سنگین بات ہے اور اگر ایسا شخص مسلمان ہو تو غضب بالائے غضب ہے. ایسے افراد ادیب کہلانے کے مستحق نہیں ہیں بلکہ درحقیقت وہ الفاظی نشیڑی ہیں جو ادب کے استعارے کے ساتھ بے ادبی اور فحاشی کا نشہ کرتے ہیں اور معاشرے میں چرس اور افیون کی لت پھیلارہے ہیں.

ایسے مسلم ادیبوں کو فوراً اپنی روشنائی کو بدی اور فحش کلامی سے روک کر تعمیری کام کی طرف متوجہ کرنا چاہئے. انہیں معلوم رہنا چاہئے کہ ان کی اولادیں اور نسلیں اگر پڑھینگی تو لاحول پڑھینگی، اور آج نہیں تو کل ایسا ضرور ہوگا. ان کے مرنے کے بعد یہ کارنامے بلکہ کرتوت ان کے لئے صدقہِ جاریہ نہیں بلکہ سیئاتِ جاریہ بنینگے. اللہ تعالی کی دی ہوئی زبان وبیان کی صلاحیت اور نعمت کے استعمال کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا. لہذا انہیں چاہئے کہ سیاہی سے اپنے سیاہ ادب کی تخلیق سے سخت پرہیز کریں بلکہ روشنائی سے روشن ادب پیدا کریں جس سے معاشرے کی تعمیر ہو، اصلاح ہو اور تہذیبی اقدار زندہ ہوں.

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مورخہ 24 دسمبر, 2021

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے