ایک بے مثال مہتمم
حضرت مولانا عبد الرشيد صاحب قاسمى کا سانحہ ارتحال
١٩٤٨ء/١٣٦٧ھ، = ٢٠٢١ء/١٤٤٣ھ
عبید اللہ شمیم قاسمی
اب نہ پائے گا زمانہ كبھى ان كى مثيل
لاكھ ڈھونڈے كوئى جلتى ہوئى شمعيں ليكر
١٤/جمادى الاولى ١٤٤٣ھ مطابق ١٨/دسمبر ٢٠٢١ء بروز سنيچر کو اچانک مغرب كے وقت ایک ایسے حادثہ فاجعہ کی اطلاع ملی جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، یعنی جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ کے مہتمم حضرت مولانا عبدالرشيد صاحب قاسمى کا سانحہ ارتحال پیش آیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔
٢/دسمبر ٢٠٢١ء کو عشاء كى نماز كے وقت اچانک مہتمم صاحب كو عارضہ قلب لاحق ہوا، آنا فانا اعظم گڑھ ڈاكٹر كے پاس لے جایا گیا اور آئى سى يو ميں داخل كرايا گیا، ايک ہفتہ كے بعد طبيعت نارمل ہوگئى تھى، جامعہ بھى آئے تھے مگر كمزورى زياده تھى اس ليے گھر چلے گئے اور ايک ہفتہ بعد واپس آنے كا اراده تھا، مگر آپ كا وقت موعود آچكا تھا اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کسی طرح کا تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (سورۃ یونس:٤٩)۔
اور موت زندوں اور مردوں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردیتی ہے، جس سے ان کے مابین زندگی میں موجود سارے روابط ٹوٹ جاتے ہیں، موت وحیات کا یہ فلسفہ اسی لیے ہے تاکہ نیکو کاروں کو ان کا اجر دیا جائے،اور نیک وبد میں فرق کیا جائے، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: ۲)۔
اس لیے اس دنیامیں جن شخصیتوں سے کسی بھی نوعیت کا رابطہ ہوتا ہے، یا ان کی بہت زیادہ خدمات ہوتی ہیں، ان کے یہاں سے رخصت ہو کر دارِ آخرت کی طرف روانہ ہونے پر غم کا ہونا ایک فطری امر ہے، جس کا اظہار آنسوؤں اور جانے والے کے اوصاف وکمالات کی یادوں سے ہوتا ہے، لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ وقتی طور پر اس کا بہت اثر ہوتا ہے اور بہت دیر تک اثر باقی رہتا ہے۔
اور قیس بن عاصم التمیمی کی وفات پر کہا گیا مشہور عرب شاعر عبدۃ بن الطبیب کا یہ شعر اس پر صادق آتا ہے۔
وما کان قیس ھلکہ هُلک واحد ولکنه بنیان قوم تهدّما
بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» (صحیح البخاری، باب کیف یقبض العلم، حدیث نمبر:١٠٠) اللہ تعالی علم کو واپس نہیں لے گا کہ لوگوں کے ہاتھ سے قبض کرے بلکہ علماء کو وفات دے کر علم کو واپس لے گا، اس حدیث کا ظہور آج کل کثرت وشدت سے ہورہا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی، اِدھر چند ماہ میں علمائے حق جس تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چل چلاؤ کایہ سلسلہ اسی طرح اگر جاری رہا تو علمی مجلسیں سونی ہوجائیں گی۔
اس مختصر مضمون میں مہتمم صاحب کی زندگی کے کچھ گوشوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، آپ کی زندگی آئینہ کی طرح بالکل صاف شفاف تھی، اور اس مادی دور میں بھی ایک نمونہ تھی، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے اور ان تعلیمات کو مشعل راہ بنایا جائے۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت:
مہتمم صاحب کی پیدائش فيض آباد (امبيڈكر نگر) ضلع کے ايک گاؤں رسول پور منڈيرا ميں یکم جنوری ١٩٤٨ء کو ہوئى (تاريخ پیدائش بحساب پاسپورٹ)۔ آپ کے والد صاحب کا نام بخشت اللہ تھا جو کہ بہت ہی دين دار اور سيدھے سادے تھے، ان کی نیکی وتقوی کا پورے گاؤں میں چرچہ تھا، آپ نے درجہ پنجم پرائمرى كى تعليم گاؤں كے مكتب ميں حاصل كى، اس كے بعد مزيد درجہ آٹھ تک پڑھا، يہى وجہ تھى آپ كو حساب اور ہندى كى بھى اچھى جانكارى تھى۔
حضرت مولانا محمد احمد صاحب دامت بركاتہم سابق استاذ دارالعلوم ديوبند آپ كے ہم قريہ تھے، اس وجہ سے آپ كے والد صاحب نے ان كى نگرانى ميں ديديا، آپ ان كے ساتھ مدرسہ حسینیہ گيا صوبہ بہار تشريف لے گئے، وہاں آپ نے حضرت مولانا سيد ارشد مدنى صاحب دامت بركاتهم صدر جمعية علماء ہند وصدر المدرسين دارالعلوم ديوبند اور ديگر اساتذه كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كيا، اس كے بعد اپنے علاقے كى مشہور درس گاه دارالفيض مدرسہ كرامتيہ جلال پور آئے، جہاں آپ نے حضرت مولانا ضمير احمد اعظمى رحمه الله، حضرت مولانا اسد الله صاحب اور حضرت مولانا نبيہ محمد صاحب دامت بركاتهم سے اكتساب فيض كيا، اسى طرح آپ نے مدرسہ بدر الاسلام شاه گنج ميں بھى تعليم حاصل كى، جہاں آپ نے حضرت مولانا محمد عثمان صاحب اور حضرت مولانا احمد صاحب جون پوری رحمهما الله اور ديگر اساتذه فن سے تعليم حاصل كى۔ موقوف عليہ تک تعليم حاصل كرنے كے بعد آپ دارالعلوم ديوبند تشريف لے گئے، جہاں حضرت مولانا فخر الدين صاحب مرادآبادى رحمة الله عليہ سے بخارى شريف اور ديگر كبار اساتذه سے حديث شريف پڑھ كر ١٣٩١ھ مطابق ١٩٧١ء ميں فراغت حاصل كى۔
تدریسی خدمات:
فراغت كے بعد آپ نے تدريس كى ابتداء جنوبی رياست كرناٹک كے مشہور بنگلور سے كى، وہاں قيام كے دوران ہی آپ كے والد صاحب بيمار ہوگئے، جس كى وجہ سے آپ كو گھر آنا پڑا، اسى بيمارى ميں والد صاحب كا انتقال ہوگيا تو آپ نے علاقے ہی ميں رہنے كا فيصلہ كيا اور مدرسہ فیضان القرآن بلرام پور آگئے، جہاں آپ نے چوده سال تک تدريسى خدمات انجام دى، اس دوران آپ مدرسہ كے ذمہ دار بھى تھے۔ ١٩٩٠ء ميں جب حضرت مولانا ڈاكٹر تقى الدين ندوى صاحب دامت بركاتهم نے جامعہ اسلاميہ مظفر پور قائم كيا تو ايسے شخص كى تلاش تھى جسے تدريس كے ساتھ انتظامى صلاحيت كا بھى ملكہ ہو تو حضرت قارى اختر عالم صاحب مرحوم كے مشورے سے آپ جامعہ اسلاميہ آگئے اور اہتمام كى ذمہ دارى سنبھال لى، تقريباً ٣٠/ سال تک جامعہ اسلاميہ ميں آپ كا قيام رہا اور آپ كى خدمات اور قربانيوں سے جامعہ اسلاميہ كے درو ديوار روشن ہيں۔
مہتمم صاحب سے پہلی ملاقات:
٢٠٠٦ء غالبا مئى كا مہينہ تھا جب حضرت مولانا سيد ارشد مدنى صاحب دامت بركاتهم حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی رحمة الله عليہ كى وفات كے بعد صدر منتخب ہونے پر مشرقى اضلاع اعظم گڑھ، مئو اور بليا وغيره كا دوره كر رہے تھے۔ اسى دوران اعظم گڑھ كا جب دوره ہوا تو مہتمم صاحب بھی جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ سے ہمراہ ہوگئے، میں مولانا توفیق احمد صاحب قاسمی ناظم جامعہ حسینہ جون پور کی گاڑی میں تھا، ساتھ میں اور لوگ بھی تھے، مولانا توفیق احمد صاحب قاسمی نے کہا کہ مولانا عبد الرشید صاحب نے کچھ بھیجا ہے، دیکھا گیا تو نمکین، بسکٹ اور ٹھنڈا تھا، جب عصر کے وقت ہم لوگ شیخو پور پہنچے اور نماز کے بعد دستر خوان لگا تو مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم جب دسترخوان پر بیٹھے تو انتظار کرنے لگے کہ میرے ساتھ مولانا عبد الرشید صاحب بھی ہیں ان کو بلاؤ، چنانچہ مہتمم صاحب کے آنے کے بعد مولانا نے چائے پانی کیا، اس دن نو جلسے ہوئے تھے، رات میں عشاء کے بعد جامعہ احیاء العلوم مبارک پور میں اجلاس عام تھا، رات میں ایک بجے کے بعد میں مہتمم صاحب کے ساتھ چیک پوسٹ آکر اتر گیا، یہ میری پہلی ملاقات تھی اور نام بھی پہلی مرتبہ سنا تھا۔
اسی سال جب شوال ١٤٢٧ھ شروع ہوا تو نومبر کی ٢/تاریخ ٢٠٠٦ء مطابق ١٢/ شوال کو جامعہ اسلامیہ میں میری تقرری ہوگئی۔ اب مہتمم صاحب سے آئے دن ملاقات ہوتی، جب بھی ملاقات ہوتی ہمیشہ شفقت کا معاملہ فرماتے۔
جب ربیع الاول میں ششماہی امتحان ہوا تو تعطیل کے موقع پر میرا دیوبند کا سفر ہوا تو مہتمم صاحب نے حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی کی خدمت میں سلام کہلوایا، اور تفصیل بتلائی کہ یہ دونوں میرے استاذ ہیں اور مولانا مدنی دامت برکاتہم سے بیعت کا بھی تعلق ہے۔
اس کے بعد سے تو مہتمم صاحب کے ساتھ بہت سے جلسوں میں شرکت ہوئی۔
اخلاق وعادات
حضرت مہتمم صاحب مرحوم انتہائی بلند اخلاق کے حامل تھے، ہر ملنے والے سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے، اس سے خیریت معلوم کرتے اور فورا خادم کو بھیج کر چائے پلاتے، طلبہ کے ساتھ بھی نرمی کا معاملہ کرتے تھے، مگر نماز چھوڑنے پر یا کبھی مسبوق ہونے پر کبھی کبھی تادیب بھی کرتے تھے۔
اسی تبلیغی جماعت کی آمد پر ان کا اکرام کرتے اور حسب موقع عصر بعد ان سے بیان بھی کراتے۔
مہتمم صاحب کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں، اپنے معمولات کے بہت پابند تھے، عام طور پر عصر کی نماز پڑھنے جاتے تو مغرب کی نماز کے بعد واپسی ہوتی، عصر بعد تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہتے۔ زندہ دل اور شب بیدار تھے، نماز اول صف میں بالکل امام کے پیچھے پڑھنے کا اہتمام تھا۔
جاری۔۔۔۔۔۔