موتُ العالِم موت العالَم
عبید اللہ شمیم قاسمی
کل سے کئی بڑی شخصیات کے انتقال کی خبریں موصول ہوئیں، جس سے دل بہت مضطرب ہے، لیکن موت کا وقت مقرر ہے اس میں تقدم وتاخر نہیں ہو سکتا، ارشاد باری تعالی ہے: {إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ} [نوح: 4] دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے {إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ} [يونس: 49]۔
حدیث شریف میں فرمایا گیا: عَن عبد اللَّه بن عمرو قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُول: (إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمِ انْتِزاعًا يَنْتَزِعُهُ مِن الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء حَتَّى إِذا لم يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا فَيُسْأَلُوا، فأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا) صحيح البخاري: 100).اللہ تعالی اس علم کو بالکل نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کی موت کے ذریعے علم دھیرے دھیرے اٹھتا جائے گا، جس تیزی سے اللہ والے اور اہل علم اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بالکل صادق آرہی ہے کہ جب اہل علم رخصت ہو جائیں گے تو مسئلہ پوچھنے کے لیے جب اہل علم کو نہیں پائیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے جو بغیر علم کے فتوی دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ايسا معلوم ہورہا ہے كہ قيامت اب بالكل قريب آگئى ہے۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجئے
کل صبح سب سے پہلے حضرت مولانا عبد الحئى صاحب خيرآبادى شیخ الحدیث مدرسہ تحفیظ القرآن اسلام پور سابر کانٹھا شمالی گجرات کے انتقال کی خبر ملی، جو اپنى زندگى كى 76/ بہاريں گزار كر اس عالم فانى سے عالم جاودانى كى طرف رخصت ہوئے، الله تعالى آپ كى خدمات كو قبول فرمائے، درجات بلند فرمائے، پسماندگان ومتعلقين كو صبر جميل عطا فرمائے۔
اس کے بعد جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے تخصص فی الحدیث کے استاذ مولانا خالد سعید صاحب مبارک پوری کے والد محترم حضرت مولانا سعید احمد قاسمی مدنی کے انتقال کی خبر موصول ہوئی، مولانا مرحوم ایک علمی ودینی گھرانے کے فرد تھے، اور اپنی پوری زندگی علم دین کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔
آپ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب قاسمی مدنی (والد ماجد مولانا عارف جمیل صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند) سابق ناظم مدرسہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے چھوٹے بھائی تھے، اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔
اس کے بعد پڑوس کے مشہور عالم دین مفتی زرولی صاحب شیخ الحدیث والتفسیر مدرسہ احسن العلوم کراچی کے انتقال کی خبر ملی۔
اسی طرح مولانا محمد اکبر صاحب شیخ الحدیث جامعہ قاسم العلوم ملتان اور مولانا قاضی افضل شریف صاحب صدر جمعیت علماء گریٹر حیدرآباد کا بھی کل ہی انتقال ہوا۔
سر دست حضرت مولانا عبد الحئی صاحب خیرآبادی کے سلسلے میں کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، جو ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی کے چھوٹے بھائی تھے۔
تذکرہ حضرت مولانا عبد الحئی صاحب خیرآبادی
حضرت مولانا عبد الحئى صاحب خيرآباد كے مشہور عالم دين حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمة الله عليه (1913ء=1988ء) كے صاحبزادے اور حضرت مولانا مفتى حبيب الرحمن صاحب خيرآبادى دامت بركاتهم العاليہ (پیدائش 1933ء) صدر مفتى دارالعلوم ديوبند كے چھوٹے بھائى تھے، (حضرت مفتى صاحب دامت بركاتهم سے اس ناچيز كو دارالعلوم ديوبند ميں افتاء كے سال1425 ھ مطابق 2004ء ميں در مختار ، رسم المفتى اور سراجى پڑھنے كى سعادت حاصل هوئى﴾، آپ ايک علمى خاندان سے تعلق ركھتے تھے، اور خود بھى بڑے علماء ميں آپ كا شمار هوتا تھا،
آپ كى پيدائش ٨/ مارچ ١٩٤٤ء( سرٹیفیکٹ کے مطابق) كو ہوئى، آپ كے والد حضرت مولانا نذير احمد صاحب حضرت مولانا عبد الحئى صاحب مئوی (متوفى 1363ھ)كے خصوصى شاگرد تھے جو محدث كبيرمولانا حبيب الرحمن صاحب الاعظمى اور مولانا عبد اللطيف صاحب نعمانی رحمهما الله كے رفيق درس تھے جن كے بارے ميں يہ تھا كہ وه طلبہ كو تمام كتابيں گھول كر پلا ديتے هيں، آپ نے درس نظامى كى تمام كتابيں نحومير سے مشكوة تک انہيں سے پڑھى تھيں، آپ كے والد نے اڑتيس سال تك منبع العلوم خيرآباد ميں تدريسي خدمت انجام دى اور ابتدا سے صدر مدرس رہے۔
مولانا عبد الحئى صاحب نے ابتدائی تعلیم مدرسہ منبع العلوم خیرآباد میں اپنے والد كى سرپرستى ميں ره كر حاصل كى، اس کے بعد عربی پنجم تک مدرسہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں، اس کے بعد معہد ملت مالیگاؤں میں جہاں اس وقت آپ کے برادر بزرگ حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی پڑھارہے تھے ۔
اس كے بعد دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں حضرت مولانا فخرالدين صاحب مردآباى ، علامہ محمد ابراهيم صاحب بلياوى اور ديگر اساطين علم كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كرتے هوئے ١٣٨٠ھ ( ١٩٦٠ء) ميں فراغت حاصل كى۔
فراغت كے بعد آپ نے مختلف مدارس ميں تدریس خدمات انجام ديں۔ دارالعلوم مئو: یہاں کی تدریس کے دوران علی گڑھ سے ہائی اسکول کیا ، اس کے بعد انگریزی تعلیم کے حصول لئے دارالعلوم مئو سے مستعفی ہوگئے، اور مختلف کورس کئے ، اور بی اے میں داخلہ لیا ، مولانا انگریزی زبان کے ماہر تھے ۔
انجمن خدام الاسلام ہائر سکنڈری اسکول ممبئی میں ٤ سال پڑھایا ۔ ضلع مرادآباد کانٹھ میں ایک سال قیام رہا ، وہاں صدر مدرس تھے ۔پھر مولانا بشیر احمد صاحب کے مشورے سے دارالعلوم وڈالی گجرات لے گئے ، وہاں ١٩٦٨ء سے ١٩٧٢ء تک رہے ۔
مدرسہ امدادیہ میں ٢ سال قیام رہا ، دورہ تک کی کتابیں یہاں بھی پڑھائیں۔ پھر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث الاعظمی علیہ الرحمہ کی ایما پر مظہر العلوم بنارس گئے ، جہاں دو سال قیام رہا ۔ پھر ایک سال جامعة الرشاد اعظم گڈھ میں رہے ۔اس کے بعد شمالی افریقہ کے ایک ملک یوگنڈا چلے گئے جہاں ڈھائی برس ایک مدرس میں رہے ۔
گھر آنے کے بعد قریب ہی رہنے کو ترجیح دی ، اور چشمہ فیض ادری میں ١٩٨٨ء سے ٢٠٠٦ء تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔
جون ٢٠٠٦ء میں رٹائرڈ ہونے کے بعد ، کرمالی ، ضلع بھروچ گجرات میں 12سال شیخ الحدیث رہے۔ اور آخر ميں مدرسہ تحفیظ القرآن اسلام پور سابر کانٹھا شمالی گجرات میں شیخ الحدیث تھے۔
ابھى ايک ہفتہ قبل اپنے وطن آئے هوئے تھے، يہاں سے اپنے بڑے بھائى سے ملاقات كے ليے ديوبند گئے تھے اور وہيں بيمار ہوئے ميرٹھ كے كسی اسپتال ميں بھرتى كرايا گيا جہاں ٢١ ربیع الثانی ١٤٤٢ھ مطابق ٧ دسمبر ٢٠٢٠ء دوشنبہ كو آپ كى وفات ہوئى۔ اور دیوبند میں حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآباد ی دامت برکاتہم کی امامت نماز جنازہ ادا اس علمی امانت کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیا گیا۔
مولانا مرحوم زبردست عالم اور ہر فن میں درک رکھتے تھے، عام علماء کے برعکس انگریزی پر بھی قابل رشک قدرت تھی۔ افسوس ایسے باکمال لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ اہل علم کے لئے یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔
آپ نے کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائی جس میں رہنمائے فاضل جو یوپی مدرسہ بورڈ کے سوالات کا حل ہے، اس کتاب کو جدید نصاب کے اعتبار سے دوبارہ بھی مرتب کردیا تھا جو بالکل طباعت کے لئے تیار ہے۔ اسی طرح رمضان پاشا کی عربی کتاب کا ترجمہ بھى كيا۔
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرما کر اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور امت کو ان کا بدل نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان ومتوسلین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے،