سراج اکرم ہاشمی
(تعلیمی نگراں:دی مسلم فاؤنڈیشن آف کونگو / مدیر:مدرسۃالہدایہ،کنشاسا، کونگو،افریقہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی کی عظیم تر نشانیوں میں ایک نشانی اختلاف اور تنوع ہے۔خالق کائنات نے اس جہانِ رنگ وبو کو اختلاف سے زینت بخشی ہے۔ہمارے اردو کے ایک باذوق شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
یہ شب ووروز کا الٹ پھیر، یہ زمان ومکان کی تبدیلی،یہ زمین وآسمان کی پستی ووسعت، یہ خشکی وتری کی حکومت،یہ گلشن وویرانے کی ندرت، یہ آبادی وجنگل کا تضاد، یہ گاؤں کی پرسکون فضا، یہ شہر کی پرشور آب وہوا…… یہ سب مظاہر اختلاف قدرت کی عظیم ترین نشانیوں اور نعمتوں میں سے ہیں:{إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَا فِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّأُو۟لِى الْأَلْبَابِ} {آل عمران: ۱۹۰}( یقیناً زمین وآسمان کی تخلیق اور شب وروز کے الٹ پھیر میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں)۔
اللہ تعالی نے شکل وصورت،زمان ومکان اور موسم کے اختلاف کی طرح شرائع ومذاہب میں بھی جزئی اختلاف رکھا ہے:{لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا}{المائدۃ:۴۸} (ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور واضح راہ مقرر کردی ہے)۔{لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا} {الحج:۳۴} ( ہر ایک امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر کردی ہے )۔
یہ موسی علیہ السلام کی شریعت ہے ،جہاں سختی ہی سختی ہے ۔یہ عیسی علیہ السلام کی شریعت ہے، جہاں نرمی ہی نرمی ہے۔یہ اسلام کا اعتدال ہے کہ جہاں نرمی وگرمی کا حسین امتزاج ہے۔
رنگ وروپ،لباس وپوشاک اور بہار وخزاں کے اختلاف کی طرح چوں کہ فکر ونظر کا اختلاف بھی ایک طبعی چیز ہے، اس لیے عہد نبوی میں بھی اس طرح کے اختلافات رونما ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کہ بدر کے قیدیوں کو چھوڑدیا جائے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشورہ کہ سب کو قتل کردیا جائے۔کسی کی رائے کہ بنو قریظہ پہنچ کر نماز عصر ادا کی جائے ،کسی کا اصرار کہ چوں کہ وقت ہوگیا ہے ،اس لیے راستے ہی میں عصر ادا کرلی جائے؛پر معلم انسانیت جناب رسولﷺ نے کسی کو سخت وسست نہیں کہا:{لم یعنت أحداً } (بخاري:4119) یہ اشارہ ہے کہ فکر ونظر کا اختلاف ہمیشہ باقی رہے گا۔
عہدصحابۂ وتابعین؛بل کہ ہر دور کے علمائے ربانیین میں اس طرح کے اجتہادی اختلافات پیدا ہوتے رہے،پر ان میں سے کسی نے کسی سے منھ نہیں بگاڑا،جھگڑے رگڑے نہیں کیے؛بل کہ ہر ایک اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کا مکمل ادب واحترام کرتا تھا۔اسی فکر ونظر کے اختلاف سے فقہی مکاتب فکر پیدا ہوئے،جن میں چار کو شہرت ووسعت اور مقبولیت ملی۔فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی۔ان حضرات فقہا کا باہمی اختلاف امت کے لیے رحمت،آسانی وسہولت کا سبب اور ایک ایسی عظیم دولت ہے جو قابل فخرومباہات ہے،قابل نفریں نہیں۔
اصول وقوانین کی تشریح وتعبیر میں قانون دانوں کا اختلاف ایک فطری امر ہے،جسے کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا؛بل کہ ہر شخص اسے گوارا کرتا اور پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔کسی بھی شارح قانون کی تشریح کے مطابق عدالت فیصلہ کردیتی ہے اور اسی کا فیصلہ مان لیا جاتا ہے۔
فقہ کا لغوی معنی
جاننا،سمجھنا اور بات کی تہ تک پہنچنا ہے۔پھر یہ علم شریعت کے ساتھ خاص ہوگیا۔فقیہ وہ شخص جو شریعت کے اصول واحکام کا جاننے والا ہو۔(المعجم الوسیط:698) اسی سے اللہ کا یہ فرمان : {یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ } (سورۂ طہ:27)اور نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشادہے: {من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ في الدین}(بخاري،حدیث نمبر:71)
فقہ کا مروجہ اصطلاحی معنی
ھو العلم بالأحکام الشرعیۃ العملیۃ المکتسب من أدلتھا التفصیلیۃ.(نھایۃ السو ل في شرح منھاج الأصول :1/22)
(شریعت کے ان عملی احکام کو جاننا جو تفصیلی دلائل سے حاصل ہو)۔
تفصیلی دلائل چارہیں:قرآن وسنت،اجماع امت اور قیاس۔
مقارن کا لغوی معنی
مقابل وموازی اور موازن ہے۔ قارن الشیئ بالشیئ(مقابلہ وموازنہ کرنا)۔ قارن بین الشیئین أو الأشیاء کا مفہوم دو یا چند چیزوں کو ملاکر ان میں سے کسی کی حیثیت یا وزن کو جاننا ہے۔ اسی سے "ادب مقارن”(تقابلی ادب) اور "فقہ مقارن”(تقابلی فقہ ) ہے۔ (المعجم الوسیط:730)
مقارن کا اصطلاحی تفصیلی مفہوم
"هو دراسة الآراء الفقهیة المختلفة في المسألة الواحدة مع مستنداتها من الأدلة الشرعیة، وتقویمها ، وبیان مالها وما علیها بالمناقشة ، وإقامة الموازنة بینها، توصلاً إلی معرفة الراجح منها، أو الجمع بینهما، أوالإتیان برأيٍ جدیدٍ أرجحَ دلیلاً منها”. (التالیف الموسوعي والفقه المقارن:12)
(کسی معین مسئلے میں حضرات فقہائے کرام کی مختلف آرا کا مطالعہ کرنا،ان کی شرعی دلیلوں کو بیان کرنا،ان کی جانچ پرکھ کرنا،نیز بحث ومباحثے کے ذریعے ان پر ہونے والے اعتراضات وجوابات اور ان کے فوائد ونقصانات کو واضح کرنا،اور اس غرض سے ان کے درمیان موازنہ کرنا کہ راجح قول کی معرفت ہوسکے ،یا ان کے درمیان جمع وتوافق کی صورت پیدا ہوسکے ،یاان سے زیادہ مضبوط رائے سامنے لائی جاسکے "فقہ مقارن”(جسے کبھی علم الخلاف کہا جاتا تھا) کہلاتا ہے)۔
معاصراہل علم ان کتابوں پر بھی فقہ مقارن کا اطلاق کرتے ہیں جن میں مختلف فیہ فقہی مسائل مذکور ہیں۔
فقہ مقارن کا موضوع
اختلافی فقہی مسائل ۔
فقہ مقارن کا فائدہ
اس کے ذریعے طالب علم میں فقہی مذاہب کی قدر ومنزلت پیدا ہوتی ہے۔قرآن وسنت سے مسائل کے استخراج کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔نیز مسئلے کی واقفیت کے ساتھ ساتھ اصول وکلیات اور مختلف مکاتب فکر کے فقہی اصول کا علم اور دنیا کے دیگر قوانین کے مقابلے میں فقہ اسلامی کا امتیاز بھی معلوم ہوتا ہے۔
فقہ مقارن کی ضرورت واہمیت
عہد جدید کی ترقیات سے عالمی فاصلے سمٹ چکے ہیں،دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village) بن چکی ہے۔فقہ مقارن کی شدید ضرورت واحساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان ارض وطن (ہندوستان) سے نکل کر عالم کی وسعتوں کی سیر کرتا ہے۔بالخصوص عالم عربی اور افریقی ممالک کی ؛کہ ان خطوں میں حنفیت برائے نام ہے۔بیشتر افراد دیگر ائمہ کے متبعین یا ہندوستانی عرف میں اہل حدیث ہیں۔
ایسے میں اگر دوسرے فقہی مسالک ومذاہب کا خاصا علم نہ ہو تو بڑی دشواری اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ہندوستان میں بندے کی ایک طویل کامیاب تدریسی زندگی گزری ہے؛ لیکن جب یہاں (کونگو،کنشاسامیں ) اچانک ” مختصر أبی شجاع” اور "شرح الورقات” جیسی کتابوں کا سامنا کرنا پڑا،تو مجھے بھی پسینہ آگیا۔
دارالعلوم دیوبند(خدا کرے کہ اس کا فیض ہمیشہ جاری رہے)اور اس سے ملحقہ مدارس میں فقہ مقارن کی تعلیم تو ہوتی ہے؛لیکن فنی حیثیت سے نہیں۔ضرورت ہے کہ اسے باضابطہ فن کی حیثیت سے تخصصات کے شعبوں میں ضرور داخل کیا جائے؛کیوں کہ آج کل ہمارے بہت سے فضلا کو بعض ان علاقوں میں خدمات انجام دینا پڑتی ہیں؛جہاں حنفیت کا چلن نہیں۔ان علاقوں میں حنفیت کے فروغ کی بے جا کوشش ایک فتنے سے کم نہیں؛کیوں کہ زیادہ تر لوگ دوسرے اماموں کے پیروکار ہیں۔اس لیے ان علاقوں میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے مسلک ومذہب کی واقفیت کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک ومذاہب کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہو؛تاکہ اسے فقہ اسلامی کی وسعت وہمہ گیری کا اندازہ ہو اور وہ ان علاقوں میں صحیح خطوط پر کام کرسکیں۔
فقہ مقارن کی تدریس
اسے شروع سے ہرگز نہ پڑھایا جائےکہ اس وقت ذہن ناپختہ اور نگاہ دور اندیش نہیں ہوتی،اس لیے اس وقت آزاد روی،یسروسہولت اور اباحت پسندی اور حضرات فقہائے کرام کی ناقدری کے شدید امکانات ہیں۔ تخصصات میں چوں کہ ذہن بالغ ہوچکا ہوتا ہے،طالب علم میں منشاء اختلاف سمجھنے کی تقریباً پوری صلاحیت بیدار ہوچکی ہوتی ہے،اس لیے مذکورہ بالا خطرات کم ہیں۔
تخصصات کے شعبوں میں بھی صرف تدریس ہو،فقہ مقارن کی ترویج واشاعت نہیں۔ اس کی عمومی ترویج واشاعت سے ایک ڈر سالگتا ہے کہ کہیں شرائط اجتہاد سے عاری شخص بھی یہ نعرہ نہ لگانے لگے: نحن رجال وھم رجال.
فقہ مقارن اور محاکمہ
آدمی خواہ کتنا ہی غیر جانب داری کا دعوی کرے؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ا پنے گردوپیش کے عرف وعادات،حالات وکیفیات اور زمانی ومکانی اثرات کا قیدی ہوتا ہے۔اس لیے مختلف فیہ مسائل میں حضرات ائمہ کے درمیان محاکمے میں شخصی رائے کو ہرگز قبول نہ کیا جائے؛ بل کہ یہ محاکمہ کسی ایسی معتبر وسیع تر اکیڈمی کے سپرد کیا جائے ،جس میں عالم اسلام کے چوٹی کے علما اکٹھے ہوں اور پھر ان کی طرف سے کوئی اجتماعی فیصلہ امت کے سامنے آئے ،جس کا ہر شخص پابند ہو۔
تخصصات کے شعبوں میں فقہ مقارن پڑھانے والے اساتذہ ایسے ذی ہوش، خدا ترس اور گہرے علم کے حامل ہوں ،جن کے ذہنوں میں دوسرے مذاہب کے اصول وکلیات اور جزئیات پوری طرح مستحضر ہوں، اور وہ بھی محاکمے میں کسی معتبر ادارے کے فیصلے کے پابند ہوں،آزاد نہ ہوں؛تاکہ تلفیق بین المذاہب ،بے جا یسروسہولت اور اباحت پسندی کی راہ نہ کھلے۔
خلاصۂ بحث
۱۔ فقہ مقارن کی تدریس تخصصات کے شعبوں میں ضرور ہو؛تاکہ فضلا کے لیے کاموں میں سہولت ہو۔
۲۔ فقہ مقارن کی تدریس کا مقصد یسر وسہولت اور اباحت پسندی ہرگز نہ ہو؛بل کہ دیگر مذاہب
ومسالک کی تفصیلات جاننا مقصود ہو؛ تاکہ امت کی بروقت صحیح رہنمائی کی جاسکے۔
۳۔ محاکمے کی صورت میں شخصی رائے ہرگز قابل قبول نہ ہو،خواہ رائے دہندہ علم وفضل اور تقوی کے
کتنے ہی اونچے معیار پر فائز ہو؛بل کہ کسی معتبر ادارتی فیصلے کی اتباع کی جائے۔
بذریعہ: فیس بک