مقبوضہ مغربی کنارے پر نئےمکانات کی تعمیرکا فیصلہ اور عالمی برادری

مقبوضہ مغربی کنارے پر نئےمکانات کی تعمیرکا فیصلہ اور عالمی برادری

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی،

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا

qasmikhursheed@yahoo.co.in

مقبوضہ مغربی کنارہ:

عرب اسرائیل کے درمیان سن 1967 میں، 5سے 10/جون، یعنی چھ روز تک جنگ جاری رہی۔ بدقسمتی سے غاصب ریاست اسرائیل اپنے آقاؤں کی مدد سے جنگ جیتنے میں کامیاب رہی اور عرب ممالک کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کے کئی علاقے پر قبضہ کرلیا۔ آج تک وہ علاقے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ ان میں سے ایک علاقہ "مغربی کنارہ” بھی ہے۔ اسے عربی میں "الضفۃ الغربیۃ” اور انگریزی زبان West Bank کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کا اہم حصہ ہے۔ یہ علاقہ دریائے اردن کے زمین بند جغرافیائی علاقے کا نام ہے۔ اس کے تین سمت: مغرب، شمال اور جنوب کی طرف غاصب اسرائيل واقع ہے؛ جب کہ مشرقی جانب مملکت ہاشمی اردن ہے۔ اس مغربی کنارے میں تقریبا دو ملین سے زیادہ فلسطینی مسلمان آج بھی آباد ہیں۔ اس خطے کے زیادہ تر انتظامی امور کا کنٹرول، اسرائیلی حکومت کے قبضے میں ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کے اس قبضے کو غیر قانونی تسلیم کرتی ہے؛ کیوں کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ قبضہ غیر قانونی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودیوں کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری:

اس علاقے میں اسرائیلی حکومت یہودیوں کے لیے مکانات تعمیر کرتی رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے زور زبردستی سے مقبوضہ مغربی کنارے پر253 اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں 13/غیر قانونی یہودی کالونیاں بسا رکھا ہے۔ ان مقبوضہ اراضی پر بنائی گئی ان غیر قانونی کالونیوں میں، اسرائیلی حکومت تقریبا چھ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد یہودیوں کو آباد کرچکی ہے۔ اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ وہاں کئی نسلوں سے آباد فلسطینی مسلمان اقلیت میں آجائیں اور یہودی آبادکاروں کی اکثریت ہوجائے۔ ابھی گذشتہ مہینے یعنی 24/اکتوبر 2021 کو، اسرائیلی حکومت نے اپنی دشمنی اور ظلم وجبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاروں کے لیے ایک ہزار تین سو پچپن نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ اسرائیل کی وزارت ہاؤسنگ اینڈ تعمیرات نے اپنے ایک بیان واضح کیا ہے کہ مغربی کنارے پر یہودی آبادیوں یہودہ اور سامرہ میں گھروں کی تعمیر کا ٹینڈر شائع کرادیا گیا ہے۔ اس وزارت کے بیان کے مطابق یہودیوں کے نئے گھر سات بستیوں میں تعمیر کیے جائيں گے۔ اس نئی آبادکاری کے بعد، مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاروں کے گھروں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کے یہ اقدامات خطے میں امن وامان کو قائم رکھنے کے بجائے اشتعال انگیزی اور کشیدگی کو بڑھاوا دے گی، جو کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔

اسرائیل کی موجودہ حکومت:

بنجامن نیتن یاہوکی بارہ سالہ حکومت کو شکست دے کر، 13/جون 2021 کو،”نیو رائٹ” پارٹی کی سربراہی میں، اسرائیل میں ایک نئی اتحادی حکومت بنی ہے۔ اس حکومت کی قیادت نفتالی بینیٹ کر رہا جو ایک آبادکار لابی گروپ کا سابق سربراہ بھی ہے۔یہ شخص”دو ریاستی حل” کے منصوبہ کا مخالف ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے تعلق سے گفت وشنید کو بھی پسند نہیں کرتا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت سے کسی طرح کچھ کم نہیں ہے۔ یہ حکومت ہر وہ کام کرنا چاہتی جس سے آباد کاروں اور صہیونیوں کو خوش رکھا جاسکے۔ اس کا فائدہ اس حکومت کو یہ ہوگا کہ لوگ اس سے قریب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت نے یہودی آبارکاروں کے لیے مغربی کنارے پر، عالمی برادری کی طرف سے بغیر کسی دباؤ کو محسوس کیے ہوئے،تیرہ سو پچپن نئے مکانات کی تعمیر کا فیصلہ کیاہے۔

یورپی یونین کے ایک درجن ممالک کا ردّ عمل:

اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے سے کئی ممالک ناراض ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک نے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی ہے؛ جب کہ بہت سے ممالک خاموش ہیں۔ جن ممالک نے اس فیصلہ کی کھل کر مخالفت کی ہے، ان میں یورپی یونینن کے ایک درجن ممالک سر فہرست ہیں۔ وہ ممالک: جرمنی، فرانس، اٹلی، اسپین ، ناروے، سویڈن، بیلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ اورپولینڈ ہیں۔ ان ممالک کی وزارت خارجہ کی جانب سے 28/اکتوبر 2021 کو ایک میٹنگ منعقد کی گئی۔ پھر ان ممالک نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے تعمیراتی کاموں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس بیان میں اسرائیلی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں مکانات کی تعمیر کے منصوبے کے اپنے فیصلے واپس لے۔ اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ممالک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، اسرائیلی حکومت کی طرف سے آبادکاری کی توسیع کی پالیسیوں کی سخت مخالفت کا اعادہ کرتے ہیں؛ کیوں کہ اس سےجہاں ایک طرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف اس سے دو ریاستی حل کی کوششوں کو بھی کو نقصان پہنچتا ہے۔

امریکہ میں ایک بڑی پالیسی تبدیلی:

یہ بات قابل غور ہے کہ مغربی کنارے پر غیر قانونی نئی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے امریکی پالیسی گذشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں، تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ موجودہ بائیڈن انتظامیہ نے پہلے تو گذشتہ انتظامیہ کی پالیسی سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، 26/اکتوبر کو وائٹ ہاؤس کی طرف جاری بیان میں یہ کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر، اسرائیل کی جانب سے نئی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں، موجودہ انتظامیہ کو شدید فکر لاحق ہے۔پھر امریکی امور خارجہ کے وزیر، مسٹر انٹونی بلنکن نےاسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز سے 28/اکتوبر 2021 کو، فون پر بات چیت بھی کی۔ امریکی وزیر نے اپنی گفتگو کے دوران شدید احتجاج کرتے ہوئے واضح لفظوں میں اسرائیلی وزیر دفاع کو کہا کہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیوں کی تعمیر، امریکہ کے لیے ناقابل قبول عمل ہے؛ اس لیے اسرائیلی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان دونوں وزراء کے درمیان سخت جملے کا تبادلہ بھی ہوا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کو نقصان پہنچے گا جو کہ ایک حقیقت ہے۔

موجودہ امریکی صدر مسٹر جو بائيڈن کا سیاسی تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے ممبران، اسرائیل کے تعلق سے وائٹ ہاؤس کی روایتی بلا شرط حمایت وتائید کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اسی سال جون میں، ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد ممبران نے صدر کو خط لکھ کر، یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسی تمام اسرائیلی کاروائیوں کی مذمت کریں، جو خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوں۔ یہ قدرے تسلی کی بات ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی گذشتہ ٹرمپ حکومت کے مقابلے میں، موجودہ حکومت کا موقف اس حوالے مختلف ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کے اس یہودی آبادیوں کے قیام اور اس کے اس توسیعی پروگرام کی مخالفت کر رہی ہے؛ جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے اس طرح کسی بھی فیصلے کی کھل کر تائیدوحمایت کرتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا پورا پلان تیار کرلیا تھا اور اس کی نظر میں "دوریاستی حل” کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا واضح ثبوت ٹرمپ کی طرف سے”صدی کی ڈیل” ہے۔ فلسطینیوں کو سلام کہ وہ کسی لالچ میں نہیں آئے ، انھوں نے ہمت وجرات کا مظاہر کیا اور امریکی امداد کے روک دیے جانے پر، ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنا منظور کیا؛مگر ٹرمپ کے "صدی کی ڈیل” کو سرے سے خارج کردیا۔

جامعہ ازہر، مصر کا فلسطین کے لیے اپنی حمایت کا اعلان:

یہ خوشی کی بات ہے کہ عالم اسلام کی قدیم ترین درس گاہ، جامعہ ازہر، قاہرہ، مصر نے 26/اکتوبر2021 کو اپنے ایک بیان میں، اسرائیلی حکومت کی طرف سے مقبوضہ مغربی کنارے میں، یہودیوں کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور اس فیصلے کو ایک جرم قرار دیاہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ اسرائیلی حکومت کا یہ ایک جارحانہ اور اشتعال انگیز قدم ہےجسے فورا روکا جانا چاہیے۔ اس سے فلسطینی علاقوں میں آبادیاتی شناخت بدل جائے گی۔ جامعہ ازہر نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی فوج کی جارحیت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس نے مہذب دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ان اسرائیلی اقدامات کے خلاف اپنی خاموشی توڑے جو فلسطینیوں کو تاریک دور کی طرف لے جارہی ہے۔ ازہر نے فلسطینی عوام کے لیے اپنی حمایت کی تجدید کا اعلان بھی کیا ہے۔

فلسطین کو ہضم کرنے کا اسرائیلی منصوبہ:

اسرائیلی حکومت کے سخت توسیع پسندانہ عزائم سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ "دو ریاستی حل” (Two Nations Theory) کے حق میں بالکل نہیں ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف ظلم وجبر جاری رکھا جائے، ان کی املاک کو زبردستی قبضہ کیا جائے اور ان کو مجبور کیا جائے؛ تاکہ آج نہیں تو کل سہی؛ فلسطین کےموجودہ باشندے، دوسرے لاکھوں فلسطینی شہریوں کی طرح فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں اور اسرائیل پورے فلسطین کو ہضم کرجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم اسرائیلی حکومت دن بدن فلسطینیوں کے خلاف قسم قسم کا ظلم کرتی ہے۔ مگر فلسطینی باشندے خدائی نصرت و مدد کے ساتھ، بڑی جرات وشجاعت سے، ان ظالموں کے خلاف شیشہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے ہر طرح کے مہلک اور عام تباہی کے ہتھیار وں سے مسلح اسرائیل کے سامنے فلسطینیوں کی کیا حیثیت!

عالمی برادری کی سرد مہری:

اس بات سے عالمی برادری بخوبی واقف ہے کہ اسرائیلی حکومت جب چاہتی ہے، فلسطینیوں کے خلاف ظلم وجبر اور دہشت گردانہ کاروائی شروع کردیتی ہے۔ وہ صدیوں سے بسے ہوئے خاندانوں کو اجاڑ کر، ان کی جگہ یہودی آبادکاروں کے لیے مکانات تعمیر کرتی ہے۔ مگر عالمی برادری اس غاصب ریاست کے خلاف کوئی مؤثر ردّ عمل نہیں کرپا رہی ہے۔ عالمی برادری کی سرد مہری جگ ظاہر ہے۔ ابھی مقبوضہ مغربی کنارے پر مکانات کی تعمیر کی منظوری کے حوالے سے ہی غور کیا جائے؛ تو عالمی برادری مؤثر ردعمل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے؛ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرتی اور اگر وہ نہیں مانتا؛ تو اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کاروائی کی جاتی۔

عرب امن منصوبہ 2002:

مسلم ممالک بھی اسرائیلی دہشت گردی اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے؛ تو کم از کم "عرب امن منصوبہ” کے نام سے سن 2002 میں، عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں، جو منصوبہ منظور کیا گیا تھا، اسی کو لے کر، ان کو آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ عرب امن منصوبہ (یا سعودی عرب امن منصوبہ) کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین (جنھوں نے بدقسمتی سے اب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں) سمیت عرب لیگ میں شامل تمام ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جب تک قضیہ فلسطین کا منصفانہ حل نہیں کرلیا جاتا، اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کیے جائيں گے۔ اس امن منصوبہ میں اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین کے ان تمام مقبوضہ علاقوں کو خالی کرے جن پر اس نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائيل جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا۔ مزید یہ کہ وہ ان علاقوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے پر راضی ہوجائے جس کا دار الخلافۃ مشرقی بیت المقدس ہو۔

اس”عرب امن منصوبہ 2002″ کو لے کر، مسلم ممالک آگے بڑھے اور اسرائیل پر دباؤ بنائے کہ وہ اس منصوبہ کو تسلیم کرے۔ اگر مسلم ممالک اسرائیل سے اس منصوبہ پر عمل کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں؛ تو اس سے بھی فلسطینیوں کو بہت حد تک ان کا حق مل جائے گا اورمسجد اقصی کی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوجائے۔ پھر فلسطینیوں کو در بدر ہجرت نہیں کرنی ہوگی۔ وہ اپنے وطن میں عزت وسکون سے رہ سکیں گے۔ اگر اسرائیلی حکومت ان کے اس منصوبہ سے اتفاق نہیں کرتی ہے، فلسطینیوں کے خلاف ظلم وجبر جاری رکھتی ، مقبوضہ علاقے واپس نہیں کرتی ہے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے باز نہیں آتی ؛ تو جن مسلم ممالک کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں یا جن ممالک نے حال ہی نام نہاد "امن معاہدے” کیا ہے، اسے ختم کردے اور عالمی سطح پر اس کے بائیکاٹ کی کوشش کرے۔ یہ بات سارے مسلم ممالک کو نوٹ کرلینی چاہیے کہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ دوستی، امن معاہدے اور سفارتی تعلقات، مسجد اقصی اور قضیہ فلسطین کی کوئی خدمت نہیں ہے؛ بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخم پر نمک چھڑکنے اورقضیہ فلسطین کو دفن کرنے کے مرادٍِف ہے۔⦁⦁⦁⦁

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے