سوشل میڈیا اور اسلام

امانت علی قاسمی
استاذ ومفتی دارلعلوم وقف دیوبند
اسلام ایک عالمی و آفاقی دین ہے جس میں زندگی کے ہر نیے چیلنجوں کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے۔اسلام کی بنیادی ذمہ داریوں میں تبلیغ ہے۔ حدیث میں ہے بلغوا عنی ولو آیة آج کا دور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اس وقت اسلام دشمن طاقتیں،اسلام مخالف پروپیگنڈوں کے لیے انٹرنیٹاور سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کررہی ہیں،مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے اور اپنی دینی معلومات کے لیے گوگل اور یوٹیوب کو امہات الکتب شمار کررہا ہے اوراس پر موجود مواد کو ہی صحیح دین کا مصدر و مرجع سمجھ رہاہے،مستشرقین اور یہودیوں کے گہرے تعلقات انٹرنیٹ، بلاگس اور سوشل میڈیا سے شروع ہی سے رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ وہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں طرح طرح کی افواہیں، پروپیگنڈے پھیلاتے ہیں اور تعلیمات اسلامی کو توڑ مروڑ کر پیش کر تے ہیں۔ ا س کا استعمال اپنے مفادات کے لیے کرتے ہیں اوراور اس دائرہ کار میں اضافہ کے لیے کثرت سے لوگوں کو جوڑتے ہیں۔ ا س کے برے نتائج ا س وقت بر آمد ہوتے ہیں جب نسل نو کے معصوم صارفین اسلام سے متعلق کچھ جاننا چاہتے ہیں تو یہو دیوں و مستشرقین کے سلجھے اور لچھے دار اسلوب و اندازسے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی کو حقیقی اسلام تصور کرنے لگتے ہیں اوراپنی زندگی کو انہی کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ ان کا معصوم ذہن اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ حاصل شدہ مواد و مضامین اورافکارو خیالات خام اور تعلیمات اسلامی کے بالکل منافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو کے نوخیز نوجوانان فکری و عقلی انحراف کے زیادہ شکار ہیں اور ان کے ذریعہ سے وہ ان جماعتوں میں بھی اپنی گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں جن کی دین اسلام سخت نکیر کر تا ہے۔یہودیوں اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھاس میدان میں قادیانی بھی بہت آگے ہیں انہوں نے اسلامی نام سے بہت سے ویب سائٹبنائے ہیں جس کے بارے میں عام مسلمانوں کاخیال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسلامی سائٹس ہیں جن سے استفادہ کرنا چاہیے جب کہ حقیقت میں وہ گمراہی کا مخزن اور تحریفات کی آماجگاہ ہوتے ہیں جن سے استفادہ کرکے یا متاثر ہوکر ہمارے بہت سے سادہ لوح مسلمان اسلامی عقائد و تعلیمات سے بہت دور ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات اپنے ایمانی جسم پر کفر کا لباس زیب تن کر لیتے ہیں اس سے واقف ہونا اور عام مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی فکرو کوشش کرنا یہ ہمارا ایمانی فریضہ اور شرعی ذمہ داری ہے۔
بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم تحریری طورپر اسلامی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں اور ہر طرح کا مسکت جواب دیتے ہیں جب کہ آج لوگپڑھنے سے بیزار ہوکر موبائل اور انٹرنیٹپر آگیے ہیں، وڈیو دیکھ کر اطمنان کرلیتے ہیں؛بلکہ وڈیو پروگرام کی لَت ان پر اس قدر مسلط ہوگئی ہے کہ وہ ہر مرض کا علاج یوٹیوب کے میڈیکل میں تلاش کرتے ہیں اور ہر درد کی دوا گوگل کے سرچ ہاسپیٹل میں دھونڈتے ہیں،کتابوں سے بیزاری کے ساتھ یہ نشہ اس قدر حاوی ہوگیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی دنیا کو ہی اپنا مے خانہ،گوگل کو جام و سبو اور یوٹیوب کو ساغرو میناتصور کیے ہوئے ہیں،یوٹیوب کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ بغیر یوٹیوب پر کچھ دیکھے ان کو نیند نہیںآ تی ہے گویا کہ یوٹیوب موجودہ نسل کی نیند کی گولی ہے جسے سونے سے قبل وہ ضرور لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری تحریریں جو صحیح اسلام کی نمائندگی کررہی ہوتی ہیں وہ لوگوں کی دسترس سے دور رہ جاتی ہیں اور باطل افکار و خیالات کے حامل لوگوں کی طرف سے بنائی گئی دڈیوز لوگوں کی زندگی اور ان کے اعمال پر اثر انداز ہوجاتی ہیں یہ کوئی ایک دو واقعہ نہیں ہے؛ بلکہ سوشل میڈیا پر رہنے والا ہر شخص اس صورت حال سے واقف ہے۔ ابھی کورونا کے دور میں خود میں نے بہت سے مسائل پر تحریریں لکھیں اور ہمارے پاس اسی مسئلہ سے متعلق بعض وڈیو ز آئے کہ اس میں جو کہا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟جب کہ میری وہ تحریر بھی ان کے پاس موجود ہے؛ لیکن میری تحریر ان کے استفادے کے قابل نہیں ہے؛اسی لیے وہ وڈیو دیکھ کر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس وڈیو پر عمل کرسکتے ہیں یا نہیں؟
انٹرنیٹپر بہت سے لوگاپنے آپ کو اسلام کا ترجمان با ور کراکر موجودہ آلات سے لیس ہوکر اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں دارالافتا میں اس طرح کے سوالات آئے دن آتے رہتے ہیں کہ ہمیں فلاں صاحب کی بات بہت اچھی لگتی ہے ہم ان کا بیان سن سکتے ہیں یا نہیں؟ہم چوں کہ انٹرنیٹ سے دور ہیں اور مذکورہ بیان سے ناواقف ہیں اس لیے کوئی صحیح جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور یہ لکھدیتے ہیں کہ ہمیں ان کے بارے میں معلومات نہیں ہیں؛لیکن ارباب تحقیق جانتے ہیں کہ یہ سوال کا جواب نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس طرح کے جواب سے اسلام کی صحیح ترجمانی کر پاتے ہیں؛اس لیے آج ضرورت ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو آفاق تک پہونچانے کے لیے موجودہ زمانے کے آلات استعمال کیے جائیں اور لوگوں سے ان کی زبان میں بات کی جائے ان کے اسلو ب اورمانوس طریقہ میں گفتگو کی جائے۔
اسلام ایک داعی مذہب ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لوگوں سے ان کی متعارف و مانوس زبان میں گفتگو کی جائے، انٹرنیٹ کا ایک مثبت پہلو اور مفید استعمال یہ ہوسکتاہے کہ بحیثیت داعی قوم کے پوری دنیا کو دعوت کا میدان بنایاجائے اور انٹرنیٹکے وسیع پنڈال کے ذریعہ معمولی خرچ کے ساتھ پوری دنیا کے لوگوں تک دین کی دعوت پہونچائی جائے،اور اسلام کے عالمی دعوتی مشن کے لیے انٹرنیٹ کے اسی فارمیٹ کو استعمال کیا جائے جس کے لو گ زیادہ دیوانے ہیں۔
ہندوستان میں اسلاموفوبیاکا مرض بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے،اسلام کے تعلق سے برادران وطن کے دل میں خوف و ہراس پیدا کرکے ان کے اندر مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنا اسلاموفوبیا ہے ۔یہ مرض یورپ سے شروع ہوا اور اب ہندوستان میں اس کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیںآ ئے دن ہم نفرت اور پرتشدد واقعات اورماب لنچنگ دیکھتے ہیں یہ سب اسلاموفوبیا کا حصہ ہے ا س پرقابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقی تصویر سامنے لائی جائے، اسلام کا پیغام امن و اخوت، مساوات، انسانی ہمدردی، انسانی حقوق کی پاسداری اور اسلام کے نظام عدل و انصاف کی بالادستی کو لوگوں کے سامنے لایا جائے۔
اس سلسلے میں جو سب سے بڑی رکاوٹہے وہ وڈیو گرافی ہے۔ حضرات اہل علم تحریروں کے ذریعہ سے انٹرنیٹ پر اسلامی موادشیئر کررہے ہیں؛لیکن میں سمجھتاہوں کہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہاہے اسی طرح آڈیو پیغامات کا بھی ایک سلسلہ ہے جس سے بہر حال بہت سے لوگ جڑ رہے ہیں لیکن جس درجہ کی ضرورت ہے اس کی تکمیل نہیں ہورہی ہے اس لیے کہ اس وقت لوگ وڈیو دیکھنے اور سننے کے عادی ہوچکے ہیں اس کے بغیر سوشل میڈیا پر اسلام کے تئیں منفی رویو ں کا مسکت جواب نہیں دیا جاسکتاہے ہماری تحریریں ان حلقوں اورذہنوں تک نہیں پہونچ پاتی ہیں جن کے ذہنوں کو پراگندہ کیا گیا ہے۔
ضروری ہے کہ تصویر پر بھی مختصر گفتگو کی جائے، تصویر کی جو ممانعت اور سخت وعید قرآن و حدیث میں ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے اورموبائل یا انٹرنیٹ پر جو تصاویر آتی ہیں وہ تصاویر محرمہ کے دائرے میں ہے یا نہیں؟یہ ایک مختلف فیہ بحث ہے۔ ہندوستان کے ارباب افتاء کی بڑی جماعت کی رائے یہی ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر بھی تصاویر محرمہ کے دائرے میںآ تی ہیں؛لیکن اسی کے ساتھایک دوسر اسوال جڑا ہوا کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت،اسلام پر ہونے والے منفی تبصرے،اسلام کے تعلق سے کیے جانے والے بے جا اعتراضات کے جوابات، صحیح اسلامی تعلیمات کی اشاعت،غلط افکار و نظریات اور غلط مسائل کے مقابلے میں صحیح افکار و نظریات کو پیش کرنے کے لیے انٹرنیٹ اور وڈیو کا استعمال کیاجاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں جمعیة علماء ہند کے ادارہ مباحث فقہیہ؛ اسی طرح فقہ اکیڈمی انڈیا کی تجاویز ہے کہ ان مقاصد کے لیے انٹرنیٹ او رویڈو پروگراموں کا استعمال جائز ہے۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے بارہویں سیمینار کی تجاویز ملاحظہ کریں۔
(1)اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت و بقاکے لیے ہر ممکن جدو جہد و سعی امت مسلمہ کا اہم فریضہ ہے۔
(2) و اعدو لہم ما استطعتم من قوة کے مطابق اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے جدید و قدیم ہر ممکن جائز ذریعہ و وسیلہ کا استعمال کرنا درست ہے بلکہ ضرورت و حالات کے مطابق مفید و موثر وسیلہ استعمال کرنا ضروری ہے۔
(3) بنیادی طورپر انٹرنیٹ آج کے زمانے کا سب سے اہم ذریعہ ابلاغ ہے اس کی حیثیت اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ کی ہے اور ذرائع کا حکم شرعی متعین کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ ان ذرائع کا استعمال کن مقاصد کے لیے ہورہا ہے ذرائع و وسائل کا استعمال جائز مقاصد کے لیے شرعا جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے،پھر ان کا شرعی حکم اس طرح متعین ہوگا کہ ان مقاصد کا حصول فرض و واجب ہے یا مستحب ہے یا مباح ہے اور ان وسائل کا استعمال مکمل طورپر ان مقاصد کے حصول کے لیے جس حد تک ضروری ہو اسی کے بقدر ان وسائل کا استعمال فرض یا مستحب یا جائز ہوگا۔اس اصولوں کی روشنی میں شرکاء سیمینار کی رائے ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال ایک شرعی، دینی،دعوتی،اجتماعی فلاح کے ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت سے جائز اوربعض دفعہ ضروری بھی ،تاہم ضروری ہے کہ عرض اور پیشکش کے طریقے میں منکرات اور محرمات شرعیہ سے بچاجائے۔
(4)ایک اہم سوال ان چینلس کے حکم شرعی کا ہے جو خالص دینی و دعوتی مقاصد کے لیے قائم کیے گیے ہیں اور قائم کیے جارہے ہیں اور ہر طرح کی فحاشی،، عریانی سے پاک اور خالی ہیں کیا ایسے چینلس کا قائم کرنا اور ان سے استفادہ کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟تمام شرکاء سیمینار اس کو جائز قرار دیتے ہیں جب کہ بعض حضرات ان حالات میں بھی اجازت نہیں دیتے ہیں(ان میں چھ حضرات کے نام ہیں) (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ص: 303)
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے تیسویں فقہی سمینار ”المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد“ میں منعقدہ۳-۴? اکتوبر ۱۲۰۲ء کی تجویز ہے۔
1 سوشل میڈیا موجودہ دور کی ایک اہم ایجاد ہے، جس سے منافع اور مفاسد دونوں وابستہ ہیں اور اس وقت یہ ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
2 اسلام کی اشاعت، دینی معلومات کی فراہمی، اخلاقی تعلیمات اور جائز معاشی فوائد وغیرہ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے؛ لہٰذا اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
3 اگر آڈیو یا ویڈیو کے مشتملات شرعی اعتبار سے درست ہوں تو ان کوسننے، دیکھنے اور دوسرے شخص کو بھیجنے پر کمپنی جو پیسہ دیتی ہے،اس کا لینا جائز ہے۔
4 ویڈیو کی نشر و اشاعت کے لئے ناجائز یا غیر مصدّقہ اشتہارات کو اختیاری طورپر شامل کرنادرست نہیں ہے۔
5سوشل میڈیا کے استعمال میں شرعی و اخلاقی اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور جو اُمور غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہوں، ان سے اجتناب لاز م ہوگا۔
6 سوشل میڈیا پر باطل اور گمراہ فرقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر بنائی گئیں بہت سی سائٹس موجود ہیں؛ لہٰذا شرکاء سیمینار کی نوجوان نسل سے اپیل ہے کہ وہ ایسی سائٹس کے استعمال سے اجتناب کریں اور اس سلسلہ میں اپنے معتمد علماء سے رُجوع کریں (تجاویز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)۔
مباحث فقہیہ جمعیة علمائے ہند کے آٹھویں اجتماع کی تجویزہے:اسلام میں بلا ضرورت شرعی تصویر کھنچوانا ناجائز ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹیلی ویزن اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اعدائے اسلام یا شرپسند فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے کوئی ایسی چیز سامنے آئے جس سے اسلام کی شبیہ بگڑنے یا مسلمانوں کے حقوق کے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کے دفاع کے لیے ٹیلی ویزن کے کسی پروگرام پر آنے کی ضرروتا گنجائش ہے (فقہی اجتماعات کے اہم فقہی فیصلے و تجاویز،ادارةالمباحث الفقہیة جمعیة علماء ہندص:73)
تاہم حضرات علماء نے اس فتوی میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے اس لیے کہ علی الاطلاق اجازت تصویر کشی اور وڈیو سازی کی قباحت و حرمت کو دلوں سے کم کردے گی اور اس کا بے جااستعمال اور غلط استعمال کثرت سے ہونے لگے گا جیسا کہ آج کل اس کا مشاہدہ بھی ہے اس لیے حتی الامکان جائز ذرائع کو استعمال کیا جائے اور ضرورت کی وجہ سیجدید آلات و اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کی نشر و اشاعت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی ہر ممکن جد و جہد و سعی کی جائے، اسلام کے خلاف جو منفی سوالات ہیں وہ جن ذرائع کے ساتھاستعمال ہورہے ہیں انہی ذرائع کے ساتھجواب دیا جائے۔ یہ قرآنی تعلیمات واعدوا لہم ما استطعتم کے تحت آتاہے۔ آج ضرورت ہے کہ اس کے مفید اور مضر پہلو پر تفصیلی گفتگو کی جائے او راس کے نقصان سے بچتے ہوئے اس کے مثبت استعمال کو بروئے کار لایا جائے ایسا نہ ہو کہ ہمارے بیدار ہوتے ہوتے وقت نکل ہوچکا ہو۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے