مفتی امانت علی قاسمی
استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند
Email:aaliqasmi1985@gmail.com
رمضان المبارک کی تمام نمازوں میں، اس کے علاوہ جمعہ اور عیدین میں لوگ بچوں کو بھی مسجد میں لانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔رمضان المبارک میں خاص طورپر بعض مساجد میں دیکھا کہ بچوں کی وجہ سے نزاع اور لڑائی کی صورت پیدا ہوگئی ۔بعض جگہوں پر بزرگوں کو دیکھا کہ وہ بچوں کو مسجد میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں اور اگر کوئی بچہ مسجد میں آگیا تو دست درازی اپنا حق تصور کرتے ہیں ۔مسجدوں میں عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ چھوٹے بچوں کو پیچھے کرتے رہتے ہیں ہر کوئی اسے نماز کا لازمی جز قرار دیتا ہے اور نماز میں داخل ہونے سے پہلے اگر کوئی بچہ بڑوں کی صفوں میں نظر آئے تو اسے پیچھے کرنا ضروری خیال کرتا ہے ۔بعض مرتبہ عید کی نماز میں اعلان کرتے سنا کہ بچوں کو پیچھے کردیں ورنہ سب کی نماز نہیں ہوگی۔ اب ہزاروں کے مجمع میں بچے کا ولی اور سرپرست بچے کو پیچھے کس طرح کرے اور پیچھے کرنے کے بعد اگر بچے گم ہوجائیں تو تلاش کس طرح کرے ؟ اور کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے کہ اگر بچے بڑوں کی صف میں نہیں پڑھیں گے تو کسی کی بھی نماز نہیں ہوگی؟ اس طرح کے مسائل ہماری ز ندگی کاحصہ بن گئے ہیں؛ اس لیے ضروری ہے کہ ان مسائل کا جائزہ لیا جائے اور صحیح صورت حال واضح کی جائے۔
روایات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ چھوٹے ہوں اور ان کو بالکل شعور نہ ہو، ماں باپسے علحدہ نہ رہ سکتے ہوں،پیشاب وغیرہ کا خیال نہ رکھتے ہوں،اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس قدر چھوٹے بچوں کو لانے سے منع کیا گیا ہے؛ اس لیے کہ ایسے بچے کسی بھی ناگہانی پر رونا شروع کردیں گے جس سے تمام نمازیوں کا خشوع و خضوع متاثر ہوگا۔ایسے بچے پیشاب کرکے مسجد کو ناپاک کرسکتے ہیں،شور و ہنگامے کے ذریعہ مسجد کے پرسکون ماحول میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرائکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع اصواتکم، وإقامة حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی ابوابہا المطاہر، وجمروہا فی الجمع(سنن ابن ماجہ باب مایکرہ فی المساجد،حدیث نمبر:750)
حضور ﷺ نے فرمایا : اپنی مساجد کو اپنے بچوں اور مجنونوں سے دور رکھو، مسجد میں خرید و فروخت ، مقدمات کے فیصلے ،شور ہنگامے،حدود قائم کرنے اورتلواریں سوتنے سے پرہیز کرو۔ مسجد کے دروازے پر وضو خانہ اوراستنجاخانہ بناوٴ اور جمعہ کے دن مسجد میں دھونی دو۔
حدیث پر غور فرمائیں اس لیے بچوں کو نہیں منع کیا گیا ہے کہ ان کے آنے سے نماز نہیں ہوگی بلکہ اس لیے منع کیا گیا کہ مسجد کا وقار متاثر ہوگا یہی وجہ ہے کہ صرف بچوں کو لانے سے منع نہیں کیا گیا؛ بلکہ گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے ،بیت بازی کرنے ،بدبودار چیزوں کو مسجد میں لے جانے ،جنبی ،حائضہ اور نفاس والی عورت کو مسجد میں داخل ہونے اور ان تمام کاموں سے منع کیا گیا ہے جو احترام مسجد کے منافی ہے ۔
جو بچے شعور و ادراک رکھتے ہیں،پاکی وناپاکی کو سمجھتے ہیں اور تنہا اسکول یا مدرسہ پڑھنے جاتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست ہے تاکہ وہ مسجد کے ماحول سے مانوس ہوں اور ابتداء سے ہی نماز کے عادی بن جائیں؛ یہی وجہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے سات سال کی عمر کے بچوں کو آپﷺ نے نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے۔مروا صبیانکم بالصلاة اذا بلغوا سبعا واضربوہم اذا بلغوا عشرا وفرقوابینہم فی المضاجع(مصنف ابن ابی شیبة ، متی یومر الصبی بالصلاة ‘حدیث نمبر: 3482)بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سا ل کے ہوں جائیں اور ان کو نماز چھوڑنے پر مارو جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں اور ان کے بستر الگ کردو ۔
ایسے بچوں کو مسجد میں لانا بچوں کو مسجد کے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر قدم ہے۔ سات سال کے بچے تو بحکم حدیث مسجد آئیں گے ان کو مسجد میں آنے سے روکنا درست نہیں ہے ۔سات سال سے کم عمر کے بچے بھی اگر شعور و احساس رکھتے ہوں ، اسکول مدرسے میں تنہا پڑھنے جاتے ہیں اور ان کی تعلیمی و تربیتی زندگی کا آغاز ہوچکا ہے تو ان کو بھی مسجد لانا درست ہے ہاں جو بچے ماں باپ سے علیحدہ نہیں رہ سکتے ہیں اور شعور و ادراک نہیں رکھتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں ہے ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بچے نماز کی صفوں میں کہاں کھڑے ہوں گے؟ اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بچہ ہے تو وہ مرد حضرات کے ساتھ صفوں میں کھڑا ہوگا۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت انس کی نانی حضرت ملیکہ رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ کو کھانے کے لیے مدعو کیا آپ ﷺ نے ان کے یہاں کھانا تناول فرمایا پھر آپ نے فرمایا: آوٴ! میں تم لوگوں کو نماز پڑھاتا ہوں۔ حضرت انس فرماتے ہیں :کہ میں نے ایک چٹائی لی جو کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوگئی تھی اسے جلدی سے دھویا پھر آپ ﷺ نے اس پر کھڑے ہوکر نماز پڑھائی ۔نماز میں آپ ﷺ کے پیچھے میں اور ایک یتیم (نابالغ) بچے نے صف لگائی اور میرے پیچھے بڑی بی(میری دادی )نے صف لگائی ۔حضورﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ تشریف لے گئے ۔
عنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ جَدَّتَہُ مُلَیْکَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْہُ لَہُ فَاَکَلَ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَلِاُصَلِّ لَکُمْ قَالَ اَنَسٌ فَقُمْتُ إِلَی حَصِیرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُہُ بِمَاءٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ وَالْیَتِیمَ وَرَائَہُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ انْصَرَف(بخاری، الصحیح، کتاب الصلاة، 380)۔
غور فرمائیں آپ ﷺ کے پیچھے حضرت انس اور ایک نابالغ بچے نے ایک صف میں نماز پڑھی، انہوں نے بچے کو پیچھے نہیں کیا اور نہ ہی حضور ﷺ نے بچے کو پیچھے کرنے کا حکم دیا ۔ علامہ عینی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: وفیہ قیام الطفل مع الرجال فی صف واحد (عمدة القاری 4/112، داراحیا التراث العربی بیروت)اس سے معلوم ہوا کہ ایک بچہ ہو تو وہ مردوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہوگا علیحدہ صف نہیں لگائے گا۔
اگر بچے متعدد ہوں تو بچوں کی صف مرد حضرات کی صف سے پیچھے لگائی جائے گی ۔ صاحب بحر فرماتے ہیں : کہ یہ ترتیب کہ پہلے مرد حضرات ہوں گے اس کے بعد بچے پھر عورتیں ہوگی اس صور ت میں ہے کہ مردوں کی جماعت کے ساتھ بچوں کی بھی جماعت ہو۔:قولہ:و یصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء)؛ لقولہ علیہ الصلاة والسلام: لیلینی منکم اولو الاحلام والنہی…و لم ار صریحًا حکم ما إذا صلی ومعہ رجل و صبیّ، و إن کان داخلاً تحت قولہ: ”و الاثنان خلفہ” و ظاہر حدیث انس انہ یسوی بین الرجل و الصبی و یکونان خلفہ؛ فإنہ قال: فصففت انا و الیتیم ورائہ، والعجوز من ورائنا، و یقتضی ایضًا ان الصبیّ الواحد لایکون منفردًا عن صف الرجال بل یدخل فی صفہم، و ان محلّ ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبیان فحینئذ توٴخر الصبیان”. (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفکر)
لیکن اگر بچے شرارتی ہوں اور اندیشہ ہے کہ بچوں کی صفیں علیحدہ لگانے کی صورت میں بچے شرارت اورشور کریں گے جس کی وجہ سے بڑوں کی نمازمیں بھی خلل واقع ہوگا تو ایسی صورت میں بچوں کے لیے علیحدہ صف لگانے کے بجائے ان کومردوں کے صف میں ہی کھڑا کیا جائے تاکہ بچوں کی شرارت سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔حضرات فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ بچوں کے شرارت کرنے کی صورت میں بچوں کے لیے علحدہ صف نہ لگائی جائے؛ بلکہ ان کو اپنی صفوں میں کھڑا کیا جائے۔
(قولہ: ذکرہ فی البحر بحثًا) قال الرحمتی: ربما یتعین فی زماننا إدخال الصبیان فی صفوف الرجال، لانّ المعہود منہم إذا اجتمع صبیّان فاکثر تبطل صلاة بعضہم ببعض و ربما تعدّی ضررہم إلی إفساد صلاة الرجال، انتہی. (التحریر المختار، کتاب الصلاة، باب الإمامة 1 / 571 ط: سعید)۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر نابالغ بچے ایک سے زائد ہو تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونا چاہیے یہ حکم بطور استحباب یا بطور سنت ہے بطور وجوب نہیں ہے۔غنیة المتملی میں ہے: ثم الترتیب بین الرجال و الصبیان سنة لا فرض ہو الصحیح (غنیة المتملی شرح منیة المصلی،ص:485)پھر مردوں اور بچوں کی صفوں میں ترتیب سنت ہے فرض نہیں ہے یہی مفتی بہ قول ہے۔
عید وغیرہ کے موقع پر جہاں ازدحام زیادہ ہو وہاں پر مردوں کی صف میں بچوں کو کھڑا کر سکتے ہیں بچوں کو پیچھے کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بچے اگر بڑوں کی صف میں ہوں گے تو بڑوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی یہ غلط تصور ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ہاں درمیان صف میں کھڑا کرنے میں ممکن ہے کہ بچے کے شرارت اور ادھر ادھر حرکت کرنے کی وجہ سے ساتھ میں پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل ہوجائے؛اس لیے بہتر ہے کہ بچوں کو مردوں کے صف میں ہی کنارے میں کھڑا کیا جائے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : اب مفتی بہ قول یہ ہے کہ بچوں کو پیچھے کھڑے نہ کریں ورنہ وہ بہت شرارت کرتے ہیں لہذا ان کو صفوں میں دائیں بائیں کھڑا کیا جائے تاکہ وہ شرارت کرکے نماز خراب نہ کریں(انعام الباری دورس بخاری ۳/۵۴۹)۔واللہ اعلم بالصواب۔