بقلم: امدادالحق بختیار ([1])
اس وقت تقریباً پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہے، کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی رفتار بے انتہا سست ہو چکی ہے، اسباب زندگی کو مہیا کرنا ہر شخص کے لیے ایک دشوار کن مسئلہ بن گیا ہے، ملازمت، کاربار اور کسب معاش کے دیگر ذرائع کے حوالے سے لوگ بڑی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، نیز اس حالت پر ایک لمبا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے بعض مسلمان مایوسی کے شکار ہیں۔
لیکن اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں تو موجودہ حالات میں بھی ہمارے لیے کافی تسلی کا سامان ہے، آپ ﷺ کی تنگ دستی ، آپ کے فقر و فاقہ اور اس سے پیدا ہونے والی تکلیفوں کا جو سامنا رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے، محبوب رب کائنات ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں جن دشواریوں کا مقابلہ کیا ہے، اگر ہم ان کا مطالعہ کریں تو ہماری پریشانیاں ہمیں بہت معمولی معلوم ہوں گی؛ چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبِيتُ اللَّيَالِي المُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
(ترمذی شريف، باب ما جاء في معيشة النبي صلى الله عليه وسلم، حديث نمبر:2283)
ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لگاتار کئی کئی راتیں فاقہ کی حالت میں گزارتے تھے، آپ کے گھر والوں کے پاس رات کا کھانا نہیں ہوتا تھا اور آپ اکثر جو کی روٹی تناول فرماتے تھے۔
نیز حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ: ابْنَ أُخْتِي «إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الهِلاَلِ، ثُمَّ الهِلاَلِ، ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ»، فَقُلْتُ يَا خَالَةُ: مَا كَانَ يُعِيشُكُمْ؟ قَالَتْ: ” الأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالمَاءُ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ، كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهِمْ، فَيَسْقِينَا "
(بخاری شریف، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، حديث نمبر: 2567)
’’ہم اہل بیت نبوت اس طرح گذار ا کرتے تھے کہ کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے (یعنی کامل دو مہینے گذر جاتے )اور حضور ﷺ کے گھر وں میں چولھاگرم نہ ہوتا،حضرت عائشہ ؓکے بھانجے حضرت عروہ نے پوچھا کہ پھر آپ لوگوں کو کیا چیز زندہ رکھتی تھی؟حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ بس کھجور کے دانے اور پانی، البتہ رسول اللہ ﷺ کے بعض انصاری پڑوسی کے پاس دودھ دینے والے جانور تھے ،وہ آپ کے لئے بطور ہدیہ دودھ بھیجا کرتے تھے اور اس میں سے آپ ہم کو بھی دیتے تھے‘‘۔
خود حضور سرور عالم ﷺ اپنی زندگی کی فقر وتنگی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اللہ کے راستہ میں مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اورکواتنا نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کے راستہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ستا یا گیا اور ایک دفعہ تیس دن رات مجھ پر اس حا ل میں گذرے کہ میرے اور بلا ل کے لئے کھانے کی کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے۔بجز اس کے جو بلال نے اپنے بغل میں دبا رکھا تھا۔(ترمذی شریف، حدیث نمبر: 2472)
حضرت عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں اور اس کے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے، اور چٹائی کی بُناوٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دئیے ہیں، اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے، یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر کی آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا، حضرت عمر نے جواب دیا ﴿وَمَالِي لَا أَبْكِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِكَ وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِيهَا، إِلَّا مَا أَرَى وَذَلِكَ قَيْصَرُ وَكِسْرَى فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ وَصَفْوَتُهُ﴾ اے اللہ کے رسول! میں کیوں نہ روؤں، یہ چٹائی آپ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشان ڈال رہی ہے، اُدھر قیصرو کسریٰ دنیا کے ناز و نعم میں ہیں، آپ تو اللہ کے نبی اور برگزیدہ ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ﴿أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ یہ سب تو وہ لوگ ہیں جن کو ان کی لذتیں اسی دنیا میں دے دی گئی ہیں، (اور آخرت میں ان کا کچھ نہیں ہے) کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کیلئے دنیا کا عیش ہواور ہمارے لئے آخرت کا عیش۔
(السنن الكبرى للبیہقی، بَابُ مَا أَمَرَهُ اللهُ تَعَالَى بِهِ مِنِ اخْتِيَارِ الْآخِرَةِ عَلَى الْأُولَى، حديث نمبر: 13305)
غزوہٴ خندق کے موقعے پر سخت بھوک اور فاقہ مستی کا عالم تھا، ہر صحابی مضطرب تھے، ایک صحابی بے قرار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں سخت بھوکا ہوں، اور اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھادیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان کی تسلی کے لیے اپنے پیرہن مبارک کو اٹھایا تو صحابی نے دیکھا کہ آپ کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافِ معمول بیٹھ کر نماز اداکررہے ہیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بیمار ہیں؟ فرمایا نہیں: بھوک کی شدت ہے جس کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جارہا ہے، اس لئے بیٹھ کر نماز ادا کررہا ہوں۔
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ابو نعيم (ت 430) دار الكتاب العربي، بيروت، ج:7، ص: 109)
حضرت عمر فاروق اپنے عہد خلافت میں شام تشریف لے جاتے ہیں، شہر حمص پہنچتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ محتاج کون ہے؟ اس کا نام لکھا جائے، تمام حاضرین جواب دیتے ہیں، سعید بن عامر بن جذیم، حضرت عمر پوچھتے ہیں کہ کون سعید؟ لوگ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے گورنر، حضرت عمر کو بڑا تعجب ہوتا ہے، پوچھتے ہیں کہ ان کی تنخواہ کیاہوتی ہے؟ جواب ملتا ہے کہ سب فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں، کچھ باقی نہیں رکھتے، حضرت عمر کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے ہیں، وہ حضرت سعید کی خدمت میں ایک ہزار دینار بھجواتے ہیں، قاصد جاتا ہے اور کہتاہے کہ امیرالموٴمنین نے آپ کی ضروریات کیلئے یہ ہدیہ بھیجا ہے، حضرت سعید زور سے ” إنا لله وإنا إليه راجعون ” پڑھتے ہیں، ان کی بیوی اندر سے باہر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کیا بات ہے؟ کیا امیرالموٴمنین کا انتقال ہوگیا؟ حضرت سعید کہتے ہیں نہیں: اس سے بڑی مصیبت آئی ہے، اہلیہ پوچھتی ہیں: کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ جواب ملتا ہے: نہیں اس سے بڑا حادثہ ہوا ہے، اہلیہ پوچھتی ہیں کہ کچھ تو بتائیے کیا بات ہے؟ حضرت سعید فرماتے ہیں ﴿الدنيا أتتني، الفتنة دخلت عليّ﴾ دنیا کا فتنہ میرے پاس آگیا ہے، پھر وہ سب دینار مستحقین پر صرف کردیتے ہیں۔(اسد الغابۃ، سعيد بن عامر (2083) دار الفكر، بيروت، ج:2، ص: 242)
حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں: نبی ﷺ کبھی بھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھاتے تھے اور آپ نے کبھی کسی سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا؛ کیوں کہ آپ کو فقر، غنا سے اور بھوک، پیٹ بھر کھانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ تھی، آپ بسا اوقات بھوک کی وجہ سے تمام رات بے چین رہتے تھے، مگر آپ کی یہ بھوک آپ کو اگلے روز روزہ رکھنے سے نہ روک سکتی ، رات کو کچھ کھائے پیے بغیر ہی آپ روزہ رکھ لیتے ، حالانکہ آپﷺ اگر چاہتے تو اللہ رب العزت سے دنیا کے تمام خزانے اور ہر قسم کی نعمتیں اور فراوانیاں مانگ سکتے تھے ، مگر آپ نے فقر و فاقہ کو عیش سامانی پر ہمیشہ ترجیح دی، میں حضور اقدس ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگتی اور خود میری اپنی یہ حالت ہوتی کہ بھوک سے برا حال ہو تا اور میں پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگتی اور حضور ﷺ سے کہنے لگتی: کاش ہمیں صرف گزر بسر کی ہی حد تک کھانے پینے کا سامان میسر ہوتا، فراخی اور عیش سامانا نہ سہی، کم از کم اتنا تو ہوتا کہ اطمینان سے ہمارا گزر بسر چلتا، میری یہ بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ ہمیں دنیا سے کیا غرض ۔۔۔۔۔ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے دنیا میں فراخی دے دی جائے اور آخرت کی لازوال نعمتوں میں کمی ہو جائے ۔ (اسوہ رسول اکرم ﷺ، از: عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبد الحی، ص: 72-73)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ، بِثَلاَثِينَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ» (بخاری، کتاب الجھاد، حدیث نمبر: ۲۹۱۶)
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں وفات پائی کہ آپ کی زرہ ۳۰/ صاع جو کے بدلے ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کے یہ چند گوشے پیش کیے گئے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کن دشواریوں اور فقر و فاقہ کے عالم میں زندگی بسر کی ہے، کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے اوپر جو معاشی پریشانی آئی ہے، وہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی دشواریوں کے مقابلے میں ایک فیصد بھی نہیں ہے، آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کے ان گوشوں کو پڑھنا چاہیے، ان سے ہمیں تسلی اور حوصلہ ملتا ہے، نیز ہمیں مایوسی کا بالکل بھی شکار نہیں ہونا چاہیے اور ہر حال میں ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، ان شاء اللہ العزیز یہ چند روزہ مصیبت بھی ٹل جائے گی اور آخرت کی لازوال نعمتوں سے بھی اللہ تعالی ہمیں نوازیں گے۔
([1]) رئیس تحریر عربی مجلہ ’’ الصحوۃ الاسلامیۃ‘‘و استاذ حدیث وعربی ادب جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا،
Mob: +91 9032528208– E-mail: ihbq1982@gmail.com