ڈاکٹر محمد اللہ خلیلی قاسمی، دیوبند
دارالعلوم وہ تربیت گاہ ہے جہاں تعلیم و تعلم کے سانچے سے علمائے دین تیار ہوتے ہیں، وہ کارخانہ ہے جہاں ملت اسلامیہ ہند کے لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے، وہ چمن زار ہے جہاں بلبلان قرآن و سنت کے زمزمے گونجتے ہیں، وہ مرکز علمی ہے جہاں ملک کے گوشے گوشے سے علم کے پروانے شمع علم پر قربان ہونے کے لیے جوق در جوق چلے آتے ہیں اور پھر اس ولی اللہی نسبت اور قاسمی و رشیدی ذوق کی چاشنی سے دنیا کو شادکام کرانے کے لیے پرعزم ہوکر نکلتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں تعلیم و تربیت کا یہ نظام گزشتہ ڈیڑھ صدی سے قائم ہے اور علم ظاہر و باطن سے آراستہ رجال کار کی تیاری و افراد سازی ہی اس کی خدمات کا لب لباب ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ٹکسال میں یہ خالص سکے کیسے ڈھلتے ہیں، ناہموار اور کھردرے پتھروں کو کیسے ہیروں کی طرح تراشا جاتا ہے، زر ِخام کو کیسے تپا کر کندن بنایا جاتا ہے اور پارس کی لمس کیسے بے قیمت فولاد کو بیش قیمت بنادیتی ہے ، اس کی ایک دلچسپ اور رشک انگیز کہانی ہے۔ وہ کہانی ہے استاذ و شاگرد کے باہمی ربط و تعلق کی، معلم و متعلم کے اخذ و فیض رسانی کی، طالب و مطلوب کی جاں سپاری و قربانی کی، سالک و مرشد کی شدت طلب اور کمال توجہ کی اور سب سے بڑھ کر ربانی نسبت اور علوم نبوت کے اعجاز و فیضان کی ! یہیں سے یہ انسان کامل نکلتے ہیں جو اس کارگہہ حیات میں لاہوتی پیغام کے حامل اور علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے مصداق ہوتے ہیں۔ یہ زریں سلسلہ روز اول سے جاری و ساری ہے اور یہ سنت الٰہی صبح ازل سے دائم و قائم ہے۔ انبیاء و صدیقین اور صالحین و متقین کا ایک تسلسل ہے جو اپنی علمی و فکری وراثت یکے بعد دیگرے نسلاً بعد نسل منتقل کرتے رہتے ہیں اور اس طرح خدا کی اس زمین پر ایمان و ایقان، زہد و تقوی، وفا شعاری و جفاکیشی، قربانی و جان نثاری اور علم و عمل کی رونقیں باقی ہیں۔
قسام ازل کی بے پایاں عنایتوں سے دیوبند میں ڈیڑھ صدی سے ایسا میخانہ جاری ہے جہاں ساقی و قاسم جام پر جام لنڈھائے جاتا ہے اور علم و آگہی کے رندان بلا نوش اپنی پیاس بجھانے کے لیے جوق در جوق حاضر ہوتے ہیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق آسودگی و سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ دارالعلوم میں بافیض معلمین کا ایک سلسلہ ہے جو روز اول سے قائم ہے جس میں قاسم العلوم والخیرات حضرت نانوتوی، حضرت مولانا یعقوب نانوتوی، حضرت شیخ الہند، حضرت محدث کشمیری، حضرت شیخ الاسلام اور حضرت شیخ الادب (رحمہم اللہ رحمةً واسعةً ) کا مقام نہایت بلند ہے۔ عہد قریب میں اس سلسلے کے گوہر آب دار حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رجال سازی اور افراد سازی میں ’کوہ کنی‘ کے مقام ِ بلند پر فائز تھے ، انھوں نے ایک نسل کو علم و فن ، فکر و شعور اور خود شناسی و عالَم آگاہی کے ہنر سے روشناس کرایا۔
حالیہ دور میں ماضی کے اسی زریں سلسلے کی اہم ترین کڑی اور نمایاں ترین شخصیت امیر الہند رابع حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری معاون مہتمم و محدث دارالعلوم دیوبندرحمة اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ آپ کو بھی حضرت مولانا کیرانوی کے ابتدائی عہد میں ان سے استفادہ کا موقع ملا ہے۔ دوسری طرف حضرت قاری صاحب کو شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ سے مصاہرت کا تعلق بھی ہے جس کی وجہ سے ان کے تعلیم و تدریس اور ارشاد وافادہ میں مدنی فیضان کی چھاپ بھی صاف دکھائی دیتی تھی۔
امیر الہند رابع حضرت قاری صاحب کی دارالعلوم کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو بے پناہ تحرک اور تنوع نظر آتا ہے۔ ایک طرف آپ اعلی درجے کے مدرس ہیں اور درس و تدریس کے جملہ فرائض پابندی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا فرماتے نظر آتے ہیں، دوسری طرف کبھی آپ دارالاقامہ کے ناظم اعلی کے طور پر طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک طرف نیابت اہتمام اور اخیر میں معاونت اہتمام کے منصب عظیم پر فائز ہیں اور دوسری طرف تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلی اور دفتر محاضرات علمیہ کے سربراہ ہیں۔ ان عظیم الشان امور میں مشغولی کے ساتھ ساتھ حضرت قاری صاحب طلبہ کی خارجی علمی و ثقافتی سرگرمیوں کی نگرانی و سرپرستی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مابعد صد سالہ دور میں طلبہ کی رہ سرپرستی و رہ نمائی اور تربیت و کردار سازی کے حوالے سے آپ کا کوئی شریک و سہیم نہیں نظر آتا۔
طلبہٴ دارالعلوم کی علمی وثقافتی سرگرمیاں اور حضرت امیر الہند کا مربیانہ کردار
دارالعلوم دیوبندایک بے مثال تعلیمی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نظیر علمی وثقافتی مرکز بھی ہے۔ یہاں کی سرگرمیاں صرف دائرہٴ تعلیم ہی میں محدود نہیں، بلکہ یہاں کے مشاغل میں آفاقیت و تنوع اور مجموعی مزاج میں وسعت و کشادگی ہے۔ یہاں رہ کر ایک طالب علم صرف دریائے علم کے آبدار موتیوں سے دامنِ مراد بھرنے پر اکتفا نہیں کرتا ہے ، بلکہ وہ یہاں زندگی کا مفہوم سیکھتا ہے اور معاشرہ میں رہنے کا ہنر بھی، یہاں اسے اخلاق و ادب کی تعلیم بھی ملتی ہے اور علمی و فکری غذا بھی۔ یہاں طالب علم کی فطری خوبیاں اس طرح پروان چڑھتی ہیں جیسے کوئی پودا موافق موسم میں نشو ونما پاتا ہے ۔
دارالعلوم دیوبند میں داخل طلبہ کی نصابی سرگرمیوں کے علاوہ تقریر و تحریر اور مطالعہ کا اہم پلیٹ فارم طلبہ کی انجمنیں ہوتی ہیں جو قیام دارالعلوم کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھیں ، لیکن بعد میں ان میں تنظیم اور وسعت پیدا ہوتی گئی۔طلبہ کی مختلف صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں دارالعلوم میں قائم یہ انجمنیں اہم کردار کرتی ہیں۔ انجمنوں کے اس ماحول سے طلبہ کے اندر گوناگوں علمی و انتظامی، تقریری و تحریری اور سماجی وسیاسی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ انہی نوخیز ونوعمر طلبہ میں انشاء پرداز بھی ہوتے ہیں، فصیح اللسان مقرر بھی، دنداں شکن مناظر بھی اور شاعر و منتظم بھی۔ انجمنوں کی مختلف سرگرمیوں سے ان کے جوہر کھلتے ہیں اور ان کے اندر ملک و ملت کی خدمت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند میں انجمنوں کا نظام اس کے تعلیمی نظام کی طرح ایک مبارک و مسعود سلسلہ ہے جس سے وابستہ ہو کر طالبان علوم دینیہ استفادہ کرکے اپنی ذہنی و فکری ، تقریری و تحریری اور علمی و تحقیقی صلاحیتیوں کی آبیاری کرتے ہیں۔
روایات کے مطابق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے دور صدارت میں انجمنوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا کیوں کہ وہ انجمنوں کے قیام کے سلسلے میں طلبہ کی تحریک و تائید اور ہمت افزائی کے ساتھ تعاون بھی فرماتے تھے۔ حضرت قاری صاحب کو یہ خصوصیت بھی حضرت شیخ الاسلام سے وراثت میں ملی تھی۔ چناں چہ کل دارالعلوم پیمانے کی سب سے بڑی اور اہم انجمن مدنی دارالمطالعہ کے سرپرست اور نگراں تھے۔ ابتدا سے ہی انھوں نے اس انجمن کی سرپرستی قبول کرلی تھی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ اس فریضے کو انجام دیتے تھے۔
مدنی دارالمطالعہ جملہ طلبہٴ دارالعلوم کی یہ سب سے بڑی انجمن ہے جو ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء سے قائم ہے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی طرف منسوب ہے۔ یہ انجمن دارالعلوم میں طلبہ کی تحریری و تقریری صلاحتیوں کو پروان چڑھانے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ مدنی دارالمطالعہ کے طلبہ کی طرف سے ہفتہ واری اخباری نشریہ ’البلاغ‘ اردو اور عربی میں الگ الگ شائع ہوتا ہے جس میں مضامین کے ساتھ دارالعلوم کی اہم خبریں نشر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ، مدنی دارالمطالعہ کے طلبہ ’آزاد ‘ اور ’الہلال‘ کے نام سے دو ماہانہ رسائل بھی نکالتے ہیں۔ سال کے اخیر میں کل دارالعلوم سطح کا سالانہ تحریری مسابقہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں سیکڑوں طلبہ شرکت کرتے ہیں۔ ان مسابقوں میں پوزیشن لانے والے طلبہ کو گراں قدر انعامات دیے جاتے ہیں۔ مدنی دارالمطالعہ کے تحت بزم شیخ الاسلام قائم ہے جس کے پلیٹ فارم سے طلبہ تقریری سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ بزم شیخ الاسلام میں کل بیس (۲۰) تقریری حلقے قائم ہیں جو ہر ہفتہ بعد نماز جمعہ درسگاہوں میں تقریری مشق کرتے ہیں۔ سال کے اخیر میں تقریری مسابقہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں سیکڑوں طلبہ شرکت کرتے ہیں جس میں پوزیشن لانے والے طلبہ کو گراں قدر انعامات دیے جاتے ہیں۔
مدنی دارالمطالعہ کی ترقی میں سب سے بنیادی کردار سرپرست محترم کا ہی تھا۔ اجلاس صد سالہ کے بعد یہ دارالعلوم کی سب سے بڑی انجمن بن کر ابھری اور مختلف قسم کی ظاہری و باطنی ترقیات سے ہمکنار ہوئی۔ اس انجمن سے ہر دور میں ایسے طلبہ مربوط ہوتے رہے جنھوں نے اس کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا اور ان طلبہ کی ذہن سازی، تربیت اور رہ نمائی حضرت قاری صاحب فرماتے تھے۔ حضرت قاری صاحب کی تربیت کا انداز ایسا تھا کہ آپ کی تحریض و تحریک سے طالب علم کو حوصلہ ملتا اور وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لینے لگتا۔
حضرت قاری صاحب ہفتہ واری تقریری و تحریری جائزہ لیتے اور شائع ہونے والے مجلات کی خبر رکھتے تھے۔ تحریری اور تقریری مسابقات کے عناوین طے کرتے؛ اس سلسلے میں پہلے طلبہ سے کہتے کہ اپنے طور پر عناوین تجویز کریں، پھر ان عناوین کو ملاحظہ فرماکر ان میں ضروری تغیر و ترمیم کرکے اسے پاس کرتے۔ مسابقات میں جو مضامین موصول ہوتے ان کے جانچ کے نظام کی بھی نگرانی کرتے ۔
دارالعلوم میں مدنی دارالمطالعہ کا سالانہ اجلاس نہایت تزک و احتشام سے منعقد ہوتا ہے۔ حضرت قاری صاحب اس پورے کر و فر، بھاگ دوڑ ، جد و جہد اور نقل و حرکت کے پس منظر میں جلوہ نما ہوتے۔ اس کی تیاریوں کا جائزہ لیتے۔ پروگرام میں پیش کی جانے والی تقاریر اور دیگر مواد کا جائزہ لیتے، طلبہ کو بلا کر تقاریر سنتے اور اصلاحات فرماتے۔ دہائیوں سے مدنی دارالمطالعہ کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کی رونق آپ کے دم سے قائم تھی۔ گھنٹوں کے پروگرام میں پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ شرکت فرماتے اور اخیر میں صدارتی تقریر کے ذریعہ جہاں حوصلہ افزائی فرماتے وہیں فروگزاشتوں پر تنبیہ بھی فرماتے، مستقبل کے خاکے بناتے اور نہایت گُر اور کام کی باتیں بتاتے۔
اسی طرح دارالعلوم دیوبند کی ایک دوسری نمایاں انجمن ’النادی الادبی ‘ہے جو طلبہٴ دارالعلوم کی ایک عظیم تاریخی انجمن ہے اور جو طلبہ کی عربی زبان و ادب کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوینے ۱۹۶۴ء مطابق ۱۳۸۴ھ میں قائم فرمائی تھی۔ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کو عربی زبان و ادب کا خاص ذوق حاصل تھا اور وہ برصغیر کے نمایاں عربی ادیب اور ماہر ترین استاذ و مربی تھے۔ حضرت مولانا کی سرپرستی اور مربیانہ خصوصیات کی بنیاد پر النادی الادبی ایک بہترین تربیت گاہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس انجمن سے وابستہ فضلائے دیوبند کی ایسی کھیپ کی کھیپ تیار ہوئی جنھوں نے علم و فکر اور زبان و ادب کی دنیا میں دارالعلوم کا نام روشن کیا۔
حضرت مولانا کیرانوی کے بعد یہ انجمن مجموعی طور پر ہمارے ممدوح حضرت قاری صاحب کی نگرانی میں سرگرم سفر رہی۔ النادی الادبی کے تحت مختلف شعبے قائم ہیں جن میں شعبہٴ اجتماعات، شعبہٴ نشر و اشاعت اور شعبہٴ لائبریری اہم ہیں۔ شعبہٴ اجتماعات کے تحت عربی میں تقریری مشق کے لیے ہفتہ واری حلقہ جات لگتے ہیں۔ طلبہ ہفتہ واری پروگرام عربی زبان میں منعقد کرتے ہیں اور عربی زبان میں تقریریں کرتے ہیں۔ اختتام سال پر ایک عظیم الشان سالانہ جلسہ منعقد کرتے ہیں ۔ اسی طرح النادی الادبی کے شعبہٴ نشر و اشاعت کے تحت طلبہ عربی زبان میں ایک درجن سے زائد جداری پرچے نکالتے ہیں اور اس طرح عربی زبان میں انشاء پردازی اور مضمون نگاری کی صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں۔
حضرت قاری صاحب النادی الادبی کے پروگراموں میں بھی اسی طرح دل چسپی لیتے تھے۔ درمیان میں نیابت اہتمام کے امور میں مشغولیات کی وجہ سے انجمن النادی الادبی کے باضابطہ مشرف کے طور پر حضرت مولانا شوکت علی قاسمی اور حضرت مولانا محمد ساجد قاسمی صاحبان نے ذمہ داریاں انجام دیں، لیکن اس کے باوجود حضرت قاری صاحب النادی الادبی کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ کوشاں رہے اور اس کی سرگرمیوں کی سرپرستی فرماتے رہے۔
حضرت قاری صاحب ہی کوششوں سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ منعقدہ صفر ۱۴۴۱ھ مطابق اکتوبر ۲۰۱۹ء نے النادی الادبی کی طرف سے سہ ماہی عربی رسالہ ’النہضة الأدبیة‘ جاری کرنے کی منظوری دی اور مولانا مفتی محمد ساجد قاسمی ہردوئی کی ادارت میں اسی وقت سے یہ رسالہ جاری ہونا شروع ہوا۔ یہ رسالہ بنیادی طور پر طلبہ کی عربی زبان و ادب کی دل چسپی کو بڑھانے اور ان کی صلاحیتیوں کو پروان چڑھانے کے مقصد سے جاری کیا گیا۔
دارالعلوم میں طلبہ کی تربیت اور رجال کار کی تیاری کا ایک نہایت مہتم بالشان پلیٹ فارم ’آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت ‘ کا ہے جس کے قیام (۱۴۰۷ھ مطابق ۱۹۸۶ء)سے ہی حضرت قاری صاحب ناظم مقرر کیے گئے اور تاحیات اس عہدہ پر فائز رہے۔ اس شعبہ سے بے شمار افراد تیار ہوئے اور پورے ملک میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی صوبائی اور مقامی شاخوں بے شمار افراد اس تحریک سے وابستہ ہوئے اور حضرت قاری صاحب کی سرپرستی و رہ نمائی میں مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت اور صحیح عقائد و افکار کی ترویج و اشاعت کا عظیم الشان کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔
غرضے کہ دارالعلوم دیوبند میں حضرت امیر الہند رابع کے کم و بیش چالیس سالہ عہد میں آپ کی فیضان نظر اور توجہ کامل سے علماء و فضلاء کی ایک نسل تیار ہوئی جو درس و تدریس، تحریر و صحافت ، تقریر و موعظت اور تحفظ عقیدہ و ایمان کے حوالے شاندار خدمات انجام دے رہی ہے۔ دارالعلوم میں مابعد صد سالہ دور میں تعلیم حاصل کرنے والے فضلاء کی ایک بڑی تعداد ہے جو کسی نہ کسی زاویہ سے حضرت قاری صاحب کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئی اور ان کی مربیانہ شفقتوں کے سائے میں تعلیمی و تربیتی مراحل طے کیے۔ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کی بے مثال تربیتی خدمات کے بعد دارالعلوم میں اگر کسی حد تک اس کا تسلسل قائم رہا تو وہ حضرت قاری صاحب کی ذات عالی کا رہین منت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت قاری صاحب کے انتقال کے بعد یتیمی کا ایک احساس دامن گیر ہے کہ دارالعلوم کے احاطے میں قائم ان تعلیمی و تربیتی حلقات کو کیا اُن کا نعم البدل مل سکے گا؟ ویسے خدائی نظام ”مرَدے از غیب بروں آید و کارے کند ‘ کے تحت یہ سلسلے چلتے رہیں گے ، لیکن حضرت قاری صاحب کی انفرادیت اور دل ربائیت کا نقش اپنی جگہ قائم رہے گا۔
حضرت قاری صاحب کی نمایاں تربیتی خصوصیات
اللہ تعالی نے حضرت قاری صاحب کو اعلی ترین تربیتی خصوصیات سے نوازا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مدنی خانوادے اور ان کے متعلقین کے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو حضرت قاری صاحب کی تربیت میں دے کر مطمئن ہوجاتے تھے۔ حضرت قاری صاحب جہاں بھی رہے چاہے مدرسہ قاسمیہ گیا بہار یا جامع مسجد امروہہ ، ہمیشہ آپ کے ساتھ خاندانی بچوں کی ایک جماعت ہوتی تھی جو آپ کی زیر نگرانی تعلیمی و تربیتی مراحل طے کرتی تھی ۔ حضرت قاری صاحب کے حسن تربیت اور کمال پرورش و پرداخت کے مظہر اتم آپ کے دو نوں لائق و فائق فرزندان گرامی (حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری اور حضرت مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری) ہیں جو علم و عمل میں یکتائے روزگار ہیں۔
ضبط اوقات اور وقت کی پابندی حضرت قاری صاحب کی نمایاں خصوصیت تھی۔ مشغولیات کے بے پناہ ہجوم کے درمیان بھی وہ ہر کام کو وقت پر کرنے کے قائل تھے۔ جس طرح وہ خود وقت کی پابندی کرتے اسی طرح طلبہ کو بھی پابندیٴ وقت کی تاکید کرتے۔
حضرت قاری کی دوسری اہم خصوصیت حقیقت پسندی کا مزاج تھا۔ محض رسماً کسی چیز کو اختیار نہیں کرتے تھے۔ مدارس میں طلبہ انجمنوں کی سرپرستی عموماً روایتی ہوتی ہے ، بسا اوقات سرپرست محترم کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ انجمن ان کی سرپرستی میں محو سفر ہے۔لیکن حضرت قاری صاحب اس طرح کی ذمہ داریوں کو محض رسمی نہ رہنے دیتے بلکہ اس کا پورا حق ادا کرتے تھے، اس کے لیے وقت دیتے، نگرانی کرتے اور ضروری مشوروں سے نوازتے۔ عجلت اور جلد بازی مزاج میں نہیں تھی، ہر کام نہایت سنجیدگی سے کرتے اور اسے منطقی انجام تک پہنچاتے تھے۔
حضرت قاری شفقت و رأفت کا مجسمہ تھے ، لیکن بایں ہمہ وقار و تمکنت ، ٹھہراوٴ ، اور رعب آپ کا نمایاں وصف تھا۔ آپ کی اسی خاص تربیتی وصف کی وجہ سے طلبہ و متعلقین پر آپ کی باتوں کا خاص اثر ہوتا تھا اور اس سے اُن کی اثر پذیری میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ خاموش مزاجی اور تحمل و بردباری سے مزید اثر انگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی تھی۔
خونِ دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو
حضرت قاری صاحب نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ہونے کے ساتھ اخلاص و خیر خواہی کے جذبے سے سرشار تھے۔ گویا میر کارواں کی صفات ضروریہ یعنی بلندیٴ نگاہ اور دل نوازیٴ سخن کے ساتھ پرسوزیٴ جان کی صفت سے بکمال متصف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سرزنش اور ظاہری خفگی سے طلبہ بالکل بھی نالاں و شاکی نہ ہوتے بلکہ آپ کی زیر لب مسکراہٹ سے ان طلبہ کی شبانہ روز کی تھکن اور محنت و مشقت کا اثر یکلخت کافور ہوجاتا تھا۔ چناں چہ آپ کے طرز و انداز اور برتاوٴ و سلوک میں جو عنصر سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا تھا وہ آپ کا بے انتہاء جذبہٴ افادیت اور بے پایاں خلوص تھا۔
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہٴ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمات کو قبول فرماکر انھیں ان کا بہترین صلہ عطا فرمائے اور ان کے اخلاف کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین !