حضرت الاستاذ مولانا عبد الخالق سنبھلیؒ نائب مہتمم واستاذ دارالعلوم دیوبند

ترا خیال حسیں تیری اداؤں كی طرح

مفتی محمداجمل قاسمی
استاد تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

سال ڈیڑھ سال كے قلیل عرصے میں ہمارے كئی سینئر اورموقر اساتذہ ٴدارالعلوم دیوبند پے درپے راہی دارِآخرت ہوگئے‏، صف اول كے اساتذہ كی ایك جماعت كا اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ جانا دارالعلوم ہی نہیں بلكہ علم وعرفان ‏،درس تدریس اور تقریروتحریركی دنیا كا ناقابل تلافی نقصان اور ایك عظیم ملی سانحہ ہے‏، موت توروزہ مرہ كا واقعہ ہے‏، بادہٴ حیات نوش كرنے والے كو تلخیٴ موت كا ذائقہ چكھنا ناگزیر ہے‏، مگر یہ سب جانتے ہوئے جب كوئی محسن اس دنیا سے گذر جاتاہے تو آدمی كوصدمہ ہوتاہے‏، اور جانے والا جتنا ہردل عزیزاورقوم وملت كے لیے مفید اوراہم ہوتاہے‏، اس كی رحلت كا صدمہ بھی اسی قدر زیادہ اوردیرپا ہوتاہے‏، استاذ محترم حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ كی وفات كا صدمہ دارالعلوم دیوبند كے مستفیدین اور وفا كیشوں كے لیے كچھ اسی نوعیت كا ہے‏، حضرت مولانا ہمارے درمیان سے ایسے رخصت ہوئے جیسے كوئی بہاریں لٹا تا ہوا تروتازہ اورہرا بھرا درخت دیكھتے ہی دیكھتے خشک ہوجائے‏، چارہ گروں كو مرض كی اطلاع ہونےتک بیماری خطرناک صورت اختیار كرچكی تھی ‏،امیدیں پہلے ہی دم توڑ چكی تھیں‏، پھر بھی ان كی موت كی خبر وحشت اثرنے اپنا كام كیا‏، اوردل ودماغ بری طرح متاثرہوا‏، إنا لله وإنا إليه راجعون، إن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل شيء عنده بأجل مُسمَّى.

حضرت مولانا سے 1423 مطابق 2002 میں ہفتم ثالثہ میں ہدایہ ثالث پڑھنے كی سعادت ملی‏، اورپھر ایک سال بعد تكمیل ادب میں عربی تمرین كا گھنٹہ بھی حضرت سے وابستہ رہا‏، مدرسہ شاہی میں میری زیادہ وابستگی شعبہ ٴ عربی ادب اوراس كی ماتحت عربی انجمن ‏‘‘النادی الادبی ’’سے ہے‏، حضرت مولانا كو ہمارے عربی ادب كے شعبے اورالنادی الادبی سے بڑا لگاؤ تھا‏،شروع سے ہی بحیثیت مہمان خصوصی اس كے سالانہ اجلاس میں تشریف لاتے رہے‏، فرماتے تھے كہ النادی كے قیام كے بعد اس كا پہلا جواجلاس ہواتھا اس میں بھی میں نے حضرت مولانا قاری محمدعثمان منصورپوری مدظلہ العالی ( رحمۃ اللہ علیہ) كے ہمراہ شركت كی تھی ‏،النادی كی وجہ سے حضرت كے ساتھ بارہاٹیلفون پر رابطہ كرنے ‏،ملاقات كرنے،شریک دسترخوان ہونے اور آپ كی پُرلطف صحبتوں سے مستفید ہونے كا موقع ملا، حضرت كو جب بھی مدعوكیا جاتا بڑی محبت اورشوق سے تشریف لاتے ‏،بسااوقات اپنے پروگرام میں تبدیلی كركے ہمارے لیے گنجائش پیدا كرتے‏،اورشریک اجلاس ہوكراساتذہ وطلبہ كی محنتوں اوركوششوں كوسراہتے‏، بھر پور حوصلہ افزائی كرتے‏، غائبانہ اورنجی ملاقاتوں اورمجلسوں میں بھی شعبہ ٴعربی ادب كے حوالے سے اطمینان كا اظہاركرتےاورتعریف كرتے‏، افسوس كہ مولانا كی رحلت سے ہم نے ایک مشفق استاذ ہی نہیں‏، بلكہ ہمارے شعبہٴ عربی ادب ‏، اس سے وابستہ اساتذہ ‏،اورہماری النادی الادبی نےاپنا ایک مخلص سرپرست بھی كھودیا‏، اللہ تعالی حضرت مولانا كی شفقتوں اور كرم نوازیوں پر انہیں بہترین صلہ عطا فرمائے!

حضرت مولانا بڑے نیک طینت، شریف الطبع ‏، اور نرم خو انسان تھے‏، طبیعت میں تہذیب وشائستگی تھی‏، وہ اپنے خوردوں اور شاگردوں كو ہمیشہ آپ سے خطاب كرتے‏، كسی طالب علم كانام لیتے تونام سے پہلے مولوی ضرورلگاتے‏، چھوٹوں كی باتوں كو بھی اہمیت اور توجہ سے سنتے‏،ان كی رائے كا احترام كرتے‏، كسی كی نامناسب یا غلط كی بات كی صراحتاً تغلیط وتردید كے بجائے تنبیہ كے لیے نہایت لطیف پیرایہ اختیاركرتے‏،اورمخاطب كی بات كی تاویل كرتے ہوئے فرماتے: ‘‘شاید آپ یہ كہنا چاہتے تھے’’‏‘‘ غالبًا اس سے آپ كی مراد یہ ہوگی‏’’۔ مولانا كی اس نرم مزاجی كا طلبہ بسااوقات غلط فائدہ بھی اٹھاتے‏، درسگاہ میں دیرسے حاضرہوتے‏،مولانا عمومًا چشم پوشی سے كام لیتے‏، كبھی كچھ كہتے توانداز یہ ہوتا:‘‘ غالبًا آپ كو كوئی عذرپیش آگیا‏، ورنہ آپ سے تاخیرنہ ہوتی ‏’’۔ تكمیل ادب میں صبح كا پہلا گھنٹہ آپ سے متعلق تھا‏، اس گھنٹے میں دو الگ الگ درس گاہ میں طلبہ كے دوحلقے ہوجاتے تھے‏، پھر اگلے گھنٹے میں سارے طلبہ ایک درس گاہ میں ایک ہی حلقے میں جمع ہوتے‏،ایک ساتھی مولانا كے گھنٹے میں كئی دن تاخیر سے پہنچے، مولانا چشم پوشی كرتے رہے‏،ایک دن وہ درس گاہ میں اتنی تاخیر سے پہنچے كہ مولانا سبق مكمل كركے حاضری شروع كرچكے تھے‏، مولانا كی نگاہ جب ان پر پڑی تودانٹ ڈپٹ كے بجائے بس یہ لطیف سی چوٹ ان پر كی‏:‘‘شاید آپ كواگلے گھنٹے میں شركت كے لیے دوسری درس گاہ میں جانا تھاغلطی سے یہاں آگئے’’ مولانا كے لطیف طنزپر طلبہ ہنس پڑے اوروہ ساتھی بھی اپنی حركت خفیف اور پر شرمندہ ہوئے۔

مولانا كے مزاج میں پاس ولحاظ ‏،دل داری ودل جوئی بھی بہت تھی ‏، ‏دارالعلوم میں عبارت پڑھنے كا شوق تو اكثرطلبہ كو ہوتاہے‏، مگر بہت سے طلبہ ضعف استعداد كی وجہ سے دوسرے اساتذہ كے گھنٹے میں عبارت خوانی كی ہمت نہیں جٹاپاتے تھے‏، ایسے طلبہ مولانا كے اسباق میں اپنا شوق پورا كرناچاہتے‏،اوران میں بعض بعض طلبہ ایسی عبارت خوانی كرتے‏، كہ عام طلبہ بھی جِزبِز ہونے لگتے، مگر مولانا عبارت خواں كی دل داری ودل جوئی میں فراخ دلی كا مظاہر كرتے‏، بڑے تحمل سے عبارت كی تصحیح كرتے‏، كبھی بھی ناراضگی یا ناگواری كا اظہارنہ فرماتے‏۔

طلبہ كی حوصلہ افزائی اور خورد نوازی میں بھی حضرت اپنی مثال آپ تھے‏، ان كی تحریری وتقریری كوششوں اوركاوشوں كوسراہتے‏، منتہی طلبہ ونوعمرفضلاء كے مرتب كردہ رسائل اوركتابوں پر تقریظ لكھ كران كی حوصلہ افزائی فرماتے‏،اس سلسلے میں غالبًا ہمارے اساتذہ میں وہ سب سے فراخ دل تھے۔

مولانا سرخ وسفید‏، ہلكے پھلكے‏، آہستہ خرام ‏،خوش اخلاق‏، خوش اطوار‏، ملنسار‏ اورسہل الحصول‏ تھے‏، تواضع طبیعت میں كوٹ كوٹ كر بھری تھی‏، ہم جب پڑھتے تھے تومولاناغالبًا درجہ وسطی كے استاذ تھے‏،بعد میں علیا كے استاذ اورپھر نائب مہتمم ہوگئے‏، مگر مولانا كے بول برتاؤ میں كوئی فرق نہیں آیا‏، تواضع كاانداز وہی رہا‏جوپہلے تھا‏، مولانا سے فون پررابطہ ہوتا اگر مصروف ہوتے تو فرماتے‏، ذرا اس وقت مصروفیت ہے‏، میں فارغ ہونے پر آپ كوفون كرتاہوں‏، یہ كبھی نہیں فرمایا: كہ اتنی دیر بعد فون كیجیے‏، ظاہر ہے كہ اپنے شاگردوں اور خوردوں سے یہ انداز گفتگواسی شخص كا ہوسكتاہے‏،جوفطرتًا خلیق اورطبیعتًا متواضع ہو۔ عام بات چیت میں آواز پست ركھتے‏،تقریروں میں آواز بلند ہوتی‏، ٹھہر كربولتے‏، دوران خطاب وتدریس آواز لہراتی ہوئی محسوس ہوتی‏،الفاظ كی نوک وپلک خوب نكھار سنوار كر بولتے‏‏۔‏

مولانا كو باتوں سے بات نكالنے كا خاص ذوق تھا‏، لطیفے، قصے اوراشعار بكثرت سناتے‏، اسباق میں ‏،تقریروں میں اورعام گفتگو میں كسی موضوع پر بات كرتے ہوئے جلدی اصل موضوع سے ذیلی باتوں كی طرف نكل پڑتے،بات سمجھتاہوئےاپنی تشریحی تقریركے كسی جزكی تشریح میں لگ جاتے‏، پھروہاں سے كوئی اوربات یاد آجاتی اور ذہن اُس طرف چل پڑتا‏،اس طرح گفتگو زلف مسلسل كی طرح دراز ہوتی جاتی‏، كوئی واقعہ یا لطیفہ خواہ كتنی بارسناچكے ہوں اگلی بار جب سناتے تواسی دلچسپی اور تفصیل كےساتھ سناتے جس دلچسپی اورتفصیل سے پہلی بارسنایا تھا‏، ان سب باتوں كی وجہ سے حضرت كے یہاں سبق كی رفتار ذرا سست ہوتی تھی‏، اورسال كے آخر میں كچھ دن اضافی وقت بھی دینا پڑتا تھا۔

ان سب دلچسپی كی باتوں كے بیچ حضرت سبق كا بھی حق ادا كرتے تھے‏، ہم نے ہدایہ كتاب البیوع حضرت سے پڑھی‏،ہدایہ كایہ حصہ نسبتًا مشكل سمجھا جاتاہے‏، مگر حضرت اچھی طرح حل عبارت‏، ترجمہ اورتشریح فرماتے تھے‏، رفتار شروع سے آخر تک یكساں رہتی تھی‏‏، كبھی كبھی حضرت طلبہ كی درخواست پر ہدایہ كا سبق عربی میں بھی پڑھا كرتے تھے۔

حضرت شاعر تو نہیں تھے ‏ البتہ شعر وسخن كا ذوق اچھا تھا‏، فن عروض‏، اوزان ‏،بحوروقوافی اورتقطیع اشعار وغیرہ سے واقفیت تھی‏، طلبہ اس سلسلے میں ان سے رجوع كرتے تھے‏، درس میں بعض اوقات اس موضوع پرگفتگو فرماتے‏،ادبی ذوق بھی ركھتے تھے‏، دوران تقریروتدریس عمومًا اشعار ترنم سے پڑھتے‏، ترنم اچھا اورپرانے لوگوں كی طرح سادہ تھا‏، زبان میں شائستگی تھی‏، مگر لكھنے لكھانے كی طرف كوئی خاص توجہ نہیں فرمائی‏۔

حضرت كے نكتے اور لطیفے توشاگردوں خوب یاد ہوں ‏، قند مكرر كے طور پر چند ایک پیش خدمت ہیں‏، طلبہ كونصیحت كرتے ہوئے فرماتے: كچھ طلبہ مدارس میں پڑھنے آتے ہیں‏،اور كچھ پڑنے آتے ہیں‏،آئے اورمدرسے میں پڑگئے ‏،نہ اسباق كی حاضری كا اہتمام ہے‏، نہ تكرار و مطالعہ كی كوئی فكر‏، آپ پڑھنے والے بنیں‏،آكر پڑجانے والوں میں نہ بنیں‏۔طالب علم كوزیادہ وقت درس گاہ اورمطالعہ گاہ میں مذاكرے ومطالعہ میں صرف كرنا چاہئے‏،كمرہ میں زیادہ نہیں رہنا چاہیے‏،كمرہ زیادہ دیررہنے كی جگہ نہیں ہے‏،اسی لیے اس كانام ‘‘ كم رَہ’’ ركھا گیاہے‏، اسماء میں وجہ تسمیہ بھی ہوا كرتی ہے‏‏‏، چنانچہ ناخن كو ناخن اس لیے كہتے ہیں كہ اس میں خون نہیں ہوتا‏، كمرہ بھی اسی طرح ہے‏، مگر یہ ضرروی نہیں كہ جہاں جہاں وجہ سے تسمیہ پائی جائے وہاں اسم بھی پایاجائے‏، چناں چہ كوئی خون نہ ہونے كی وجہ سے دانت كو ناخن كہنے لگے تویہ درست نہیں ہوگا‏، ہاں جہاں اسم پایا جائے وجہ ِ تسمیہ وہاں ہوسكتی ہے‏، اس طرح حضرت بات سے بات نكالتے رہتے‏، اور اپنی مزاحیہ گفتگو اوردلچسپ نكتہ آفرینیوں سے مجلس كو زعفران زار بنائے ركھتے تھے‏۔

عامی وفصیح‏، جدید وقدیم‏، یا علمی وادبی اورصحافتی واخباری ‏،عربی كی یہ ساری اقسام سامعہ وباصرہ نواز تو ہوچكی ہوں گی‏، آئیے حضرت الاستاذ سے عربی كی ایک اور ظریفانہ تقسم سنیے‏، حضرت فرماتے تھے عربی تین طرح كی ہوتی ہے‏:

(1)ایک ہوتی ہے بھینسوں والی عربی‏، اس كی تشریح میں ارشاد ہوتا‏كہ ایک صاحب كوعربی سیكھنے كا شوق ہوا‏،تویہ ایک استاذ كے پاس عربی پڑھنے گئے‏، استاذ نےپہلےدن انہیں عربی كے وہ مفردات لكھوائے جواردومیں بھی مستعمل ہیں‏، مثلا: كتابٌ، قلمٌ، دواۃٌ، مسجدٌ وغیرہ، اگلے دن جب وہ صاحب استاذ كے پاس دوبارہ پڑھنے آئے توكہنے لگے كہ عربی بہت آسان ہے ‏، اس كی تھیوری مجھے معلوم ہوگئی ہے‏، استاذ نے حیرت سے پوچھا وہ كیا؟ بولےكہ اردوكے الفاظ میں تنوین بڑھادی جائے توعربی بن جاتی ہے‏،استاذ نے كہا پھر بھینس كی عربی كیا ہوگی‏، تولائق وفائق شاگرد نے جواب دیا‘‘بھینسٌ’’ بالتنوین‏، حضرت نے كہا یہ تو بھینسوں والی ( احمقوں كی )عربی ہے ۔

(2) دوسری ہے گلابی عربی‏، فرماتے ایک صاحب كو‘‘گوبھی’’ كی عربی استعمال كرنے كی ضرورت پڑی‏،اس كی عربی جانتے نہیں تھے‏،تو جگاڑ سے اس كی عربی بنائی‘‘ قُلْ ایضًا’’ قل بمعنی گُو (بزبان فارسی) اورایضاً كے معنی بھی‏،اب ‘‘قل ایضا’’ كا معنی ہوا ‘‘گوبھی’’ حضرت فرماتے یہ گلابی عربی ہے‏،اسی طرح ‘‘ میں نے وضو كیا’’ كی عربی ( تَوَضَّأتُ) كے بجائے( فَعَلْتُ الوضوءَ) اور‘‘ میں نے نماز پڑھی’’ كی عربی (صَلَّیتُ) كے بجائے( قرأتُ الصلاۃَ) حضرت كے نزدیک گلابی عربی مثال تھی۔

(3) تیسری قسم صحیح وفصیح عربی ہے‏، جس كے مفردات بھی عربی ہوں اور صیاغت وتعبیربھی خالص عربی ہو‏، فرماتے: آپ كو یہی عربی سیكھنی ہے‏، اس كے لیے صحیح عربی لكھنے والے اہل قلم كو پڑھیں‏، عرب ادبا كی عربی نصوص كا مطالعہ كریں‏،ان كے انداز تعبیر پر غوركریں‏،اوردوران مطالعہ جوعمدہ تعبیرات اور محاورے سامنے آئیں انھیں قلم بند كرتے رہیں‏، دوران مطالعہ آپ كوایسی تعبیرات ملیں گیں جن سے آپ اردوكے محاورں كو فصیح عربی میں منتقل كرسكتے ہیں‏، مثلا اردومیں محاورہ ہے‘‘ جس كی لاٹھی اس كی بھینس’’ آپ عربی میں اس كا متبادل ‘‘ اَلدُّنْیَا لِمَنْ غَلَبَ’’ لاسكتے ہیں‏، اردومیں محاورہ ہے ‘‘ آم كے آم گھٹلیوں كے دام’’ یا ایک محاورہ ہے‘‘ ایک پنتھ دوكاج’’آپ اس كے لیے عربی كی یہ تعبیر استعمال كرسكتے ہیں‘‘إصَابَةُ الْهَدَفَينِ بِسَهْمٍ وَاحِدٍ’’ اسی طرح اردو محاورہ ہے ‘‘كریلا نیم چڑھا’’ آپ اس كے لیے عربی محاورہ ‘‘أحَشَفًا وَسُوءَ كِیلةٍ‏،‏، (كھجوریں بھی خراب اورتول بھی پورا نہیں؟) استعمال كرسكتے ہیں وغیرہ۔اس طرح حضرت اپنی ظریفانہ دلچسپ باتوں سے مجلس كو پرلطف بنائے ركھتے تھے۔

حضرت مولانا كی پیدائش 1950ءمیں وطن مالوف سنبھل میں ہوئی‏، تعلیم كاآغاز مدرسہ وحید المدارس سنبھل سے كیا‏، بعدازاں مدرسہ شمس العلوم میں داخل ہوئے‏، یہاں آپ نے تكمیل حفظ كے بعد شرح جامی تك تعلیم حاصل كی‏، بعد ازاں 1968ءمیں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا‏، اور1972ء مطابق1392ھ میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی‏، 1973ء میں جامعہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں تدریسی خدمت انجام دینی شروع كی، چھ سال وہاں رہے‏، بعدازاں آپ جامع الہدی مرادآباد سے وابستہ ہوئے‏، اورپھر 1982ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے‏، اورتادم آخر اسی كی خدمت میں لگے رہے‏، تدریس كے علاوہ نظامت دارالاقامہ‏، امتحانات میں نظامت طباعت‏، اوراخیر میں تقریبًا دس سال تک نیابت اہتمام كے منصب پر فائزرہے‏، اورذمہ داریوں كوبحسن وخوبی انجام دیا‏، حضرت موصوف دبلے پتلے ہونے كے باوجود اخیر تک خوب صحت مند رہے‏، تاآں كہ یرقان كا حملہ ہوا، مزیدجانچ سے موذی مرض كی تشخیص ہوئی ‏،تیزی سے طبیعت گرتی گئی‏،اوربالآخر19 ذی الحجہ 1442ھ مطابق30 جولائی 2021‏ء بروزجمعہ اللہ كوپیارے ہوگئے‏، اورقبرستان قاسمی میں مدفون ہوئے‏۔

اللہ تعالی حضرت الاستاذ كے درجات بلند فرمائے‏،پسماندگان كوصبر جمیل سے نوازے‏، اور جنت الفروس میں اعلی مقام عطا فرمائے‏، آمین!

محمداجمل قاسمی
استاد تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

بروز ہفتہ 5 محرم الحرام1443ھ مطابق14اگست2021ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے