کامیابی کا ایک انمول نسخہ… تجسّس خیر

مفتی ابو الفرح قاسمی، ممبئی

اس دنیائے رنگ و بو کے پر بہار گلستاں کے چکا چوند ہوش ربا نظاروں سے آنکھ مچولی کھیلنے کا سلسلہ شروع ہی سے جاری و ساری ہے۔ کہیں کوئی ستاروں کی آغوش میں بیٹھا موجب رشک و فخر ہوتا ہے تو کوئی گدائی کا کشکول لئے باعث حسرت و افسوس ہوتا ہے۔ کسی کے گھر میں امیری کا شجر لگتا ہے تو کسی کے فقیری کی مہر لگتی ہے ‌،کوئی خوش تراشیدہ ، عمدہ نقش و نگار والے ائیر کنڈیشنڈ روم میں ٹائی لگے ہوئے فاخرانہ لباس اور پالش شدہ جوتے میں ، مخملی گداز صوفہ آمریت پر بیٹھا زبان و قلم کو جنبش دیتا ہے تو کوئی پیوند لگی ہوئی گدڑی میں ملبوس، فرش خاکی پر رطب اللسان دریائے عشق میں غوطہ زن ہوتا ہے، کوئی آفات و بلیات سے محفوظ، ہر طرح کی آسائش و سہولیات سے محذوذ، نعمت خداوندی سے لطف اندوز ہوتا ہے تو کوئی مہلک بیماریوں میں مبتلا، راحت وسکون سے دور، نعمتوں کی فراوانی کے باوجود کھانے سے مجبور، سسکتا بلکتا ، نیند اچاٹ کرنے والے ہنگامہ بپا اسپتال کے بے آرام کمرے میں بے یارومددگار پڑا ہوتا ہے غرضیکہ،، تلک الایام نداولھا بین الناس،، کی صدائے لم یزل ولا یزال، قدرت خداوندی کی عبرت آموز تصویر بن کر لوگوں کو ذکر و شکر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور عبرت و نصیحت کا اہم درس دیتی ہے۔ اب جو شخص زمان ومکان کے اس اتھل پتھل اور نشیب وفراز میں چھپے راز کو تلاش کرنے، گردشِ دوراں کے اس دقیق نقطے کو جاننے اور ترقی و تنزلی کے اس معمہ میں پنہا حقیقت کو دریافت کرکے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے وہی سکندر اعظم کہلاتا ہے دنیا جس کے گن گاتی ہے۔ سیر و تواریخ کے صفحات اور آئے دن پیش آنے والے واقعات اس کے شاہد ہیں۔ خود فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاکیزہ ابدی فرامین میں اس کی ہدایت بھی دی ہے اور اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
عَنْ رَبِیْعَۃَ بنِ کَعْبِ الاَسْلَمِی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: کُنْتُ اَبِیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاٰتِیْہ بِوَضُوئِہِ وَحَاجَتِہ، فَقَالَ لِیْ سَلْ۔ فَقُلْتُ: اَسْئَلُکَ مُرَافقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ ۔ فَقَالَ: اَوْ غیر ذٰلِک؟ قُلْتُ: ہُوَ ذَاکَ ، قَالَ: فَأَعِنّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ۔
(مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، صفحہ ۱۹۳)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آرام کرتا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لئے پانی اور ضرورت کی چیز فراہم کر سکوں (ایک دن خوش ہوکر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے مانگو، میں نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہو (یعنی جنت میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوجائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے علاوہ کچھ اور (بھی مانگ لو) میں نے کہا کہ بس وہی (مجھے کافی ہے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سجدو ں کی کثرت کے ساتھ اپنے لئے میری مدد کرو۔
اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل روایت بھی مدلول ہے۔ جس میں صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ خواب جنت کا دیدار کیا اور ایک نیک بخت صحابی کے شان امتیازی کا راز بیان کیا۔

دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة، قلت: من هذا؟ فقالوا: حارثة بن النعمان، كذلكم البر كذلكم البر (وكان ابر الناس بامه)”.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ایک مرتبہ خواب میں جنت میں داخل ہوا تو قرآن کریم پڑھنے کی آواز سنی، تو میں نے دریافت کیا یہ کون ہے ؟ جواب ملا: یہ خوش بخت حارثہ بن نعمان ہے ! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کذلک البّر، کذلک البّر،وکان ابّرالناس بأمہ‘‘ واقعی نیکی ایسی ہی ہوتی ہے ، نیکی ایسی ہی ہوتی ہے یعنی نیکی کا پھل ایساہی ہوتاہے ، حارثہ بن نعمان اپنی والدہ کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا تجسّس خیر

آئیے! جلوۂ جاناں کے اس بزم عارفانہ میں چلتے ہیں جہاں پروانوں نے شمع محبت سے لپٹ کر اس راز کو حاصل کیا اور اوج ثریا کو چوم کر نسل انسانی کو کامیابی وکامرانی کا یہ وقیع نسخہ عطا کیا۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ مسند احمد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کیا ہے: ’ کہ ایک دن ماہتاب نبوت ستاروں کے جھرمٹ میں جلوہ افروز تھا اور درفشانی کا سلسلہ جاری تھا کہ زبان رسالت نے پروانہ جنت کی نوید سنائی ’’ابھی تمہارے سامنے ایک شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘‘ جیسے ہی یہ مژدہ جانفزا اور خوش کن فقرہ ان کے کانوں میں پہنچتا ہے ان کی نگاہیں اُس شاہراہ پر ٹک جاتی ہیں جو میخانہ جنت کی دہلیز تک آتی تھی۔
چنانچہ چند ہی لمحے بعد ایک انصاری صحابی اپنے بائیں ہاتھ میں پاپوش لئے حاضر مجلس ہوئے ، جن کی داڑھی سے تازہ وضو کے قطرات ٹپک رہے تھے ۔ دوسرے دن پھر جب کہ بزم خیر الوری سجی ہوئی تھی، دنیا آفتابِ رسالت کی کرنوں سے جگمگا رہی تھی، ستارے ماہتاب نبوت کی پر لطف رعنائیوں سے فیض یاب ہو رہے تھے ایسا ہی واقعہ پیش آیا، اور وہی نیک بخت صاحب قسمت صحابی وارد ہوئے ، تیسرے دن بھی بعینہ یہی واقعہ پیش آیا اور وہی مؤفق صحابی اپنی مذکورہ حالت میں داخل ہوئے ۔ مسلسل تین دن زبان رسالت سے مژدہ جنت سننے کے بعد صحابہ کرام کے عشق کی آگ شعلہ زن ہو گئی اور تجسس خیر کی کیفیت فزوں تر ہو گئی ۔جب مجلس برخاست ہو گئی اور نور ہدایت اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قیام گاہ کی طرف جانے لگے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس صحابی کے پیچھے لگ گئے (تاکہ ان کے اہل جنت ہونے کا راز معلوم کریں) اور انتہائی حکمت و شفقت کے ساتھ چند روز ان کے یہاں قیام کرنے اور مہمان بننے کی خواہش ظاہر فرمائی جسے ان متلاشی خیر و فضل ، دلدادہ حسن عمل نے بشاشت اور خندہ پیشانی سے قبول فرما لیا۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بڑے اشتیاق اور ولولے کے ساتھ تین راتیں ان کے ہمراہ گذاریں، مگر کوئی ایسا نقطۂ بام انہیں نظر نہیں آیا جو ان کے مقصد قیام کو تقویت دیتا اور ان کی قلبی تشنگی کو سیراب کرتا ، بلکہ دیکھا کہ عشاء کے بعد متصلا بستر استراحت پر چلے جاتے ہیں نہ تو تہجد کا خاص اہتمام ہے نہ ہی نوافل لیل کی کثرت ، بس سونے کے وقت کچھ اللہ کا ذکر کرتے تھے، اور پھر صبح کو نماز کے لئے بیدار ہوتے تھے، ہاں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس پورے عرصہ میں میں نے ان کی زبان سے بجز کلمہ خیر کے کوئی کلمہ نہیں سنا۔جب تین راتیں گذر گئیں اور مجھے مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا تو میں نے ان پر اپنا راز کھول دیا اور اپنا مقصد قیام بیان کیا کہ نہ تو میں کوئی اجنبی ہوں اور ہی میرے پاس مہمانی کا کوئی معقول عذر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں آپ کی اس خوبی اور نیکی کو دیکھنے اور جاننے کے لیے آپ کے یہاں مہمان ہوا تھا جس کی وجہ سے سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس مبارک میں تین روز تک آپ کو جنتی قرار دیا ، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا، تو وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایا؟۔
انہوں نے فرمایا: میرے پاس بجز اس کے کوئی عمل نہیں جو آپ نے دیکھا ہے، یہ سن کر میرے حیرت و استعجاب میں اور اضافہ ہو گیا اور میں ناامید واپس آنے لگا تو انہوں نے مجھے بلا کر کہا: ہاں! ایک بات ہے:’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ اور برائی نہیں پاتا اور کسی پر حسد نہیں کرتا جس کو اللہ نے کوئی خیر کی چیز عطا فرمائی ہو‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بس یہی وہ صفت ہے جس نے آپ کو یہ بلند مقام عطا کیا ہے‘‘۔ (مسند احمد)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تجسس خیر حضرت بلال کے عمل کے بارے میں

جس طرح محاسن اخلاق نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پائہ فضل و کمال کو نہایت بلند کیا تھا اسی طرح عبادات میں خلوص و للہیت نے انہیں وہ مقام عطا کیا تھا جس پر بڑے بڑے صحابہ رشک کیا کرتے تھے خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں ان کے نمایاں مقام کی بابت دریافت فرمایا۔

 جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؒ سے روایت ہے کہ ایک دن فجر کی نماز کے وقت حضور ؒ نے حضرت بلالؒ کو بلا کر پوچھا:’’اے بلال ! مجھے تم اپنا کوئی  ایسا عمل بتاؤ جس پر تمہیں سب سے زیادہ اجر و ثواب کی اُمید ہو کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے پاؤں کی چاپ سنی ہے۔‘‘ حضرت بلالؒ نے عرض کیا کہ’’ یا رسول اﷲ! میں نے تو ایسا کوئی عمل نہیں کیا، البتہ شب و روز میں میں نے کوئی وضو ایسا نہیں ہے جس کے بعد میں نے نماز نہ پڑھی ہو۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تجسس خیر

حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہاں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ کون ہے جس کا یہ مقام ہے ؟ اللہ تعالی نے فرما یا یہ میرا ایک محبوب بندہ ہے جسے میں نے اس کی تین اعلیٰ صفات کی وجہ سے یہ مرتبہ عطا کیا ہے۔: کَانَ لاَ یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا آتاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ، وَکَانَ لاَ یَعُقُّ وَالِدَیْہِ، وَلاَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ․ یعنی یہ شخص تین کا م کر تا تھا (١) جو نعمتیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا (۲)والدین کی نا فر ما نی نہیں کر تا تھا (۳) چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔( مکارم اخلاق لأبی الدنیا)

ان روایات و حکایات میں ایک ایسے یقینی نقطۂ عروج کی نشان دہی کی گئی ہے جو ہمارے لئے کامیابی کا ضامن ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا مزاج خامیاں ڈھونڈنے کا ایسا عادی ہو گیا ہے کہ دوسرے کی خوبی بھی ہمیں خامی نظر آتی ہے اور اگر بالفرض ہمیں کبھی کسی کی کوئی خوبی بھاتی بھی ہے تو ہم صرف واہ واہ اور ماشاءاللہ پر اکتفا کرتے ہیں اسے اپنی عملی زندگی میں نہیں برتتے اس لئے اس کے برکات اور نتائج ہمارے حق میں ظاہر نہیں ہوتے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کے اس منفرد پیغام نجاح کو اپنے دینی اور دنیوی شعبہ حیات میں جگہ دیں اور کامیابی کے مراتب طے کریں۔

ابوالفرح قاسمی
مؤرخہ.. ٢٦/٨/٢٠٢١

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے