محمد ہدایت اللہ عارفی
Mobile : 8851173877
حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری دربہنگہ ضلع سے ٤٠ کیلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع بہت ہی مشہور اور مردم خیز بستی ہرسنگھ پور میں پیدا ہوئے،اپ کی پیدائش سن ١٩١٠ع مجدد علم وعرفان پیر طریقت عارف باللہ حضرت مولانا عارف صاحب کے گھر ہوئی،اپ کے دادا محترم الحاج بلاغت حسین صاحب کو قطب دوران فضل رحمان گنج مرادآبادی سے شرف بیعت حاصل تھا،اپ کے جد امجد منشی امداد حسین عرف ہندی بابو کا شمار اپنے عصر کے مشہور انشاء پردازوں میں تھا، ایسے دینی اور علمی ماحول میں اپ کی پرورش و پرداخت ہوی،ابتدای تعلیم والد وماجد سے حاصل کی، ثانویہ درجات کی تعلیم کیلئے آپ نے بہار کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ دربہنگہ کا رخ کیا اور وقت کے ممتاز علماء کرام سے استفادہ کیا، اعلی تعلیم کیلئے دار العلوم دیوبند کا رخت سفر باندھا اور وقت کے ممتاز اور ائمہ فن سے کسب فیض کیا،اپ کا شمار ممتاز طالب علموں میں تھا، ١٩٣١ ع میں فراغت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی قیادت میں جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا،گاوں گاؤں آپ نے دورہ کیا اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزادی کیلئے آگے آئیں،ہندو مسلم اتحاد کیلئے ملک کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا،اسی اثنا سہارنپور پوپی سے ایک پروگرام کے درمیان اس جانباز مجاہد آزادی کی گرفتاری ہوئی،١٩٣٣ میں جیل سے رہائی ہوئ تو آپ دہلی آگئے،اور یہاں جامع مسجد میں منعقد ایک عظیم اجتماع سے ولولہ انگیز تقریر کے ذریعے جنگ آزادی کے متوالوں میں جوش جہاد برپا کردیا، یہاں سے لوٹ کر اپنے وطن اگۓ اور مسلسل انگریزوں کے خلاف مہم چلاتے رہیں تاآنکہ رب ذوالجلال نے ملک ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرایا اور آپ کا آزاد بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا.
امارت شرعیہ اور مولانا لطف الرحمن صاحب
آپ بڑے تحریکی اور فعال تھے،دہلی سے واپسی کے بعد مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب کی قیادت میں تحریک امارت شرعیہ میں شریک ہوگئے اور امارت شرعیہ کی خادم کی حیثیت سے بیش بہا خدمات انجام دی، اپ نے مالی استحکام کیلئے بڑی کوششیں کیں،اور اپنے علاقے میں امارت کو خوب متعارف کرایا،١٩٣٤ کے بہار کے ہولناک زلزلہ ( جس نے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان پہنچایا ) میں امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ متعدد راحت کیمپوں کے اپ نگراں بناۓ گئے،اس کے ذریعہ آپ نے بے سہاروں اور بے پاروں ومددگار لوگوں کی بڑی خدمت کی،اللہ آپ کو بہتر بدلہ دیں.١٩٣٤ کے آخر میں اپ نے حزبِ اللہ نام کی ایک دینی تنظیم قائم کی،اس کے تحت تحفظ ختم نبوت،تعزیہ داری،بدعت وخرافات اور بہت ساری برائیاں کو ختم کرنے کیلئے علمی اور عملی کوششیں کیں.اپ کی یہ اصلاحی کوششیں جاری وساری تھی کہ اسی دوران حضرت مولانا لطف اللہ رحمانی سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر کے ایماء پر مالدہ شہر تشریف لے گئے،اور وہاں خدمت دین اور خدمت خلق میں مصروف ہوگئے،گم گشتہ راہ کو صراط مستقیم کی طرف لانے پر مامور ہوگۓ،اللہ نے آپ کی محنت کو قبول کیا اور بہت سارے لوگ تائب ہوے،یہاں آپ نے ترجمان القرآن نامی ایک تنظیم قائم کیا جس کے تحت مالدہ شہر اور اطراف مالدہ میں یومیہ درس قرآن دیتے،اور اصلاحی اور علمی حلقے لگاتے جس سے شہر کا تعلیم یافتہ طبقہ مستفید ہوتا،اسی طرح کم پڑھے لکھے لوگ مولانا کے اصلاحی حلقہ سے فائدہ اٹھاتے،چنانچہ امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی صاحب حیات عارف میں تحریر فرماتے ہیں "شہر کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بڑے ذوق وشوق سے موصوف کے درس میں شریک ہوتا اور موصوف کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتا میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ موصوف کو مالدہ میں خواص وعوام کے درمیان جو اعزاز ورسوخ حاصل تھا،وہ مقامی طور پر کم لوگوں کو حاصل ہوگا”
اپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی،اپ درس قرآن کے ساتھ ساتھ تحقیق وتصنیف کا کام بھی کرتے تھے،اپ کی پہلی کتاب ” دین اسلام” اردو ایڈیشن مکتبہ ترجمان القرآن مالدہ سے ١٩٤١ میں شائع کی گئی.حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی اس کتاب کی اہمیت وافادیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں "دین اسلام خود جس طرح سیدھا سادہ، ایچ پیچ سے پاک،مبسوط وجامع ہے،اسی طرح اسے کھول کر بیان کرنے والا یہ رسالہ بھی صاف وسادہ،موقع موقع پر مشرح ومدلل اور اپنے مقصد کے اظہار میں کافی وجامع ہے”
مصنف نے کتاب کے آخر میں اپنے محبین اور معتقدین کیلئے بہت ہی اہم نوٹ لکھا ہے ” میں نے اس کتاب کو اشاعت دین کیلئے وقف کردیا ہے،اسکی آمدنی سے اس کتاب کے دوسرے حصے،اور تراجم اور ناچیز کی دیگر تصانیف خصوصاََ تفسیر کی کتاب چہاپی جاۓ گی،مسلمانوں میں انگریزی،بنگلہ کے ادیبوں کی کمی نہیں ہے،مجھے امید ہے کہ دین کا درد رکھنے والے حضرات وقت کی سب سے اہم ضرورت کی جانب پھلی فرصت میں متوجہ ہوں گے،اور اس کتاب کا ترجمہ کردیں گے”
علوم دینیہ کے نشرواشاعت کیلئے ایک ادارہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ کے نام سے قائم کیا جس سے تشنگانِ علوم نبوت سیراب ہونے لگے،الحمد اللہ ادارے کا فیض جاری ہے، عاجز کی تحقیق سے مدرسہ کے اساتذہ نے بتایا کہ الحمدللہ حضرت کی محنت سے مدرسہ خود کفیل ہے،ادارے کے پاس شہر میں اپنی مارکیٹ اور گیراج ہے جس سے اساتذہ کو مناسب تنخواہیں دی جاتی ہے.مدرسہ جب ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلیں تو حضرت کو اپنے علاقے کی فکرستانےلگی،مدرسہ مولانا تفضل صاحب بھاگلپوری کے حوالہ کیا اور اپ ١٩٦١ میں وطن واپس آگئے,
جاری