تحریک دیوبند کا بے باک سپاہی: مولانا متین الحق اسامہ

مفتی عمران اللہ قاسمی |
استاذ دار العلوم دیوبند
دین اسلام کی اشاعت اور حفاظت وتبلیغ نیز ملک ووطن کی تعمیر وترقی کے سلسلے میں علمائے دیوبند نے نمایاں خدمات اور کارنامے انجام دیئے ہیں ،تعلیم وتبلیغ ،تزکیہ اخلاق،تصنیف وتالیف ،فقہ وفتاوی ،درس وتدریس ،مناظرہ وخطابت ،انشاء وصحافت،طب وحکمت اور سماجی ومعاشرتی سطح پرپیش کی جانے والی بیش بہا خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ،پھران کی خدمات کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں ،بلکہ برصغیر کے ہرہر خطے کو محیط ہیں ،بیرون ملک بھی علماء کی خدمات کا علمی وعملی فیض جاری ہے،وہ دنیا کے کونے کونے اور بڑے بڑے شہروں میں پہنچے ،اوراپنے علم وفضل ،صلاح وتقوی و نمایاں خدمات کی بدولت آفتاب بن کر چمکے،انھوں نے مخلوق خدا کو ظلمت وجہل سے نکال کر نور علم سے مالامال کیا ،پستی سے ابھار کر بلندی میں جینا سکھایا،باشندگان بر صغیر کی اجتماعی زندگی کے تمدن ،اس کی تعمیر وترقی اور تہذیب وآراستگی کی روز افزوں عمدگی میں علمائے دیوبند کے کردار کو نظر انداز کرنا تاریخ سے ناانصافی اور واضح حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
حضرت مولانا متین الحق اسامہ صاحب رحمہ اللہ، دارالعلوم دیوبند کے مخلص و باوفافرزند تھے، آپ کے والد محترم حضرت مولانا مبین الحق صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم کے مایہ نازفضلاء میں شمار ہوتے تھے،وہ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور، کانپور کے صدر مدرس،شیخ الحدیث اور جمیعة علماء کانپور کے صدر ہونے کے علاوہ، ا پنی علمی شخصیت ،طویل تدریسی تجربہ، صلاح وتقوی ،اصلاح و موعظت،سماجی و معاشرتی سطح پرمخلصانہ خدمات ،اپنی ذاتی وجاہت وخوبروئی کے ساتھ ایک باوقار وبارعب معلم ومربی تھے ، انہی اوصاف کی بنا پر عوام وخواص میں ان کو قبول عام حاصل تھا آپ کے گھر کا ماحول دینی و علمی تھا ،کانپور کے موضع فتح پور میں حضرت مولانامبین الحق صاحب کے اسی دینی وعلمی ماحول والے گھرانے میں۷/مئی ۱۹۶۷ء کومتین الحق اسامہ صاحب کی ولادت ہوئی ،صاحب نسبت والد کی تربیت میں زندگی کا آغاز ہوا،قاعدہ وناظرہ قرآن کریم وغیرہ ابتدائی تعلیم کا آغاز گاؤں فتح پور میں ہوا،فارسی وابتدائی عربی درجات کی تعلیم کے لئے کانپور آگئے ،وہاں پر ابتدائی درجات کی تعلیم پانے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا،اور متعدد اساطین وقت اساتذہ سے پڑھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی،تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بعدشہر کانپور سے ہی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا،آپ کی پہلی ترجیح تدریس تھی اس لئے عملی زندگی کے آغازمیں تدریس کو ہی اختیار کیا،چندسال تک دیگر اداروں میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد حالات کے پیش نظرایک نئے ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ ۲۰۰۳ء میں جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کے نام سے محلہ جاجمئو میں ایک ادارے کی بنیاد ڈالی ،اوراپنی فکر و توجہ و جدوجہد کے ذریعہ اس ادارے کوترقی کے بام عروج پرپہنچایا ،یہ ادارہ آج شہر کانپور ہی نہیں بلکہ یوپی کے معروف اور نمایاں اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
مولانا اصلا مدرس تھے، اپنے والد محترم اور اساتذہ کی تربیت کی بدولت تدریس سے ہی ان کو دلچسپی تھی،البتہ تدریس کے علاوہ دیگر امور سماجی و معاشرتی خدمات بھی انجام دیتے رہتے تھے،معاشرے کی اصلاح کیلئے خطاب کا سہارا لے تے تھے،بلکہ خطاب و تقریر تو ان کی خصوصی دلچسپی کے میدان تھے،دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانے میں خطابت کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے،کانپور میں تدریس کا مرحلہ شروع ہوا تو آپ کی خطابت کے جوہر مزید نکھرنے لگے،عوام آپ کے خطاب سے مستفید ہونے لگی،جاج مئو اشرف آباد کی جامع مسجد میں ہر جمعہ کو آپ کا خطاب متعین ہوا ،شہر اور بیرون شہر سے لوگ جوق در جوق اس کو سننے کی خاطر حاضر ہونے لگے ۔مخصوص انداز خطابت ،عام فہم اسلوب ،سادہ اور بے تکلف زبان ،آواز کا اتار چڑھاؤ،موقع و حالات کے تقاضوں کے مطابق شعلہ بیانی وغیرہ جیسے امورکی وجہ سے آپ کی تقریر کو بہت پسند کیاجاتا ،کانپور واطراف کے دیہات وقصبات کے پروگراموں اور مدارس کے اجلاسوں میں آپ کو بکثرت مدعو کیا جاتا،تقریر و خطاب کے لئے دور دراز علاقوں میں بھی بلایاجاتاتو ان علاقوں کابھی سفر کرلیتے تھے،تقریر کی گفتگو میں حالات کے تقاضوں اور موقع کی مناسبت سے عنوان منتخب کرکے قرآن کریم ،احادیث شریفہ کی روشنی میں معاشرے کے مسائل کا حل پیش کرتے ،رسم ورواج ،بدعات وخرافات ،شادی بیاہ کی بے اعتدالیاں،جہیز کی بڑھتی رسوم عموما ان کی تقریر کا موضوع ہوتی تھیں،وہ اپنی تقریروں میں اس بات پر زیادہ زور دیتے کہ قوم کا ہر فرد ہرہر معاملے میں دین کی روش پر چلنے والا اور دین پر عمل کا عادی ہوجائے اور بہر صورت دین کو ہی ترجیح دے،اس کو دنیا کے بالمقابل دین کا نقصان زیادہ متاثر کرے۔مسلمانوں کے آپسی جھگڑے ،خاندانی تنازعات،دیگر معاشرتی رسوم وسماجی برائیوں پر بصیرت افروز خطاب ہوتا تھا ،احقر کے مرادآباد میں قیام کے زمانے میں مرادآبادمیں اور اطراف کے متعدد جلسوں میں مولانا کو مدعو کیا گیااحقر کو ان کے بیانات سننے کا موقع ملا ،ایک مرتبہ سنبھل میں ایک اصلاحی پروگرام میں آپ کو مدعو کیا گیا احقر بھی اس پروگرام میں شریک تھا ،ڈیڑھ گھنٹے کے کلیدی خطاب میں آپ نے شادی بیاہ اور جہیز کی رسومات سے متعلق مفصل گفتگو فرمائی،شادی کے موقع پر لازم سمجھی جانے والی رسومات ،مہنگے جہیز ،اور لین دین کے بڑھتے رجحانات کی وجہ سے شادی ونکاح میں پیدا ہونے والی مشکلات ،اس کے مفاسد کو بہت ہی اچھے ڈھنگ سے اجاگر کیا،سامعین نے آپ کے اس خطاب کو بہت پسند کیا ،خطاب میں بے با کانہ انداز ،حوصلہ افزا گفتگو ،قرآن کریم اور احادیث شریفہ کی روشنی میں مدلل کلام کرتے ہوئے ،مسئلہ سمجھا دینا اور اپنی بات رکھنا،آپ کے ایسے اوصاف تھے جوسامعین کے مابین آپ کی محبوبیت میں اضافہ کرتے تھے۔
دارالعلوم دیوبنداورجن مدارس میں آپ نے تعلیم پائی ان کا بنیادی مشن تعلیم کی اشاعت ،مسلمانوں میں عقائد صحیحہ کی ترویج رسوم وبدعات کا انسداد ،غلط عقائد ونظریات کا بطلان ،فرق باطلہ کا تعاقب ہے، ان اداروں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت میں یہی امور پیش نظر رکھے جاتے ہیں،اور تعلیم سے فراغت پانے کے بعد طلبہ اپنی سرگرمیوں میں انہی امور کوترجیح دیتے ہیں،مولانا نے بھی اپنی ترجیحات میں انہی امور کو پیش نظر رکھا،چنانچہ مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت، عقائد صحیحہ کی ترجمانی،مسلم معاشرے میں پھیلے رسوم وبدعات کے انسداد،باطل نظریات وعقائد کی تردید،ملحدین وزنادقہ کاتعاقب،فرق باطلہ کی تردید اوردارالعلوم دیوبند کا پیغام عام کرنے کے لئے آپ کانپور ،اور اس سے نزدیکی اضلاع اناؤ ،ہردوئی،قنوج،فرخ آباد،فتح پور،جالون وغیرہ کے علاقوں میں دورہ کرتے رہتے تھے،ان علاقوں میں قادیانیت، شکیلیت اور پرویزیت کی سر کوبی کرنے کے لئے آپ کی جدوجہد سے پورا علاقہ واقف ہے،آپ ان فرقوں کے دجل و فریب اور تلبیس کو آشکارا کرتے رہتے تھے،ناخواندگی اور دین بیزاری کی وجہ پنپنے والے ارتداد اور قادیانیوں کی سازشوں وفتنہ سامانیوں کا جہاں بھی علم ہوتا آپ اپنی دینی غیرت اور مسلکی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے متحرک ہوتے ،ان سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے دیگر علماء کے مشورہ کرکے ٹھوس اور مضبوط اقدام کرتے،کانپور کے اطراف میں جہاں بھی ارتداد کے پھیلنے یا قادیانیوں کے سرگرم ہونے کی خبر ملتی فورامتحرک ہوجاتے، اور اپنی فراست ایمانی ودور اندیشی سے اس طرح پروگرام ترتیب دیتے اور ایسی پیش بندی کرتے کہ اہل باطل کے منصوبے ناکام ہو کرخاک میں مل جاتے ،متعدد مرتبہ فرق باطلہ کی طرف سے اس طرح کی صورت حال سامنے آئی کہ مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
سن ۲۰۰۹ء میں بانگر مئو سے متصل حفیظ آباد کے علاقے میں نوشہرہ میں قادیانی مبلغین کی سرگر میوں کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہاں پر ایک قادیانی مبلغ مستقل طور پر قیام پذیر ہے اور وہ قادیانیت کی تبلیغ کرتا ہے ،حضرت مولانا نے اطلاعات ملنے کے بعد اپنے معاونین سے مشورہ کرکے علماء کا ایک وفد تشکیل دیااور کانپور سے اس کو روانہ کیا،متعینہ مقام پر پہنچ کر وفد نے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ایک قادیانی مبلغ مستقل طور پر یہاں قیام پذیر ہے،اس کی کوششوں سے اس علاقے کے باشندگان کی بڑی تعداد قادیانیت قبول کر کے مرتد ہوچکی ہے،علماء کے وفد کی آمد کی خبر سن کر قادیانی مبلغ فرار ہو چکا تھا،اس بستی کے باشندگان کسی صورت بات کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ بعض لوگوں کی شرارتوں کی وجہ سے وہاں کے حالات بگڑگئے تھے،مگر علماء کی حکمت عملی اور مولانا کی دور اندیشی کی بدولت جلد ہی حالات پرقابو پالیا گیا، پھر وہاں بڑے پیمانے پر تحفظ ختم نبوت کانفرس کا انعقاد کیا گیا،جس میں دیوبند ،مرادآبادسے علماء کو مدعو کیاگیا،آپ کی جدوجہد اور کوششوں کے نتیجے میں وہ کانفرس بہت کامیاب رہی ،اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے،قادیانی مبلغین کی راہیں مسدود ہوئیں،عوام میں تحفظ ختم نبوت کے مسئلہ سے متعلق بیداری آئی ،اپنے عقائد کے تحفظ کے سلسلے میں ان کا شعور پیدا ہوا۔
جمیعة علمائے ہند سے وابستگی آپ کی زندگی کا ایک جلی عنوان ہے،والد محترم حضرت مولانا مبین الحق صاحب رحمہ اللہ بھی شہر کانپور کی جمیعة کے صدرتھے،اسی طرح آپ کے متعدد اساتذہ بھی جمیعة علماء کی سرگرمیوں سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے،جس کی وجہ سے آپ کو بچپن ہی سے جمیعة علماء کی تحریکات اور سرگرمیوں کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنے کے لمحات میسر آئے،بلکہ اس کے پروگراموں اور کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع بھی ملے، انہی اسباب کی بنا پر جمیعة علماء سے وابستگی او رشروع ہی سے اس کے امور سے آپ کو دلچسپی تھی،آپ نہ صرف اس کے پروگراموں میں شرکت فرماتے بلکہ جمیعة کی تحریکات ،اور اس کی کانفرنسوں کو کامیاب بنانے کیلئے کانپور اور اطراف وجوانب میں اسفار کرتے،اپنے تمام معاونین کو متحرک کردیتے ،جمیعة کے امور میں سرگرم شرکت اور فعالیت ودلچسپی کی بنا پر جلدی ہی آپ اہم اراکین میں شمار کئے جانے لگے ۔پہلے مقامی اور شہری جمیعة کی متعدد ذمہ داریاں آپ سے متعلق رہیں پھر آپ جمیعة علماء صوبہ یوپی کے نائب صدر متعین کردئے گئے اور چند سالوں کے بعدجمیعة علماء یوپی کے صدر منتخب ہوئے،بحیثیت صدر،جمیعة علماء کیلئے آپ خدمات ناقابل فراموش ہیں،اس بڑے صوبہ کی ذمہ داری ملنے کے بعدآپ نے علاقائی یونٹوں کومنظم اور مضبوط کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا،یونٹوں کی کارکردگیوں کا جائزہ لیکر مشکلات کے حل تلاشے،اس کی سرگرمی اور فعالیت میں اضافہ کیا۔
جمیعة علماء کی تحریک پرسیلاب ،فسادات ودیگرآفات کی وجہ سے مصیبت زدہ علاقوں میں متاثرین کے مابین ریلیف رسانی کاکام بھی انجام دیا جاتا،متاثرین کے مابین بلا تفریق مذہب و ملت، ضرورت کی اشیاء ،اشیا ئے خوردنی تقسیم کی جاتی ،سردی کے زمانے میں غرباء کے مابین لحاف وکمبل کی تقسیم ہوتی،بیوگان کے لئے وظائف کا بھی نظام بنایا گیا، اس طرح جمیعة کے پلیٹ فارم سے مختلف قسم کی ریلیف کا سلسلہ پورے سال کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ،اورموقع بہ موقع اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتاتھا، حضرت مولانا ہر موقع کی ریلیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ،اوراہل کانپور کی ممتاز نمائندگی درج کراتے تھے،چنانچہ اسی لاک ڈاون کے زمانے میں اپنی وفات سے قبل حضرت مولانا نے تقریبا چالیس لاکھ روپیہ اکٹھا کرکے عوام کے مابین ضرورت کی اشیاء تقسیم کیں، اور گھروں پھنسے ہوئے لوگوں کودوائی ،اشیائے خوردنی،ودیگر ضروری سامان مہیا کرکے راحت پہنچائی۔
مولانا متین الحق اسامہ صاحب نے تقریبا ترپن سال عمر پائی،ان کی عملی زندگی کا دورانیہ اندازا تیتنس سال ہوتا ہے ،اس مختصر سی مدت میں ان کے ذریعہ انجام پانے والے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے ،وہ ایک بے باک ، جری ،متحمل اور متحرک وسرگرم عالم دین تھے ،افراد امت کو نفع پہنچانا،پریشان حالوں کے کام آنا ان کا مشغلہ تھا،وہ ایسے وقت میں رخصت ہوئے جب امت کو پہلے سے زیادہ ان کی ضرورت تھی ،اللہ تعالی امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ،اور ان کے درجات بلند فرمائے،آمین۔۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے