مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
سنبھل صو بہ اترپردیش کا ایک تاریخی شہرہے جو اپنی تعلیمی اور ثقافتی روایات کی بناء پر تاریخی ریاست روہیل کھنڈ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ شیخ حاتم جیسی عظیم شخصیت نے وہاں علم کی قندیل روشن کی اور ملا عبد القادر بدایونی ، ابو الفضل اور دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاذ علامہ محمد حسین بہاری رحمة اللہ علیہ جیسی مایہ ناز ہستیوں نے حصول علم کی غرض سے وہاں کے لئے رخت سفر باندھا۔
سنبھل کی تاریخ میں انگریز حکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ مولانا اسمٰعیل سنبھلی کے چھوٹے بھائی مولاناعبد القیوم، لالہ پریم پال، قاری عبد الحق ، مولانا مقصود ترکی ، چودھری ریاست علی ، لالہ چندو لال، لالہ روپ کشور، مولوی نور الحسن، شیخ عبد الرحیم، چیتن سواروپ، رادھے لال پودار ،منشی معین الدین، مولوی سلطان احمد، مولوی عبدالوحید ، مولانا منصور انصاری اور مولانا اسمٰعیل سنبھلی کا نام ان میں سر فہرست ہے۔
مولانا کا تعلق اترپردیش کے مردم خیز علاقہ اور مشہورو معروف شہر سنبھل سے تھا۔ ان کی صحیح تاریخ پیدائش کا علم تو کسی کو نہیں ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق وہ ۱۸۹۹ ئمیں محلہ دیپا سرائے میں پیدا ہوئے۔ اور ترک برادری کے سرور والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد منشی کفایت اللہ کا شمار علاقہ کے تعلیم یافتہ حضرات میں ہوتا تھا اور وہ اپنی کنیت منشی جی سے مشہور تھے۔ آپ کے دادا کا نام سرور حسین تھا جو امروہہ میں منڈھا گاؤں کے رہنے والے تھے اور بعد میں سنبھل منتقل ہو گئے۔ یہی آپ کے خاندان کے نام( سرور والے خاندان) کی وجہ تسمیہ تھی۔ آپ مدرسہ دار العلوم المحمدیہ سنبھل میں ابتدائی تعلیم حاصل کر ہی رہے تھے کہ والدمحترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا،اور آپ کو آپ کے بڑے بھائی کے یہاں بہاولپورپہنچا دیا گیا جہاں آپ نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے خلیفہ اور مولانا منصور انصاری کے رشتہ دارو جامعہ عثمانیہ کے صدر وشیخ الحدیث مولانا فاروق احمدسے تعلیم حاصل کی۔بہاولپور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ اپنے مادر وطن سنبھل تشریف لائے اور مدرسہ سراج العلوم میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران جلیان والا باغ کا وہ عظیم سانحہ پیش آیا جس نے پورے ہندوستان میں ایک آگ لگا دی۔ چنانچہ سنبھل کے گل چھتر باغ میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مولانا اسمٰعیل سنبھلی نے ایک انتہائی دل انگیز اور ولولہ خیز تقریر کی اور اس تقریر نے عوام کو بہت زیادہ متاثر کیا۔یہیں سے ان کی سماجی اور سیاسی زندگی شروع ہوئی اور ان کو رئیس المقررین کا خطاب دیا گیا۔
برطانیہ کے ذریعہ ترکی کے شکست کھانے کے بعد مسلمان بہت زیادہ متاثر ہوئے چنانچہ ۲۲ نومبر ۱۹۱۹ ء کو خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی اور دہلی میں جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ پورے ملک میں خلافت کی تحریک چلائی گئی۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی وفات کے چند ماہ بعد مولانا اسمٰعیل سنبھلی نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا جہاں ان کے خیالات میں مزید پختگی پیدا ہوئی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ قومی و ملی مسائل میں حصہ لینا شروع کر دیا چنانچہ زمانہٴ طالب علمی میں ہی ۲۲ فروری ۱۹۲۱ ئکو انکی شعلہ بار تقریروں کی وجہ سے انہیں گرفتار کر لیاگیااور دو تین دن بعد ان کے کیس کو مرادآباد جیل میں منتقل کر انہیں دو سال کی قید با مشقت کی سخت سزا سنا ئی گئی۔ پھر تمام سیاسی لوگوں کو سخت سے سخت صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا اور ان کے ساتھیوں کو ہر طرح کے پر تشدد واقعات برداشت کرنے پڑے، غلامی کی زندگی گذارنی پڑی، جیل بھیجے گئے، ان کو خاموش کرنے کی حد درجہ کوششیں کی گئیں گویا ہر طرح سے انہیں تختہ مشق بنایا گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ بالآخر جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد انہیں رہا کر دیاگیااور گھر واپس آنے کے بعداپنی پوری توجہ تعلیم مکمل کرنے پر مرکوز کردی اور مدرسة الشرع کٹرہ موسیٰ خان میں داخلہ لیاجہاں مولانا عبد المجید، مولانا کریم بخش اور مولانامحمد ابراہیم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر شریعت کے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ اس کے بعد علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر اساتذئہ کرام سے کسب فیض کے لئے ایک بار پھر دیوبند کا سفر کیا۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ۱۹۲۴ء میں مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر کر لیا گیا۔ ۱۹۳۰ئمیں ملک میں ایک عظیم تبدیلی رو نما ہوئی اور کانگریس نے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا چنانچہ ۲۶ جنوری ۱۹۳۰ء کو پورے ملک میں یوم آزادی کا جشن منایا گیا۔ ۱۳ مارچ ۱۹۳۰ء کو مہاتما گاندھی نے اپنی تحریک نمک ستیہ گرہ کی پامالی کے خلاف ڈانڈی مارچ تحریک شروع کی اور سول نافرمانی تحریک بھی چلائی گئی۔ اس سے ناراض ہوکر انگریز حکومت نے لوگوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دئے۔ ان کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا، گولیوں کا نشانہ بنایا گیااور جیل بھیجا گیا۔ جمعیت علماء ہند نے وقت کی ضرورت کو محسوس کیااور سول نافرمانی تحریک میں کانگریس کے تعاون کے لئے عزم مصمم کر لیا۔چنانچہ مفتی کفایت اللہ، مولانااحمد سعید، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا مبارک حسین سنبھلی کو جمعیت علماء ہند کے ڈکٹیٹر کے طور پر یکے بعد دیگرے جیل بھیج دیا گیا۔ اس سزا میں مولانا اسمٰعیل سنبھلی کا ساتواں نمبر تھا چنانچہ ۶ مہینے کے لئے وہ بھی قید کر دئے گئے۔ ابتداء میں ان کو دہلی کے B Class جیل میں رکھا گیا لیکن بعد میں ملتان جیل بھیج دیا گیا اور سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد رہا کیا گیا۔
۱۹۳۴ء میں مرکزی کابینہ کے انتخاب کے اعلان کے بعد راجا سلیم پور کی صدارت میں ایک مسلم اتحاد بورڈ بنایا گیااور اس کو یونائٹیڈ، سینٹرالک، بہار اور مدراس جیسے صوبوں میں الیکشن کرانے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ شاہ جہاں پور اور بجنور میں سر یعقوب اور مسٹر کریم الرضاخان جو بورڈ کے ممبر تھے، کے درمیان زبردست مقابلہ آرائی ہوئی ۔مرادآباد بورڈ کے انچارج مولانا اسمٰعیل سنبھلی تھے۔ انہوں نے پوری دلجمعی کے ساتھ اس میں حصہ لیا اور بورڈ کے امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ کامیابی بلا شبہ جمعیت علماء ہند اور مولانا اسمٰعیل سنبھلی کی کوششوں کا ہی ثمرہ تھی۔ اسی طرح جب صوبائی الیکشن کا وقت آیا تو مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ وجود میں لایاگیا۔جمعیت علماء ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید کی طرف سے محمد علی جناح کو بورڈ کے ممبران کے انتخاب کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ مسٹر جناح نے ۵۶ میں سے ۲۲ کا انتخاب کیا جن میں سے ۲۰ جمعیت علماء ہند کے اور ۲ احرار کے ممبر ان تھے۔ مولانا اسمٰعیل سنبھلی کو یوپی بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ نیز وہ تحصیل بلاری اور مرادآباد کے سنبھل علاقہ سے امیدوار بھی منتخب کئے گئے۔ ان دنوں زمیندار، نواب، راجہ اور انگلش کا لیبل لگانے والے لوگ خوب لطف اندوز ہوئے کیونکہ انگریز حکومت سے مدد یافتہ لوگوں کا شمار سماج کے معزز لوگوں میں ہوتا تھالیکن جن لوگوں کا سینہ قوم کی خدمت سے لبریز تھا انہوں نے انگریز معاون ممبر کو شکست دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ سنبھل کی مشہور ومعروف شخصیت نواب عاشق حسین خان کو مولانا اسمٰعیل سنبھلی کے خلاف ٹکٹ دیا گیا۔ سنبھل بورڈ کے ۲۰ سال تک چیرمین ہونے اور تقریبا اسی مدت تک وہاں کے خصوصی مجسٹریٹ ہونے کی حیثیت سے نواب عاشق حسین خاں لوگوں میں کافی مقبول تھے اور حکومت کو سالانہ دس ہزار روپئے ٹیکس بھی دیاکرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے اور مولانا اسمٰعیل سنبھلی فتح سے ہمکنار ہوئے۔ بلا شبہ ان کی فتح ایک تاریخی فتح تھی جس سے قوم کو اور زیادہ تقویت ملی۔ دوسرے مقامات پر بھی مسلم لیگ کے ممبران کو فتح حاصل ہوئی لیکن الیکشن کے بعد مسٹر علی جناح ، حکومت کی پارٹی کے ممبران کو بھی جو کانگریس کے خلاف تھے اس میں شامل کرنے کی کوشش کرنے لگے اور دوسرے ممبران کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے لکھنوٴ کی ایک میٹنگ میں ان کو بھی اس میں شامل کردیا۔مسٹر ظہیر الدین فاروقی اور دیگر لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جمعیت علماء ہندنے مسلم لیگ کی مدد کی ہے اور یہ کانگریس کے تئیں نرم بھی ہے لیکن مسٹر جناح نے یہ کہہ کر ان کو خاموش کر دیا کہ یہ لوگ بورڈ میں شامل کر دئے گئے ہیں اور اب جمعیت علماء ہند یا احرار کو اصول کے خلاف جانے کا کوئی حق نہیں ہے۔یہ الفاظ سن کر مولانا اسمٰعیل سنبھلی اپنی نشست سے اٹھ گئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ کہا کہ ہم نے الیکشن کے مقصد کے پیش نظر آپ کا ساتھ دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنے نظریات اور اصول سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اپنا حل تلاش کرنے کا خود ہمیں حق ہے۔ (ان کی یہ پوری تقریر مولانا حسین احمد مدنی کی کتاب میں موجود ہے)۔ چنانچہ مولانا اسمٰعیل سنبھلی اور جمعیت علماء ہند کے حامی ان کے ساتھیوں نے کانگریس کو اختیار کر لیا۔
۱۹۳۹ء میں جب یورپ میں جنگ شروع ہوئی اورحکومت ہندنے ممبران کا اعتماد حاصل کئے بغیرہندوستانی فوج یورپ بھیج دی تو کانگریس نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور اسمبلی کا بائیکاٹ کر رام گڑھ میں ۲۰ سے ۲۱ مارچ ۱۹۴۰ ء میں مولانا ابولکلام آزاد کی صدارت میں ایک پروگرام منعقد کیا اور اس میں سول نافرمانی تحریک کا اعلان کر دیااور ۱۹۴۰ ء میں عدم تشدد سول نا فرمانی تحریک شروع کی گئی ۔ ۱۹۴۲ئمیں مولانا اسمٰعیل سنبھلی کو مرادآباد میں گرفتار کر ۹ ماہ کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ پھر اگست ۱۹۴۲ ء میں کانگریس نے ہندوستان چھوڑو کا نعرہ بلند کیاجس کی وجہ سے مہاتما گاندھی کو گرفتار کر سابرمتی جیل بھیجاگیااور پورے ملک میں گرفتاری کا سلسلہ جاری ہوگیا چنانچہ مولانا اسمعیل سنبھلی کو ایک بار پھر گرفتار کر غیر معینہ مدت کے لئے مرادآباد جیل بھیج دیا گیا اور ایک سال بعد رہا کئے گئے۔
۱۹۴۶ ء میں الیکشن کے اعلان کے بعد کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان رسہ کشی بالکل اعلیٰ پیمانہ پر تھی۔ مسلم لیگ کے نعرہ کے سامنے کانگریس کی حمایت ایک بہادری کا کام تھا۔ چنانچہ مولانا اسمٰعیل سنبھلی مسلم لیگ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ابتداء میں اپنے لوگوں کے دھوکہ کی وجہ سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دوسرے الیکشن میں مولانا کی طرف سے پرچہٴ نامزدگی داخل کئے جانے کے بعد بغیر کسی مقابلہ آرائی کے کامیابی ان کے قدم بوس ہوئی اور ۱۹۵۲ ء تک وہ MLA رہے۔ ذہنی انتشار کی وجہ سے ۱۹۴۶ ء میں مدرسہ شاہی مرادآباد کی مدرسی کو بھی خیرباد کہنا پڑا۔ پھر ۱۹۵۲ ء تک جمعیت علماء ہند کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے دہلی میں مقیم رہے۔ اور چار سال تک اسی پلیٹ فارم سے سماجی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۷ ء میں جمعیت علماء ہند سے مستعفی ہو کرسنبھل پہنچے اور اپنے شیخ مولانا حسین احمد مدنی کے حکم اورمدرسہ چلّہ امروہہ کے منتظمین کی درخواست پر مدرسہ ہٰذا میں شیخ الحدیث کا عہدہ قبول فرمایا۔ ۱۹۶۲ ء میں مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں انہیں شیخ الحدیث مقرر کیا گیا اور تقریبا تین سال تک وہاں حدیث کی خدمت انجام دیتے رہے۔ بعد میں بار بار کی درخواست پر انہوں نے مدرسہ تعلیم الاسلام (آنند ،گجرات) کا رخ کیا اور آٹھ سال تک وہاں بحیثیت شیخ الحدیث قیام پذیر رہے۔ اس طرح مختلف اداروں میں کم وبیش ۱۶ سال تک آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ ۱۹۷۴ ء میں ملازمت کا خیال ترک کر کے وہ سنبھل واپس آگئے اور اپنی نا مکمل کتابوں کی تکمیل میں مشغول ہو گئے۔ تقلید ائمہ، اخبار التنزیل اورمقامات تصوف ان کی مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ اسی دورا ن موانہ (میرٹھ )کے لوگوں کی درخواست پر وہ وہاں گئے اور آٹھ ماہ قیام فرمایا۔ موانہ میں قیام کے دوران انہوں نے آٹھ ماہ تک درس قرآن دیا ۔ اسی طرح قرآن کریم کی تفسیر بیان کر نے کے لئے کئی سال ماہ ِرمضان ممبئی میں گذارا۔ اگرچہ آخری رمضان میں انہیں ہر افطار کے بعد انجکشن لینا پڑتا تھالیکن درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا اور پورا رمضان اسی کیفیت میں گذرا۔ اسی بیماری کی حالت میں آپ سنبھل واپس تشریف لے آئے۔ واپسی کے بعد حد درجہ کمزوری کی وجہ سے انہیں مرادآباد کے ایک سرکاری اسپتال میں داخل کر ایا گیا،جہاں ہر مکتبہ فکرکے لوگ، سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان کودیکھنے کے لئے جوق در جوق اسپتال پہنچنے لگیں۔ڈاکٹروں کی مختلف جماعت ان کی نگرانی کر رہی تھی۔ CMO اور سابق وزیر صحت جناب دودیال کھنہ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ انہیں دیکھنے آئے لیکن دن بہ دن صحت گرتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو گئے۔ ایمبولنس کے ذریعہ سنبھل پہنچانے کے لئے ان کو آکسیجن اور Life saving Injections دئے گئے۔ پورے راستہ مکمل طور پر بے ہوشی طاری رہی۔ اچانک ان کا داہنا ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا اور بہ آواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد زبان پرجاری ہو گیا۔ اسی کیفیت میں گھر پہنچے ا ور بالآخر ڈیڑھ مہینے کی طویل علالت کے بعدبتاریخ ۲۳ نومبر ۱۹۷۵، ء بروز اتوار، بوقت ڈیڑھ بجے دو پہر علم و عرفان کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)