زبان جامِ محبت بھی اور زہرِ قاتل بھی


از قلم: محمد عمر نظام آبادی
مدیر: التذکیر فاؤنڈیشن نظام آباد
9948693882.

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ انسانی جسم نعمتوں سے بھری ایک کائنات ہے، جس میں ہر عضو قدرتِ خداوندی اور نعمتِ الہی کا ایک عظیم شاہکار اور کھلا نمونہ ہے، منجملہ اعضاء میں ایک ”زبان“ بھی ہے، یہ  قوتِ گویائی کا ایسا ایک انعام ہے جس کے ذریعے انسان اپنے مافی الضمیر کو ادا کر کے اپنی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے؛ لیکن  زبان ایک ایسا پل بھی ہے جس کے ذریعے الفت و محبت کی فضا قائم کی جا سکتی ہے اور انسانوں کے دلوں کو جیت کر اجنبیت کو انسیت میں بدلا جا سکتا ہے اور وہیں دوسری طرف زبان کے ذریعے نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی کر کے رشتے داریوں اور خاندانوں میں فاصلے اور دراڑ پیدا کی جاسکتی ہے؛ گویا زبان دو دھاری تلوار ہے؛ کیوں کہ زبان جامِ محبت بھی ہے اور زہرِ نفرت بھی؛ جیسا کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے: ”جراحات السنان لہا التیام
ولا یلتام ما جرح اللسان“
کسی اردو شاعر نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا

*نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ وصالحین کا حدِ  احتیاط*
خود نبی کریم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور جب بولنے کی ضرورت ہوتی تو بہت ہی جامع اور مختصر گفتگو فرماتے تھے،
اسی طرح آپ نے بہت سی احادیث میں مختلف انداز میں زبان سے سرزد ہونے والی خطاؤں پر تنبیہ کی اور اسی کے ساتھ ساتھ زبان کی حفاظت اور اس کو قابو میں رکھنے پر جنت کی ضمانت و بشارت سنائی؛ چنانچہ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنی باتوں کے سلسلے میں بھی مواخذہ کئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”خدا تیرا بھلا کرے، لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں ڈلوانے والی چیزیں زبان کی کھیتی کے علاوہ اور کیا ہوتی ہیں۔ “(ترمذی: ٢٦١٦) یعنی جہنم میں جانے کا زیادہ تر سبب وہ گناہ ہے جن کا زبان سےتعلق ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے جسم کے تمام اعضاء زبان کے آگے منت کرتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہ، اس لیے کہ اگر تو صحیح رہی تو ہم سب صحیح رہیں گے اگر تو بگڑ گئی تو ہم سب بگڑ جائیں گے۔“(ترمذی:٢٤٠٧) معلوم ہوا کہ جسم کے دیگر اعضاء کے گناہوں میں مبتلا ہونے کا سبب بھی اکثر زبان بنتی ہے، اسی لیے مارے خوف کے تمام اعضاء اس کے ہاتھ جوڑتے ہیں۔
اور اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کے اکثر گناہ زبان سے سرزد ہوتے ہیں۔“ (شعب الایمان:٤/٢٤٠)  ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: ”آدمی کے اسلام کا حسن و جمال اور اس کی خوبی لایعنی (کام اور کلام) کا ترک کردینا ہے۔“(مؤطا:٢/٩٠٣) ایک اور حدیث میں ہے: ”جس نے زبان کو قابو میں رکھا اللہ تعالی اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرماتے ہیں۔“(الجامع لشعب الایمان:٧٩٥٩) ایک حدیث میں نبی ﷺ نے دخولِ جنت کی ضمانت لیتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص اپنی زبان اور اپنی شرمگاہ کے تحفظ کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں “۔(بخاری:٦٨٠٧) 
سیدنا داؤد علیہ السلام فرماتے تھے: ”اگر بولنا چاندی ہے تو چپ رہنا سونا ہے“ ۔(احیاء العلوم:٣/١٧٨) حضرت ابوبکر صدیقؓ لا یعنی سے بچنے کے لئے منہ میں کنکریاں ڈال رکھتے تھے۔(احیاء العلوم:٣/١٧٩) حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ ”جو بہت بولتا ہے وہ بہت غلطیاں کرتا ہے، جو بہت غلطیاں کرتا ہے اس سے کثرت سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور جو بہ کثرت گناہ کرتا ہے اس کےلئے جہنم ہی زیادہ مناسب ہے“۔(فیض القدیر:٦/٢٨٣)
لقمان حکیمؒ سے کسی نے پوچھاکہ آپ اتنے بڑے مرتبے تک کیسے پہنچے؟ فرمایا: ”سچ بولنے اور فضول باتوں سے بچنے کی برکت سے پہنچا ہوں“۔ حضرت حسن بصری فرماتے تھے: ”جو شخص اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اپنے دین کی حفاظت نہیں کرسکتا“۔ (احیاء العلوم:٣/١٧٩)

*زبان سے سرزد ہونے والے گناہ!*
زبان سے واقع ہونے والے بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کی طرف عام طور پر ذہن کی رسائی یا دھیان نہیں جاتا کہ وہ گناہ ہیں؛ حالانکہ ان سے بچنا بےحد ضروری ہوتا ہے؛ کیوں کہ ان سے صرف ایک گناہ بھی آدمی کو جہنم میں لے جانے کے لئے کافی ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے اس موقع پر نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص چاہتا ہے کہ (آفات و بَلایا سے) محفوظ رہے تو اسے چاہیے کہ خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرلے“۔(فیض القدیر:٨٧٤٦) لہٰذا بہت احتیاط اور نگرانی کی ضرورت ہے؛ لیکن اب سوال یہ ہوتا ہے کہ زبان سے سرزد ہونے والے گناہ کون سے ہیں؟ تو اسے سطورِ ذیل میں درج کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں :تمسخر، تکبر، فحش گوئی، سب وشتم، بدکلامی، غیبت، کذب و الزام تراشی، اور بہتان لگانا، کلمۂ فسق و فجور، طعن و تشنیع، استہزاء کرنا، مباحثہ و مناقشہ کرنا، جھگڑا تکرار کرنا، راز افشاء کرنا، چغل خوری اور دو غلاپن کرنا، پر تکلف اور بناوٹی باتیں کرنا، جھوٹی قسم کھانا اور جھوٹا وعدہ کرنا، گانے گانا اور بُری شاعری کرنا وغیرہ۔

*ہمارا حال*
ہائے ہائے ہماری کم بختی! آج ہماری صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، زندگیوں کا چین و سکون غارت ہو چکا ہے، الفت و محبت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی، آپس میں نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی ہو چکی ہے، آپسی تعلقات اور رشتے داریوں کا خون ہونے لگا، رنجشیں اور اَن بَن کا ماحول ہر سو نظر آرہا ہے، ان سب کا بنیادی سبب زبان کی تلخیاں اور لغزشیں ہیں؛ کیوں کہ حال یہ ہے کہ نہ جھوٹ کے بغیر کاروبار چل رہا ہے نہ غیبت سے خالی کوئی محفل ہورہی ہے، کسی ایک جگہ بیٹھ کر بے دریغ کسی کی عصمتوں کو پامال کردیا جاتا ہے تو کسی کا تمسخر اور استہزاء کرنے سے ڈر تک نہیں لگتا،کسی کی دل شکنی کی پرواہ ہی نہیں ہوتی، گفتگو کا سلیقہ تک نہیں ہوتا ہے دشنام طرازی تو تکیہ کلام بن چکا ہے، اور ذکرِ الہٰی اور درودِ نبیﷺ سے گویا کوئی سروکار ہی نہیں؛ ایسا لگتا ہے اسی وجہ سے نہ رزق میں برکت ہوتی ہے اور نہ گھر میں چین و سکون؛ الغرض یہ سب زبان کے بےقابو ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زبان کی ایک لغزش عمر بھر کی کمائی پر پانی پھیر دیتی ہے؛ لہٰذا اس مہلک مرض سے بچنا نہایت ضروری ہے۔

*زبان کے گناہوں سے چھٹکارے کا علاج اور حل*
اب سوال یہ ہے کہ زبان کی خطاؤں سے کس طرح بچا جائے، ایذاء رسانی سے کیسے محفوظ رہے تو اس کے لئے چند ایک تراکیب ہیں جن کو اپنانے سے ان شاء اللہ اس مرض سے نجات مل سکتی ہے؛ چنانچہ
(١) وقت نکال کر صحبتِ صالحین اور نیک لوگوں کے پاس بیٹھنے کا اہتمام کریں،
(٢) بازارِ دنیا میں رہتے ہوئے بازارِ آخرت سے غافل نہ ہو،
(٣) گھر میں یا دکان اور آفس میں اپنے بیٹھنے کی جگہ قرآن کریم کی آیت ”مَا یَلْفِظُ مِنْ  قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ“ کا ترجمہ لکھ کر لگائے اپنے سامنے رکھیں؛ تاکہ اس پر نظر پڑتی رہے اور زبان کے گناہوں سے احتیاط ہوتی رہے،
(٤) اور اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ زبان کا کوئی گناہ ہم سرزد نہ ہونے پائے اور اور غلطی سے ہوجائے تو اس کے بدلے میں اتنے اتنے پیسے صدقہ کرنے کا اپنے آپ سے معاہدہ کرلیں،
(٥) دن کے اول اور آخر میں اللہ سے خوب دعائیں کریں کہ اللہ اس مرض سے نجات دے،
(٦) اور روزانہ سونے سے قبل اپنے دن بھر کی باتوں پر ایک نظر ڈالیں اور ان سے توبہ کرے، آئندہ نہ کرنے اور احتیاط کرنے کا عہد کریں۔

*خلاصۂ تحریر:* ”زبان“ اللہ ربّ العزّت کی عظیم نعمت ہے، اب آدمی کو اختیار ہے کہ اگر چاہے تو اس کا صحیح استعمال کرکے جنت کا مستحق بن جائے؛ ورنہ جہنم کو اپنا جائے قرار بنالیں، بس تھوڑے سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر آدمی اس موقع پر صبر کا دامن تھام لے اور خاموشی کو اپنے لبوں کی زینت بنالیں تو پھر ضرور بالضرور کامیابی مقدر ہوگی، عزت و ظفریابی ہاتھ آئے گی، خلاصہ یہ کہ آدمی ذرا تصور کریں کہ جب ہمارا نامہ اعمال کھلا ہوا ہے اور فرشتے ہر بول لکھنے کے لیے کسی دشمن کی طرح تاک میں ہیں تو کیسے ہم بے ضرورت یا ضرورت سے زائد باتوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں؟ کاش کہ ہم غفلت سے باز آجائیں!
پروردگارِ عالم ہمیں اپنی زبانوں کو قابو میں رکھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق ارزانی فرمائی آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


Sent from vivo smartphone

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے