عبيد الله شميم قاسمى
كل بتاريخ 25/ جولائى 2021ء بروز اتوار بعد نماز عشاء نو بج كر بيس منٹ پر (ہندوستانى وقت كے مطابق) يہ اندوہناک اطلاع ملى كہ جامعہ حسينيہ جون پور كے قديم اور موقر استاذ حضرت مولانا عبد الستار صاحب بھى مسافران آخرت ميں شامل ہوگئے۔ انا لّٰلہ وانا الیہ راجعون
يہ دنيا چند روزه ہے، جو شخص بھى اس دنيا ميں آيا ہے اسے موت سے مفر نہيں، ارشاد بارى تعالى هے: ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [العنكبوت: 57]
اور موت ایک ايسى اٹل حقیقت ہے، جس سے کوئی بھی شخص مستثنی نہیں مگر موجوده وقت ميں جس تيزى كے ساتھ علماء كا قافلہ موت كى طرف رواں دواں ہے، اس سے يہ يقين آجاتا ہے كہ اب قيامت قريب آگئى، الله كے رسول ﷺ كا ارشاد گرامى ہے كہ قرب قيامت علم اٹھاليا جائے گا، بخارى شريف كى روايت ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» صحيح البخاري (100).
اللہ تعالی علم کو یکبارگی نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں كے دلوں سے نكال لے بلکہ جو اہل علم ہیں اللہ تعالی انہیں اٹھالے گا اور جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا وپیشوا بنالیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ہزاروں لوگ اس دنيا سے روزانہ راہی سفر آخرت ہوتے ہيں، كبھی كبھی تو ان پر كوئی رونے والا بھی نہيں ہوتا، كبھی چند دن ان كو ياد كركے لوگ انہيں بھلا ديتے ہيں، ليكن كچھ شخصيات ايسی ہوتی ہيں جو ہميشہ ہميش اپنے كارناموں كی وجہ سے زنده رہتی ہيں، حضرت مولانا عبد الستار صاحب كى شخصيت بھى انہيں خوش نصيب لوگوں ميں تھى جو اپنے كارناموں كى وجہ سے ہميشہ باقى رہيں گے۔ آپ پورى زندگى درس وتدريس سے وابستہ رہے، آپ كے تلامذه ملک وبيرون ملک خدمات انجام دے رہے ہيں جو آپ كے نام كو زنده ركھيں گے اور برابر اس كا ثواب آپ كو پہنچتا رہے گا۔
حضرت مولانا عبد الستار صاحب اہل علم كى معروف بستى پوره معروف ضلع مئو سے تعلق ركھتے تھے، جہاں آپ كى ايک ايسے علمى خاندان ميں پيدائش ہوئى جو نيک نامى اور اپنى شہرت كى بنا پر ہر خاص وعام ميں مقبول ومعروف تھا، آپ كى ولادت یکم جنوری 1943ء کو پورہ معروف کے محلہ بانسہ ضلع مئو میں ہوئی، آپ حضرت مولانا قاری ظہیر الدین صاحب معروفی رحمه الله (ولادت: 14/ محرم 1331ھ وفات: 1404ھ) کے صاحب زادے تھے۔ آپ كے دادا كا نام حافظ رحيم بخش (متوفى 1333ھ) تھا، ان كے لڑكے يعنى قارى ظہير الدين صاحب كى ايسى تربيت ہوئى تھى كہ وه پورى زندگى قرآن پاک كى خدمت كرتے رہے۔ انہوں نے اس زمانے كے مشہور اساتذه سے اكتساب فيض كيا، جن ميں حضرت مولانا محمد شبلى شيدا خيرآبادى، مولانا عبد الحئى صاحب مئوى، حضرت مولانا قارى رياست على صاحب بحرى آبادى جن سے خاص طور پر قرات كى تعليم حاصل كى اور اس فن كى كتابيں پڑھيں، اسى طرح فخر القراء قارى محب الدين صاحب الہ آبادى سے مدرسہ سبحانيہ الہ آباد ميں فن قرات كى مشہور كتاب شاطبيه، التيسير، معرفة الوقوف وغيره پڑھ كر قرات سبعه، عشره سے فراغت پائى تھى اور علم حديث حضرت مولانا شاه عبد الغنى صاحب پھولپورى رحمه الله كى خدمت ميں ره كر حاصل كيا، اور بعد ميں مدرسہ روضة العلوم پھولپور ميں تدريسى خدمات بھى انجام دى تھى۔ حضرت قارى ظہير الدين صاحب كى كتاب "احياء المعانى” فن قرات ميں بہت مشہور ہے، اس فن كا كوئى بھى طالب علم اس كتاب سے مستغنى نہيں ہوسكتا، اس کتاب کو انہوں نے جامعہ عربيہ احياء العلوم مبارک پور كے زمانہ تدريس ميں تاليف فرمائى تھى۔
ايسے علمى ماحول ميں آپ كى نشو نما هوئى، صلاح وتقوى كے آثار بچپن سے ہويدا تھے، اور آپ نے درس كى تمام كتابوں كو بہت محنت سے پڑھا اور ہر فن ميں كمال پيدا كيا، يہى وجہ تھى كہ آپ سے متعلق بھى كتاب ہوتى اور اس كا درس ديتے تو ايسا معلوم ہوتا كہ اس فن ميں آپ يكتا ہيں۔
آپ نے عربى كى تعليم پوره معروف اور احیاء العلوم مبارک پور ميں حاصل كرنے كے بعد دارالعلوم ديوبند كا رخ كيا اور 1379ھ ميں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ آپ نے اس زمانے كے مشہور محدثين سے علم حديث حاصل كيا، جن ميں حضرت مولانا سيد فخر الدين صاحب مرادآبادى سے بخارى شريف اور اس كے علاوه علامہ ابراہيم بلياوى، مولانا بشير احمد صاحب اور ديگر اساتذه سے استفاده كيا۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد دس سال تک گھریلو کام میں مشغول رہے، 1389ھ میں مدرسہ دارالرشاد بارہ بنکی میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے اور تقریباً نو سال تک یہاں تدریس سے وابستہ رہے۔ وہاں آپ كے بہت سے تلامذه ہوں گے، جن ميں دارالعلوم ديوبند كے ہمارے استاذ حضرت مولانا نسيم احمد صاحب باره بنكوى مدظلہ بھى شامل ہيں۔
اس كے بعد 1398ھ سے 1411ھ تک مرکزی دارالعلوم محمدیہ گھوسی میں مدرس رہے۔ بعد ازاں 1413ھ سے رجب 1442ھ تک جامعہ حسینہ لال دروازہ جونپور میں تعلیم و تربیت کے مبارک مشغلے میں نہایت جانفشانی، انہماک انضباط سے عظیم خدمات انجام دیں۔ يہى آپ كى آخرى منزل ثابت ہوئى۔ پھر بوجہ علالت تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔
آپ كى چند خصوصيات:
حضرت مولانا بہت ہی محاسن و کمالات کے حامل تھے، جملہ علوم و فنون میں دستگاہ رکھتے تھے، بالخصوص تفسیر، فقہ، نحو ، صرف اور منطق میں زبردست مہارت تھی۔
سنتوں سے عشق:
آپ کی پورى زندگی عشق نبوى كا نمونه تھى، آپ کی اولین ترجیح یہی ہوتی تھی کہ کوئى بھى کام خلاف سنت نہ ہو، یہی وجہ تھى کہ بہت سی تقریبات میں آپ کی شرکت صرف اس وجہ سے بھی نہیں ہوتی تھی کہ سنت کی پامالی ہوگی۔
تلاوت قرآن کی پابندی:
چونكہ آپ نے جس ماحول ميں آنكھيں، وہاں دن رات قرآن پاک كا چرچا تھا، حافظ قرآن نہ ہونے کے باوجود آپ کو قرآن سے ایک والہانہ عشق تھا، آپ کو جیسے وقت ملتا تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ کر پورے انہماک کے ساتھ تلاوت کرتے، اس نقاہت کے باوجود جيسا كه سنا گيا روزانہ ایک منزل پڑھنے کا معمول تھا، اس طرح ایک ہفتے میں آسانی کے ساتھ ایک قرآن مکمل ہوجاتا تھا، کبھی کبھی ترجمہ شیخ الہند کا مطالعہ کرتے۔
آپ كا كوئى بھى وقت خالى نہيں ہوتا تھا حتى كہ عصر کے بعد بھی جب موقع ملتا تو اس وقت بھى قرآن كريم کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے، قرآن پاک سے لگاؤ ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے یہاں متعلقہ فن کی وضاحتوں میں قرآنی مثالوں سے مدد لی جاتی تھی جو کمیاب ہے۔
دوران درس آیات قرآنی اس طرح سے پڑھتے جیسے ایک حافظ قرآن پڑھتا قرآن کی تلاوت ،تفسیر وتشریح، نحوی تدبر کے علاوہ تجوید پر بھی آپ کی نظر غیر معمولی تھی، خصوصاً وقف کے مسائل پر طلبہ کو بہت توجہ دلاتے تھے۔
نمازوں کی پابندی:
آپ کے یہاں نمازوں کی پابندی بے مثال تھی اذان ہوتے ہی مسجد پہونچنے کی کوشش کرتے، کوشش کرتے کہ صف اول میں امام کے پیچھے کھڑے ہوں اور مکمل نماز سے فارغ ہوکر ہی کمرہ لوٹتے۔
تہجد کی پابندی:
پورے سال، کیا سردی کیا گرمی کیا برسات آپ کا معمول تھا کہ صبح سویرے تقریباً تین بجے اٹھ کر غسل کرتے، پھر تہجد کی نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت میں لگ جاتے،یہی وجہ تھی کہ آپ کے چہرے پر ہر وقت بشاشت رہتی، بات میں عجیب طرح کی تاثیر بھی تھی۔ اس کے ساتھ نہایت ذاکر و شاغل تھے۔
آپ جہاں بھی رہے اپنے علمی تفوق و تعمق تدریسی اور انتظامی صلاحیت اور اخلاق حسنہ سے انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ میں ہردلعزیز اور محبوب رہے، عام لوگوں سے بھی آپ کے روابط و تعلقات رہے، لوگ بڑی قدر منزلت اور عقیدت و محبت رکھتےتھے۔
1421ھ میں حج کی سعادت سے فیضیاب ہوئے اور "نسیمِ حجاز” کے نام سے اعمال حج، مقامات مقدسہ اور وہاں کے مشاہدات و تاثرات بہت ہی دلنشین، سلیس اور شستہ اسلوب میں تحریر فرمایا، اسى طرح آپ ايک بہترين شاعر تھے، اردو فارسى اشعار پر ملكہ حاصل تھا اور بہت سے نوآموز شعراء آپ سے تصحيح كراتے تھے، نیز طلبہ کی تقریری مشق کے لئے "دینی، علمی اور اصلاحی مکالمے” کے نام سے ایک کتاب تالیف فرمائی، یہ دونوں کتابیں مطبوع ہوئیں اور اہل علم میں خوب مقبول بھی ہوئیں۔
حضرت مولانا سے ميرى كوئى خاص پہچان نہيں تھى، ايک دو سرسرى ملاقات تھى، ليكن آپ كے شاگردوں سے برابر آپ كا ذكر خير سننے كو ملتا رہتا تھا۔ آپ كو كئى مرتبہ دارالعلوم ديوبند ميں ديكھا جہاں آپ ممتحن كى حيثيت سے تشريف لے جايا كرتے تھے۔
آپ كچھ دنوں سے بيمار چل رہے تھے اور بيمارى كى وجہ سے تدريسى سلسلہ منقطع ہوگيا تھا، آپ كا وقت پورا ہوچكا تھا اور وقت مقرره پر دارفانى سے دار آخرت كوچ كر گئے، آپ نے اپنے پيچھے بھرا كنبہ چھوڑا ہے۔
ایک سال قبل آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگيا تھا، آپ کے پسماندگان میں دو لڑکیاں اور چار لڑکے ہیں۔ (1) مولانا محمد عمران صاحب استاد جامعہ اسلامیہ بنارس (2) مولانا حافظ رضوان احمد صاحب استاذ مدرسہ معروفیہ (3) مولوی محمد سلمان صاحب (4) مولوی حافظ غفران صاحب۔ آخر الذکر دونوں گھر پر مقیم ہیں۔
اللہ تعالیٰ تمام پسماندگان، تلامذہ اور محبین کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔