حضرت مولانا عبد الستار صاحب معروفی کا انتقال

اٹھ گئیں ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں۔۔۔


آج بہ تاریخ ١٤ذي الحجه ١٤٤٢ه‍/مطابق ٢٥جولائ٢٠٢١ءبہ روز اتوار بعد نماز عشاء تقریباً ۲۰=۹بجےواٹس ایپ کے ذریعہ یہ خبر جانکاہ ملی کہ ، جامعہ حسینیہ لال دروازہ جون پور کے مقبول ،کہنہ مشق استاذ الاساتذہ،علم وفن کے بحر ذخار،ملکۂ افہام وتفہیم کے حسین سنگم اور صورت وسیرت کی ہزار خوبیوں کے جامع علمی سر زمین پورہ معروف مئو ،یوپی کے یکتا موتی حضرت مولانا عبد الستار صاحب نور الله مرقدہ دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
الله تعالٰی غریقِ رحمت فرمائے ،سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے ،ان کی جملہ خدمات کو قبول فرماکر اپنی شایانِ شان بدلہ عطافرمائے ۔
مولانا کی ذات بابرکت کچھ اس طرح کی ہی تھی کہ وہ طلبہ اور علماء ہی کیا بلکہ ایک عامی شخص کو بھی اپنی ایک ملاقات میں اپنا گرویدہ بنالیتے تھے،جامعہ حسینیہ میں ایک سال (۲۰۰۸/۹) ،درجہ چہارم میں پڑھنے کا موقع ملا ؛جس میں حضرت مولانا رح کو بہت قریب سے دیکھا ،استفادہ کیا،زندگی جینے کا سلیقہ بھی سیکھا ۔
ان دنوں حضرت رح عربی دوم میں تیسیر المنطق،مرقات،عربی سوم میں شرح تہذیب،عربی چہارم میں شرح جامی اور عربی پنجم میں جلالین اور میبذی پڑھاتے تھے ۔
احقر کو فن نحو میں شرح جامی پڑھنے کا موقع ملا، پہلا گھنٹہ تھا ،آپ گھنٹہ کے اول وقت میں درسگاہ میں اپنے ہاتھوں میں بیلا کے چند پھول لیے ہوے ،طلبہ کوسلام کرکے پہونچتے ،فوراً رجسٹری حاضری لیتے اور کسی طالب علم سے عبارت پڑھواکر سبق شروع کردیتے ،طریقہ درس بالکل آسان تھا،مسئلہ کی وضاحت کرتے اور عبارت کے ترجمہ کےساتھ مطلب کو طلبہ کے ذہن کے قریب سے قریب تر کرتے چلے جاتے ،حضرت کا سبق اس وجہ سے بھی زیادہ مقبول تھا کہ آپ مسئلے کو سمجھانے میں صرف کتابی مثالوں کے پابند نہ تھے بلکہ ایسی مثالوں کا بھی سہارا لیتے جن سے غبی سے غبی طالب علم بھی مسئلے کو ذہن میں محفوظ کرلیتا،کبھی کبھی کسی طالب علم کی طرف سے کوئی سوال ہوتا تو چٹکیوں میں حل کردیتے تھے ،اگر بعد میں کچھ پوچھنے کی نوبت آتی تو قرآنی مثالوں کا سہارا لے کر الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھادیتے ،سبق اتنا دلچسپ ہوتا کہ ہر دن تشنگی باقی رہتی اور گھنٹی بج جاتی۔اگلے سال جب دارالعلوم دیوبند میں پنجم میں داخلہ ہوگیا تو پھر چھٹی کے موقع پر جامعہ حسینیہ پہونچااور سبق میں شرکت کی اجازت چاہی لیکن شرکت کی اجازت نہ ملی کہ”اب تم دارالعلوم میں چلے گئے ہو”.
حضرت کی زندگی کے کچھ نمایاں اور ہم جیسے شاگردوں کے لیے قابل تقلید پہلو:
سنتوں سے بلاکا عشق :
آپ کی زندگی کی اولین ترجیح یہی ہوتی تھی کہ کوئ کا م سنت کے خلاف نہ ہو،یہی وجہ ہے کہ بہت سی تقریبات میں آپ کی شرکت صرف اس وجہ سے بھی نہیں ہوتی تھی کہ سنت کی پامالی ہوگی۔
تلاوت قرآن کی پابندی:
حافظ قرآن نہ ہونے کے باوجود
آپ کو قرآن سے ایک والہانہ عشق تھا ،آپ کو جیسے وقت ملتا تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ کر پورے انہماک کے ساتھ
تلاوت کرتے ،اس نقاہت کے باوجود روزانہ ایک منزل پڑھنے کا معمول تھا،اس طرح ایک ہفتے میں آسانی کے ساتھ ایک قرآن مکمل ہوجاتا تھا ،کبھی کبھی ترجمہ شیخ الہند کا مطالعہ کرتے عصر کے بعد جب کبھی آپ کےکمرے کےپاس سے گزرنے کا موقع ملا تو آپ کو قرآن کی تلاوت میں منہمک دیکھ کر رشک بھی آتا تھا ،اسی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ آپ کے یہاں متعلقہ فن کی وضاحتوں میں قرآنی مثالوں سے مدد لی جاتی تھی جو کمیاب ہے ۔ دوران ِ درس آیات قرآنی اس طرح سے پڑھتے جیسے ایک حافظ قرآن پڑھتا قرآن کی تلاوت ،تفسیروتشریح ،نحوی تدبر کے علاوہ تجوید پر بھی آپ نظر غیر معمولی تھی ،خصوصاً وقف کے مسائل پر طلبہ کو بہت توجہ دلاتے تھے؛چناں چہ بارہا مسجد میں امام صاحب کو بلاکر تنبیہ کرتے ؛اگر امام صاحب سورہ فاتحہ میں ،(اهدنا الصراط المستقيم) ،پر وقف نہ کرکے ،(صراط الذين أنعمت عليهم) وقف کرتے،پھر سمجھاتے کہ اِس کے مستقل آیت ہونے میں اختلاف هے ۔
نمازوں کی پابندی:
آپ کے یہاں نمازوں کی پابندی ،بے مثال تھی اذان ہوتے ہی مسجد پہونچنے کی کوشش کرتے ، کوشش کرتے کہ صف اول میں امام کے پیچھے کھڑے ہوں اور مکمل نماز سے فارغ ہوکر ہی کمرہ لوٹتے
تہجد کی پابندی :
پورے سال ،کیا سردی کیا گرمی کیا برسات آپ کا معمول تھا کہ صبح سویرے تقریباً تین بجے اٹھ کر غسل کرتے ،پھر تہجد کی نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت میں لگ جاتے،یہی وجہ تھی کہ آپ کےچہرے پر ہر وقت بشاشت رہتی،بات میں عجیب طرح کی تاثیر بھی تھی .
شعری ذوق:
آپ کا شعری ذوق بھی بہت عمدہ تھا،اردو شاعری بھی کیا کرتے تھے ؛عربی اور فارسی کے بہت سے اشعار بھی آپ کی زبان پر صف بندی کیے کھڑے رہتے ،آپ بر موقع ،برجستہ ان کو لطف لے لے کر پڑھتے تھے ،اس طرح سے آپ کو اردو،عربی،فارسی تینوں زبانوں میں کامل عبور بھی حاصل تھا ۔
اصول پسندی:
آپ اصول کے بالکل پابند تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کام سے کام رکھتے ، اپنے کمرہ سے نکلتے تو درسگاہ یا پھر مسجد ،مستقل مزاجی وقت اور درس کی پابندی کی برکت تھی کہ آپ اطمینان کے ساتھ متعینہ کتابی نصاب بھی پورا فرمادیتے،نہ آپ پر بوجھ ہوتا نہ طلبہ پر .
وضع قطع :
صاف ستھرے کرتا پاے جامے پر دوپلی ٹوپی لگاتے تھے ، خوبصورت چہرہ پر موٹی ڈنڈی والا چشمہ جس سے آپ کا حسن قدرے دوبالا ہوجاتا،عموماً آپ کے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا تولیہ ہوتا ،جس کی جگہ عموما آپ کا کندھاہوتا،آپ کی رفتار میں مناسب تیزی تھی۔
صفائی ستھرائی:
جس طرح سے آپ کا باطن بالکل پاکیزہ تھا ،اسی طرح آپ کاظاہر بھی صاف وشفاف تھا،صاف ستھرا کپڑا پہنتے تھے ،بلکہ اگر آپ کے کمرے میں جانے کا اتفاق ہوتا،تو جس بستر پر آپ سوتے تھے ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی صاف کرکے بچھایا گیا ہے ،آپ کے کمرہ میں غیر ضروری چیزوں کے لیے قطعاً کوئی جگہ نہ تھی،جن چیزوں کوآپ کے یہاں کچھ جگہ ملتی تھی ؛تو انہیں بھی سلیقے کا خوبصورت لباس پہنادیا جاتا تھا۔
مہمان نوازی:
آپ کے حصے میں مہمان نوازی جیسی عظیم صفت بھی آئی تھی،اکثر آپ کے یہاں جب کوئی آتا تو اپنے پاس موجود میوے،کشمش وغیرہ سے اس کی مہمان نوازی کرتے تھے۔
تصنیفات :
زبان کی طرح آپ کے قلم میں بھی غضب کی چاشنی تھی ،آپ کی تحریر کا قاری ابتدا کیا کرتا؛انتہاء تک پہونچ کر ہی چھوڑتا،چنانچہ آپ کے مکتوبات کا مجموعہ “نسیم حجاز”کے نام سے شائع ہوا ہے جو ہر اردو سے محبت کرنے والے کو پڑھنا چاہیے۔
نمایاں شاگرد :
ویسے تو آپ کاعلمی فیضان کافی وسیع ہے،آپ نے میری معلومات كے مطابق مختلف مدارس خصوصاً احیاء العلوم مبارکپور،بارہ بنکی میں کسی ادارہ،اور تقریباً تیس سال تک جامعہ حسینیہ میں مختلف علوم وفنون میں اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں ،جس سے نہ جانے کتنے طلبہ نے فائدہ اٹھایا اور آج پورے ہندوستان میں آپ کے فیضان کو جاری رکھے ہوئے ہیں ؛ خصوصاً ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے تفسیر وادب کے مایہ ناز استاذ حضرت مولانا مفتی نسیم صاحب بارہ بنکوی دامت برکاتھم العالیہ،جو آپ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں ۔
یہ چند خوبیاں تھی ،جو اس وقت لکھی گئیں ،امید ہے کہ کوئی آپ کی زندگی کے روشن اور تابناک پہلوؤں کو ضرور اجاگر کرے گا ،ان شاء اللّٰہ ۔
اللہ رب العزت حضرت الاستاذ کی بال بال مغفرت فرمائے ، جامعہ کو نعم البدل عطا فرمائے ،پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ،خاص طور پر آپ کے اہل خانہ اور ہم سب کے شفیق ومحسن فخر شیراز ِ ہندحضرت مولانا توفیق صاحب قاسمی ناظم ِ جامعہ حسینیہ لال دروازہ کو جنھوں نے مولانا کی ہر طرح سے مدد کرکے “سيد القوم خادمهم”کا حق ادا کردیا اور آخر وقت تک “درخت اور سایہ”کا کردار ادا کرتے رہے ،اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین بدلہ دے۔آمین۔
یکے از خاک پاے حضرت رح:
ثاقب ایاز جون پوری ۔
١٤٤٢ه‍/١٤/١٢

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے