"تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے”
محمد شمیم اختر قاسمی
اردو اداب کے مشہود نقاد اور مشرقی شعریات کے ماہر پروفیسر ابوالکلام قاسمی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج (مورخہ 8جولائی 2021) سوا چھ بجے شام ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا شمار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مایہ ناز استاذوں میں ہوتا تھا۔وہ شعبہ اردو کے پروفیسر اور اس شعبہ کے چیر مین رہے، یہاں تک کہ وہ فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین بھی بنائے گئے۔ وہ طویل عرصے تک یونیورسٹی کے مشہور رماہ نامہ تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹر رہے، بعد میں انہیں وہاں کے ادبی مجلہ سہ ماہی فکر ونظر کی ادارت بھی سنبھالنی پڑی۔ وہ بڑے ہی مرتب اور مزین قسم کے آدمی تھے۔انہیں اپنے علم پر مکمل اعتماد تھا، اس لئے ان کی تحریر وتقریر اور گفتگو میں یہ خوبی نمایاں طورپر نظرآتی تھی۔بہ ظاہر وہ بہت خشک قسم کے انسان تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ بہت با اصول تھے، جسے ہر کوئی سمجھنے سے قاصر تھا۔
پروفیسر ا بوالکلام قاسمی میرا غائبانہ تعارف مفتی محمد ظفیرالدین مفتا حی کے زبانی 1993 کے بعد ہوگیا تھا۔ مفتی صاحب بھی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور وہ بھی مفتی صاحب کا حد درجہ عزت واحترام کرتے تھے۔مفتی صاحب کے طفیل میری پہلی ملاقات قاسمی صاحب سے 1995 کے آس پاس ہوئی۔اس وقت ہم دارالعلوم میں زیر تعلیم تھے، مفتی صاحب کے ساتھ میں بھی علی گڑھ ایک فقہی سمینار میں گیاتھا۔اس وقت مفتی صاحب کے چھوٹے صاحب زادے ڈاکٹر ابوبکر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں زیر تعلیم تھے اور ایم فل کے اسٹوڈنٹ تھے۔ہم تینوں آدمی ایک شام ابوالکلام قاسمی سے ملنےان کے گھر بعد نماز عصر گئے۔ وہیں میں نے ان کو قریب سے دیکھا اور ان سے مفتی صاحب نے میرا ہلکا ساتعارف کرایا۔ یہاں تک 1996 میں میرا داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں ایم اے کے لئے ہوگیا اور میں علی گڑھ چلا آیا۔وہ ان دنوں شعبہ اردو کے چیرمین بن چکے تھے اور تہذیب الاخلاق کے مدیر بھی تھے۔شروع کے ایک دوسال قاسمی صاحب سے میرا راہ رسم بالکل نہ تھا۔ یہاں تک کہ مفتی صاحب پھر علی گڑھ آئے تو ایک دن ہم لوگوگ قاسمی صاحب سے ملنے ان کے شعبہ گئے۔ مفتی صاحب اور قاسمی صاحب کافی دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے ، یہاں تک جب چلنے لگے تو قاسمی صاحب نے پوچھا یہ بچہ کون ہے ، مفتی صاحب نے دوبارہ میرا ان سے تعارف کریا کہ یہ شعبہ دینیات میں پڑھ رہا ہے اور بہت اچھا خطاط بھی ہے۔ اگر اپنے رسالہ کے لئے کتابت کی ضرورت پڑے تو ان سے کام لے سکتے ہو۔اس وقت قاسمی صاحب نے مجھ سے برجستہ پوچھا کچھ لکھتے پڑھتے ہو ۔ میں نےجوابا کہا سر پڑھتا تو ٹھیک ہی تھاک ہوں، البتہ ابھی تک لکھنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ اب کوشش کروں گا۔انہوں نے فرمایا کہ ضرور کوشش کرو اور اگر کچھ لکھو تو مجھے دکھاسکتے ہو۔ ان کی باتوں سے میرے اندر خود اعتمادی تو پیدا ضرور کردی، مگر میں نے کافی دنوں تک اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ اس کے بعد مختلف علمی تقاریب میں یا چلتے پھرتے ان سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہوجاتی تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور پڑھنے لکھنے سے متعلق سوالات پر سوالات کرڈالتے اور میں بس جی ہاں، جی سر میں جواب دے دیتا اور بس۔ان کی باتوں سے اتنا تو ضرور محسوس ہوتا تھا کہ کوئی تو ایسا ہے جو مجھ سے میرے پڑھنے لکھنے کا حال دریافت کرتا ہے ۔ گویا کہ ان کی باتوں سے اپنا ئیت محسوس ہوتی تھی اور میری طلب بھی دن بہ دن ان کی طرف بڑھتی جاتی تھی۔
ایسی بات نہیں تھی کہ میں نے لکھنے کی جانب توجہ نہیں دی تھی ، بلکہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں ایک دو مضمون لکھ چکا تھا، مگر وہ مسودہ تک ہی محفوظ تھا جو آج بھی میری کسی فائل میں محفوظ ہے۔یہاں تک کہ ایک ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ شمیم تم تو خطاطی بھی جانتے ہو، کیا تم تہذیب الاخلاق کے مضامین کی کتابت کرنا پسند کروگے۔ میں نے کہا کہ ضرور سر ۔انہوں نے کہا کہ کل آفس میں آکر مجھ سے ملاقات کرو۔ اگلے دن میں مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ وہ میرا انتظار ہی کررہے تھے۔انہوں نے احمد صاحب سے کہا فلاں فلاں مضمون آپ ان کو کتابت کے لئے دے دیجئے ۔ دودن بعد ایک مضمون کی کتابت کرکے ان کے پاس پہنچ گیا۔ میری کتابت دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس طرح ایک ہفتہ میں میں نے تین چار مضامین کی کتابت کرکے ان کے حوالے کردیا۔کتابت کے دوران میرے اندر بھی داعیہ پیدا ہوا کہ کچھ وقت نکال کر میں بھی کوئی مضمون لکھوں۔ چنانچہ کافی محنت اورمطالعہ کے بعد ایک مضمون دس بارہ صفحات میں لکھ کر ان کی آفس میں جمع کردیا، یہ سوچ کر کہ اتنے بڑے رسالہ کے لئے میرا مضمون کیسا ہوگا اور کیسے شائع ہوگا البتہ کوشش کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے۔ یہاں بتانے کی دل چسپ بات یہ ہے کہ تہذیب الاخلاق کا سرسید نمبر نکل رہا تھا۔ رسالہ مکمل ہورہا تھا اورآخری مرحلے میں چل رہا تھا۔اگلے دن آفس کا کوئی آدمی میرے کمرہ پر آیا اور کہا کہ ابھی آپ کو قاسمی صاحب نے بلایا ہے۔ اچانک بلانے سے میں ڈر گیا۔ مختلف قسم کے شکوک وشبہات میرے دل میں پیدا ہونے لگے۔ خیر میں ان کی آفس پہنچا۔انہوں نے مزید کچھ کہے فرمایا شمیم یہ مضمون ہے وقت بہت کم ہے لہذا کل تک آپ اس کی کتابت کرکے مجھے دے دیں۔ کچھ دیکھے اور جانے بغیر میں نے ہامی بھردی اور لفاف میں ملفوف مضمون لے کر کمرہ پہنچا اور کتابت کرنے بیٹھ گیاتو دیکھا کہ یہ مضمون تو میرا ہی ہے۔دیکھا کہ قاسمی صاحب نے اس میں حد درجہ حذف واضافہ اور زبان وبیان کو درست کردیا ہے۔ مجھے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ میرا ہی مضمون ہے اور تہذیب الاخلاق جیسے مایہ ناز رسالہ وہ بھی سرسید نمبر میں میرا مضمون شائع ہونے جارہا ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ میں نے اپنے دوستوں کو صورت حال بتائی تو وہ لوگ بھی بہت خوش ہوئے۔ کسی کو یقین ہوتا تو کسی نے اسے میری ڈینگ پر محمول کیا۔مضمون کی کتابت کرکے اگلے دن قاسمی صاحب کو دے دیا۔وہ پینسل لے کر میرے سامنے ہی اس کا پروف پڑھنے لگے۔ معمولی غلطیاں نکلیں جسے میں نے اپنے "جوگاڑو "قلم سے ان کے سامنے ہی درست کردیا۔میرے اس جوگاڑ کو دیکھ کر قاسمی صاحب بہت مسکرائے۔پھر میری تعریف کرنے کرنے لگے کہ ماشائ اللہ تم اچھا لکھ سکتے ہو۔ محنت کرتے ہو ، کامیاب رہوگے۔پھر رسالہ چھپ کر آیا تو ساتھیوں نے میری کاوش کو جو سراہا، اس سے مجھے حوصلہ ملا۔شعبہ کے بعض اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا اور مجھے ڈیر ساری دعائیں دیں۔
ایک بہترین معلم اور مربی کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی نااہل شخص کی تربیت کس انداز سے کرتا ہے۔ اگر میرا مضمون تہذیب الاخلاق میں اس وقت شائع نہ ہوتا تو شاید میرے اندر لکھنے کی عادت نہ پڑتی اور میں اب تک اندر سے خالی ہی ہوتا۔ تہذیب الاخلاق کے مضامین کی کتابت ایک ذریعہ بن گیا، قاسمی صاحب سے قریب ہونے اور ان سے علمی استفادے کا۔انہی دنوں مفتی صاحب بھی علی گڑھ آئے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے میرے لکھنے کی قاسمی صاحب نے بہت تعریف کی ۔ انہوں نے برجستہ کہا شمیم اتنا اچھا لکھ سکتا ہے میں گمان بھی نہیں کرسکتاتھا۔ اس پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت ہونہار بچہ ہے ۔ اس پر نظر رکھوگے تو اللہ تمہارا بھلا کرے گا۔اس وقت قاسمی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ شمیم طلبا دارالعلوم کے اندر بہت ساری خوبیاں ہوتی ہیں اور وہ بڑی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں، مگر انہیں صحیح راستہ دکھانے والا نہیں ملتا۔ اب تم نے لکھنا شروع کردیا ہے، لکھتے رہو، تمہارا مضمون ہم ضرور شائع کریں گے۔اس کے بعد تہذیب الاخلاق میں مسلسل اور کثرت سے میرے مضامین شائع ہونے لگے۔کبھی کبھی تو قاسمی صاحب مجھ سے فرماتے اگلے شمارہ کے لئے فلاں عنوان پر تم مضمون لکھ دو۔
اس کے بعد قاسمی صاحب سے ملاقات اورگفت وشنید کا ایسا سلسلہ قائم ہوگیا کہ بلاناغہ روزانہ بعد نماز مغرب ایجو کیشنل بک ہاوس شمشاد مارکیٹ میں نہ صرف ملاقات ہوتی بلکہ گھنٹوں مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی، وہ مجھے کسی نہ کسی کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دیتے ، کبھی کہتے کہ مولانا مودودی کی کتاب کا کثرت سے مطالعہ کیا کرو۔ کبھی کہتے کہ اخترالایمان کی کتاب اس آباد خرابے کو پڑھے۔ کبھی فرماتے کہ کلیات پروین شاکر بھی پڑھ لیا کرو۔ وہیں پر کباب اور چائے کا دور چلتا کبھی وہ بل ادا کرتے کبھی ہم ، تو کبھی ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی یا پھر مالک کتب خانہ اسد یار کاں صاحب۔
اس طویل گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ان سے میرا تعلق قائم ہوا اور وہ مجھے کس قدر عزیز رکھتے تھے اور ان کی صحبت اور تربیت نے میرے اندر کیا اثر اور تغیر پیدا کیا۔ان کی اثر دار شخصیت ، یادوں اور شفقتوں کا طویل اور لا متناہی سلسلہ ہے، بلکہ ایسے ایسے واقعات بھی ہیں جسے بعض دوسرے لوگ نہیں جانتے ، اسے ہم بالترتیب قلم بند کرنے کی کوشش کریں گے۔
Source: Facebook