مفکر اسلام حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کی فکری بصیرت

مفتی امانت علی قاسمی

# استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند

                کورونا وائرس اور لاک ڈاوٴن کی مسموم فضا میں ایک سال کی اکتاہٹ و گھبراہٹ کے بعدبیس شعبان کودیوبند سے اپنے وطن پہونچا تاکہ دل و دماغ پر چھائے غباراور بے چینی و بے اطمنانی سے گزرے ایام کو بھلاکر کچھ دن والدین اور رشتے داروں کے ساتھ سکون و اطمنان سے گزار سکوں ،دوست و احباب کے ساتھ خوشی و مسرت اور سیر و تفریح کے چند لمحے بتاسکوں ،وطن کے ساتھ محبت و انسیت اوردل میں انگڑائیاں لے رہی بچپن کی یادیں تازہ کرسکوں،صبح سات بجے گھر پہونچا تھا، پہلی مرتبہ محسوس ہوررہا تھا کہ کسی لمبے سفر سے آنا ہوا ہے ، اس لیے کہ کورونا کی کرب ناکی اور حوصلہ شکن مہاماری نے سفرسے بالکلیہ روک دیا تھا اور مکمل ایک سال پر ایک ہزار کیلو میٹر کا یہ سفر ہوا تھا وہ بھی خوف و احتیاط کے ساتھ ۔ گھر پہونچنے کے چند گھنٹے بعد ہی معلوم ہوا مفکر اسلام ، بے باک اور جری قائد ، امت مسلمہ کی بروقت رہنمائی کرنے والے عظیم رہنما ،امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے امیر شریعت ، خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکے جنرل سکریڑی ، جامعہ رحمانی کے سرپرست ،رحمانی فاوٴنڈیش اوررحمانی ۳۰ کے چیرمین ، امیر شریعت سابع حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی صاحب  کا انتقال ہوگیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون

                یہ خبر میرے لیے بڑا حادثہ تھا،دل ٹوٹ سا گیا ، گھر پہونچنے کی خوشی پژمردگی میں تبدیل ہوگئی ،مسرت آمیزاور مسکراہٹ انگیز چہرے ا چانک غم و حسرت میں تبدیل ہوگئے ، شہر کی جامع مسجد سے اعلان کیا گیا کہ حضرت امیر شریعت کا انتقال ہوگیا ہے؛اس لیے سوگ کے طورپر چوبیس گھنٹے کاروبار بند رکھے جائیں ۔ حضرت مولانا محمدعلی مونگیری اور حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے بشمو ل پورے بہار میں اس خانوادے کی جو خدمات ہیں اور ان خدمات کاجو اعتراف اہل بہار کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوا کہ پورے شہر میں کاروباری سلسلہ ایک دن کے لیے مکمل موقوف ہوگیا ۔ شہر بھاگل پور میں کپڑے کا بڑا کاروبار ہے ، خاص کر علاقہ چمپانگر میں کپڑے کے بڑے بڑے کارخانے ہیں جس کا شوراور ہنگامہ ہر آن جاری رہتا ہے رات و دن یہ سلسلہ متواتر بدستورچلتارہتاہے ؛لیکن اس اعلان کے بعد پورے شہر میں خاموشی چھا گئی ، پورا علاقہ غم و اندوہ کے ماحول میں ڈوب گیا۔

                معلوم ہوا کہ جنازہ کل گیارہ بجے دن میں ہے ، جنازہ میں جانے کا پروگرام بنایا، صبح صبح جنازہ کے لیے بھاگل پور سے روانہ ہوا تو راستے کا منظر بھی قابل دید تھا،موٹر سائکل ،کاراوربسوں کاایک سیلاب تھا جو مونگیر کی طرف رواں دواں تھا،ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہر شخص خا نقاہ کی طرف ہی جارہا ہے ، جہاں گاڑی رکتی تو صرف ٹوپی والے ہی دکھائی دے رہے تھے، مونگیر پہونچا تو وہاں انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تھا، لاکھوں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصے سے آپ کے عقیدت مندوں کاہجوم پہونچا ہوا تھا جو آپ کی عبقریت کی شہادت اورآپ کی عظمت و محبت کی گواہی دے رہا تھا۔یہ مجمع جس ناگہانی ماحول میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیرآپ کے جنازہ کو کندھا دینے کے لیے بیتاب تھااس سے لوگوں کے دلوں میں جاگزیں آپ کی عقیدت و عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتاتھا۔ ایسا محسوس ہورہاتھاکہ اہل بہار کے سر پر مولانا مونگیری کا جو سایہ تھا اس کے اٹھ جانے سے لوگ بے قرار تھے، لوگ اپنے دلوں میں محسوس کررہے تھے کہ آج ہم یتیم ہوگئے ، اپنے سرپرست سے محروم ہوگئے ، ہماری قیمتی متاع ہم سے چھن گئی ،بہار کی عظمت کا جو چمکتا نگینہ تھا، آج اس کی چمک ختم ہوگئی ، اپنے خون جگر سے نسل نو کی آبیاری کرنے والااور اس کے لیے مسلسل سفر کرنے والا آج راہی ملک بقا ہوگیا، جامعہ رحمانی کی رونقیں ا جڑ گئیں ، خانقاہ کی مجلسیں سونی ہوگئیں، امارت کا قافلہ سالار خصت ہوگیا ۔ہائے افسوس !آپ کیا گئے کہ بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں اپنی گھن گر ج سے لوگوں کو للکارنے والا اور سوتی قوم کونیند سے بیدار کرنے والامنادی چلاگیا ،وقت پر حالات سے نبردآزما ہونے اور وقت سے پہلے خطرات سے باخبر کرنے والا سپاہی رخصت ہوگیا۔حکومت سے دوٹوک اور بے لاگ لہجے میں بات کرنے والا بے باک و جری قائد ملک عدم کو سدھار گیا ۔سچ ہے کہ پورے ملک کے لیے اور خاص طور پربہار کے لیے آپ کا جانا ایک ایسے وقت میں جب کہ آپ کی شدید ضرورت تھی بہت ہی جان کاہ حادثہ ہے۔

پر شوخ و پر مذاق ہوائیں اداس ہیں

مدہوش و نغمہ یار فضائیں اداس ہیں

یاران شہر جاں کی وفائیں اداس ہیں

ہونٹوں پہ رقص کرتی صدائیں اداس ہیں

یہ فتح موت ہے کہ شکست حیات ہے

جو درد و غم میں ڈوبی ہوئی کائنات ہے

                مفکر اسلام حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی صاحب کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کسی تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری کے پوتے تھے جنہیں خدا و ند قدوس نے غلام ہندوستان میں انقلاب کے لیے پیدا کیا تھا ، آپ سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے ، حسینی خون آپ کی رگوں میں تھا،خواجہ عبدالقادر جیلانی سے آپ کو نسبی تعلق تھا، آپ نہ تھکنے والے تھے اور نہ ہی بیٹھنے والے تھے ، آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی ،آپ کا فیضان غلام ہندستان میں سیلاب کی طرح رواں رہا ،آپ جدھر گئے اصلاح عالم کا فلسفہ لے کر گئے ، اسلامی اقدارکی بازیابی ،مردہ دلوں میں اسلامی روح کی واپسی گویا آپ کا نصب العین تھی، آپ نے غلام ہندوستان میں اسلامی فکر و فلسفہ اور اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ۔

                آپ قطب زباں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے فرزند ارجمند تھے، جنہوں نے آزادی کے بعد ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا ۔نسبندی کے زمانے میں جب کہ بڑے بڑے قائدین سلاخوں میں ڈالے جارہے تھے آپ نے اس وقت جرأت و عزیمت کی عظیم مثال پیش کی ۔آپ نے مسلمانوں کے عائلی مسائل کی حفاظت ،مذہبی شناخت اور تہذیبی روایات کی بقا کے لیے مسلم پر سنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک چلائی اور پوری زندگی اپنے فکر و عمل کے ذریعہ امت مسلمہ کی رہبری اور رہنمائی کرتے رہے ۔

                حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی صاحب نے خاندانی عظمت و رفعت کو اپنے ترقی کا زینہ نہیں بنایا تھا، اور نہ ہی انہوں نے خاندانی شہرت سے رفعت حاصل کی تھی ، بلکہ انہوں نے اپنی عبقریت کی عمارت از خود تعمیر کی تھی، قیادت کی سنگلاخ وادی کا سفر تنہا کیا تھا۔دینی و ملی خدمت کا جذبہ انہیں ورثے میں ملا تھا،اور اس وراثت کی انہوں نے حفاظت کی تھی ،انہوں نے اپنے کردار و عمل اور تحریرو تقریر سے اپنی عظمت قائم کی تھی،اپنی فکر و تدبر سے لوگوں کے دلوں میں محبوبیت کا مقام حاصل کیا تھا،اپنے عزم و حوصلے سے شاہین کی بلندی حاصل کی تھی،انہوں نے اپنے اصول پسندی اور صاف گوئی کی وجہ سے اگر چہ بہت سوں کو اپنا مخالف بنالیا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسی اصول پسندی نے ان کی شخصیت کو پرکشش بنادیا تھا۔آپ کی شخصیت کے تعلق سے مولانا حامد الانصاری غازی کا یہ خوبصورت اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی تربیت کے خمیر سے تیارحضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی کا سراپا صاف نظر آتا ہے ۔

                ”مولانا منت اللہ رحمانی کے جذبہٴ خدمت اور انداز تربیت کے بہت سے نمونے اداروں اور افراد کی شکل میں موجود ہیں ان کی اقبال مندی اورآہ سحر گاہی کی ایک علامت میرے عزیز مولانا محمد ولی رحمانی ہیں ۔ والد ماجد کا نقش جمیل اور فکر جلیل ان کے سراپا میں رچا بسا ہے ، شکل و صورت میں عین والد کی طرح ، آواز و انداز میں ان کا مثنی ، عزم و حوصلہ ، ذہانت و لیاقت میں ان کی پکی یادگار ہیں وہ چوتھائی صدی سے زیادہ اپنے والد ماجد کے زیر سایہ عملی زندگی کا تجربہ حاصل کرتے رہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ہندوستان میں جو دو چار ذی علم ا ور صاحب بصیرت عالم ہوں گے ان میں مولانا منت اللہ رحمانی مرحوم کی زندہ یادگارمولانا ولی رحمانی بھی ہوں گے“ (حیات ولی ،ص:۳۲)

ہمہ جہت شخصیت

                حضرت امیر شریعت کی زندگی کے بہت سے گوشے ہیں ، آپ مملکت ادب کے اچھے انشاء پرداز تھے ، کئی اخبار و رسائل کے مدیر رہ چکے تھے ،آپ کی تحریریں دل کو دستک دینے والی ہوتی تھیں، آپ میدان خطابت کے عظیم شہسوار تھے،آپ کی تقریریں تاریک دلوں میں روشنی کا سامان ہوتی تھیں ،منفرد انداز خطابت کے مالک تھے ۔آپ بحر تصوف کے غواص اوراس کی فضائے بے کراں کے شہباز تھے، سلوک و معرفت میں آپ کی تربیت نے بہت سو ں کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی، آپ مصنف تھے ، مدبر تھے، بہترین منتظم تھے، عظیم قائد تھے،ملی رہنماء تھے ، لیکن ان سب سے زیادہ میرے نزدیک آپ کی عظمت اس لیے ہے کہ آپ عظیم مفکر تھے،آپ نے اپنی فکری بصیرت سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس کے اثرات دیر تک محسوس کیے جائیں گے، آپ نے اپنی فکری بصیرت سے بعض ایسے بلند فکر کام کو عملی جامہ پہنایا ہے جو یقینا آپ کی فکر ی عبقریت کا آئینہ دار ہے ۔آپ صرف گفتار کے عادی نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے، ملک کے گنے چنے اصحاب علم و فضل میں آپ کا شمار تھا، آپ ہندوستانی مسلمانوں کے صف اول کے قائد تھے ، آپ کی شخصیت میں تقلید کے بجائے اختراع اور ابتکار تھا،آپ کام پیدا کرتے اور اسے عملی جامہ پہناتے تھے اور یہ وصف یقینا آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ خانوادہ ٴ رحمانی کے نہ صرف فرزند تھے؛ بلکہ چمنستان رحمانی کے گل سرسبد تھے ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری نے ندوة العلماء کا خاکہ پیش کیا تھا اور اس کو عملی شکل دی تھی ، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے مسلم پرنسل لا کا نظام پیش کیا تھا اور حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی  نے اپنے آبا ء اجداد کے نقش قدم پر چل کر رحمانی فاوٴنڈیشن اور رحمانی تھرٹی (۳۰) جیسا ابتکاری کارنامہ پیش کیا جس کی اس وقت شدید ضرورت تھی ۔

حضرت مفکر اسلام کی فکری بصیرت کے چند نمونے

                حضرت مفکر اسلام نے نہ صرف والد محترم کے لگائے ہوئے باغ کو سیراب کیا ،وراثت میں حاصل سرمایہ کو محفوظ رکھا، ان کی ترقی اور استحکام کے لیے کوشاں رہے اور بلندی تک پہونچایا؛بلکہ ان کی فکری عبقریت نے ہندوستانی مسلمانوں نے کے لیے وہ مشکل کارنامے انجام دیے جو تاریک ترین دور میں صبح درخشاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن

                ۲۰۰۱ء میں اٹل بہاری واجپئی کے عہد حکومت میں مدارس کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش ہوئی اور مرکزی وزراء کے گروپ نے حکومت کو جو رپورٹ دی اس میں دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور مدارس پر انتہا پسندی اور تشدد کا الزام عائد کیا گیا تھا اس وقت مفکر اسلام نے اپنی فکری بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو حکومت کے مذموم ارادے سے واقف کرایااوراس کے لیے پچاس سے زائد اجلاس کئے گئے اس کا ایک اجلاس ۱۵/جولائی۲۰۰۱ء میں کانسٹی ٹیوشن کلب میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی صدر مہتمم دارلعلوم وقف دیوبند کی صدارت میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی جانب سے منعقد ہوا ۔پھر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی کی امارت میں مدارس کے ایک وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ،اس موقع پر وزیر اعظم نے وفد سے کہا کہ ” جنگ آزادی میں مدارس نے اہم رول ادا کیا ہے اور مدارس مذہبی و روحانی تعلیم کی آماجگاہ ہیں، یہاں پر بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی ہے “اٹل بہاری واجپئی کے مدارس کے تعلق سے ان تحمیدی کلمات کے بعد حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی کہ مدارس کے تعلق سے آپ کی کس بات کو درست مانا جائے ، آیا وہ بات جووزارتی گروپ کی روپورٹ میں شائع ہوئی ہے یا پھر وہ بات جو آپ نے مشاورت کے وفد سے کی ہے “ بات یہیں ختم نہیں ہوئی؛ بلکہ آپ نے سخت بیان اخبار میں جاری کیا جس کا عنوان تھا ”وزیر اعظم لفظوں کی بازی گری کررہے ہیں“ ۔ آپ کی جد و جہد کا سلسلہ یہی نہیں رکا بلکہ آپ نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی اور ان سے کہا ”آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اگر کسی مدرسے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا ہو تو بتلائیے اور کسی سرکاری یونیورسٹی کانام بتائیے جہاں قتل کا واقعہ نہ ہوتا ہو اور ۳۰۲ کا کیس نہ چلتا ہو“مدارس کے تعلق سے یہ کوششیں آپ کی جرأت کی علامت اور فکری بصیرت کے نمونے ہیں ۔جن خطرات کی طرف لوگوں کی نگاہیں بعد میں جاتی تھیں آپ کی نگا ہ بصیرت بہت جلد ان کا ادراک کرلیتی تھی۔

                اس سلسلے میں سب سے اہم اجلاس ۲۰۰۲ء میں ”ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن “ کے نام سے مونگیر میں آپ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے دس ہزار سے زائد نمائندے شریک ہوئے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے شرکت کرکے مدارس کے تعلق سے اپنے مثبت تاثرات کا اظہار کیا۔

رائٹ ٹو ایجوکیشن

                ۲۰۰۹ء میں حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا حاصل یہ تھا کہ چھ سال سے چودہ سال تک کے ہر بچے کے لیے سرکاری تعلیم حاصل کرنا لازم ہے ۔یہ عنوان بہت خوشنما ہے جس سے محسوس یہ ہوتاہے کہ حکومت تعلیم کے تئیں بہت سنجیدہ ہے اور ہر بچے کو تعلیم دلانا چاہتی ہے؛ لیکن اس کے دوسرے منفی پہلو بھی ہیں ؛اس لیے کہ چھ سال سے چودہ سال کی ہی عمر دینی تعلیم حاصل کرنے کی ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچے حافظ قرآن نہیں بن سکیں گے ، دینی تعلیم حاصل نہیں کرسکیں گے ، ملک کے دستور نے ان کو جو تعلیم کی آزادی دی ہے اس دستور کو ختم کیا جارہا ہے۔ حضرت مفکر اسلام اس ایکٹ کی زہرناکی سے اچھی طرف واقف تھے؛ اس لیے انہوں نے اس کی مخالفت میں مسلم پرسنل لا کے تحت حید رآباد اور ممبئی کے بشمول ملک کے مختلف حصوں میں کئی اجلاس کئے اورلوگوں کو اس ایکٹ کے بھیانک نتائج سے واقف کرایا۔آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے ا جلاس بمبئی اپریل ۲۰۱۲ء کے موقع پر ممتاز شیعہ رہنما مولانا کلب صادق صاحب نے فرمایا تھاکہ اس قانون اورا س کے دور رس اثرات سے ہم لوگ ناواقف تھے مولانا محمد ولی رحمانی نے سبھوں کو بیدار کیا اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے اتنا سمجھایا کہ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اس زہر کو سمجھ گیا ۔حضرت مفکر اسلام کی اس فکری بصیرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ رائے عامہ ہموار ہوئی اوربالآخر حکومت اس ایکٹ میں ترمیم کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہ سب آپ کی دور رس نگاہ کا فیض تھا ، جب بھی اس طرح کی چیزیں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کی شکل میں سامنے آتی تو حضرت کی نگاہ بصیرت اسے تاڑ لیتی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دینی تعلیم اور ملی جذبہ کے ساتھ آپ نے عصری تعلیم بھی حاصل کی تھی ، بھاگل پور ٹی این بی کالج سے آپ نے تاریخ میں ایم اے کیا تھا ۔خاندانی وراثت ، دینی تربیت ، عصری تعلیم ، سماجی کے تئیں ملی ہمدردی کے مجموعہ سے جو شخصیت تیار ہوئی تھی اس کا نام سید محمد ولی رحمانی تھا۔

دین بچاوٴ، دیش بچاوٴ

                تین طلاق کے سلسلے میں شریعت کے خلاف حکومت نے قانون بنایا تو تمام ملی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ، مسلم پرنسل لا نے پرزور انداز میں اس کی مخالفت کی ، اس میں حضرت امیر شریعت کا بڑا اہم رول رہا، اس موقع پر آپ نے جمہوری ملک میں دستوری حقوق کی روشنی میں دو بڑے کام کیے، ایک یہ کہ مسلم پر سنل لا کے تحت دستخطی مہم چلائی اور پورے ملک سے چار کروڑ تراسی لاکھ دستخط کراکر صدر جمہوریہ کو پیش کیا گیا اور دوسرا اہم کام یہ کیا کہ پورے ملک میں حکومت کے قانون کے خلاف خواتین کے بڑے بڑے جلوس نکالے ۔اسی دوران جب کہ ملک میں بد امنی اور مسلم مخالف قانون کی وجہ سے دین اور دیش دونوں خطرات کی زد میں تھے آپ نے ”دین بچاوٴ ، دیش بچاوٴ“ تحریک چلائی جس نے پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کردی ۔اس کا ایک بہت بڑا پروگرام پٹنہ کے گاندھی میدان میں کیا جو تایخی اہمیت کا حامل تھا ،اس پروگرام میں آپ نے جو خطبہ صدارت پیش کیا ہے وہ آپ کی جرأت و ہمت اور فکری بصیرت کی بہترین عکاسی کرتا ہے اس کا ایک اقتباس آپ ملاحظہ فرمائیں :

”اپنے آپ کو خوف کی نفسیات سے نکالیے اور زندہ ، باغیرت ، باحمیت ، باضمیر امت کی طرح زندگی گزارئیے ، مشقتوں کو دل سے قبول کیجیے ، ملت کی اجتماعی زندگی کے لیے وقت نکالیے اور وقت لگائیے ، وقت کی قربانی دیجیے ، مال نچھاور کیجیے اور ضرورت پڑے تو جان دینے سے پیچھے نہ رہیے ، انفرادی قربانیاں ملت کی اجتماعی زندگی کا ذریعہ ہیں ۔یاد رکھئے !زندہ قومیں خوف کے ماحول میں نہیں رہتیں ، وہ جان دے کر اپنی تاریخ بناتی ہیں ، و ہ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں انہیں اپنے قائدین پر لازوال اعتماد ہوتا ہے اور وہ ملت کی زندگی کے لیے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں( اردو ملت ٹائمز ، ۱۵ /اپریل)

رحمانی فاوٴنڈیشن

                آپ نے ۱۹۹۶ء میں رحمانی فاوٴنڈیش قائم کیاجس کے ذریعہ عصری تعلیم کے باب میں حیرت انگیز اور انقلابی کام کیا ۔ اس کے تحت بی ایڈ کالج اور اس طرح کے دیگر کالجوں کے ذریعہ نئی نسل کو عصری تعلیم سے مربوط کیا۔ ہاسپیٹل ذریعہ علاج و معالجہ اور کمپیوٹرسینٹر اور ہنر مندی پروگرام اور ووکیشنل کورسیز کے ذریعہ نئی نسل کو معاش سے جوڑنے کا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ۔عصری تعلیم میں مزید وسعت کے لیے آپ نے کشن گنج میں کئی سو ایکڑ پر مشتمل زمین خریدی تاکہ وہاں پر میڈیکل کالج اور دیگر کالج قائم کرکے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے قومی دھارے میں ان کو شامل کیا جاسکے ۔رحمانی فاوٴنڈیشن کا قیام آپ کے فکری عبقریت کا نتیجہ ہے جس سے مستقبل میں بڑی امیدیں وابستہ ہیں ۔

رحمانی تھرٹی(۳۰)

                آپ کے کارناموں میں اہم کارنامہ جو آپ کی فکرو نظر کی وسعت و ہمہ گیریت کا بہترین مظہر ہے رحمانی تھرٹی کا قیام ہے۔ آپ نے ۲۰۰۸ میں غریب و نادار طلبہ کے اعلی مقابلاجاتی امتحان کے لیے رحمانی ۳۰قائم کیا ،اس تعلیمی ادارے کے تحت مقابلہ جاتی امتحانوں میں آئی آئی ٹی ( IIT) جے ای ای (JEE)چارٹر اکاوٴنٹینٹ ( chartered acconntant) سائنٹسٹ (scientist) وکلا(Advocates) پری میڈیکل ٹیسٹ ((Pre Medical Testایمس(AIIMS )اور سی ایم سی(CMC) وغیرہ میں داخلہ کے لیے طلبہ کی تیاری شروع کرائی گئی۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ آپ نے ملک کے مختلف حصوں میں طلبہ کو اعلی تعلیم کے لیے تیار کرایا۔ شور و ہنگامہ سے پرے خاموشی سے ملک کے کئی صوبوں میں رحمانی ۳۰ کے تحت اعلی تعلیم کا مکمل نظم کیا گیا اور اس کے بہترین نتائج آئے،اور بہت سے بچے مفت تعلیم حاصل کرکے ملک کے انتظام و انصرام کا حصہ بنے ۔آپ کا یہ کارنامہ مثالی کارنامہ ثابت ہوا اس کے بعد بہت سے اداروں نے اس کو نمونہ بنا کر کام شروع اور یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نیک فال ثابت ہو ا ۔رحمانی ۳۰ یقینا آپ کی فکری قیادت کا عظیم شاہ کار ہے ۔یہ سب کچھ آپ ملت کے نونہالوں کے مستقبل کی تا بناکی کے لیے کررہے تھے ان کی خواہش یہی تھی کہ ملت کے نوجوانوں کا مستقبل روشن ہو

میری آرزویہی ہے ، تیری زندگی ہو روشن

میرا درد تو سمجھ لے ، میری سن لے رب برتر

نوجوان قیادت

                آپ اس حقیقت سے وا قف تھے کہ کام کرنے کے لیے جوش و جنون کی ضرورت پڑتی ہے اور جوش و جنون کی ایک عمر ہوتی ہے اس لیے آپ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو کام کے لیے تیار کیا جائے اور بڑے ان کی سرپرستی فرمائیں۔ کلکتہ کے پرسنل لا کے اجلاس میں آپ نے بہت سی تجاویز کی سرد مہری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کام نوجوانوں کے سپرد کرنا چاہیے ،اخبار وں نے بھی ”ولی رحمانی کی للکار- نسل نو ہو تیار“کی سرخی لگائی تھی ۔آپ نے نہ صرف یہ کہ یہ تجویز پیش کی؛ بلکہ عملی طورپر اس کا نمونہ بھی پیش کیا ۔آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈجیسی بڑی تنظیم کا سکریڑی آپ نے صرف ۳۴ سالہ نوجوان حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی کو بنایا ، اور وفات سے چند دن قبل آپ نے نوجوان ، باصلاحیت فاضل دیوبند حضرت مولانا محمدشمشاد رحمانی استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند کو نائب امیر شریعت نامزد کیا یہ سب آپ کی فکری بصیرت کی بہترین مثالیں ہیں ۔

                آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے ، آپ نے کام کیا اور خوب کام کیا ، ہر میدان میں کام کیا ، مدارس کے ذریعہ بچوں کی دینی تربیت کی ، عصری تعلیم گاہ قائم کرکے ، ہندوستانی بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کی بھر پور کوشش کی ۔ خانقاہ رحمانی کے ذریعہ مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکی، اس کے ذریعہ باطن کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا ۔ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے ملکی و ملی مسائل کی رہنمائی کرتے رہے ۔ مسلم پرسنل لا کے اسٹیج سے ہندوستانی مسلمانوں کے عائلی مسائل کے تحفظ اور دفاع کے لیے جی جان کی بازی لگادی ، سچ ہے کہ دنیا میں آپ کا اقبال بلند رہا اور امید ہے کہ آخرت میں بھی آپ کا نصیبہ بلند تر ہوگا ، خدا تعالی نے لاکھوں فرزندان توحید کی سفارش ضرور قبول کی ہوگی ۔

ہزراوں رحمتیں ہوں اے میر کارواں تجھ پر

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری

حرف آخر :یہ غیر مرتب تحریر ہفت روزہ نقیب کے لیے تحریر کی ہے خوشی کی بات ہے کہ حضرت امیر شریعت کی وفات کے بعد نقیب کا خصوصی شمارہ شائع ہونے جارہا ہے، یہ حضرت امیر شریعت کا حق تھا اس لیے کہ آپ نہ صرف امیر شریعت تھے ؛بلکہ خود نقیب کے بھی ایک زمانہ تک مدیر رہ چکے تھے ، اللہ تعالی حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی نائب امیر شریعت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے وقت کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حضرت امیر شریعت پر خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیا ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے