*مجاہد حریت اورمردقلندر*
**
*مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی* صدرادارہ علمی مرکزو
امام وخطیب مسجدالفاروق ولیمس ٹاؤن بنگلور
موبائل نمبر: 9611021347
بہت ہی عجیب اور کمال کے حالات ہیں۔اس وقت چاروں طرف حزن و ملال اورکرب و بلانے ایک طوفان ہلاکت بپا کر رکھاہے۔حالات اس وقت اتنے گمبھیر اورحوصلہ شکن ہیں کہ اچھے خاصے جگر والے بھی پست ہمتی اورخوف کا شکار ہیں۔کوروناکی یہ آدم خورمہاماری، بہت ظالمانہ رخ اختیار کرچکی ہے۔ساری دنیا پریشان ہے اورحیرت سے سب کی آنکھیں پھٹی ہیں۔آسمان کی طرف نگاہیں اٹھی ہوی ہیں اور قادر مطلق سے فریادرسی کی طلبگارہیں۔
اس مہلک و خطرناک بیماری سے جہاں عامۃ الناس متأثر ہوکر راہی ملک عدم ہوئے ہیں۔وہیں خواص اورعلماء کا ایک طبقہ بھی دنیا کو خیرباد کہہ چکاہے۔ملک کے چوٹی کے علماء اس بیماری کی نذرہوکر مالک حقیقی سے جاملے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ چکاہے اوراس کے دانے مسلسل یکے بعد دیگرے گرتے چلے جارہے ہیں۔چونکا دینے والی حقیقت ہے کہ: یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے۔
صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:
”ان من اشراط الساعۃ ان یرفع العلم ویثبت الجھل“علامات قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھالیاجائے گا اورجہالت عام ہوگی اوریہ علم کا رفع ایک دوسری حدیث کی رو سے علماء کی موت کی صورت میں ظاہرہوگا۔
ان اللہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد،ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتیٰ اذالم یبق عالما اتخذالناس رء وساجھالا فسئلوافافتوابغیرعلم فضلواواضلوا۔
اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے نکال کر ختم نہیں فرمائیں گے؛بلکہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھالیاجائے گا۔پھر جب علماء نہیں رہیں گے تولوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے،ان سے مسائل پوچھیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔جس کے نتیجہ میں خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
یہ دور،دورقحط الرجال ہے۔اس میں علماء کا اس تسلسل کے ساتھ رحلت کرنا ایک بہت بڑا عالمی سانحہ ہے اوربالیقین قیامت کا الارم ہے۔گذشتہ کل پیش آنے والاسانحہ بھی (جو مجاہد جنگ آزادی،بطل حریت،تلمیذ شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی اوربلند پایہ عالم دین حضرت مولانامفتی عبدالرزاق بھوپالی بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ عربیہ ترجمہ والی مسجد بھوپالی کی وفات کی شکل میں پیش آیا)اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ملک کے ممتاز اورقدآورعلماء میں سے تھے۔قدوۃ الصالحین اورنمونہئ اسلاف تھے۔انہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوتی تھی۔علم و عمل کی جیتی جاگتی تصویر اورتقویٰ شعار عالم دین تھے۔عمدہ اخلاق ،نبوی اوصاف،پاکیزہ سیرت اورشفاف کردار کے حامل انسان تھے۔انہوں نے جنگ آزادی میں بھی حصہ لیا تھا،اس لیے اپنے اور پرائے تمام ہی لوگوں میں ان کی اونچی حیثیت مسلم تھی-ان کے سیاسی رسوخ کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا سیاست داں اورچوٹی کا لیڈر بھی ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتا تھا اوروہ اس سے اپنی بات منوالیاکرتے تھے۔اسی بنیاد پر انہوں نے مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کے کئی اہم مسائل حل کرائے تھے اورکامیابی کے ساتھ ان کو انجام تک پہنچایاتھا۔بہادری،جرأت،بے خوفی،ارادوں کی پختگی عزائم میں صلابت،کامل یقین اورجوشِ جنوں ان کی پہچان والی صفات تھیں۔
دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین استاذمحترم حضرت مولانانصیر احمد خانصاحب قدس سرہٗ کے یہاں آپ کو آتے جاتے دیکھا اوروہیں آپ سے متعارف بھی ہوا۔دیکھا گیا کہ دونوں حضرات ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے ہیں بعد میں معلوم ہواکہ حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہٗ تو استاذہیں اس لیے احترام لازمی چیز ہے اورتلمیذ رشید حضرت مفتی صاحب نے حضرت شیخ کو تصوف و سلوک میں خلافت دی ہے تو حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہٗ بھی اس نسبت سے ان کا ہر طرح سے احترام واکرام فرماتے ہیں۔آگے چل کر یہ تعلق رشتے داری میں بھی تبدیل ہوگیا تھا۔اس طرح کہ حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ کی صاحبزادی حضرت شیخ الحدیث قد س سرہٗ کے صاحبزادے محترم بھائی عقیل صاحب کے نکاح میں آئیں۔اوراب بھائی عقیل صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھوپال ہی میں مقیم ہیں۔
بھوپال میں حضرت مفتی عبدالرزاق خاں صاحب رحمہ اللہ 13/اگست 1925ء کو پیداہوئے۔ابتدائی ومتوسطاتی تعلیم بھوپال ہی میں مسجد ملنگ شاہ،جامعہ دارالعلوم الٰہیہ اورجامعہ احمدیہ میں ہوئی۔اعلیٰ تعلیم کے لئے 1952ء میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ان کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولاناسید احمد مدنی امام المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی،یگانہ ئ روزگار حضرت مولانافخرالحسن مرادآبادی،ماہرفلکیات حضرت مولانابشیر احمد خاں صاحب بلندشہری،حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب دیوبندی اورمولانانصیر احمدخانصاحب قدس اللہ اسرارھم جیسے عبقری نفوس شامل ہیں۔
1377ھ میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی۔اورپھر دیوبند میں رہ کر فقیہ النفس حضرت مولانامفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری قدس سرہٗ سے فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی اسی کا اثر تھا کہ دنیانے آپ کو ایک ماہر مفتی کی حیثیت سے جانا اوراس میدان میں آپ کے کئی تلامذہ دنیاکے مختلف گوشوں میں عمدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ نے بھوپال میں ایک ادارہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ کے نام سے قائم کیا تھا جو آج بھوپال کا سب سے بڑا مدرسہ شمار ہوتاہے۔اس کے علاوہ کئی مدارس اورمراکز دینیہ کے سرپرست تھے۔مدھیہ پردیش میں جمعیۃ علماء کی نشوونمااورترقی کا سہراانہیں کے سر ہے۔وہ بھوپال شہر کے قاضی اورمفتی تھے۔
حضرت مفتی صاحب مرحوم خوش وضع،خوش خلق اوربہترین مدبر و کامیاب ملی قائد تھے ۔اسی کے ساتھ پٹھانوں والی روایتی مہمان نوازی اوروضعداری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔دین اسلام کے بہترین ترجمان اورایک فصیح و بلیغ مقرر تھے۔
ملک میں جب فرقہ وارانہ فسادات کانہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ بیشتر تقریروں میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ فسادات سے دوررہیں۔فتنہ و فساد سے اسلام سختی سے منع کرتاہے،لیکن اگر فسادی چڑھ کر آجائیں تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اورایسا جواب دیں کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔انہوں نے ہر موقع پر مسلمانوں کو امن کی تلقین کی اورکسی بھی ایسی سرگرمی سے بچنے پر زور دیا جو ریاست کے امن کے لئے نقصان دہ ہو؛لیکن 2014ء کے موقع پر جب آر ایس ایس،وشوہند وپریشد اور بجرنگ بلی کی سازشوں سے بھوپال و مدھیہ پردیش کا ماحول خراب ہونے لگا، تو انہوں نے مسلمانوں کو حتی الامکان امن کی تلقین کے ساتھ یہ بھی کہاکہ:
”اگر کوئی آپ پر حملہ کرتاہے اورآپ کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا حمل نہیں ہے کہ اسے جہنم رسید کرکے ہی آپ یا دوسرے لوگ فسادیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں تو اس سے بھی دریغ نہ کیاجائے اورآگے بڑھاجائے“۔انہوں نے ملک کے اورمدھیہ پردیش کے سیاسی راہنماؤں سے بھی دوٹوک الفاظ میں بارہا یہ بات کہی کہ وہ ملک کی ان فرقہ پرست تنظیموں پر قابو رکھیں۔ان کے بے قابو ہونے سے ہی حالات خراب ہوتے ہیں اورملک فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس جاتاہے۔بصورت دیگر مسلمانوں نے بھی ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہنی ہیں۔
حضرت مفتی صاحب مرحوم ایک خوش بیان اورفصیح اللسان مقررہونے کے ساتھ عمدہ مؤلف بھی تھے۔پچاس سے زیادہ تحریری کاوشیں آپ کی یادگار ہیں،جن میں سرزمین ہند:انبیاء کرام اوراسلام-قرآن میں کیا ہے؟-آزادی،اسلاف اورجمعیۃ علماء ہند-اسلامی زندگی پیدائش سے جنت تک-اہل قرآن اوراہل کتاب آپ کے رشحات قلم کا بہترین نمونہ ہیں۔
26/مئی 2021ء کو 95سال کی عمرمیں آپ نے دنیائے فانی کو الوداع کہا۔مجاہد آزادی ہونے کی حیثیت سے آپ کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ بھوپال ہی میں آخری سلامی دی گئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ