غزہ پٹی پر اسرائیلی سفاکیت و بربریت اور امارات و سع ودیہ کی غدّاری

غزہ پٹی پر اسرائیلی سفاکیت و بربریت اور امارات و سعودیہ کی غدّاری

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

Email: qasmikhursheed

صہیونی غاصب مملکت اسرائیل، عالمی جنگی قوانین اور حقوق انسانی کی پامالی کرتے ہوئے، ہفتوں سے”باشندگان غزہ پٹی” کے خون سے ہولی کھیل کر اپنی کھلی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس صہیونی مملکت کی جگہ، اگر کوئی مسلم ملک ہوتا، تو "اقوام متحدہ” کی فلک بوس عمارت میں بیٹھ کر بزعم خود پورے عالم کا اپنے کوٹھیکیدار سمجھنےوالے لیڈران اور "قصر ابیض” میں قیام پذیرصہیونیوں کے حق دفاع کی وکالت کرنے والے اوباما، اس ملک پر مختلف طرح کی پابندی لگا کر اور ناٹو افواج بھیج کر، اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے؛ لیکن آج جب یہ کاروائی صہیونیوں کی طرف سے، ایک اسلام پسند مسلم ملک کے خلاف ہو رہی ہے، تو سب کے منہ پر تالا لگا ہوا ہے، قوت گویائی سلب ہوچکی ہےاور اس ظلم و جور کی مذمت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

اس صہیونی سفاکیت و بربریت کا دفاع کرنے والوں کو اسرائیل کے دوست ممالک اور صہیونیت زدہ میڈیا دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہیں؛ جب کہ 57 مسلم ممالک کے حکمراں خاموش تماشائی بنےبیٹھے ہیں اور اس موضوع پر اپنی زبان کھولنے جرم عظیم سمجھتے ہیں۔ عوامی دباؤ کی وجہ سے اگر کسی مسلم حکمراں کو بولنا بھی پڑتا ہے، تو محتاط لفظوں میں مذمتی بیان دے کر خاموش ہوجاتے ہیں اور اگر بہت احسان کیا تودو، چار ملین امریکی ڈالرکی امداد کا اعلان کرکے خود کو بہادر اور دلیر سمجھتے ہیں؛ جب کہ یہ ایسا وقت ہے کہ فلسطینیوں کی امداد کے ساتھ ساتھ، صہیونی غاصب مملکت کے خلاف اقدامات بھی کیے جانے چاہیے تھے۔

اس بات سے سب واقف ہیں کہ ان مسلم ممالک کے قائدین "حماس” یا حماس کی طرح اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی کسی بھی جماعت وتنظیم سے اس طرح ڈرے سہمے ہوئے ہیں کہ ان کا ساتھ کیا دیں گے؛ بل کہ ان کی بیخ کنی کے لیے رات و دن ایک کیے ہوئے ہیں۔ چناں چہ "مڈل ایسٹ آئی” (Middle East I) کی ویب سائٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق، "مڈل ایسٹ آئی” کے ایڈیٹر مسٹر ڈیوڈ ہریسٹ نے لکھا ہے کہ:

"غزہ پر چڑھائی کے لیے اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بھی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملے کے پیچھے کئی ہاتھ ہیں۔ "حماس” پر تباہ کن حملے پر جہاں ایک طرف امریکہ خوش ہے، تو دوسری طرف عرب ممالک بھی پیش پیش ہیں، جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سر فہرست ہیں۔ اسرائیلی چینل ٹو سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کی خواہش ہے کہ غزہ سے "حماس” کا خاتمہ ہو اور معتدل قوم مضبوط ہو۔” ڈیوڈ ہریسٹ نے مزید لکھا ہے کہ” سابق اسرائیلی وزیر دفاع نے چینل ٹو سے گفتگو کرتے ہوئے سب کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا کہ "غزہ” پر حملے کے لیے اسرائیل کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ خلیجی ممالک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بمباری کی کے نتیجے میں جب "حماس” کا خاتمہ ہوجائے گا ؛تو غزہ میں تعمیر نو کے لیے دونوں ممالک خصوصی فنڈز دیں گے۔ مصر کے جنرل سیسی بھی غزہ پر چڑھائی کے لیے کی گئی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔”

ایک دوسری یہ افسوسناک خبر گشت کررہی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے زخمی اہالیان غزہ پٹی کی "طبی امداد "کے بہانے ، وہاں کی "ہلال احمر "نامی تنظیم کی پچاس ڈاکٹروں پر مشتمل ایک جماعت مصری سرحد کے راستے گزشتہ دنوں غزہ پٹی پہنچی تھی۔ غزہ پٹی میں آنے والی یہ واحد ٹیم ہے ،جس کے لیے مصر کی سیسی انتظامیہ نے راستہ کھولا تھا؛ جب کہ اس سے پہلے یورپ میں واقع "فلسطینی میڈیکل ایسوسی ایشن” نے چند ڈاکٹروں پر مشتمل ایک”یورپی میڈیکل ڈیلیگیشن” بھیجا تھا جسے سیسی انتظامیہ نے سرحد سے ہی واپس کردیا اور غزہ میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ اماراتی”ہلال احمر” کی اس ٹیم نے غزہ میں فیلڈ اسپتال قائم کرنے کا دعوی کیا تھا؛ مگر غزہ پٹی کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکےیہ ٹیم اسی راستے واپس مصر پہنچ گئی۔ اماراتی ڈاکٹروں کی اس ٹیم نے”حماس” کی جاسوسی کرکےاس کی تنصیبات اور اسلحہ سمیت حسّاس معلومات حاصل کرکےاسرائیل کو فراہم کی ہے، جس سے "حماس” کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی یہ ایسی گھناؤنی حرکتیں ہیں کہ ان سے کسی بھی انصاف پسند اور انسانیت نواز شخص کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ اصل بات یہ ہے عرب ممالک کے حکمراں اپنے کالے کرتوت اور اپنے عوام پر بلا وجہ ظلم و بربریت کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے، اس طرح خائف و پریشان ہیں کہ وہ کسی بھی انصاف پسند اور حق گو جماعت کو ابھرنے اور پنپنے دینا نہیں چاہتے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر آج ہم اس کی سرکوبی نہیں کرتے ہیں؛ تو وہ کل ہمارے لیے ایک بڑی مصیبت بن جائے گی؛ بل کہ ہمارے تاج و تخت کے بھی چھن جانے کا اندیشہ ہے؛ اس لیے ایسی جماعتوں کا وقت سے پہلے ہی صفایا کردیں۔ لیکن ان حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب وقت آپہونچے گا؛ تو نمرود و فرعون کی طرح منٹوں میں ختم کر دیے جائیں گے اور اگر دنیا میں ایسا نہیں ہوا، تو میدان حشر میں، اللہ کے سامنے کوئی طاقت انھیں نہیں بچا سکتی۔ وہاں ان کو اپنے ظلم و ستم اور غداری ومکاری و عیاری کا حساب دینا ہوگا۔

ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ "حماس” کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی "فائر بندی” کے لیے مصری حکومت کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے، حماس کے شرائط کی تائید کی ہے۔ "فائر بندی” کے لیے "حماس” نے جو بنیادی شرائط پیش کی ہے، ان میں 2007 سے غزہ پٹی کا جاری اسرائیلی محاصرہ کا خاتمہ، اسرائیل کی جیلوں میں غیر انسانی سلوک اورظلم و ستم برداشت کررہے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور "رفح” راہداری کاکھولنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ محمود عباس کا حماس کی شرائط کی حمایت کے اعلان سے جلد یا بدیر، فلسطینیوں کو اس کا فائدہ ضرور پہونچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عباس کے اس اعلان کے بعد سے اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک پریشان نظر آرہے ہیں۔ عالمی حالات پر نگاہ رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ 2007 سے اسرائیل نے "غزہ پٹی” کا محاصرہ کرکے ، وہاں کے رہنے والوں کو جس طرح کھانے پینے کی اشیاء اور طبی سہولیات کے حصول سے محروم کر رکھا ہےکہ ایسا ظلم و جبر شاید بمشکل ہی کسی اور جگہ پر دیکھنے کو ملے۔

بہرحال، عالمی جنگی قوانین کی پامالی کرتے ہوئے،صہیونی فوجیوں کی جارحیت و خوں خواری اور نسل کشی بڑے پیمانے پر غزہ پٹی کے مکینوں پر جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت چل رہے کیمپوں اور اسکولوں میں پناہ گزیں لوگوں پر بھی بمباری ہو رہی ہے۔ اس اسرائیلی دہشت گردانہ کاروائی میں اب (26/جولائی، 2014) تک صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں تقریبا 3120/ گھروں، 46/اسکولوں، 56/مسجدوں اور سات اسپتالوں کے مسمار ہونے کی خبر ہے۔ اس تباہی و بربادی کے علاوہ، تا ہنو‌ز مرنے والوں کی تعداد 900/ تک پہنچ چکی ہے، جن میں اکثریت معصوم بچے، بے قصور خواتین اور نہتے شہریوں کی ہیں؛ جب کہ زخمیوں کی تعداد 5740 سے متجاوز ہے۔ حال آں کہ اسرائیل کےصرف 35 فوجی اور دو شہری، اب تک واصل جہنم ہوئے ہیں۔

ان نہتے اور مظلوم اہالیان غزہ پٹی کی تباہی و بربادی اور نسل کشی کے لیے صہیونی افواج ہی کیا کم تھی کہ امریکی اخبار”نیشنل رپورٹر ” نے یہ انکشاف کیا ہے کہ "امریکی صدر بارک اوباما نے محکمہ دفاع پینٹاگون کو یہ حکم دیا ہے کہ صہیونی فوجیوں کی مدد کے لیے دو ہزار امریکی فوجیوں کو مقبوضہ فلسطین بھیجنے کے لیے تیار کیا جائے۔ پنٹاگون نے امریکی صدر کےاس حکم پر رضامندی کا اظہار کیا ہے؛ جب کہ فوجی مبصرین نے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر، اسرائیل کی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں چھ ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے، اس لیے چھ ہزار فوجیوں کو وہاں بھیجا جائے۔” یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اس طرح اسلام مخالف قوتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے باوجود بھی مسلم ممالک کے قائدین کی آنکھیں بند ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے! اے کاش ان حکمرانوں کی آنکھیں وقت سے پہلے کھل جاتیں!

(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے