تم جنگ چاہتے ہو تو پھر جنگ ہی سہی

تم جنگ چاہتے ہو تو پھر جنگ ہی سہی

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

Email: qasmikhursheed

غزہ پٹی کے خلاف جاری اسرائیلی کاروائی، "نسل کشی” (Genocide) اور "دہشت گردی” (Terrorism) کی واضح مثال ہے؛ حال آں کہ کچھ عقل و خرد سے عاری لوگ اس "نسل کشی” اور "دہشت گردی” کو دو پڑوسی ملکوں کے درمیان حملہ اور دفاع کا نام دیتے ہیں۔ اس دہشت گردانہ کاروائی کو بند کرانے کے لیے، مصری خونی صدر عبد الفتاح سیسی نے کاغذ کے چند ٹکڑوں پر اپنے آقا اسرائیل کی مرضی کے مطابق کچھ الفاظ تحریر کرکے اراکین حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ) کو اسرائیل کے خلاف دفاعی کاروائی بند کرنے کی اپیل کی؛ تاکہ سیسی کو اسلام اور مسلمانوں کے حامی و مددگار ہونے کی سرٹیفیکیٹ (Certificate) مل جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس تجویز کو فورا قبول کرلیا اور کچھ گھنٹوں کے لیے دہشت گردی بند بھی کردی؛ لیکن "حماس” کے جیالوں نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ: "مصری حکومت کی جانب سے فائر بندی کی جو تجویز پیش کی گئی ہے وہ شکشت خورد اور بزدلانہ ذہنیت کی پیداوار ہے، جسے غیور فلسطینی عوام کسی صورت میں قبول نہیں کرسکتے۔”

ﺍﺳﺮﺍﺋﯿلی ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ "حماس” والوں کے مذکورہ جواب سے آگ بگولہ ہوکر، جمعرات، 17/جولائی، 2014 کو، ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﻮ غزہ میں ﺯﻣﯿﻨﯽ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﮮﺩﯾﺎ؛ چناں چہ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺩﻓﺎﻋﯽ ﻓﻮﺭﺳﺰ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ: "ﺩﺱ ﺭﻭﺯ ﺳﮯ ﺣﻤﺎﺱ ﮐﯽﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺧﺸﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﮐﭧ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﺭت ﺤﺎﻝ ﮐو ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ، ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔” اب فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی حملے بھی ہورہے ہیں۔ ان حملوں میں، ظالموں نے مساجد و اسپتالوں اور اس میں بھرتی مریضوں کا بھی خیال نہیں کیا؛ بل کہ ہر جگہ بمباری کرتے رہے اور گولے دا‏غتے رہے۔ جمعہ کی پوری رات غزہ دھماکوں سے گونجتا رہا اور شہر کی فضا میں ہر طرف بموں کے شعلے ہی دکھائی دے رہے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل جس طرح جدید آلات حرب سے مسلح ہے کہ اس کے مقابلے میں "حماس” والے کچھ بھی نہیں ہیں؛ لیکن ــ الحمد للہ ــ یہ لوگ ایسے سچے پکے مسلمان ہیں کہ اللہ کے وعدوں پر یقین کرکے، پورے حوصلے اور قوت ایمانی کے ساتھ، اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں سے اپنے دفاع کے لیے، کفن بر دوش ہوکر میدان میں ہیں اور خود ساختہ راکٹ و ڈرون طیاروں سے بزدلوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہے۔ اب ان کے بلند حوصلے، راکٹ اور ڈرون طیارے سے پشیماں ہوکر، اسرائیل یہ بیان دے رہا ہے کہ "حماس” کے پاس جو ڈرون طیارے ہیں وہ ایران سے خریدے گئے ہیں، ان کے خود ساختہ نہیں ہیں؛ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ حماس کے خارجہ امور کے ذمہ دار، اسامہ حمدان نے اسرائیل کے اس جھوٹ کی کو رد کرتے ہوئے، اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ: "تحریک حماس کے پاس جو راکٹ یا طیارے ہیں وہ صد فی صد غزہ کے تیار کئے ہوئے ہیں۔ ایران سے ان کا کوئی لین دین نہیں ہے۔”

بہرحال، اب وہ زمانہ گزر گیا، جب فلسطینی اسرائیل کے ٹینک اور جدید آلات حرب کے جواب میں، ‏غلیل اور پتّھر سے اپنا دفاع کرتے تھے۔ اب فلسطینی دماغ نے راکٹ اور ڈرون طیارے بھی بنانا شروع کردیا ہے؛ اس لیے حالیہ اسرائیلی دہشت گردی کے جواب میں راکٹ اور ڈرون طیارے سے بھی دفاع کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فلسطینیوں نے اپنوں اور غیروں سے بہت ہی دھوکا کھایا ہے؛ لہذا کسی بھی ایرے غیرے کی تجویز پر دستخط کرکے، "فائر بندی” پر راضی نہیں ہوں گے؛ بلکہ اب کی بار اس وقت تک ــ ان شاء اللہ ــ دہشت گردوں کے خلاف لڑیں گے جب تک کے اسرائیل "حماس” کی کچھ "شرائط” کو تسلیم نہ کرلے۔ چناں چہ بروز: جمعرات 17/جولائی 2014 کو، ایک اردو اخبار "عزیز الھند” کی ویب سائٹ پر شائع ایک خبر کے مطابق: "ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺜﯿﺮﺍﻻﺷﺎﻋﺖ ﻋﺒﺮﺍﻧﯽ ﺍﺧﺒﺎﺭ "ﻣﻌﺎﺭﯾﻒ” ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ "ﺣﻤﺎﺱ” ﻧﮯﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ، ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺟﻨﮓ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ، ﺩﺱ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖﻭﮦ ﺩﺱ ﺷﺮﺍﺋﻂ کچھ ﯾﻮﮞ ﮨﯿﮟ:

1 ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪﻭﮞ ﭘﺮﻣﺘﻌﯿﻦ ﻓﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﻨﮏ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﮮ۔

2 ۔ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻂ ﺟﻮﻥ ﮐﻮ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻻﭘﺘﺎ ﺗﯿﻦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺎﺭ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﮔﯿﮯ ﺗﻤﺎﻡﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔

3 ۔ ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﭘﭩﯽ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺍﮦ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﺳﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺁﻣﺪﻭ ﺭﻓﺖﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔

4 ۔ ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﭘﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﯽﺯﯾﺮ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﺍﮈﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﺭﮔﺎﮦ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔

5 ۔ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻣﺎﮨﯽ ﮔﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭﻣﯿﮟ 10 ﻧﺎﭨﯿﮑﻞ ﻣﯿﻞ ﺗﮏ ﻣﺎﮨﯽ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼﺟﺎﺋﮯ۔

6 ۔ ﻣﺼﺮ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻞ ﺭﻓﺢ ﺑﺎﺭﮈﺭ ﭘﺮﻋﺎﻟﻤﯽ ﺍﻣﻦ ﻓﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔

7 ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻞ ﺳﺮﺣﺪﻭﮞ ﭘﺮﻋﺎﻟﻤﯽ ﺍﻣﻦ ﻓﻮﺟﯽ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔

8 ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯿﻮﮞﮐﻮ ﺑﻼ ﺍﺳﺘﺜﻨﯽٰ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔

9 ۔ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﯽ ﺩﺍﺧﻠﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺍﻭﺭﻗﻮﻣﯽ ﻣﻔﺎﮨﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۔

-10 ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﭘﭩﯽ ﻣﯿﮟﺻﻨﻌﺘﯽ ﺳﯿﮑﭩﺮ ﮐﯽ ﺑﺤﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ۔

ایسے 18/جولائی، 2014 کی شام تک ﻏﺰﮦ ﭘﺮ 1960 ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺣﻤﻠﮯ کیے جاچکے ہیں؛ ﺟب کہ ﺟﻮﺍﺑﺎً ﻏﺰﮦﺳﮯ 1380 ﺭﺍﮐﭧ ﺩﺍﻏﮯ ﮔﺌﮯ ہیں۔ ان اسرائیلی حملوں میں مرنے والے اہالیان غزہ کی تعداد 285 تک پہنچ گئی ہے؛ جب کہ 2000 سے زیادہ لوگ ‍زخمی ہیں۔ ان مہلوکین اور زخمیوں میں اکثریت معصوم بچے، بے گناہ عورتیں اور نہتے عوام کی ہے۔ ﺍﻗﻮﺍﻡِ ﻣﺘﺤﺪﮦ کی رپورٹ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻥ ﺣﻤﻠﻮﮞ میں ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ 1370 ﮔﮭﺮﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ 18000 ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﮔﮭﺮ ﮨﻮ چکے ﮨﯿﮟ۔ زمینی حملہ میں دو اسرائیلی فوجیوں کے بھی جھنم رسید ہونے کی خبر ہے۔

٭ مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے