ایک منفرد علمی اور دعائیہ مجلس
( قسط سوم )
از : مفتی محمد عفان منصورپوری
یہ باوقار علمی محفل ھر لحاظ سے بحمدہ تعالی مفید تر اور بامقصد ثابت ھوئی ، پورے پروگرام میں علمی اعتبار سے آسودگی اور سیرابی حاصل کرنے کا خوب موقع میسر ھوا ، حضرت الاستاذ نے اپنے ھر ھر عمل کو نصوص شرعیہ سے جس انداز میں مدلل ومبرھن کیا اس سے طبیعت خوش ھوگئی ، آیات قرآنیہ سے ایسے مضامین و دروس کا استنباط و استخراج فرمایا جس کی طرف عام طور پر ذھن بھی نہیں جاتا ۔
انعقاد مجلس کی غرض و غایت ذکر کرتے ھوئے آپ نے فرمایا : کہ اس مبارک عمل کی تکمیل پر میں نے آپ لوگوں کو اصل میں دعاء کرانے کے لئے مدعو کیا ھے ، ظھرانے کا بھی نظم ھے مگر وہ مقصود اصلی نہیں ھے ؛ اگرچہ ایسے مواقع پر اتمام نعمت کو پیش نظر رکھتے ھوئے زمانہ قدیم سے بزرگوں کے یہاں پرتکلف ضیافت کا رواج بھی چلا آرھا ھے ؛ اس لئے ضمنا ھی سہی میں نے آپ حضرات کو کھانے پر مدعو کرکے کوئی نیا کام نہیں کیا ھے ۔
شارح بخاری حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے جب اپنی مشھور زمانہ کتاب ” فتح الباری ” کی تکمیل کی تو اپنے زمانہ کے تمام مشھور علماء کو کھانے پر مدعو کیا وہ چونکہ قاضی القضاۃ تھے اور پیسہ بھی ان کے پاس خوب تھا اس لئے لمبی چوڑی دعوت کی اور ان کو اس کا حق بھی تھا اس لئے کہ فتح الباری کی شکل میں وہ بے نظیر کتاب ان کے ذریعہ منطر عام پر آئی تھی جو شروحات بخاری میں اپنا الگ مقام رکھنے کے ساتھ ممتاز حیثیت کی حامل ھے ، چنانچہ جب قاضی شوکانی سے کہا گیا کہ آپ نے ” نیل الاوطار ” نامی زبردست کتاب تحریر فرمائی ھے اب صحیح بخاری پر بھی کچھ کام کرلیں اور اس کی بھی شرح لکھدیں تو قاضی شوکانی نے اس موقعہ پر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا :” لا هجرة بعد الفتح ” فتح الباری کے منظر عام پر آنے کے بعد اب صحیح بخاری پر کام کرنے کا کوئی میدان باقی ھی نہیں رہ گیا ۔
یہ داعیہ کیوں پیدا ھوا ؟
ترجمہ کلام پاک کی تکمیل کے بعد اس اجتماع کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ وہ کیا عوامل و دواعی تھے جن کی بنا پر اس علمی نشست کے انعقاد کا فیصلہ لیا گیا ؟ اس پر روشنی ڈالتے ھوئے حضرت الاستاذ نے فرمایا کہ جب میں نے سورہ یوسف کی تلاوت کی ، آیات قرآنیہ کے معانی پر غور کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے حاصل ھونے والے اسباق کو سمجھا جس میں نعمت کے تمام ھونے پر انہوں نے اللہ سے دعاء کی ھے تو دل میں داعیہ پیدا ھوا کہ ھمیں بھی تکمیل ترجمہ کی مناسبت سے اس موقع پر دعاء کرنا اور کرانا چاھئے ۔
واقعہ کی تفصیل یہ ھے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے والد بزرگوار کو اپنا مشھور خواب سنایا ( میں نے گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو اپنے سامنے سجدہ ریز دیکھا ھے ) تو اہا نے سب پہلے یہی نصیحت فرمائی کہ بیٹا ! اپنے بھائیوں کے سامنے یہ خواب مت بیان کرنا مبادا وہ تمھارے خلاف سازشیں اور تیز کرنے والے نہ بن جائیں ، مجھے امید ھے کہ اللہ پاک تمہیں بہت عزت و بلندیاں عطا کریں گے اور تمہارا برا چاھنے والے خائب و خاسر ھوجائیں گے۔
اس کے بعد فرمایا : ارشاد ربانی ھے : ” وكذلك يجتبیک ربک ويعلمك من تأويل الأحاديث و يتم نعمته عليك وعلى آل يعقوب كما اتمها على ابويك من قبل إبراهيم و إسحاق ، ان ربك عليم حكيم .”
( ترجمہ : اور اسی طرح تمہارا رب تمھیں منتخب کرے گا ، خوابوں کی تعبیر دینے کا فن تمہیں سکھلائے گا اور تم پر اور آل یعقوب پر اسی طرح نعمت کو تمام کرے گا جس طرح پہلے تمھارے آباء و اجداد پر کیا ھے ، تمھارا پروردگار بڑا جانکار اور دانا ھے ۔)
بالآخر مختلف مراحل سے گزرنے اور ابتلاء و آزمائش کے کٹھن دور کو پار کرنے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں وہ لمحات آئے جب انہوں نے خواب کو سچا ھوتے ھوئے اور اپنے والد بزرگوار کی امیدوں کو بر آتے ھوئے دیکھا ، برادران یوسف آج اپنے عمل پر شرمندہ تھے اور چھوٹے بھائی کے سامنے شکست تسلیم کرچکے تھے ، وہ یوسف جن کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور بے نام و نشان کردینے کی کوشش میں انہوں نے رات دن ایک کردیا تھا وہ اللہ کے فضل و کرم سے تخت و تاج کے مالک بن کر ایک بڑی سلطنت کے فرماں روا بن چکے تھے۔
قرآن پاک میں اس واقعہ کی منظر کشی ان آیات میں کی گئی ھے : ” ورفع ابويه على العرش وخروا له سجدا وقال يا أبت هذا تأويل رؤياي من قبل قد جعلها ربي حقا و قد احسن بي إذ اخرحني من السجن و جاء بكم من البدو من بعد ان نزغ الشيطان بيني و بين اخوتي ان ربي لطيف لما يشاء انه هو العليم الحكيم ، رب قد آتيتني من الملك و علمتني من تأويل الأحاديث فاطر السموات والارض انت وليي في الدنيا والآخرة توفني مسلما و الحقني بالصالحين .”
( ترجمہ : اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا پھر سب یوسف علیہ السلام کے لئے سجدہ میں گرگئے تو یوسف علیہ السلام نے کہا : ابا جان یہ ھے اس خواب کی تعبیر جو میں نے دیکھا تھا ، میرے رب نے خواب کو سچا کر دکھلایا اور مالک نے مجھے جیل سے نکالکر اور آپ لوگوں کو دیہات سے یہاں لاکر مجھ پر احسان کیا جبکہ شیطان میرے اور بھائیوں کے درمیان جھگڑا کراچکا تھا ، بلاشبہ میرا رب جتنا چاھتا ھے لطف و کرم کا معاملہ کرتا ھے وہ بہت جاننے والا اور بڑ دانا ھے ، اے میرے پروردگار ! تو نے ھی مجھے بادشاہت عطا کی ھے اور خواب کی تعبیر بتانے کا گر سکھلایا ھے ، اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے تو ھی میرا ولی اور کارساز ھےدنیا و آخرت میں ، ایمان و اسلام کی حالت میں مجھے اپنے پاس بلا اور نیک و صالح لوگوں میں مجھے شامل فرما لے ۔)
سبق آموز پہلو
اس واقعہ میں سبق آموز چیز یہ ھے کہ جب یوسف علیہ السلام پر نعمت کا اتمام ھوگیا ، علم و حکمت ، دانائی و فراست کے ساتھ ساتھ حکومت و بادشاھت بھی ان کو عطا کردی گئی تو انہوں نے بارگاہ الہی میں دو دعائیں کیں : ( ۱ ) اسلام کی حالت میں وفات میسر ھو ( ۲ ) نیک لوگوں کے زمرے میں شمولیت نصیب ھو ، اللہ کے برگزیدہ پیغمبر کے عمل سے یہ پتہ چلا کہ نعمت الہیہ سے مالا مال ھونے کے موقع پر دعاؤں کا اھتمام ھونا چاھئے اور یہ دعائیں اللہ نے چاھا تو قبولیت کا شرف بھی حاصل کریں گی ، اس تمہید کے بعد حضرت الاستاذ نے فرمایا : باری تعالی نے اپنے کلام پاک کے ترجمہ کی جو توفیق مجھے بخشی ھے میری نظر میں اس سے بڑی نعمت میرے لئے کوئی نہیں ، پھر یہ بھی حقیقت ھے کہ مجھے جیسا کام کرنا چاھئے تھا میں ویسا نہیں کرسکا ؛ اسلئے دعاء کی بہت ضرورت ھے کہ اللہ پاک اس کو قبول فرمائیں اور اتمام نعمت کے موقع پر جو دعائیں حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمائیں تھیں باری تعالی میرے حق میں بھی ان کو قبول فرمائیں ۔
حق رفاقت ادا کرنا چاھئے
حضرت الاستاذ نے بڑی تواضعانہ شان کے ساتھ حاضرین سے فرمایا : میں تو اپنے لئے دعاء کروں گا ھی مگر اس وقت میں آپ لوگوں سے مدد مانگ رھا ھوں کہ آپ حضرات بھی میرے لئے دعاء کریں ، ھم سب ایک ھی پارٹی اور جماعت کے لوگ ھیں ، اور اپنی پارٹی والے کی حمایت کی جاتی ھے ، ھم ایک ھی منزل کے مسافر اور باھم رفقاء سفر ھیں اور ایک رفیق کا دوسرے پر حق ھوتا ھے جس کو ادا کرنا چاھئے ، حدیث پاک میں یہ مضمون موجود ھے کہ جب ایک مسلمان بھائی اپنے بھائی کے لئے دعاء کرتا ھے تو ایک فرشتہ مقرر ھے جو ” لک مثلک ” کہتا ھے یعنی جو تو اپنے بھائی کے لئے مانگ رھا ھے اللہ تجھے بھی وہ دولت نصیب فرمائے ؛ اسلئے دعاء کرنے اور کرانے میں فائدہ ھی فائدہ ھے ، بہرحال آپ سے یہی گزارش ھے کہ میرے لئے دعاء کریں قرآن پاک میں یہ مضمون موجود ھے کہ جب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو یہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لئے جو جہنم میں ھوں گے اللہ تبارک و تعالی سے ان کو جہنم سے نکالنے کا ایسا تقاضہ کریں گے جیساکہ اپنا کسی پر حق ھو اور وہ حق ثابت ھوچکا ھو۔
بس میں بھی یہی چاھتا ھوں کہ آپ لوگ بھی رفاقت کا بھرپور حق ادا کریں اور دعاؤں میں فراموش نہ فرمائیں ۔
مہمان کی غلامی
حضرت الاستاذ نے فرمایا : آپ سب میرے مہمان ھیں اور میری دعوت پر یہاں آئے ھیں اور مہمان کے تئیں میزبان کا وھی جذبہ ھونا چاھئے جس کا اظھار مشھور عربی شاعر ” مقنع کندی ” نے اپنے اس شعر میں کیا ھے : واني لعبد الضيف مادام نازلا # وما شيمة لي غيرها تشبه العبد
( مہمان جب تک گھر میں رھتا ھے میں اس کی غلامی کرتا ھوں اور راحت رسانی میں مصروف رھتا ، اس کے علاوہ غلامی سے مشابہت رکھنے والی کوئی خصلت میرے اندر نہیں )
اب آپ لوگ یہ اعتراض نہ کریں کہ یہاں تو میزبان ھی مہمانوں کو پابند بنارھا ھے کہ آپ کو دعاء بھی کرنی ھوگی اور حق رفاقت بھی ادا کرنا ھوگا ، یہ کیسی مہمانداری و ضیافت ھے کہ مہمانون کو دعاء وغیرہ کا پابند بناکر اس کی اجرت لی جارھی ھے ، تو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ مہمان سے دعاء کی درخواست کرنا اس کا اعزاز واکرام ھے ، اس کو بار نہ سمجھنا چاھئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ھجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ کو ایسے نو عمر لڑکے کی ضرورت محسوس ھوئی جو گھر کے اندر بھی آجا سکے اور بوقت ضرورت باہر کا کچھ کام بھی کرلے چنانچہ آپ کی طلب و اظھار کے بغیر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جو آپ کی رضاعی بہن بھی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ضرورت کو محسوس کرلیا اور پھر اپنے نوعمر صاحبزادے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھوڑ دیا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ برابر دس سال آپ کی خدمت میں رھے ، اسی دوران ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے مہمان بنے ، کھا نا تناول فرمایا ، فراغت کے بعد حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا درخواست کی یا رسول اللہ ! میرے بیٹے کےلئے دعاء فرمادیجئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تردد حضرت انس رضی اللہ عنہ کو خوب دعائیں دیں جس کی قبولیت کے آثار ھر اعتبار ساری زندگی حضرت انس رضی اللہ عنہ دیکھتے رھے ۔
اس واقعہ سے یہ ثابت ھوا کہ مہمان سے دعاء کی درخواست کرنا اس کا اعزاز و اکرام ھے ؛ اسلئے میں بھی اگر آپ سے دعاء کی درخواست کررھا ھوں تو یہ دعوت کا بدل نہیں بلکہ آپ کا اکرام ھے ۔
میر کارواں کی اتباع
اخیر میں آپ نے فرمایا کہ ھم سب سلسلہ علم سے جڑے ھوئے ھیں اور بحمدہ تعالی علماء کی جماعت سے ھمارا ربط ھے اور روز محشر بھی انشاءاللہ علماء کی اسی جماعت میں ھماری شمولیت ھوگی جس کے میر کارواں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ھوں گے ، جھنڈا انہی کے ھاتھوں میں ھوگا ، دنیا میں بھی ھر جماعت اپنے میر کارواں کے پیچھے پیچھے چلتی ھے ، جماعت کی نماز میں آپ دیکھ لیجئے اقتداء کرنے والوں میں کوئی کتنا ھی بڑا کیوں نہ ھو اتباع اس کو امام ھی کی کرنی ھوگی ، اس وقت بھی ھم میرکارواں سے دعاء کی درخواست کرتے ھیں اور پھر آپ نے اپنا سلسلہ کلام ختم فرمایا اور مائک حضرت اقدس مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علماء ھند کے حوالے کردیا ۔
جاری
۲۱/ شعبان المعظم ۱٤٤٢ھ
٤ /اپریل ۲۰۲۱ء