کردار وعمل سے عبارت تھی جن کی زندگی
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی ،شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی ،دہلی
9711484126
نہ دعائیں مقبول ہوئیں اور دوائیں کارگر، وقت ٹلتا رہا ،لیکن انجام وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، دلی تمنا تھی کہ ایسی مکروہ خبر سے سابقہ نہ پڑے ،لیکن مشیت الٰہی کو کون ٹال سکا ہے، سوشل میڈیا کے توسط سے جیسے ہی یہ جانکاہ خبر ملی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں مفکر اسلام ، امیر شریعت امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھارکھنڈ مولانا محمد ولی رحمانی اب اس دنیا میں نہیں رہے، یہ غم ناک خبر سنتے ہی تھوڑی دیر تک عقل وحواس معطل رہے سوچنے لگاکہ کیایہ بھی کوئی ان کےجانے کا وقت تھا، لیکن مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔موت سے کسی کو مفر نہیں، لیکن جو لوگ اعلیٰ مقاصد کے حصول میں تادم آخر مشغول رہتے ہیں ،وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ،ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔مولانا ولی رحمانی کی رحلت صرف ایک فرد کی رحلت نہیں ،بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا غیر معمولی خسارہ ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ آج کا دور ملک کے باشندگان بطور خاص مسلمانوں کے لیے نہایت صبر آزما ہے، ایک سال کے اندر ہمارے درمیاں سے عظیم شخصیات رخصت ہوگئیں ، جن کی ذات والا صفات سے نہ صرف اپنا ملک اور اپنا معاشرہ بلکہ کائنات روشن تھی۔ مولانا محمد ولی رحمانی نہ صرف ماہر تعلیم، ممتاز ملی رہنما، مقبول خطیب ، اتحاد امت کے عظیم علمبردار،جہالت وناخواندگی کے انسداد کے لیے نہایت فعال ومتحرک تھے ، بلکہ وہ کردار و عمل کے غازی تھے ، ان کی زندگی کا ہر لمحہ تعلیم کی ترویج واشاعت اور ناخواندگی کے سد باب کے لیے وقف تھا۔ ان کی دینی، تعلیمی، فلاحی اور سماجی خدمات ناقابل فراموش اور ان کے باقیات الصالحات میں شامل ہیں۔مرحوم کی شخصیت اتنی جامع اور متنوع تھی کہ وہ ہر موضوع اور موقع سے اس خوبی سے عہدہ بر آہوتے کہ کبھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ فلاں کمی ہے،جسے پورا کرناکرنے کے لیے کسی او رکو ڈھونڈناچاہیے، وہ مرعوب ہونا جانتے ہی نہیں تھے، کسی کے علم سے نہ کسی کی دولت سے اور کسی کے اقتدار سے ، مذہبی عقائد میں نہایت سخت موقف رکھتے تھے ۔سلوک وطریقت میں بھی تقریباًیہی عالم تھا۔راقم السطور کو دار العلوم دیوبند کےزمانۂ طالب علمی 2000-2001میں رابطہ مدارس اسلامیہ دارا لعلوم دیوبندکے زیر اہتمام منعقدہ اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید میں رو برو ہوکرآپ کی تقریرسننے کا موقع ملا، آپ کا انداز خطابت اور قوت استدلال ، عصری تقاضوں سے آگہی اور آزاد ملک میں اپنے حقوق کےتئیں بیداری اور سب سے پہلے اپنے دین اور اس کے تقاضوں پر سختی سے کاربند ہونے کی تلقین آج بھی میرے ذہن ودماغ میں سلسلہ وار گشت کررہی ہے۔آپ نے اپنے پر مغز خطاب میں تین امور کی طرف بطور خاص توجہ دلائی ، پہلا یہ کہ آپ کا نصب العین واضح ہو ، یعنی آپ مستقبل میں خود کو کیا دیکھنا چاہتے ہیں ، دوسرا یہ کہ جب آپ میدان عمل میں اتریں گے اور خدا نخواستہ گرد وپیش کے حالات نامساعد ہوئےتو آپ کا طرزعمل کیا ہونا چاہیے، تیسرا یہ کہ آپ جس ملک میں سکونت پذیر ہیں ، وہاں آپ کوحکومت کی طرف سے کیا کیا حقوق آئینی اور دستوری بنیادوں پر آپ کو حاصل ہیں۔ان تینوں نکات پر آپ نہایت مفصل خطاب سے طلبہ کو اپنے مستقبل کے حالات سے مکمل طورپر آگاہ فرماتے ہوئے آنے والے چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کی تلقین کی۔ آپ کی تقریر کی اثرپذیری کے بعدمجھے آپ کے زمانۂ طالب علمی کو جاننے کی جستجو ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ زمانۂ طالب علمی میں بھی اپنے معاصرین میں ممتاز تھے اورمیدان عمل میں قدم رکھتے ہی آپ نے اپنی علمی لیاقت کے ساتھ تنظیمی صلاحیت کا بھی لوہا منوا لیا، ایک طرف آپ نے جہاں جامعہ رحمانی میں مسند حدیث کو رونق بخشی ،وہیں دوسری طرف خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی قبول فرماکرسیکڑوں نہیں ہزاروں گم گشتگان راہ ہدایت کو صراط مستقیم پر لا کھڑا کیا، ملی مسائل کے حل کے لیے آپ کی جدو جہد قابل تحسین ہی نہیں لائق فخر ہے۔مسلم پرسنل بورڈ کے بینر تلے آپ نے ملت اسلامیہ کی ہرنازک موڑ پر دست گیری فرمائی ۔ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ آپ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے بھی تادم آخر سرگرم رہے ، رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت آپ نے رحمانی تھرٹی کا سلسلہ شروع کیا، رحمانی بی ایڈ کالج کے علاوہ ،رحمانی ایکسیلینس اسکول بھی قائم کیے۔الغرض قوم کی تعلیم وترقی کی جتنی بھی راہیں نکل سکتی ہیں ہر ایک کو آپ نے ٹچ کیااور قدرت نے آپ کی دستگیری بھی فرمائی کہ بہت کم مدت میں آپ کے کارناموں کو شرف قبولیت ملا۔آپ باجودیکہ اعلیٰ حسب ونسب کے مالک تھے،لیکن حسب ونسب کی رفعت وبلندی نے آپ کو فروتنی عطاکی اور یہی وجہ ہے کہ اپنی سادگی ومتانت کی وجہ سے نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی اپنی عظمت کا سکہ نصب کیے۔چند سال قبل ہی سلطنت عمان کے شاہی مفتی نے آپ کو خصوصی دعوت دی تھی ، یہاں آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو سپاس نامہ بھی دیا گیا ۔آپ خانقاہی ضرور تھے ،لیکن جہاں دیدہ تھے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے اور انھیں دولت دنیا کےحصول کے ساتھ ساتھ متاع دین کی حفاظت کی تلقین بھی کرتے ۔ اسباب عیش وعشرت کی فراوانی کے باوجود عجزوانکساری ان کے رگ وپے میں سرایت کی ہوئی تھی ، ملی مسائل کے حل کے لیے ان کی فکرمندی جگ ظاہر تھی۔
مولاناکی تقریر وتحریر میں تعلیم کے احیا اور جہالت وناخواندگی کے انسداد کا پیغام ہے۔شوشل میڈیا پر ان کی تقریروں کی کلپس گشت کررہی ہیں، میں نے کئی تقریریں یوٹیوب پر سنیں اور بالمشافہ دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید کے علاوہ ایک تقریر انڈیا اسلامک کلچرسینٹر،لودھی روڈ، نئی دہلی میں سنی ، ان کی تقریرکا ایک ایک لفظ نپا تلا ہوتا ، وقت اگر دس منٹ کا ہے تو دس منٹ میں اپنی بات ختم کردیتے اگر پانچ منٹ کا ہے تو وہ اپنی گفتگو پانچ منٹ میں سمیٹ دیتے۔کائنات ایسی مردم ساز ،وژنری شخصیات سے خالی ہوتی جارہی ہے یہ یقیناً قرب قیامت کی علامات میں سے ایک بڑی علامت ہے۔ مولانا محمد ولی رحمانی کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ممتاز عالم دین مولانا ولی رحمانی حکومت کے فیصلوں پر اپنی بیباک رائے کا اظہار کرنے کے لیےمشہور تھے ساتھ ہی وہ اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں پر خاص زور دیتے تھے کہ وہ بھوک برداشت کریں، مگر اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں کھڑا کر سکتی ہے۔ وہ خلق خدا کے بے لوث خدمت گذار، فرقہ وارانہ اتحاد کے علمبردار، عالمی شہرت یافتہ مسلم مذہبی رہنما تھے۔وہ سیرت کی پختگی، فطرت کی سادگی اور فراست کی سنجیدگی کا مجسمہ تھے۔سیرت کی توانائی اور اخلاق کی زیبائی کا وہ گویا اس انسان کا عکس جمیل تھےجس کا اسلام ہر آدمی سے مطالبہ کرتاہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت تمام مکاتب فکر میں یکساں مقبول تھی۔ان کی رحلت نے پوری ملت اسلامیہ کو مغموم ومحزون کردیاہے۔خدا مغفرت کاملہ فرمائے ، زندگی ان کی کردار وعمل سے عبارت تھی۔اس گئے گذرے دور میں مسلمانوں کی ہچکولے کھاتی کشتی کے ناخداتھے۔الٰہ العالمین مغفرت کاملہ فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں