رحمن کے ولی بھی ہمیں چھوڑ چلے
حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا انتقال ہوگیا. انا للہ وانا الیہ راجعون.
آج دن بھر پہلے سے طے شدہ مقامی ضروری اسفار اور مصروفیات کی وجہ سے تقریباً ہر گروپ میں جمع کئی سو میسیجیز کو نہ دیکھ سکا. ایک دو پوسٹ کو جھانک کر دیکھا تو دل بیٹھ گیا اور آگے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ یہ کسی معمولی شخصیت کی وفاتِ کی خبر نہ تھی.
حضرت مولانا ہمارے درمیان سے اٹھ کر ہمیشہ کے لئے چلے گئے اور ایسے وقت میں گئے جب ان کی ضرورت ملت کو بہت سخت تھی. حضرت مولانا ہندستان میں بانیِ ندوۃ العلماء حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کے پوتے اور امیرِ شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ رکنِ شوری دار العلوم دیوبند کے صاحبزادے تھے. باپ دادا کی فراست، حالات سے باخبری اور بے باکی وجرأت ورثے میں ملی تھی. حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کو میں نے قریب سے دیکھا. ان کے والد مولانا منت اللہ رحمانی کے انتقال کے وقت میں سراج العلوم سیوان میں ابتدائی عربی میں طالب علم تھا اور اس خبر پر مدرسے کے فعال اور خود کو مدرسے کے لئے وقف کردینے والے مہتمم مولانا اقبال صاحب رحمہ اللہ کو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا تھا. آج ان کے صاحبزادے کے انتقال پر ہماری بھی وہی کیفیت ہے مگر آنسو خشک ہیں.
حضرت مولانا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارتِ شرعیہ کے پلیٹ فارم سے بہت سرگرمِ عمل تھے. موجودہ وقت میں مسلم قائدین میں سب سے زیادہ جری اور بے باک تھے. قانونی ذہن تھا اور قانون کی بھر پور معلومات تھیں. خود اعتمادی کے کوہِ ہمالہ تھے. گفتگو حشو وزوائد سے پاک، صاف ستھری، دو ٹوک، بہت واضح اور خوبصورت تعبیر میں ہوتی تھی. چھوٹوں اور نوجوانوں کو بہت آگے بڑھانا اور ان سے ہم کلام ہونا چاہتے تھے. احقر کو بھی حضرت نے بارہا مختلف موقعوں پر فون کرکے بلایا، گھنٹوں باتیں کیں حالانکہ پہلے سے کوئی تعلق یا شناسائی نہ تھی. ہمارے قیامِ دیوبند کے زمانے میں بھی جب دیوبند تشریف لے جاتے تھے تو مہمان خانے میں ملاقاتیں ہوتی تھیں اور تفصیلی گفتگو بھی. ایک مرتبہ دیوبند ریلوے اسٹیشن پر بعض نہ رکنے والی ٹرینوں کو روکنے کے لئے اور احمد آباد ایکسپریس کو وایا دیوبند ہریدوار تک چلانے کے لئے درخواست لکھوائی، اس کی تصحیح کی اور اسے منسٹری میں جمع کروایا اور کوششوں کے ذریعے منظور بھی کروالیا. جب میں دہلی آیا تو یہاں بھی ملاقاتیں ہوتی رہتیں بلکہ بڑھ گئیں. 2013 میں اچانک مجھے فون کرکے کہا کہ دہلی کی وزیرِ اعلی شیلا دکشت کے آفس سے تمہارے پاس فون آئے گا. تم اپنا بائیوڈاٹا انہیں بھیج دو. میں بات کرچکا ہوں. میں چاہتا ہوں کہ تم حج کمیٹی میں رکن بن جاؤ. میں نے بہت عذر کیا اور کہا کہ میں اس لائق نہیں ہوں مگر نہیں مانے. میں نے بائیو ڈاٹا بھیجا اور میرا نام منتخب ہوکر اخبارات میں شائع ہوگیا. مگر پھر کسی اور وجہ سے انتخاب کسی اور کا ہوگیا.
میرے والد صاحب رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر انہیں کہیں سے ملی تو مجھے فون کرکے تعزیت کی. ذاکر نگر میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں. ایک سال پہلے فون کرکے کہا کہ بیرون ملکی انگریزی اخبارات میں سی اے اے کے خلاف جو خبریں اور رپورٹس شائع ہوتی ہیں انہیں مجھے بتاتے رہو. ایک بار ایک کتاب دی اور کہا کہ اس کے منتخبات کا انگریزی ترجمہ کرو. انگریزی میں تیار قانونی تحریرات کو چیک کرنے کے لئے متعدد مرتبہ مجھے حکم دیا. حوصلہ افزائی کرتے تھے. باوجود خواہش کے میں عدیم الفرصتی کی وجہ سے جتنا حاضر ہونا چاہیے تھا حاضر نہیں ہوپاتا تھا مگر جو بھی حاضری ہوئی اس سے مجھے بہت سیکھنے کا موقعہ ملا. یہ چند مثالیں تھیں بہت چھوٹوں کی حوصلہ افزائی اور اپنی محبت سے انہیں نوازنے کی.
حضرت مولانا یقیناً ایک بڑے ملی رہنما تھے، نباضِ وقت، ماہرِ قانون اور جرأت وہمت سے لیس تھے. اہلِ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا انہیں ہنر آتا تھا. وزیروں اور وزیرِ اعظم تک سے گفتگو کرتے وقت مرعوب ہرگز نہ ہوتے بلکہ ان پر اپنی گہری چھاپ چھوڑتے.
ان کی جرأت، فعالیت اور سرگرمی کو دیکھ کر کل پرسوں تک بھی یقین نہ آیا کہ مولانا ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے جائینگے. بس یہی سوچتا رہا کہ آئی سی یو میں جاکر بھی مولانا جلد ہی ہمارے درمیان پوری حرارت کے ساتھ آ موجود ہونگے. تعزیت تو بہتوں کی ہوتی ہے، اشک بہانا بہتوں پر ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا مگر ایسی شخصیات پر غمزدگی کچھ الگ نوعیت کی ہوتی ہے. اب موبائل پر کسی محمد ولی رحمانی کا فون نہیں آئے گا اور اب مجھے یہ نمبر بھی ہٹانا پڑے گا.
حضرت مولانا نے خود کو ملت کی بہبودی، ترقی اور دفاع کے لئے وقف کردیا تھا. پوری زندگی سرگرم اور متحرک رہے اور اپنے عمل سے ہمیشہ Miles to go کی صدا لگاتے رہے. آج مولانا کے انتقال پر مسلمانانِ ہند سوگوار ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ غم میں ڈوبا ہے، امارتِ شرعیہ سخت صدمے میں ہے، خانقاہ رحمانی مونگیر بے کلی میں مبتلا ہے اور رحمانی 30 اشک بار ہے.
دعاء ہے کہ اللہ تعالی حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کی خطاؤں کو معاف کرے، پوری ملت کی طرف سے انہیں جزائے خیر دے، انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ملت کو ان کا نعم البدل دے!
محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مورخہ 3 اپریل، 2021