تقریب تکمیل ترجمۂ قرآن از حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی: قسط دوم

(قسط دوم)

از : مفتی محمد عفان منصورپوری

حضرت الاستاذ مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے اپنے ترجمہ قرآن کے وقیع مقدمہ میں ذکر کردہ بعض مشمولات پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس ضمن میں مختلف پہلؤوں سے بڑی ھی قیمتی مفید اور اصولی باتیں ارشاد فرمائیں ، آپ کا بیان کیا تھا ؟ علوم قرآنی ، نکات حدیث ، فقہی ضوابط اور علمی جواھر پاروں پر مشتمل ایسا سیل رواں تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رھا تھا ، شروع میں حضرت فرمارھے تھے کہ ابتدا میں صرف دس منٹ تھوڑی سی بات کروں گا لیکن جب سلسلہ کلام شروع ھوا تو علوم و معارف کے موتی بکھیرتا ھوا دراز ھوتا ھی چلا گیا اور جملہ سامعین گوش برآواز ھوکر پوری دلچسپی کے ساتھ علمی تشنگی کی سیرابی کا سامان کرتے رھے بندہ نے حتی المقدور استاذ محترم کے بیان کردہ مضمون اور ان کی فکر کو سپرد قرطاس کرکے عام کرنے کی کوشش کی ھے ؛ تاکہ استفادہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ھوسکے لیکن نہ معلوم اس میں کہاں تک کامیابی ممکن ھوپائی ۔

قراءت سبعہ متواترہ میں اختلاف کی حیثیت

 قرآن پاک کے صحیح ترجمہ پر قدرت حاصل کرنے کے لئے ضروری ھے کہ قراءت سبعہ متواترہ کے مابین جو اختلاف پایا جاتا ھے اس کی حیثیت کو صحیح طور پر سمجھا جائے ، حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے اس سلسلہ میں وضاحت کرتے ھوئے یہ بات بہ طور نکتہ کے ارشاد فرمائی کہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے کہ اختلاف قراءت کی بنیاد پر ایک طریق کو دوسرے پر ترجیح دینا مناسب نہیں جیساکہ تفسیر طبری میں صاحب کتاب نے جگہ جگہ ترجیح کا طریقہ اختیار کیا ھے ، علماء کرام نے ان کے اس عمل پر اعتراض کیا ھے ؛ اسلئے کہ آیات قرآنیہ میں اختلاف قراءت کی بنیاد پر جو فرق ھے وہ ناقص و کامل کا نہیں بلکہ اکمل و کامل کا ھے جیسے ” تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض ” اس آیت کریمہ سے معلوم ھوتا ھے کہ درجات انبیاء میں تفاضل تو ضرور ھے مگر ایسا نہیں کہ ایک کا درجہ اتنا بڑھادیا جائے کہ دوسرے کی تنقیص لازم آئے ، یہی وجہ ھے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا : ” لا تفضلوني على يونس بن متى ” ( مجھے حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت مت دو ) حالانکہ آپ کا افضل الرسل ھونا مسلم ھے پہر بھی آپ کا یہ ارشاد فرمانا کہ مجھے دوسرے نبیوں پر فضیلت مت دو اسی اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں یہ اثبات فضیلت ھوتے ھوتے دوسرے کی تنقیص کا سبب نہ بن جائے ، پس  آپ کے ارشاد گرامی کا منشا یہ ھے کہ انبیاء و رسل میں سے ایک کو دوسرے پر ایسی فوقیت و برتری نہ دیجائے جس سے دوسرے کی تنقیص لازم آئے ۔

 بہرحال ترجمہ کرتے وقت قراءت کے اختلاف پر بھی نگاہ ھونی چاھئے اور اس بنیاد پر آیت کے معنی و مفھوم کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا چاھئے ، عام طور پر بیضاوی شریف اور دیگر کتب تفاسیر کے درس و تدریس کے وقت ان چیزوں پر توجہ دی جاتی ھے اور طلبہ کو بتایا جاتا ھے حالانکہ ترجمہ کے وقت ھی اگر اختلاف قراءت سے متعلق یہ باتیں ذھن نشین کرادی جائیں تو یہ دیرپا بھی ھوں گی اور اوقع فی النفس بھی ۔

اصلاح ھوتی رھنی چاھئے

 اس کے بعد حضرت الاستاذ نے بڑے لطیف پیرائے میں حالات و زمانہ کے پیش نظر مختلف فقھی اور فنی مسائل میں مقتضائے حال کے پیش نظر عرف اور رائے کی تبدیلی کا ذکر کیا ، مثال کے طور پر فرمایا کہ  تقلید ھمارے یہاں لازمی تصور کی جاتی رھی ھے لیکن حالات کے تقاضہ کے پیش نظر اب بعض مسائل و معاملات میں دوسرے کے قول پر بھی فتوی دیا جانے لگا ۔

ایسے ھی فن نحو کے مسائل میں کوفہ اور بصرہ والوں کا ھمیشہ اختلاف رھا بعد میں آنے والوں میں سے کسی نے کوفیین کا ساتھ دیا اور ان کی رائے کو صحیح جانا تو دوسروں نے بصریین کی رائے کو فوقیت دی ۔

اسی طرح موجودہ زمانے میں قدیم فقھاء مصر و شام کی کتابوں میں مذکور مسائل کے سلسلہ میں موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے علمی مباحثے اور سیمینار ھوئے بالآخر بعض مسائل کے سلسلہ میں یہ طے ھوا کہ جو چیزیں پہلے متروک ھوگئی تھیں وہ اب جائز تو ھیں البتہ ان کا استعمال کثرت سے نہیں کرنا چاھئے ۔

 اسی طرح عربی عبارات کی ترکیب کا مسئلہ ھے اس میں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی ھے ” فاء ” اور ” ثم ” کی ترکیب کے سلسلہ میں علامہ زمخشری کے یہاں ترکیبی اعتبار سے اس کی الگ حیثیت ھے جب کہ جمہور اس کی دوسری ترکیب کرتے ھیں پھر ترکیب میں اختلاف ھونے کی وجہ سے عبارت کے معنی اور مفہوم میں فرق کا پایا جانا بھی بدیہی ھے ۔

اسی طرح عبارت میں موجود مقدرات و محذوفات کو ظاھر کرنے اور نہ کرنے کے ساتھ بھی ترجمہ کا بڑا گہرا ربط ھے ، جیسے کتب بلاغت : مختصر المعانی ، تلخیص المفتاح اور دروس البلاغہ وغیرہ میں مبتدا ، خبر اور صفت وغیرہ کے محذوف ھونے کی بحث آتی ھے اور یہ بتایا جاتا ھے کہ محذوف و مقدر کو اسی لئے بیان کرتے ھیں تاکہ کلام واضح ھوجائے بالکل اسی طریقہ سے آیات قرآنیہ کو پڑھنا اور سمجھنا چاھئے یعنی اولا یہ دیکھیں کہ عبارت میں کوئی محذوف کلمہ تو نہیں ھے اگر ھو تو ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھیں اس طرح ترجمہ صحیح ھونے کے ساتھ ساتھ اوقع فی النفس اور اقرب الی الفہم ھوگا ۔

ان مثالوں کو ذکر کرکے حضرت الاستاذ نے یہ پیغام دینا چاھا ھے کہ ھر زمانہ میں براہ راست قرآن پاک سے جڑکر اس کی آیات کو علی وجہ البصیرہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئے اور حالات و تقاضہ کے پیش نظر ترجمہ کے آہنگ میں تبدیلی لانا چاھئے تاکہ ھر زمانہ کے لوگ بآسانی کلام الہی کے مقتضا کو سمجھ سکیں ۔

اکابر کے ترجمہ پر پورا اعتماد ھو

اس کا یہ مطلب ھرگز نہ لیا جائے کہ اکابر کے ترجمہ سے خدانخواستہ اعتماد ختم کیا جارھا ھے بلکہ مطلب یہ ھے کہ آپ اکابر کے ترجمہ کو سامنے رکھیں اس کے ذریعہ براہ راست آیت قرآنی کے مفہوم کو سمجھیں ، اس ترجمہ کو بار بار پڑھیں ممکن ھے کہ آپ عرف کے اعتبار سے اس کی زبان میں کچھ تبدیلی کو بہتر سمجھتے ھوں مثلا  اس میں فاعل کا ترجمہ پہلے کیا گیا ھے آپ مفعول کا ترجمہ پہلے کرکے جملے کو زیادہ موزوں سمجھ رھے ھوں تو ایسی تقدیم و تاخیر مفید ھے اس میں کوئی حرج نہیں ، اسی طرح آپ ترجمہ مکمل کرلیں ، ھوسکتا ھے اس طرح کا کام کرنے کی وجہ سے لوگ کہیں کہ انہوں نے تو فلاں کا ترجمہ چرالیا تو اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، یہ سب تو کہا جاتا رھا ھے ۔

آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ترجمہ دیکھیں انہوں نے بہت سے مقدرات کو ظاھر کرکے ترجمہ کیا ھے ؛ لیکن ان کے صاحبزادگان نے اپنے ترجمے میں مقدرات کو ظاھر کرکے ترجمہ نہیں کیا بلکہ جوں کی توں آیت کا ترجمہ کردیا پھر حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنے زمانہ کے حالات کی رعایت کرتے ھوئے تقدیری عبارت کو ظاھر کرکے الگ اسلوب میں ترجمہ کلام پاک کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ۔

خوب سے خوب تر کی تلاش

اس سے یہ بات منقح ھوجاتی ھے کہ ہمیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگے رھنا چاھئے اور اللہ کے کلام میں علمی اور فنی اعتبار سے غور و خوض کرتے ھوئے اس کے حقیقی مفھوم تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاھئے ، حضرت الاستاذ نے فرمایا کہ بہت سے مقامات ایسے ھیں جہاں ایک ھی آیت کی نحوی اعتبار سے مختلف ترکیبیں ھوسکتی ھیں اور ھر ترکیب کے اعتبار سے مفھوم میں کچھ فرق ھوجاتا ھے اب جو حضرات جس ترکیب کو راجح قرار دیتے ھیں وہ اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ھیں اور ترجمے سب صحیح ھیں تو آپ بھی مختلف ترکیبوں پر غور کریں اور جس کو زیادہ موزوں سمجھیں اس کے مطابق ترجمہ کریں ، ایسے ھی آپ دیکھیں گے کہ کوئی مترجم کسی آیت کریمہ کے شروع میں ” اذکر ” کو محذوف مان کر ماقبل سے اس کا ربط ختم کرکے ترجمہ کرتا ھے اور کوئی ” اذکر ” کو محذوف نہ مان کر مضمون کے تسلسل کو برقرار رکھتا ھے اور یہ دونوں طریقے درست ھیں ، آپ بھی جب آیت کریمہ پر غور کریں گے تو یہ چیزیں سامنے آئیں گی جس کے نتیجے میں آپ فہم قرآنی کی دولت سے مالا مال ھوں گے ۔

انسان کا کام نقص سے خالی نہیں ھوتا

اس موقعہ پر حضرت الاستاذ نے معروف ادیب و مؤرخ ” عماد الدین اصفہانی ” کے درج ذیل مشھور مقولہ کو بہ طور استشھاد کے پیش کیا :

” اني رأيت انه لا يكتب أحد كتابه في يومه الا قال في غده : لو غير هذا لكان أحسن ولو زيد كذا لكان يستحسن ولو قدم هذا لكان افضل ولو ترك هذا لكان أجمل وهذا من أعظم العبر وهو دليل على استيلاء النقص على جملة البشر “

 ( میں نے یہ دیکھا کہ کوئی شخص بھی جب کوئی تحریر آج لکھتا ھے پھر آنے والے کل میں اس پر نگاہ ڈالتا ھے تو یہ سوچتا ھے کہ اگر اس جملہ کی جگہ یہ جملہ ھوتا تو زیادہ بہتر ھوتا اور اگر اس جگہ یہ اضافہ اور کردیا جاتا تو اور اچھا ھوتا اور اگر اس جملہ کو مقدم اور فلاں کو مؤخر کردیا جاتا تو یہ اولی ھوتا اور اگر اس تعبیر کو چھوڑ ھی دیا جاتا تو کلام کی خوبصورتی میں اضافہ ھوجاتا ، انسان کا یہ مزاج اپنے اندر بڑی عبرت و نصیحت رکھنے والا ھے اور یہ دلیل ھے اس بات پر کہ انسان کا کوئی کام نقص سے خالی نہیں ھوتا ۔)

اس مقولہ کو پیش کرکے حضرت الاستاذ یہ کہنا چاھتے ھیں کہ کسی بھی زمانہ میں نئے انداز سے ترجمہ قرآن کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا یہ ٹھیک ھے کہ حضرات اکابر نے جو ترجمے کئے ھیں وہ ھم سب کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتے ھیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ھے کہ مزید ترجمے کرنے کی ضرورت ھی نہیں ، آپ جب اکابر کے ترجموں کا ھی بہ نظر غائر مطالعہ کریں گے تو مختلف مقامات پر ذھن جملوں کی ساخت و بناوٹ میں تبدیلی اور اجزاء کی تقدیم و تاخیر کا مطالبہ کرے گا اور اس کو موجودہ حالات کے اعتبار سے زیادہ موزوں سمجھے گا ؛ اس لئے اھل علم حضرات کو اسی نہج پر کام کرنا چاھئے اس سے جہاں اپنے لئے قرآنی آیات کو سمجھنا آسان ھوگا وھیں عوام الناس تک آسان زبان اور ان کے لئے قابل قبول اسلوب میں قرآنی پیغام کو پہچانا بھی ممکن ھوگا ۔

               (جاری)

۲۰ / شعبان المعظم ۱٤٤٢ھ

         ۳ اپریل ۲۰۲۱ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے