چنار کے سایہ میں علامہ انور شاہ کشمیری سیمینار

كاروان علم كے ساتھ  کشمیر کا ایک یادگار سفر

مولانا بدر الحسن القاسمی (کویت)

کشمیر کو جنت نظیرکہا جاتا ہے برف پوش پہاڑیوں کے درمیان اسکا محل وقوع قطار اندر قطار چنار کے درخت پھلوں کے باغات پہاڑوں سے نکلتی بہتی بل کھاتی نہریں زعفران کے کھیتوں کا خوشنما منظر آبشاروں جھرنوں اور جھیلوں کے د لکش نظار ے خوشرنگ پرندوں کے دلآویز چہچہے اور انواع واقسام کے پھولوں سے کہیں جنت نگاہ اور  کہیں کف گل فروش کامنظر پیش کرتی سرزمین کو دیکھ کر ہی  کسی نے کہا تھا کہ:

اگر فردوس بر روئے  زمین  است

ہمین است و ہمین است وہمیں است

اور  شاید اسی لئے مرزا بیدل بھی یہ دعوی کربیٹھے :

ہر سوختہ جانے کہ بکشمیر درآید

گر مرغ کباب است با بال و پر آید

تصور کیجئے اس عطر بیز وگل ریز خطہ اور رشک بہشت وجنت نظیر سر زمین کا اب سے چاردہائی قبل سفر کاروان علم کے جلو میں کس قدر دلچسپ رہا ہوگا

 اکتوبر1977  میں  جانے والے اس  قافلہ میں شامل علامہ انور شاہ کشمیری کی ظاھری ومعنوی اولاد شاہ برادران (ازھر شاہ وانظر شاہ) تو ان کے لخت جگر اور نور نظر تھے لیکن معنوی اولاد وعلمی فیض یافتگان میں ایک سے ایک آفتاب وماہتاب تھے۔

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب 

مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب 

مولانا سعید احمد اکبر آبادی صاب

مولانا احمد رضا بجنوری صاحب 

مولانا حامد الانصاری غازی صاحب 

مولانا قاضی زین العابدین سجاد وغیرہم

جنکی نظیر کسی ایک اسٹیج پرچشم فلک اب کبھی نہ دیکھ سکے گی۔

اس فقیر بے نوا کی اس علمی قافلہ میں شمولیت اور اس اہم ترین اور بے مثال سمینار میں عربی مقالہ کے ساتھ شرکت یقینا اس کی خوش بختی تھی، فالحمد للہ علی ذلک۔ 

داد او را قابلیت شرط نیست

سمینار علامہ کشمیری کی شخصیت اور کارناموں کے موضوع پر تھا، اور اس کے داعی اس وقت کے وزیر اعلی شیخ محمد عبد اللہ شیر کشمیر تھے، اور سمینار کی رونق علامہ کشمیری کے براہ راست فیض یافتگان کے منتخب ترین گروہ سے تھی۔

یہ سمینار علمی معیار کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا۔ 

شاہ صاحب کے علمی کمالات ان کے بے مثال حافظہ مختلف علوم وفنون پر انکی گہری نظر اور انکی عبقریت کے ساتھ  معصوم  صورت اور پاکیزہ سیرت پر گفتگو کرنے والے وہ تھے جنہوں نے ان کو دیکھا تھا اور ان کے سامنے زانوئے ادب طے کیا تھا، اور ان کی شخصیت کے اعجاز کا مشاہدہ کرچکے تھے۔ 

خدا کا شکر ہے کہ سمینار میں پیش کئے جانے والے تمام مقالات تقریریں اور سارے دستاویزی وثائق عبد الرحمن کوندو کی کتاب ‘‘الانور’’ میں اور مولانا انظر شاہ صاحب کی کتاب ‘‘تصویر انور’’ میں محفوظ ہیں۔

جس نشست میں میں نے اپنا عربی زبان میں مقالہ پیش کیا تھا اس کی صدارت مولانا سعید احمد اکبر آبادی کررہے تھے۔ 

علامہ کشمیری کے فیض یافتگان نے دل کھول کر داد دی اور عنفوان شباب میں علامہ کشمیری کو میں نے جو سمجھا تھا اور جس طرح پیش کرنے کوشس کی تھی کبار اہل علم نے اس کی تصدیق کردی اور مجھے اس بزم علم وتحقیق میں یہ کہنے کا حوصلہ دیا کہ :

تجھ سے مقابلہ کی کسے تاب ہے ولے

میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

ورنہ میرے لئے ان اکابر اہل علم کے ساتھ سمینار میں شرکت ہی کافی تھی۔

بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شدی بس است

اس سیمینار کی ایک یافت معمر بزرگ مولانا مسعودی سے ملاقات بھی تھی جو نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا مصداق تھے۔

ایک تقریب سابق میر واعظ کشمیر مولوی محمد فاروق صاحب خطیب جامع مسجد سری نگر کے دیوان خانہ  میں  بھی ان کی دعوت پر ہوئی ۔ 

مولانا اکبر آبادی صاحب یورپ کے مستشرقین کے ساتھ اپنی معرکہ آرائیوں کا ذکر بڑے رنگ وآہنگ کے ساتھ کررہے تھے کہ ان کے یارغار اور بزرگ شخصیت مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب نے ایک خاص ادا کے ساتھ :

تاثیر دکھا تقریر نہ کر

والا بند اس طرح پڑھا کہ فورا ہی تقریر ختم ہوگئی۔ 

انواع واقسام کے کھانوں میں جس چیز سے میں اپنے مزاج کو ہم آہنگ نہ کرسکا وہ ‘‘گوشتابہ’’ ہے جو وہاں کی مرغوب غذاؤں میں شمار ہوتا ہے، کوفتہ کی شکل کا لیکن اس سے کئی گنا بڑا دودھ کے ساتھ گوشت کا جوڑ مجھے سمجھ میں نہیں آسکا۔

ڈل جھیل کا نظا رہ ، شکارہ کی سواری، قطار اندر قطار چنار کے درخت  سیاہ سفید سرخ  سبز اودے نیلے پیلے ہر رنگ کے پھولوں کے دلکش مناظر۔سبھی

 کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست

ہر طرف د ست قدرت کی گلکاریاں باغ وراغ کا سماں زمین سے فضا تک ہر نقش نشاط آور ہرمنظر کیف آگیں۔

اب چار دہے گزر جانے کے بعد کتنے ہی مناظر نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں، تصویر کشی کی جائے تو اس کے لئے بھی کسی اچھے منظر نگار اور نقاش فطرت قلم کار کی ضرورت ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ کائنات رنگ وبو کا ہر ذرہ اور جنت ارضی کا ہر گل بوٹا خالق کی قدرت کا شاہکار اور اس کی عظمت کی د لیل  ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عربی زبان کا مشھور اور عریاں گوئی اور بادہ آشامی کے لئے بدنام شاعر ابونواس سے مرنے کے بعد کسی نے خواب میں حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میری اپنے اس شعر کی وجہ سے مغفرت ہوگئی :

تآمل في نبات الأرض وانظر

إلي آثار ما صنع   المليك

عيون من لجين شاخصات

بأحداق من الذهب السبيك

علي قضب الزبرجد شاهدات

بآن اللہ لیس لہ  شریک

صحيح هے: 

رحمت حق بہا۔  نمی جوید

رحمت حق بہانہ می جوید

حاصل یہ کہ کشمیر جنت نظیر میں وزیر اعلی شیخ  محمد عبد اللہ کی  دعوت پر سرینگر کے کالج آف ایجوکیشن کے ہال میں ١٩، ٢٠، ٢١؍ اکتوبر ١٩٧٧م كو علامه انور شاه کشمیری کی شخصیت اور کارناموں پر عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا، اس میں حضرت شاہ صاحب كے بلند پایہ شاگردوں نے شرکت کی۔

شیخ عبد اللہ نے اپنے افتتاحی کلمات میں علمائے دیوبند کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ 

میرے عربی مقالہ کا عنوان : ‘‘الخطوط البارزة في شخصية إمام العصر’’  تها۔

ذيلي عناوين اس طرح تھے :

قوة ذاكرته ومواهبه الفطریة

نبوغه وعبقريته 

مزاياه ومقومات شخصيته

أراؤه عن الشخصيات البارزة 

زياداته علي مصطلحات الفنون 

 مؤلفاتة وأماليه 

سمينار كي آخری نشست حضرت بل میں عوامی اجلاس کی شکل میں ہوئی، جس میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کا خطاب ہوا اور دعا پر خاتمہ ہوا۔

یہ بھی قدرت کا عجیب فیصلہ تھا کے سمینار کے ایام میں ہی علامہ انور شاہ صاحب کے لسان ناطق اور آپ کے علوم کے سب سے بڑے شارح اور ترجمان علامہ یوسف بنوری کے انتقال کی خبر آئی

اس خبر کے آتے ہی شرکائے سیمینار پر غم والم کا بادل چھا گیا تعزیتی کلمات حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نے ارشاد فرمائے۔

حضرت مولانا بنوری کو اللہ تعالی نے غیر معمولی خصوصیات سے نوازا تھا، حضرت شاہ صاحب کو بھی ان پر بڑا اعتماد تھا، اور شاہ صاحب کے علوم کی ترجمانی ان سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ 

 مولانا بنوری کا علمی تبحر، ان کا غیرمعمولی حافظہ، ہر علم وفن میں ان کی مہارت، اور عربی زبان وادب پر ان کی طرح بے پناہ قدرت رکھنے والا کوئی اور نہیں رہا۔ 

ان کے وصال کے بعد تو اب :

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق

ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

رحمه اللہ رحمة واسعة ويرزق الأمة بديلا عنه۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے