تقریب تکمیل ترجمۂ قرآن از حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی: قسط اول

           ( قسط اول)

از : مفتی محمد عفان منصورپوری

     بحر العلوم ، استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم محدث دارالعلوم دیوبند کی پرخلوص دعوت پر  مؤرخہ : ۱۸ / شعبان المعظم ۱٤٤٢ھ مطابق یکم اپریل ۲۰۲۱ء بہ روز جمعرات دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں صبح ساڑھے گیارہ بجے اکابر علماء کرام ، اساتذہ دارالعلوم دیوبند ، ارباب افتاء اور منتخب خدام دین محدود تعداد میں جمع ھوئے ، جن میں سے چند ممتاز شخصیات کے اسماء گرامی درج ذیل ھیں :

     ۱ – حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علماء ھند ۔

     ٢ – حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ۔

     ٣ – حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علماء ھند ۔

     ٤ – حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی صاحب دامت برکاتہم نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ۔

     ٥ – حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم صدر مفتی دارالعلوم دیوبند ۔

     ٦ – حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ ناظم عمومی جمعیت علماء ھند ۔

     ٧ – حضرت مولانا انوار الرحمن صاحب بجنوری رکن مجلس شوری دارالعلوم دیوبند ۔

     ٨ – حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی مفتی و محدث جامعہ قاسمیہ شاھی مرادآباد ۔

     ٩ – حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری مفتی و محدث جامعہ قاسمیہ شاھی مرادآباد ۔

     موقع تھا حضرت الاستاذ دامت برکاتہم کی جانب سے تحریری طور پر ترجمہ کلام پاک کی تکمیل کی مناسبت سے بارگاہ الہی میں اظھار تشکر و دعاء اور اس عظیم خدمت کے تعارف کا جس کو حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ قرار دیا ھے ، یقینا خدمت قرآن سے اعلی و ارفع اور سعادت بھرا عمل انسان کے لئے کوئی دوسرا نہیں ھوسکتا ، حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے لاک ڈاؤن کے زمانہ کا بہترین استعمال کرتے ھوئے کلام الہی کے ترجمہ کا کام مکمل فرمایا جو عنقریب انشاء اللہ منظر عام پر بھی آجائیگا۔

     اس باوقار مجلس علمی کا آغاز استاذ القراء حضرت مولانا قاری عبد الرؤوف صاحب بلند شھری استاذ شعبہ تجوید و قراءت دارالعلوم دیوبند نے تلاوت کلام اللہ سے فرمایا ۔

      اس کے بعد انعقاد مجلس کی غرض و غایت ، ترجمہ قرآن پاک کی ضرورت و اھمیت ،  اتمام نعمت پر اظھار خوشی اور ایسے مبارک مواقع پر اھتمام دعاء کے حوالہ سے حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے تقریبا ۳۵ منٹ تک بڑی بصیرت افروز اور خالص علمی گفتگو فرمائی جس کا خلاصہ پیش خدمت ھے :

درد دل

     حمد و ثنا کے بعد حضرت الاستاذ نے اپنی گفتگو کا آغاز اس درد دل سے کیا جس کا اظھار گذشتہ ایک سال سے بڑی کثرت کے ساتھ آپ اپنے تلامذہ اور ارباب علم سے کرتے رھے ھیں ، یہ ایک لمحہ فکریہ ھے جس پر توجہ دینا از حد ضروری ھے آپ نے فرمایا میں نے اس موقع پر بعض ذمے داران مدارس کو بھی اسی مقصد سے بلایا ھے کہ وہ معاملہ کی حساسیت کو سمجھیں اور اصلاح کے لئے کوئی مناسب طریقہ کار وضع کریں ، آپ نے حقیقت حال کو بیان کرتے ھوئے سوالیہ انداز میں فرمایا :

    ھمارے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ترجمہ قرآن بھی پڑھتے ھیں ، کتب تفاسیر بھی داخل نصاب ھیں نیز بعض طلبہ دورۂ تفسیر بھی پڑھتے ھیں مگر ان سب کے باوجود وہ ترجمہ قرآن پاک پر ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسی قدرت ھونی چاھئے ، اس کی کیا وجہ ھے ؟  بظاہر یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ طلبہ ترجمہ قرآن اس عمر میں پڑھتے ھیں جب وہ علم کے اعتبار سے کچے اور نابالغ ھوتے ھیں ، انہیں ترجمہ اور لغات وغیرہ رٹا تو دئے جاتے ھیں لیکن وہ بصیرت کے ساتھ سمجھتے نہیں اور حل نہیں کرپاتے۔

اس صورتحال کو ختم کرنے کی ضرورت ھے طلبہ میں یہ ذوق پیدا ھونا چاھئے کہ وہ آیات قرآنیہ کو سمجھیں اور صحیح ترجمہ پر قدرت رکھنے والے ھوں ۔

     اس کے بعد آپ نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ھوئے یہ مضمون بیان فرمایا کہ ھم میں سے بہت سے حضرات ترجمہ قرآن پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے اور اس کی ضرورت ھی محسوس نہیں کرتے حالانکہ علوم قرآنی پر بصیرت حاصل کرنے کے لئے ھر ذی علم کو براہ راست قرآنی آیات کے معانی و مفاہیم کو علی وجہ البصیرت سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئے ۔

     حضرت الاستاذ نے فرمایا :

     دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے قرآن پاک کے تراجم کے نمونے سامنے آتے رھتے ھیں مگر ھماری طرف سے اس جانب توجہ کم پائی جاتی ھے شاید اس کی وجہ یہ ھے کہ ھمارے بزرگوں نے جو ترجمے کردئے ھیں اس کے بعد ھم مزید تراجم کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن میرے خیال میں یہ چیز مناسب نہیں ، ضرورت اس بات کی ھے کہ اکابر کے تراجم کو سامنے رکھکر خود  بھی ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ھمیں بصیرت حاصل ھو اور یہ چیز معلوم ھو کہ اگر اکابر نے فلاں آیت کا یہ ترجمہ کیا ھے تو کیوں کیا ھے ؟

میں نے ترجمہ قرآن کا ارادہ کیوں کیا ؟

     حضرت الاستاذ نے تفصیل کے ساتھ ان حالات و اسباب پر روشنی ڈالی جس کے نتیجہ میں کلام الہی کا ترجمہ کرنے کا داعیہ ان کے دل کے اندر پیدا ھوا ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:

        مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا اور پہر مجھ سے اس پر تقریظ لکھنے کو کہا میں نے کہا مجھے تو لکھنے کا ڈھنگ ھی نہیں آتا ، نہ میں حیوان کاتب ھوں نہ حیوان ناطق ، مجھے اس چیز پر افسوس بھی ھوتا ھے اور طالب علمی کا زمانہ بھی یاد آتا ھے جب حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ طلبہ کو تقریر سیکھنے کی ترغیب دیتے تھے اور یہ ھدایت فرماتے تھے کہ خطیب کو سامعین کی علمی شخصیت اور رعب سے قطعی طور پر متاثر نہ ھونا چاھئے  بلکہ از راہ مذاق اور ظرافت طبع یہ بھی فرماتے تھے تم اچھی تقریر اسی وقت کرسکتے ھو جب دوران تقریر یہ تصور کرلو کہ تمام سامعین گدھے ھیں اور اگر تم یہ سوچوگے کہ مجمع میں تو بڑے بڑے علماء اور دانشور حضرات ھیں تو تقریر نہیں کرسکوگے۔ ھم نے حضرت کی ھدایت کے مطابق اس زمانے کے اعتبار سے کوشش بھی کی مگر قسمت کی بات ھے ——

     بہرحال جب مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے کچھ لکھنے کے لئے اصرار کیا تو میں نے کہا : مولانا آج کل تقریظ کا یہ مطلب ھوتا ھے کہ جو ھم نے کہا تم اس کی تعریف کرو میں اس سے ہٹ کر نہ آپ کی تعریف میں کوئی بات کہوں گا نہ ھی تنقیص کروں گا لیکن ایک بات میں ضرور کہوں گا کہ صاحب جلالین جس طرح محذوفات کو ظاہر کرکے تفسیری نکات بیان کرتے ھیں اس سے آیت کے صحیح مفہوم کو سمجھنا اور درست ترجمہ تک پہنچنا آسان ھوجاتا ھے آیات قرآنیہ کا ترجمہ کرنے والے حضرات کو اسی انداز سے سبق لینا چاھئے ، میرا یہ جواب سنکر مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے کہا کہ آپ جس انداز میں بتارھے ھیں ایسے ھی ترجمہ شروع کیجئے میں نے کہا یہ کام میں کیسے کروں گا پھر میں نے دیکھا کہ مختلف طبقات کی جانب سے قرآن پاک کے تراجم آرھے ھیں میں نے اپنے متعلقین میں سے اھل علم کو اس جانب متوجہ کیا کہ آپ لوگوں کو بھی ترجمہ کرنا چاھئے ۔

     اسی دوران مجھے معلوم ھوا کہ ھمارے مدارس کے اساتذہ امتحانات کے موقع پر طلبہ کے پرچہ جوابات کو چیک کرتے ھوئے یہ دیکھتے ھیں کہ طالب علم نے آیت کریمہ کا ترجمہ فلاں بزرگ عالم دین کے ترجمہ کے مطابق کیا ھے یا نہیں ، اگر لفظ بہ لفظ مطابقت ھوتی ھے تو اس طالب علم کو پورا نمبر دیتے ھیں ورنہ نمبر کاٹ لیتے ھیں ، یہ صورتحال بالکل غیر مناسب اور طلبہ کے ساتھ زیادتی کے مرادف ھے ، اسلئے کہ ترجمہ قرآن پڑھانے کا مقصد کسی معتبر عالم دین کے ترجمے کو طوطے کی طرح رٹا دینا ھرگز نہیں ھے بلکہ یہ ذوق پیدا کرنا ھے کہ وہ خود علی وجہ البصیرت صحیح ترجمہ کرنے پر قادر ھوجائے ، مجھے اساتذہ کی نیت پر کوئی اعتراض نہیں ھے وہ طلبہ  کے لئے کسی معروف ترجمے کی پابندی کی قید اسی لئے لگاتے ھوں گے تاکہ طلبہ دائرہ سے باہر نہ نکل سکیں لیکن طلبہ میں یہ شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ھے کہ وہ اکابر کے تراجم و تفسیر کو سامنے رکھکر خود بھی ترجمہ قرآن پاک پر قادر ھوں

بہرحال ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ھوئے اور طبقہ اھل علم کے سامنے نمونہ پیش کرنے کے جذبہ سے حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے اس مہتم بالشان کام کا بیڑا اٹھایا اور سورہ ق سے ترجمہ قرآن کا آغاز کیا اور پہلے مرحلہ میں سورہ ناس تک مکمل کیا اور اس کے ساتھ علوم القرآن سے متعلق ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا ، بعد ازاں لاک ڈاؤن کے زمانہ کا شاندار استعمال کرتے ھوئے اپنے ضعف اور پیرانہ سالی کے باوجود غیر معمولی جدوجہد اور محنت کا مظاھرہ کرتے ھوئے آپ نے مابقیہ اجزاء کے ترجمہ کا کام بھی مکمل فرمادیا جو جلد ھی زیور طبع سے آراستہ ھو کر منظر عام پر آجائیگا انشاء اللہ ۔

(جاری)
مؤرخہ: ۱۸ /شعبان المعظم ۱٤٤٢ھ
یکم اپریل ۲۰۲۱ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے