ادارة المباحث الفقہیة جمعیة علماء ہند کے سولہویں فقہی اجتما ع کی منظور شدہ تجاویز کا متن

تجویز (۱): ”عقود الصیانة “ (سروس کنٹریکٹ)سے متعلق تجاویز

            ادارة المباحث الفقہیة جمعیة علماء ہند کے سولہویں فقہی اجتما ع( منعقدہ ۳/۴/۵/شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۷/۱۸/۱۹/مارچ ۲۰۲۱ء بروز بدھ ،جمعرات، جمعہ ،بمقام مدنی ہال ،مرکزی دفتر جمعیة علماء ہند)میں عقود الصیانة(سروس کنٹریکٹ) کی مروجہ صورتوں پر بحث ومباحثہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں:

(۱)       عقد صیانت (سروس کنٹریکٹ) ایک جدید عقد ہے،جو شرعی تطبیق کے اعتبار سے عقد اجارہ کے قریب تر ہے لہذا اس پرحسب شرائط اجارہ کے احکام جاری ہوں گے۔

(۲)       عقد صیانت کی وہ شکل جس میں صائن حسب معاہدہ صرف اصلاح و مرمت کاعمل متعینہ مدت کے اندر انجام دیتا ہے، یہ عقد اجارہ ہی کی ایک شکل ہے اور جائز ہے۔

(۳)      عقد صیانت کی وہ شکل جس میں صائن (سروس کنڑیکٹر) کی جانب سے عمل ( اصلاح ومرمت )کے ساتھ بوقت ضرورت خراب ہونے والے پرزے اور آلات اپنے پاس سے لگانے کی ذمہ داری بھی لی گئی ہو، یہ معاملہ بھی عرف اور تعاملِ ناس کے پیش نظر جائز ہے۔

(۴)       عقد صیانت کی وہ صورت جس میں صائن متعینہ مدت میں حسب ضرورت عند الطلب خدمت کرنے کو تیاررہتا ہو تو اس کی محتاط شکل یہ ہے کہ متعینہ مدت میں کم از کم ایک مرتبہ عملی نگرانی کا التزام کیا جائے تاکہ اجرت عمل کے جواز میں کوئی شبہ نہ رہے۔

(۵)      مکان کی مرمت اور اصلاح کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے۔ اسے کرایہ دار پر لازم نہیں کیا جاسکتا ؛لیکن زائد چیزوں (مثلا اے سی، پنکھا وغیرہ) کی اصلاح اور حفاظت کی ذمہ داری خو دکرایہ دار کی ہے ۔تاہم وہ دونوں اپنی رضامندی سے بھی آپسی ذمہ دار یاں طے کرسکتے ہیں۔

(۶)       اگر صائن سے اس طرح معاہدہ کیا جائے کہ اسے ہر مرتبہ حاضری پر خدمت کے عوض ایک متعینہ رقم دی جائے گی اورایک محدود مالیت کی حد تک پرزے لگانے کی ذمہ داری بھی صائن ہی کی ہوگی تو یہ معاملہ بھی عرف وتعامل کی وجہ سے شرعا درست ہے۔

(۷)      جس عقد صیانت میں صائن مختلف آلات (مثلا کمپیوٹروغیرہ)کے پروگراموں کوایک متعینہ مدت کے اندرتجدید(اپڈیٹ) کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے تو یہ بھی اجارہ کی ایک شکل ہے اور جائز ہے۔

(۸)       بائع اگر فروختگی کے وقت متعینہ مدت میں مبیع کی مفت سروس یا ا س کے خراب ہونے کی شکل میں تبدیلی کی ذمہ داری لے تو اس میں بہی شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور عرف وتعامل کی بنا پر بیع میں اس طرح کی شرطیں لگانا جائز ہے۔

تجویز (2): شركت ومضاربت كی بعض قابل تنقیح شكلیں

حلال طریقے سے مال  كمانا شرعامطلوب ہے؛ اسی لیے شریعت مقدسہ میں مختلف عقود اور معاملات كی  اجازت دی گئی ہے‏، جن میں ایك عقد  شركت بھی ہے۔جس میں مختلف صلاحیتوں والے افراد آپس میں مل كر محنت كرتے ہیں اور ہر ایك دوسرے پر اعتماد كرتے ہوئے كاروبار سے فائدہ اٹھاتا ہے ‏، اس طرح كے عقود میں دیانت وامانت اور باہمی اعتماد كوجزو لازم كی حیثیت حاصل  ہے؛ اسی لیے قرآن وسنت میں ایسے عقود میں ہر طرح كی خیانت اور فریب دہی سے بچنے كی تاكید كی گئی ہے‏،بریں بنا ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہند كے سولہویں فقہی اجتما ع میں شركت ومضاربت كی بعض قابل تنقیح شكلوں پر غور وخوض كے بعد درج ذیل امور طے كیے گئے:

  • جب بھی  متعدد افراد مشتركہ طور پر كاروبار كا ارادہ كریں تو انھیں چاہیے كہ وہ شرعی  اصول وضوابط كی روشنی میں شركت كا باقاعدہ معاہدہ كریں اور بہتر ہے كہ یہ معاہدہ تحریر ی ہو‏، اس كے بعد ہی اس سلسلہ میں پیش قدمی كی جائے اور سبھی شركاء طے شدہ معاہدہ كی پابندی كریں۔
  • مناسب ہے كہ حسی طور پر مشترك نقد سرمایہ یا مشترك اكاؤنٹ میں رقم جمع كر كے ہی شركت كا كاروبار انجام دیا جائے۔
  • اگر كسی وجہ سے مشتركہ اكاؤنٹ كے ذریعہ كاروبا ر كرنا دشوار ہو‏، تو شركاء كے الگ الگ اكاؤنٹ سے حسب معاہدہ رقم نكال كر بھی شركت كا معاملہ كیا جاسكتا ہے‏، اس لیے كہ ہر شریك تصرف میں دوسرے كا وكیل ہوتا ہے‏۔
  • (4)               شركت كے معاملےمیں اگر چہ كسی ایك شریك كو مقررہ نفع كے ساتھ الگ سےتنخواہ  دینے كی ممانعت فقہاء سے منقول ہے۔اور تن خواہ كے بجائے نفع كا تناسب بڑھا كریہ مقصد  حاصل كیا جاسكتا ہے‏، تاہم  مصلحت اور ضرورت كی بنیاد پر شركاء كی آپسی رضامندی سے شریك عامل كواس كے سرمایہ كے تناسب سے  نفع كے ساتھ مقررہ اجرت دینے كی بھی گنجائش ہے۔
  • ثالث(بروكر) كے ذریعے تجارتی مراكز وغیرہ كی خریداری كرنے كی صورت میں  اس طرح اجرت مقرر كرنا كہ جب تك وہ تجارتی مراكز  نفع دیتے رہیں گے‏،ثالث متعینہ  فیصد كےاعتبارسے ماہانہ یا سالانہ  نفع  كا حقدار  ہوگا ۔تو اس طرح  اجرت كی تعیین شرعا جائز نہیں ہے۔

نوٹ : تا ہم اگر ثالث كے لیے اولاً كوئی اجرت مقرر كی جائے اور پھر وہ اس اجرت كے عوض تجارتی مراكز كے مالكان سے از سرنو شركت كا معاملہ كرے تو وہ حسب شرائط  نفع و نقصان میں شریك ہوگا۔

  • مالك زمین وغیرہ كا اپنی زمین اس شرط كے ساتھ فروخت كرنا كہ اس میں جو بھی  سرمایہ كاری كا طریقہ اختیار كیا جائے گا‏، اس كے نفع میں وہ متعینہ فیصد كا حقدار ہوگا‏، تو  اس طرح  كامعاملہ  شریعت كے اصولوں كے خلاف اور ناجائز ہے۔
  • مضاربت كے كاروبار میں  خسارے كی صورت میں اصل حكم یہ ہے كہ اولاً حاصل شدہ مجموعی منافع سے نقصان كو پورا كیا جائے  ؛ لیكن    اگر طویل مدتی كاروبار كی وجہ سے سابقہ تقسیم شدہ منافع سے خسارہ كی تلافی كرنے میں مشكلات پیش آتی ہوں  توہرسال  كاروبار  اور موجودہ اثاثے كی مالیت كا تخمینہ  لگاكر ایك حتمی حساب  كے بعد سابقہ عقد ختم كر كے منافع تقسیم كرنا ا ور آئندہ متعینہ مدت كے لیے از سر نو  شركت ومضاربت  كے شرعی اصولوں كے مطابق معاملہ كرنا جائز ہوگا‏،اور ایسی صورت میں  گذشتہ مدت میں حاصل شدہ  نفع سے‏، بعد میں ہونے والے خسارے كی تكمیل  ضروری نہ ہوگی ۔
  • (8)               شركت كے كاروبار میں ا گرچہ  ہرشریك كو  اپنی صوابدید كے مطابق كسی بھی وقت شركت سے علاحدہ ہونے كا اختیار ہوتاہے؛ لیكن حسب ضرورت و مصلحت شركاء كسی متعینہ مدت سے پہلے شركت سے علاحدہ نہ ہونے كا آپس میں معاہدہ كرسكتے ہیں‏،نیزآپسی رضامندی سے ہر شریك كو اپنا حصہ فروخت كرنے كا حق بھی دیا جاسكتا ہے۔

تجویز (۳):   سر پر بالوں کی افزائش اور پیوندکاری کی بعض صورتیں او ر ان کا شرعی حکم

            ادارة المباحث الفقہیة جمعیة علماء ہند کے سولہویں فقہی اجتما ع میں سر پر بالوں کی افزائش اور پیوند کاری کی بعض صورتوں پر بحث وتمحیص کے بعد درج ذیل تجاویز پر اتفاق کیا گیا :

(۱)       انسان کے لیے سر پر بالوں کاوجودزینت اور جمال کے اسباب میں سے ہے، اور اس سے محرومی عیب ہے؛ لہذااگر کسی کے سرپر بال نہ رہیں تو ازالہ عیب کے لیے بالوں کی افزائش کی مباح تدبیریں اختیار کرنا جائز ہے۔

(۲)       سر پر بالوں کی افزائش کے لیے بذریعہ سرجری(ٹرانسپلانٹ) یا کسی اورطریقے سے دوسرے انسان اور خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور کے بالوں کو مستقل یا عارضی طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

(۳)       اگر سر پر بال اس طرح سے جمادئے جائیں کہ وہ بآسانی اس سے جدا نہ ہوسکیں تووہ مستقل طور پر سر کاحصہ قرار پائیں گے اور ان پر وضو میں مسح کرنا اور غسل میں پانی بہانا کافی ہوگا؛لیکن اگر اس طرح سر پر بال لگائے جائیں کہ انھیں بآسانی الگ کیا جاسکتا ہو تووہ ٹوپی کے حکم میں ہوں گے ، انھیں ہٹائے بغیر مسح یاغسل درست نہ ہوگا۔اور اس حکم میں مردو عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

(۴)      موجودہ زمانے کے فیشن کے مطابق سر کے بالوں کی بے ڈھنگے انداز میں ڈیزائننگ کرنا یاسر کے کسی حصے کے بالوں کو بالکل چھوٹا کردینا اور دوسری جانب کے بالوں کو بڑا رکھنااہل فسق سے تشبہ کی بنا پر ممنوع ہے۔نیز کالے بالوں پر سنہرا یا کوئی دوسرا رنگ چڑھانابھی پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اگر سر کے بعض حصے کو استرے سے مونڈ کر بقیہ بالوں کو چھوڑ دیا جائے تو یہ صورت قزع میں داخل ہوکر بلا شبہ ناجائز ہے۔

(۵)      اگر بالوں کو ایسے رنگ سے رنگا جائے جو بالوں تک پانی پہنچنے سے مانع نہ ہو تواس کی وجہ سے وضو، غسل اور نمازمیں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے