محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
دنیا اپنی کتابوں کی حفاظت کاغذ پر کتابت وطباعت کے ذریعے کرتی ہے اور چند نسخے تیار کرلیتی ہے مگر اللہ اپنی کتاب کی حفاظت انسانی دلوں پر نقش کرکے کرتا ہے اور یہ حافظِ قرآن دل دنیا میں چند نہیں ہوتے ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں. حفاظتِ قرآن کا یہ سلسلہ سو سال سے نہیں، دو سو سال سے نہیں بلکہ اپنے نزول یعنی تقریباً 1500 سالوں سے مسلسل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا. دنیا کی کوئی بھی مذہبی کتاب یہ دعوی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے کہ وہ تحریف اور ملاوٹ (corruption) سے پاک ہے اور اگر دعوی کردے تو ثبوت پیش نہیں کرسکتی ہے. بیشتر مذہبی کتابوں کی تو اوریجنل زبان تک غائب ہے اور اب جو کچھ بچنے کا دعوی ہے وہ کچھ ترجمہ ہے، اور ترجمہ اور اوریجنل ٹیکسٹ کے درمیان جو فرق ہوتا ہے سب پر عیاں ہے. مگر قرآن مجید جو اللہ کا کلام ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے وہ روزِ اول سے تحریف اور ملاوٹ سے پاک ہے (لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ.). خود اللہ تعالی نے اس کتاب کی حفاظت کی خبر دنیا کو دی ہے اور فرمایا ہے "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ" یعنی بلاشبہہ قرآن کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور اور ہم اس کی حفاظت ضرور کرتے رہینگے. یہ کتاب پوری دنیا میں بھر پور روشنی کے ساتھ منور ہے اور دلوں کو منور کررہی ہے. یہ انقلابی کتاب ہے. اس کے ذریعے دنیا میں امن وسکون، عدل وانصاف، خوشحالی وترقی، انسانیت ومروت، علم وعمل، تہذیب واخلاق اور حرکت وبرکت پھیلی ہے. یہ کتاب اپنے اندر معجزات اور حیران کن انکشافات کا سمندر رکھتی ہے جسکی لہریں ہمہ دم تموج میں اور ترو تازہ ہیں. اس پر کبھی پرانا پن، بوسیدگی، غیر معنویت، ازکار رفتگی، خزاں اور گہن طاری نہیں ہوسکتا ہے. جس طرح انسان کے سینے میں اس کا دل زندگی بھر ہمیشہ دھڑکتا رہتا ہے یہ کتاب بھی جسمِ دنیا کے دل میں زندگی بھر مسلسل دھڑکتی رہے گی.
اس کتاب نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی ان لوگوں کے درمیان للکار کہہ دیا جو کلام وبیان، شعر وادب کے جادوگر سمجھے جاتے تھے اور جو اپنے سوا باقی پوری دنیا کو عجمی اور گونگا کہتے تھے، اور خود کو قد آور اور باقی انسانی آبادی کو کوتاہ قد اور Lilliputian گردانتے تھے کہ اس جیسی معجز بیان کوئی کتاب پیش کردو اور ساتھ میں جناتوں کا جوڑ بھی لگا لو (قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ)، اگر کتاب نہیں تو صرف اس جیسی دس سورتیں ہی پیش کردو، (أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ). چلو اور تنزل کیا جاتا ہے اور مزید ڈھیل دی جاتی ہے لہذا تم اس جیسی صرف ایک اور صرف ایک سورہ پیش کردو. اور اگر اس پر بھی قادر نہیں ہو اور یقیناً قیامت تک قادر نہیں ہوسکوگے تو پھر یہ تسلیم کرلو کہ یہ کتاب انسانی نہیں بلکہ خدائی ہے اور خالقِ کائنات اور رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے اور تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے. (وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ)
قرآن نے یہ بلند بانگ چیلنج عرب کے ادیبوں، شاعروں، زبان وبیان کے شناوروں، بے نظیر انشاء پردازوں، اعجازِ تعبیر کے
شہسواروں، فصاحت وبلاغت کے سمندر بہانے والوں اور بول کے جادوگروں کے سامنے کیا اور چیلنج میں تنزل بھی کرتا چلا گیا. انہیں للکارا، جھنجھوڑا، عار دلائی مگر سب کی سِٹی گم ہوگئی، حواس باختہ ہوگئے، ان کے اندر کی دنیا میں ہلچل مچ گئی، ساری ادیبانہ وشاعرانہ اور قادر الکلامانہ اکڑ فوں یک لخت پچک گئی، گھِگھی بندھ گئی، سر کی آنکھیں گول گول گھومتی رہ گئیں، سر اٹھاکر چلنے کے قابل نہ رہے، کمر خمیدہ ہوگئی، پھیلتے سینے سکڑ گئے، زبانیں لڑ کھڑا گئیں اور یہ سب کیونکر نہ ہوتا جب چیلنج انسانی کلام کے لئے نہیں بلکہ خدائی کلام کے لئے تھا اور خدا کی طرف سے تھا. حق تو یہ تھا اور انصاف وعقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ جغادری قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرلیتے، اس پر ایمان لاتے اور اسے اپنی زندگی کی گائڈ بک اور ہدایت نامہ بنالیتے، اس کی تعلیمات کو زندگی میں داخل کرلیتے اور دائمی فلاح ومسرت سے اپنے دامن کو بھر لیتے.
قرآن کا جو چیلنج اور للکار اور لگائی گئی بلند آواز 1500 سو سال پہلے آسمان سے نازل ہوئی تھی وہ آج بھی بدستور باقی ہے اور تاقیامت باقی رہے گی. پوری دنیا بھی ملکر اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے اور چشم زدن بھر کے لئے بھی اس کے مقابلے کی تاب نہیں لاسکتی ہے.
جب کتاب خدائی ہے، کلام اللہ کا ہے اور اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت بھی اسی کی جانب سے ہے تو کون مائی کا لال ہے جو اس کے ایک لفظ کا ہیر پھیر کردے، ایک حرف کو بدل سکے، 26 آیتیں تو دور ایک آیت بھی قرآن سے نکال سکے؟ کیا دنیا کے سارے کاغذی نسخوں کو ختم کرنا ممکن ہے؟ اگر بالفرض کوئی ختم بھی کردے تو کیا کروڑوں انسانی دلوں کی تختیوں سے بھی اسے کھرچ کر محو اور حذف کردینا ممکن ہے؟ کیا بوڑھے، کیا جوان اور کیا بچے! ہر طبقے اور عمر کے لاکھوں کروڑوں سینے ہیں جو قرآن کے محفوظ سفینے ہیں اور انہیں مٹانے کا دعوی کرنے والے بلاشبہہ ناکام ونامراد کمینے ہیں. ساری دنیا مل کر اور کاغذی شیر بن کر اگر کاغذ کی سطح سے قرآن کو مٹا بھی دے تب بھی قرآن کروڑوں کے سینوں میں باقی رہے گا اور وہ جب چاہینگے بآسانی اسے reproduce کرسکینگے اور اپنے سینوں سے سینکڑوں کروڑوں قرآنی نسخے تیار کرادینگے. یہ ہے قرآن کا زندہ معجزہِ حفاظتِ قرآن! ابھی اس کے دیگر سینکڑوں معجزے تو الگ رہے. قرآن کے معجزوں کا حال تو یہ ہے کہ القرآن لاتنقضي عجائبه یعنی قرآن کے معجزات کے سمندر کا دائرہ برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا.
محض 27 دنوں کے بعد رمضان ماہِ قرآن آرہا ہے جس میں دنیا دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتی ہے کہ حفاظتِ قرآن کا منظر کیا ہوتا ہے؟ چھوٹے چھوٹے بچے کس برق رفتاری، سلاست، اور خوبصورت آواز سے قرآن کے نغموں سے مسجدوں میں سامعین کو متحیر ومسحور کرتے ہیں!
بڑے خوش قسمت ہیں وہ والدین جنہوں نے اپنے بچوں کو حفاظتِ قرآن کے سپاہی بنائے اور دنیا کے ذلیل وکمتر مقاصد سے مرعوب نہیں ہوئے. بڑے خوش بخت ہیں وہ اساتذہ اور اداروں کے ذمہ داران جنہوں نے قرآن کی حفاظت کے لئے بچوں کو تیار کیا اور انہیں آسانیاں فراہم کیں. بڑے خوش طالع ہیں ملت کے وہ افراد جنہوں نے حفاظتِ قرآن کے لئے حفاظِ قرآن تیار کرنے کی خاطر اپنے مال واسباب کو نچھاور کردیا. بڑے خوش مقدر ہیں وہ لوگ جو قرآن کی حفاظت اور دفاع کے لئے تڑپ اٹھتے ہیں، اپنی زبان وقلم اور دیگر وسائل کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں. خدا ان سب کو اپنی شایانِ شان جزائے خیر دے اور حفاظتِ قرآن کے صدقے میں ان سب کی مغفرت فرماکر ان پر اپنی دنیوی واخروی نعمتوں کی بارش کردے!
مورخہ 17 مارچ، 2021