مولانا ضیاء الحق خیرآبادی ( حاجی بابو)
مولانا کی ولادت ٦ دسمبر ١٩٤٩ء میں گلہریا ،ضلع بستی میں ہوئی۔ نام: نثار احمد بن محمد صالح بن حکم دار ہے۔ مولانا کے دادا حکم دار صاحب علاقہ کے زمیندار اور ایک ذی حیثیت شخص تھے ۔ پرائمری کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی ، استاذ منشی محمد شائق صاحب تھے ۔ ١٩٦٠ء کے قریب پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسہ مصباح العلوم برگدوا میںحافظ سعادت حسین صاحب کے یہاں حفظ کا آغاز کیا ،بارہ تیرہ پارہ پڑھنے کے بعد چیچک کی وجہ سے بینائی متاثر ہوگئی ،جس کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی رائے ہوئی حفظ کی تعلیم ترک کردی جائے۔ چنانچہ حفظ چھوڑ کر وہیں مولانا اور ان کے بڑے بھائی نے مولانا شفیع اﷲ صاحب سے فارسی شروع کی ، اور اس کے بعد انھیں سے عربی اول پڑھ کر ١٩٦٣ء میں مدرسہ نور العلوم بہرائچ چلے گئے ، جہاں عربی دوم میں داخلہ لیا ۔ وہاں عربی دوم سے لے کر عر بی ششم تعلیم حاصل کی ، یہاں کے اساتذہ میں مولانا سلامت اﷲ صاحب (صدر المدرسین ) اور مولانا حبیب احمد صاحب اعمیٰ وغیرہ ہیں ۔ رفقاء درس میں مولانا حیات اﷲ صاحب( سابق صدر جمعیة علماء یوپی) اور مولانامجیب اﷲ صاحب گونڈوی مدظلہ ( استاذ اردارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠ئ) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا ، دارالعلوم کے ذہین اور ممتاز طلباء میں سے تھے ، مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی سے خاص استفادہ کیا ۔ شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢ئ)میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔ دورہ کے ساتھیوں میں مذکورہ بالا دو حضرات کے علاوہ مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی ، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی) مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد شوال ١٣٩٢ھ سے اب تک مسلسل بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امسال شوال ١٤٤٢ھ میں اس پر پورے پچاس سال یعنی نصف صدی مکمل ہوگئی، جس پر مولانا کو ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ فراغت کے بعد آٹھ سال تک دارالعلوم میل کھیڑ لا راجستھان میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعدسے اب تک بحیثیت رئیس الاساتذہ دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پورے زور وشور کے ساتھ آپ کے علوم ومعارف کا فیضان جاری وساری ہے، یہاں جلالین شریف تیس سال سے زائد عرصہ سے پڑھارہے ہیں ، کہتے ہیں کہ بچپن کاحفظ قرآن جو بینائی کی وجہ سے ترک کرنا پڑا تھا اس کی برکت سے تقریباً یاد ہوگیا۔ اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے ۔
مولانا مصلح الدین صاحب ، مولانا مفتی محمد افضل صاحب (اساتذۂ دارلعلوم دیوبند) اور مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی ندوی وغیرہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں ۔
مولانا کا اصلاحی تعلق مولانا مسیح اﷲ خاں صاحب ، مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی اور مولانا سید اسعد صاحب مدنی کے خلیفہ مولانا عبدالرحیم صاحب سے رہا ہے ، آخرالذکر سے آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہے ۔
مجھے تقریباً ٢٠ سال سے مولانا موصوف سے شرفِ نیازاور ان کی بے انتہا شفقتیں حاصل ہے ، ایک دو بار از راہ کرم مولانا میرے گھر بھی تشریف لائے ،اور میں تو متعدد باران کے یہاں حاضر ہوا ، جب بھی حاضر ہوا بے انتہا اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ بغیر جود وکرم اور بخشش وعطایا کے واپسی ہوئی ہو۔جب کبھی مولانا سے کسی تحریر کی فرمائش کی فوراً لکھ کر دیدی۔ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے مجموعۂ مکاتیب ”حدیث دوستاں ” خود نوشت ” حکایت ہستی ” اور سفر نامہ حج ” بطواف کعبہ رفتم ” پر مولانا کی تحریریں ملاحظہ ٍکی جاسکتی ہیںجو ادبِ عالیہ کا شاہکار ہیں ۔اس کے علاوہ مولانا کے متعدد خطوط بھی ماہنامہ ضیاء الاسلام میں شائع ہوئے ہیں جو ادب ونشاء کا ایک نمونہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری بھی انتہائی زوردار ہے ، معلوم نہیں اس کی حفاظت کا وغیرہ کا کوئی نظم کیا گیا ہے یا نہیں؟ ورنہ ہمارے علماء کے باقیات علم کا انجام عموماً کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی دارالعلوم بستی گئے تھے تو مولانا نے برجستہ سات اشعار کی ایک نظم کہی تھی جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے ، ہوسکتا ہے کہ پوری نظم مولانا کی کسی ڈائری میں محفوظ ہو، وہ شعر یہ ہے
گفتگو اعجاز ہے ، علم وعمل اعجاز ہے صاحبِ اعجاز، واعجاز ہی اعجاز ہے
مولانا کا انتقال 16 مارچ 2021 مطابق 2 شعبان 1442 کو ہوا۔