حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقتِ رخصتی

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

حضرت عائشہ کی عمر بوقتِ رخصتی 9 ہے. 19 یا 16 وغیرہ کہنا انتہائی واہیات بات ہے

  1. اصولی طور پر احادیثِ صحیحہ میں مذکور خبر علمِ قطعی کا فائدہ دیتی ہیں اور اگر کسی تاریخی کتاب میں بات اس کے معارض ہو تو اس تاریخی کتاب کی بات احادیثِ صحیحہ کے مقابلے میں خس وخاشاک کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے. اور اس کی جو وجہ ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے. اس اعتبار سے بھی بخاری ومسلم وغیرہ میں مذکور حضرت عائشہ کی 9 سالہ عمر بوقت رخصتی کے مقابلے میں کسی طبری وغیرہ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے.
  2. حضرت عائشہ کی 9 سالہ عمر بوقتِ رخصتی پر امت کا اجماع ہوچکا ہے اور امت کا اجماع معصوم عن الخطاء ہے بوجہ حدیث لاتجتمع أمتي على الضلالة.
  3. نزولِ اسلام کے وقت 9 سالہ لڑکیوں کی شادی عربوں میں خوب رائج تھی اور قابلِ اعتراض ہرگز نہ تھی. اور اسی وجہ سے اس وقت کے دشمنانِ اسلام نے اس کو قابلِ اعتراض نہ جانا ورنہ واقعہِ افک کی طرح قرآن نازل ہوجاتا. اس اعتبار سے بھی حضرت عائشہ کی 9 سالہ رخصتی قابلِ اعتراض نہیں ہے.
  4. نبی کے سارے اہم کام وحیِ الٰہی سے monitor ہوتے تھے لہذا 9 سال کی عمر میں حضرت عائشہ سے نکاح بھی وحیِ الہی کی وجہ سے تھا اور نبی چونکہ معصوم ہوتا ہے لہذا یہ عمل قابلِ اعتراض ہرگز نہیں ہے بلکہ مسلمان کے لئے ایسا لمحہ بھر کے لئے سوچنا بھی ایمان سوز ہے.
  5. شریعتِ اسلامیہ میں لڑکی یا لڑکے کا نکاح ولادت کے فوراً بعد بھی درست ہے. البتہ شادی شدہ لڑکی کے ساتھ صحبت قبلِ استطاعت یعنی مراہقت یا بلوغ (اقلِ مدت 9 سال) سے پہلے درست نہیں ہے. حضرت عائشہ کی رخصتی اس معیار پر بھی کھری اترتی ہے.
  6. جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں احادیث میں عمرِ نکاح بیان کرتے ہوئے عربی میں 6 یعنی سِت اور عمرِ رخصتی 9 یعنی تسع مذکور ہے وہاں دہائی یعنی عشرۃ کا لفظ رہ گیا ہے وہ دشمنانِ اسلام سے سخت مرعوبیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں کیونکہ اگر انہوں نے وارد کلمات پر ذرا بھی غور کیا ہوتا تو یہ بات هباءا منثورا نظر آتی اور خود پر بے ساختہ ہنسی آتی. تفصیل میں گئے بغیر مختصراً پہلے میں احادیث میں مذکور وہ الفاظ نقل کرتا ہوں:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ… (رواه البخاري)

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا ، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ (رواه مسلم)

قارئین مذکورہ بالا احادیث میں وارد الفاظ کو اگر صرف عربی گرامر کے اعتبار سے بھی دیکھیں تو اس بات کی لغویت واضح ہوجاتی ہے کیونکہ راوی سے اگر بھول کر عشرة کا لفظ چھوٹا ہوتا تو آگے معدود میں لفظ سنين نہ ہوتا بلکہ لفظ سنةً ہوتا مگر تمام احادیث میں لفظ سنين ہی ملتا ہے. نیز کیا کلامِ عرب میں اس طرح عشرة کو چھوڑ کر لکھنے یا بولنے کا رواج تھا؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں. اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ہے.

میں دعاء لکھتا رہا اور وہ دغا پڑھتا رہا

  1. تمام محدثین اور شراحِ حدیث میں سے کسی ایک نے بھی ان احادیث کی شرح میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ روایات میں تضاد ہے یا رخصتی کی عمر 9 نہیں بلکہ 19 وغیرہ تھی. کیا سب سے، ساری امت سے غلطی ہوتی چلی گئی؟
  2. اگر فرض کرلیا جائے کہ لفظ عشرة راوی سے رہ گیا اور سنةً بھی غلطی سے سنين میں بدل گیا تو سوال یہ ہے کہ پھر کوئی کھڑا ہوکر یہ پکار اٹھے کہ قرآن کی فلاں فلاں آیات میں جو اعداد مذکور ہیں ان میں فلاں فلاں عدد نقل کرنے سے رہ گیا ہے تو کیا اس کی بات درست کہی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں.
  3. جہاں تک بات اس کی ہے کہ اگر ہم نے کوشش کرکے 9 کو 19 ثابت کردیا تو اسلام دشمنوں کے بہت بڑے اعتراض سے بچ جائینگے تو یہ ذہنیت سخت جان لیوا ہے اور اس کے نقصانات لامتناہی ہیں کیونکہ دشمنانِ اسلام تو پورے اسلام کو ہی نشانہ بناتے ہیں. ہم تو ان کی رضامندی کے لئے احادیثِ صحیحہ میں سے ایک حدیث کی بھی تکذیب یا جان بوجھ کر غلط تاویل نہیں کرسکتے ہیں.

خلاصہ یہ کہ مضبوط دلائل، احادیثِ صحیحہ میں وارد صریح عمر، احادیثِ صحیحہ میں وارد رخصتی کے وقت گڑیوں سے کھیلنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے پیچھا انہیں کھڑی کرکے مدینے میں کھیل دکھانے کی روایات کے تقاضے اور اجماعِ امت کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقتِ رخصتی 9 سال ہی تھی. 19 کی بات تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے.

دشمنانِ اسلام عمر کے بارے میں احادیث کی تغلیط کے ذریعے دور رس اسکیمیں اور سازشیں رکھتے ہیں. لہذا ہمیں چاہئے کہ اسلام دشمنوں، مستشرقین اور مغاربہ کی باتوں سے بلاوجہ مرعوب ومتاثر نہ ہوں، ان کے گستاخانہ خاکوں پر معقول دلائل کے ذریعے خاک ڈالیں، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی 9 سالہ رخصتی بوقتِ نکاح کا دفاع کریں اور اسے معقول طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں. دشمنوں کی سازشوں اور مکر کو سمجھیں. احساس، ادراک اور باشعوری کی ضرورت ہے.

مورخہ 10 مارچ، 2021

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے