عیادت کے لئے ایک سفر
مولانا ضیاء الحق خیرآبادی ( حاجی بابو)
9235327576
دوتین ہفتے قبل یہ تکلیف دہ خبر ملی کہ معروف عالم دین مولانا نثار احمد صاحب قاسمی بستوی ( صدر المدرسین دارالعلوم الاسلامیہ بستی ) پر فالج کا اٹیک ہوگیا ہے اور گورکھ پور کے کسی ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہیں ۔ مولانا موصوف میرے استاذ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کے مخلص دوست اور میرے مشفق وکرم فرما بزرگ ہیں۔ بہترین مدرس ، اچھے خطیب ، اعلیٰ درجہ کے ادیب وشاعر اور نثرنگار ہیں ، اور سب سے بڑھ کرخلوص ووفا کے پیکر، اپنے متعلقین کے بے حد قدرداں اور ٹوٹ کے چاہنے اور نہایت کشادہ دست اورفیاض وسخی انسان ہیں ۔ میں تعبیر پر اپنی نارسائی کی وجہ سے جو کچھ کہنا چاہتا ہوںکہہ نہیں پارہا ہوں ، بس یہ سمجھ لیں کہ مولانا نے کچھ ایسی موہنی شخصیت پائی ہے کہ دل میں ان کے لئے ایک خاص کشش پاتا ہوں اور حاضری تو کبھی کبھار ہی ہوپاتی ہے لیکن حاضری کا جذبہ ہمہ وقت موجزن رہتا ہے ۔رودادِ سفر سے پہلے چاہتا ہوں کہ مولانا کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کردوں، اس لئے کہ بستی وگورکھ پوراور اس کے اطراف ومضافات میں تو مولانا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ، لیکن ہمارے اطراف میں بہت سے لوگ مولانا سے واقف نہیں ہیں ۔
مولانا نثار احمد صاحب قاسمی ، مختصر تعارف :
مولانا کی ولادت ٦ دسمبر ١٩٤٩ء میں گلہریا ،ضلع بستی میں ہوئی۔ نام: نثار احمد بن محمد صالح بن حکم دار ہے۔ مولانا کے دادا حکم دار صاحب علاقہ کے زمیندار اور ایک ذی حیثیت شخص تھے ۔ پرائمری کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی ، استاذ منشی محمد شائق صاحب تھے ۔ ١٩٦٠ء کے قریب پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسہ مصباح العلوم برگدوا میںحافظ سعادت حسین صاحب کے یہاں حفظ کا آغاز کیا ،بارہ تیرہ پارہ پڑھنے کے بعد چیچک کی وجہ سے بینائی متاثر ہوگئی ،جس کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی رائے ہوئی حفظ کی تعلیم ترک کردی جائے۔ چنانچہ حفظ چھوڑ کر وہیں مولانا اور ان کے بڑے بھائی نے مولانا شفیع اﷲ صاحب سے فارسی شروع کی ، اور اس کے بعد انھیں سے عربی اول پڑھ کر ١٩٦٣ء میں مدرسہ نور العلوم بہرائچ چلے گئے ، جہاں عربی دوم میں داخلہ لیا ۔ وہاں عربی دوم سے لے کر عر بی ششم تعلیم حاصل کی ، یہاں کے اساتذہ میں مولانا سلامت اﷲ صاحب (صدر المدرسین ) اور مولانا حبیب احمد صاحب اعمیٰ وغیرہ ہیں ۔ رفقاء درس میں مولانا حیات اﷲ صاحب( سابق صدر جمعیة علماء یوپی) اور مولانامجیب اﷲ صاحب گونڈوی مدظلہ ( استاذ اردارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠ئ) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا ، دارالعلوم کے ذہین اور ممتاز طلباء میں سے تھے ، مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی سے خاص استفادہ کیا ۔ شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢ئ)میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔ دورہ کے ساتھیوں میں مذکورہ بالا دو حضرات کے علاوہ مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی ، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی) مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد شوال ١٣٩٢ھ سے اب تک مسلسل بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امسال شوال ١٤٤٢ھ میں اس پر پورے پچاس سال یعنی نصف صدی مکمل ہوگئی، جس پر مولانا کو ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ فراغت کے بعد آٹھ سال تک دارالعلوم میل کھیڑ لا راجستھان میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعدسے اب تک بحیثیت رئیس الاساتذہ دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پورے زور وشور کے ساتھ آپ کے علوم ومعارف کا فیضان جاری وساری ہے، یہاں جلالین شریف تیس سال سے زائد عرصہ سے پڑھارہے ہیں ، کہتے ہیں کہ بچپن کاحفظ قرآن جو بینائی کی وجہ سے ترک کرنا پڑا تھا اس کی برکت سے تقریباً یاد ہوگیا۔ اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے ۔
مولانا مصلح الدین صاحب ، مولانا مفتی محمد افضل صاحب (اساتذۂ دارلعلوم دیوبند) اور مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی ندوی وغیرہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں ۔
مولانا کا اصلاحی تعلق مولانا مسیح اﷲ خاں صاحب ، مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی اور مولانا سید اسعد صاحب مدنی کے خلیفہ مولانا عبدالرحیم صاحب سے رہا ہے ، آخرالذکر سے آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہے ۔
مجھے تقریباً ٢٠ سال سے مولانا موصوف سے شرفِ نیازاور ان کی بے انتہا شفقتیں حاصل ہے ، ایک دو بار از راہ کرم مولانا میرے گھر بھی تشریف لائے ،اور میں تو متعدد باران کے یہاں حاضر ہوا ، جب بھی حاضر ہوا بے انتہا اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ بغیر جود وکرم اور بخشش وعطایا کے واپسی ہوئی ہو۔جب کبھی مولانا سے کسی تحریر کی فرمائش کی فوراً لکھ کر دیدی۔ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے مجموعۂ مکاتیب ”حدیث دوستاں ” خود نوشت ” حکایت ہستی ” اور سفر نامہ حج ” بطواف کعبہ رفتم ” پر مولانا کی تحریریں ملاحظہ ٍکی جاسکتی ہیںجو ادبِ عالیہ کا شاہکار ہیں ۔اس کے علاوہ مولانا کے متعدد خطوط بھی ماہنامہ ضیاء الاسلام میں شائع ہوئے ہیں جو ادب ونشاء کا ایک نمونہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری بھی انتہائی زوردار ہے ، معلوم نہیں اس کی حفاظت کا وغیرہ کا کوئی نظم کیا گیا ہے یا نہیں؟ ورنہ ہمارے علماء کے باقیات علم کا انجام عموماً کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی دارالعلوم بستی گئے تھے تو مولانا نے برجستہ سات اشعار کی ایک نظم کہی تھی جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے ، ہوسکتا ہے کہ پوری نظم مولانا کی کسی ڈائری میں محفوظ ہو، وہ شعر یہ ہے
گفتگو اعجاز ہے ، علم وعمل اعجاز ہے صاحبِ اعجاز، واعجاز ہی اعجاز ہے
خیر! اب سفر کی روداد کی طرف آتا ہوں ، جب مولانا کی علالت کا علم ہوا تو اسی وقت سے عیادت کے لئے جانے کاارادہ تھا جو امروز وفردا پر ٹلتا رہا ۔جمعہ کے روز عزیزم مولانا عرفات سلّمہ( مدرس جامعہ اسلامیہ دسہری باغ گورکھناتھ ، گورکھپور ) اور ان کے رفیق درس مولانا شمس عالم سلّمہ میرے گھر آئے ، میں نے ان سے اپنے ارادہ کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ میں شمس عالم کی کار سے آیا ہوں ، اتوا ر کی صبح کو ہم دونوں گورکھ پور واپس ہوں گے ، آپ بھی چلیں ،وہاں سے میں بھی عیادت کے لئے ساتھ چلوں گا ۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ اس سے بہتر بات کیا ہوسکتی ہے ، تم لوگوں کا ساتھ اور پھر اپنی سواری ، چنانچہ اتوار کی صبح اپنی فجر کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلے ، اور بڑھل گنج عزیزم مولوی ڈاکٹر مکرم سلّمہ کے یہاں تھوڑی دیر رکے ، ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر معظم صاحب استاذی مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی سے گہرا عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے ، اور اب ان کے متعلقین کے ساتھ بھی وہی محبت وتعلق کا معاملہ ہے۔یہاں سے چل کر ساڑھے نوبجے گورکھ پور جامعہ اسلامیہ پہنچ گئے ۔ان دونوں مخلص عزیزوں کی رفاقت کی وجہ سے سفر بڑا خوشگوار رہا۔جزاھما اﷲ احسن الجزا
یہ مدرسہ گورکھ پور کے مشہور گورکھناتھ مندر سے بالکل متصل ہے ، چند سال پہلے تک یہ محض ایک مکتب تھا، پانچ سال قبل وہاں کے ذمہ داروں نے یہ ادارہ گورکھ پور کے ایک جواں سال عالم ، پُر عزم ، باحوصلہ اور متحرک وفعال شخصیت مولانا مفتی مطیع الرحمن صاحب قاسمی ندوی کے حوالہ کیا ، تعلیمی حوالہ سے گورکھ پور میں مولانا کی بڑی قابل قدر اور لائق تحسین خدمات ہیں ، اور مستقبل میں ان سے امت مسلمہ کو بڑی توقعات وابستہ ہیں ۔ ان کی شخصیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان پراور ان کی خدمات پر مستقل ایک مضمون لکھا جائے ۔ ادارہ کی باگ ڈور جب مفتی صاحب نے سنبھالی تو حفظ کے ساتھ عربی تعلیم بھی شروع کی ،اورہر سال ایک ایک جماعت کا اضافہ کرتے رہے، اس وقت عربی چہارم تک تعلیم ہے ، حالات سازگار رہے تو اگلے سال عربی پنجم تک تعلیم متوقع ہے ، میں نے مسلسل کئی سال تک سالانہ امتحان کے موقع پر تحریری وتقریری امتحان لیا ہے ،تعلیم اطمینان بخش ہے۔
گھر سے روانہ ہوتے وقت میں نے مفتی صاحب کو فون کرکے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا توانھوں نے کہا کہ میں بھی مولانا کی عیادت کے لئے چلنا چاہتا ہوں ، اس سے بہتر بات کیا ہوسکتی تھی کہ مفتی صاحب کی رفاقت اور قیادت ورہنمائی میں یہ سفر ہو، یہ طے ہوا کہ ظہر کے بعد تین بجے گورکھ پور سے نکلیں اور رات نو دس بجے تک واپسی ہوجائے۔ جامعہ اسلامیہ میں مولانا محمد شعیب صاحب گورکھ پوری بھی پڑھاتے ہیں جو شیخوپور کے سابق طالب علم ہیں ، شیخوپور کے بعد دیوبند وجامعہ ملیہ وغیرہ میں تعلیم حاصل کرکے ایک طویل عرصہ تک سعودی عرب کے شہر الخرج میں وہاں کی یونیورسٹی میں ترجمہ کے شعبہ میں رہے ،اردو سے عربی و انگریزی ترجمہ میں اکسپرٹ ہیں ۔ مولانا سے ملاقات ہوئی، انھیں ہمارا پروگرام معلوم ہوا تو وہ بھی آمادۂ سفر ہوگئے ،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مدرسہ سے قریب ہی مولانا شعیب صاحب کا مکان ہے ، میں نے وہیں جاکر کچھ دیر آرام کیا ۔ وہیں میرے عزیز شاگرد مولانا صبیح الحسن صاحب گورکھ پوری آئے اور اپنے گھر لے گئے ، یہ ایک باذوق وصاحب مطالعہ شخص ہیں ، زبان وادب کا نہایت ستھرا مذاق رکھتے ہیں ،شوقِ مطالعہ کے ساتھ ذخیرۂ کتب کا بھی مزاج ہے ، صرف پڑھنے ہی کا نہیں دوسروں سے پڑھوانے کا بھی ہنر جانتے ہیں ، یہ ذوق مولانا افضال الحق صاحب جوہر قاسمی کے فیض صحبت سے پیدا ہوا ، ان سے پڑھ کر وہ شیخوپور پہنچے تھے ۔ اس وقت انھوں نے اپنی محسن استاذ کی یاد میں اپنے رفقاء کے تعاون سے چلماپور ، گورکھ پور میں ایک لائبریری ” جوہر قاسمی لائبریری ” کے نام سے قائم کی ہے، اس سلسلے میں ان کے عزائم بہت بلند ہیں ، اﷲ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے اس کی تکمیل کا سامان پیدا فرمائیں، اسباب کے درجہ میں اہل علم واہل ثروت کو اس کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
ان کے رفقاء درس میں مفتی محمد کلیم گورکھ پوری اور مولوی انور گورکھ پوری بھی اسی ذوق ومزاج کے حامل ہیں ، یہ تینوں افراد اس قافلۂ علم کے بنیادی افراد میں سے ہیں ۔ ان کے گھر پہنچا تو مولوی انور اور مولوی فہیم بیلی پار بھی ملاقات کے لئے آگئے تھے ، لائبریری کے تعلق سے اور دوسرے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ مولوی فہیم صاحب مدرسہ شیخ الہند انجان شہید میں مدرس ہیں ، اور اچھا لکھنے والوں میں سے ہیں ۔ ان کی ترتیب دی ہوئی کئی کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی ایک قلت وسائل کی وجہ سے طباعت کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔ ابھی حال میں انھوں نے معروف عالم وادیب مولانا سعیداحمد صاحب اکبرآبادی ( سابق مدیر برہان ) کے اسفار کو جو برہان کی چالیس پینتالیس سالہ فائلوں میں بکھرے ہوئے تھے کتابی شکل دینے کی ہمت کی ہے ، مجھے ان کے اس کام پر بڑی مسرت ہوئی ، عرصہ سے میری خواہش تھی کہ کاش کوئی باہمت انسان اٹھے اور اسے سلیقہ سے مرتب کردے ، یہ کام موصوف نے بڑے سلیقہ سے انجام دیا ہے جو تقریباً ٦٥٠ صفحات پر مشتمل ہے ، اور تکمیل کے بالکل آخری مراحل میں ہے ۔ اسی کے بارے میں وہ کچھ مشورہ کرنے کے لئے آئے تھے ، ان شاء اﷲ یہ کتاب چند ماہ میں قارئین کے سامنے ہوگی ، اور یہ گمشدہ جواہر پارے اور نادر معلومات جن کو دیکھنے کے لئے اہل علم کی نگاہیں کی ایک عرصہ سے ترس رہی تھیں، اس کی اشاعت یقینا بہت سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔
یہاں سے کھانا کھاکر مفتی صاحب کے ایک دوسرے تعلیمی ادارہ ”ماؤنٹ سینا ” آیا، یہ برج کورس کے طرز کا ادارہ ہے ، حفظ اور عربی کے ساتھ انگریزی تعلیم کا بہترین نظم ہے۔ یہیں سے سواتین بجے میں ، مفتی مطیع الرحمن]ان کا بچہ محمد سلّمہ[،مولانا عرفات ، مولانا شعیب ، اور حافظ عامل اختر (مدرس جامعہ اسلامیہ) روانہ ہوئے ، حافظ عامل اختر صاحب کا گھر مولانا نثار صاحب کے گاؤں سے بالکل متصل ایک گاؤں میں ہے ، ان کی وجہ سے راستہ کی رہنمائی کا مسئلہ بطریق احسن حل ہوگیا ۔ مولانا شعیب صاحب جتنے اچھے مترجم اور مدرس ہیں اتنے اچھے اور ماہر ڈرائیور بھی ہے ، انھیں کی سوّاقی میں ساڑھے پانچ افرادکا یہ قافلہ روانہ ہوا، ساڑھے پانچ اس لئے کہ محمد سلّمہ ابھی نصف سے بھی کچھ کم ہے۔ مولانا کا وطن گلہریا مہنداول سے چار کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ گورکھ پور سے یہاں جانے کے لئے دو راستے ہیں ، ایک خلیل آباد سے ہوکر ، دوسرا کمپیرگنج سے ہوکر ، کمپیر گنج والا راستہ بہتر بھی تھا اور مسافت بھی پہلے کی بہ نسبت کم تھی ، اس لئے اسی راستے سے جانا طے ہوا ۔ چونکہ عصر تک ہم لوگ مولانا کے یہاں پہنچ جانا چاہ رہے تھے ، اس لئے کہیں رکے نہیں ،جب کمپیرگنج سے گزر رہا تھا تو اس کا شدید احساس تھا کہ یہاں پہنچ کر مفتی حمزہ صاحب سے ملے بغیر چلے جانا ایک طرح کی جسارت ہی ہے ، لیکن وقت کی تنگی کی وجہ سے نہ جانے کتنی ناگواریوں کو انگیز کرنا پڑتا ہے ، یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
مولانا نثار احمد صاحب کے بھانجے مولوی عقیل صاحب مسلسل رابطے میں تھے ، فالج کے بعد سے وہی مولانا سے رابطہ کا ذریعہ ہیں، ان سے بتادیا تھا کہ پانچ بجے تک ہم لوگ پہنچیں گے۔ مہنداول سے گزرنے کے بعد مولانا کے گاؤں سے متصل روڈ پر ایک مدرسہ شرح العلوم ہے ، وہیں عصر کی نماز پڑھ کر مولانا کی خدمت میں پہنچے ۔ یہ سفر گزشتہ اسفار سے بڑا مختلف تھا ، دل مختلف قسم کے وساوس وافکار کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ، کہ نہ جانے مولانا کو کس حال میں دیکھیں گے ؟ جب کمرے میں داخل ہوئے تودیکھا کہ ایک صاحب کے سہارے مولانا بیٹھے ہوئے تھے ، ایک دوسرے صاحب پانی پلارہے تھے، ہم لوگوں نے سلام کیا، لیکن مولانا نے شاید سنا نہیں ، پھر میں نے بالکل قریب جاکر سلام کیا تو فوراً پہچان گئے ، جواب دیا ، میں نے خیریت پوچھی تو اس حال میں بھی برجستہ لیکن معذوری کی وجہ سے رک رک کر یہ شعر پڑھا
کاٹ کر زباں میری کہہ رہا تھا وہ قاتل
اب تجھے اجازت ہے حالِ دل سنانے کی
زبان بہت صاف تو نہیں تھی لیکن غور کرنے پر بات سمجھ میں آجاتی تھی، بات کرتے ہوئے اپنی معذوری پر مولانا آبدیدہ ہوگئے اور پہلے آہیں پھر سسکیاں شروع ہوگئیں ، اتنے بڑے عالم کے سامنے میں کیا کہتا ،بہرحال کچھ نہ کچھ تسلی کے کلمات کہتا رہا ، جس کے بعد مولانا پرسکون ہوگئے ۔ پھروقفہ وقفہ سے کچھ نہ کچھ باتیں کرتے رہے۔ میں نے ان کے تعلیمی احوال کے بارے میں کچھ سوالات کئے ، الحمدﷲ باتیں یاد ہیں ، رک رک کر سب کا جواب دیا ، میں نے ان کو نوٹ کرلیا اور اسی کی روشنی میں تعارفی خاکہ لکھا ۔ مغرب تک ان کی خدمت میں بیٹھے رہے، اسی دوران چائے وغیرہ سے ہم لوگوں کی ضیافت کی گئی۔ اذان کے وقت یہ کہہ کر اٹھے کہ نماز کے بعد آپ کے دوست مولانا حکیم محمد ساجد صاحب سے مل کر آتے ہیں ۔ مغرب کی نماز حکیم صاحب کی مسجد میں پڑھی گئی ، حکیم صاحب مولانا نثار صاحب کے ہم عمر اور ان سے دو سال پہلے ١٩٧٠ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے تھے ، پھر چار سال طبیہ کالج میں رہے ۔ صاحب استعداد عالم اور ایک اچھے طبیب ہیں ، تھوڑی دیرکی اس مجلس میں مولانا کے طبی افادات سے کافی مستفید ہوئے ۔ مولانا نثار صاحب کی زبان سے آپ کا ذکر خیر بارہا سنا تھا ، ملاقات کی نوبت اب جاکر آئی ، حکیم صاحب ہمارے دوست مولانا نجیب اﷲ صاحب ( جمعیة علماء ہند دہلی ) کے خسر ہیں ، اس نسبت سے بھی تعارف تھا ۔ آدھ پون گھنٹہ حکیم صاحب کی خدمت میں رہ کراحساسِ تشنگی لے کر واپس ہوئے کہ کاش ہمارے پاس کچھ اور وقت ہوتا تو مزید استفادہ کرتے۔
حکیم صاحب کے یہاں سے پھر مولانا کی پاس آئے ، ان سے اجازت لے کر حافظ عامل اختر صاحب کے گھر آئے ، ان کے والد گرامی اور برادران منتظر تھے ، یہاں کھانا کر گورکھ پور واپس ہوئے ، ساڑھے نو بجے مدرسہ پہنچ کر عشاء کی نماز ادا کی ، دن بھرکے تھکے ماندے سوئے تو پھر ایک ہی کروٹ میں چار بجے اٹھے ۔ پونے چھ بجے ٹرین تھی ، اس لئے وقت ہوتے ہی فجرکی نماز ادا کی ، اس کے بعد عزیزی عرفات سلّمہ نے چائے پلائی ، اور ایک طالب علم کامران سلمہ نے اسٹیشن پہنچایا ، پونے چھ بجے چل کر پونے نو بجے مئو پہنچے ۔ ٹرین بالکل خالی تھی ، مئو تک روداد سفر کا اکثر حصہ لکھ لیا ، اس کے بعد اے سی والی بس مل گئی، اس میں بھی لکھنے کا موقع مل گیا ، اس طرح گھر پہنچنے سے پہلے ہی یعنی تکمیل سفر سے کچھ لمحہ قبل ہی ردواد سفر مکمل ہوگئی۔ الحمدﷲ علیٰ ذلک