علامہ محمد حسين بہاری استاذ دارالعلوم دیوبند

مولانا بدر الحسن القاسمی (کویت)

سابق استاذ دارالعلوم دیوبند

استاد گرامی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی نے متعدد اساتذہ دارالعلوم کے بارے میں ايك ايك ظریفانہ شعر كها تھا مولانا محمد حسین بہاری کے بارے میں شعر تھا:
در بغل دارد بہاری صد بہار بےخزا ں
از سجستانی ستاند فقہ شاہ انس و جاں
وہ اساتذہ جن سے پڑھ کر اور ان سے شرف تلمذ حاصل کرکے آدمی فخر محسوس کرے اور شاگردی کی نسبت کا برملا اظہار کرسکے کم ہی میسر آتے ہیں گوکہ جس سے بھی دوحرف سیکھے احترام تو ساری زندگی کیلئے اس کا لازم ہوجاتا ہے۔
مولانا محمد حسین بہاری یا علامہ بہاری کا دار العلوم کے ان مایہ ناز اساتذہ میں شمار ہوتا ہے جو تفسیر وحدیث کی کتابوں کے ساتھ فنون اور معقولات کی اعلی درجہ کی کتابیں صدرا، شمس بازغہ اور قاضی مبارک، وحمد اللہ وغیرہ بھی آسانی سے پڑھا سکتے ہوں۔
انہوں نےتقریبا 48 سال تک دار العلوم میں تمام علوم وفنون کی کتابیں پڑھائی ہیں۔
دار العلوم دیوبند سے پہلے انہوں نے دھلی راندیر اور دوسری جگہوں پر بھی تدریس کا کام کیا ہے۔
میں جس سال دورہ حدیث میں تھا اس سال انہوں نے سنن نسائی کا درس دیا تھا اور خوب تحقیق کے ساتھ دیا تھا مسائل کی تحقیق دلائل کی تنقیح اور فقہاء کے اختلافات کا بیان اچھے انداز سے اور ترتیب کے ساتھ کیا کرتے تھے، چنانچہ طلبہ انکے درس سے مطمئن رہتے اور انہیں کامیاب استاذ: سمجھتے تھے اور ‘‘علامہ بہاری’’ اور ‘‘فخر بہار’’ وغیرہ کے القاب سے یاد کرتے تھے۔
زبان میں خطیبانہ آہنگ نہ ہونے کے باوجود مسائل اور دلائل کے بیان میں ترتیب بڑی شاندار ہوا کرتی تھی جس سے سمجھنے میں آسانی اور یاد رکھنے میں سہولت ہوتی تھی۔
مجھے تجسس ہوا کہ مولانا خود ہی کہا کرتے تھے کہ پڑھنے کے زمانہ میں کند ذھن تھا اور گھریلو حالات بھی اچھے نہیں تھے اس لئے محنت زیادہ کرنی پڑتی تھی اور دعاء اور اللہ تعالی سے رجوع کی بھی ضرورت پڑتی تھی۔
پھر انکی کامیابی کا راز کیا ہے؟
حقیقت یہی ہے کے بہت سے ذھین اور تیز دماغ والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور محنت کرنے والے ان پر گوئے سبقت لے جاتے ہیں ۔
اسی طرح تدریس کی کامیابی کا راز مطالعہ کی پابندی اور بغیر مطالعہ درسگاہ میں نہ جانے کا اہتمام بھی ان کا انتیازی وصف تھا۔
انکے کلام میں باہمی ربط اورتدریس کے دوران بیان میں ترتیب کا ایک راز یہ بھی میں نے دریافت کیا کہ محض کتاب کی معروف شروح کے علاوہ وہ نامور فلسفی ومشہور فقیہ علامہ ابن رشد کی كتاب ‘‘بدایة المجتهد ونهاية المقتصد’’ بھی خاص طور پر اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے، جسکی خوبی مذاھب ودلائل کے بیان میں اسکی منطقی ترتیب ہی ہے۔
ابن رشد الحفید بنیادیور پر تو ایک عظیم فلسفی ہی ہے جس کو ارسطو کی صحیح ترجمانی میں محققین ابن سینا پر ترجیح دیتے ہیں، علامہ انور شاہ صاحب نے تو کئی جگہ اسکا اظہار فرمایا ہے، البتہ اسکے دادا ابن رشد الجد یقینا مالکی مذھب میں رسوخ رکھنے والے فقیہ تھے۔
بدایة المجتهد اس نے جس طرح بھی تصنیف کی ہو اسکے حسن ترتیب کا کوئی جواب نہیں ہے۔
مولانا بہاری صاحب اپنے مطالعہ میں علامہ انور شاہ کشمیری صاحب کی ‘‘فیض الباری’’ بھی برابر رکھتے تھے جو امالی ہونے اور شاہ صاحب کے تمام علوم کا مکمل عکس نہ ہونے کے باوجود بڑی عقل کشا کتاب ہے، اور مسائل کی تہہ تک پہنچانے میں بیحد معاون ہے، اور بہت سے ایسے علمی نکات پر مشتمل ہے چو کہیں اور نہیں مل سکتے۔
دارالعلوم میں میری رہائش مولانا کے پڑوس میں تھی، اس لئے بے تکلفی بڑھ گئی تھی، پھر عصر کی نماز کے بعد مولانا بہاری صاحب، مولنا مفتی ظفیر الدین مفتاحی صاحب، اور حکیم عزیز الرحمن صاحب کی مثلث کے ساتھ میری نشست وبرخاست نے اور بھی مجھے چھوٹے ہونے کے ناطے جری بنا دیا تھا۔
کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ
مولانا پرانے زمانہ کی یادگار اور مفتی ظفیر الدین صاحب نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، مجلس سے ہم آہنگ، کتابوں پر کتابیں تصنیف کرنے کے خوگر، ماضی میں مولانا مناظر احسن گیلانی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی سبھوں سے راہ ورسم رکھنے والے۔
پھر دونوں ہی حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے شاگرد اور انکے بیحد معتقد بھی تھے۔
حکیم عزیزالرحمن اعظمی صاحب ذہانت تنقیدی مزاج، اشعار لطیفوں داستانوں اور حکایتوں کے باشاہ تھے، خود کو الہ آباد کی خانقاہ کی زندہ کر امت سمجھنے والے ایسا لگتا تھا کہ ‘‘امیر الروایات’’ کی طرح ایک ‘‘عزیزالروایات’’ کا پورا مواد گویا ان کے دماغ میں ہو۔
لطیفے قصے اور مزاح سے قہقہوں تک معاملہ پہنجتا، اور مجلس زعفراں زار بن جاتی تھی۔
اور میں اپنی کم عمری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا کبھی مخالفت کرتا اور کبھی مولانا بہاری صاحب کے حق میں دلائل فراہم کرتا، انکی شفقت اور جھڑکی دونوں میں لطف محسوس ہوتا۔
مولانا بہاری صاحب نے بخاری شریف شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ سے پڑھی تھی اور بیعت بھی انہیں سے کی تھی، اس لئے انکی محبت سے سرشار ہونا طبعی بات ہے۔
لیکن دارالعلوم میں روز روز کے ہنگاموں سے بددل ہونا بھی طبعی تھا، چنانچہ دارالعلوم کو بام عروج تک پہنچانے والے دارالعلوم کو دارالعلوم بنانے والے مسلک کے علمی وعملی ترجمان حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی مظلومیت کے بارے میں ہم سبھوں کے خیالات یکساں تھے، اور ان کے خلاف شاطرانہ کرتب بازیوں کو سخت مضر سمجھتے تھے جو وہاں ایک حلقہ کی طرف سے کی جا رہی تھیں۔
حضرت مولانا محمد حسین بہاری اپنے طرز کے باکمال استاذ تھے، ان میں بعض وہ خصوصیات پائی جاتی تھیں جو دارالعلوم کے پچھلے عہد کےجامع معقول ومنقول اساتذہ مولانا عبد الحق نافع گل، مولانا رسول خاں، اور علامہ ابراھیم بلیاوی وغیرہ میں پائی جاتی تھیں کہ ہر فن کی کتابیں پڑھانے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے اور پڑھانے کا حق ادا کرتے تھے۔
 صف اول میں ہمیشہ ہر نماز پڑھنے کا خاص اھتمام کرنا بھی ان کا امتیازی وصف تھا۔
 درس میں طالب علم کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کرنا اور کسی علمی شبہ یا اعتراض پر کبھی ناراض نہ ھونا۔
 اگر کبھی غلطی یا بھول چوک ہوجائے تو اس کا برملا اعتراف کرنا اور مسئلہ کی اگلے دن وضاحت کردینا۔
یہ اخلاص اور علمی امانت کی علامت اور اچھے مدرس کی خصوصیات ہیں،
یہ بے مثال مدرس اور علامہ وقت 12 جنوری 1992ء کو طویل اور پرمشقت زندگی کے بعد رب کائنات کی آغوش رحمت میں چلا گیا، اللہ تعالی انہیں فردوس بریں میں جگہ دے، اور اس مزدہ جاں فزا سے وہ بھی بہرہ ور ہوئے ہوں (یاأیتھا النفس المطمئنة ارجعي إلی ربك راضية مرضية فادخلي في عبادي وادخلي جنتي)۔
https://telegram.me/ilmokotab/

بشکریہ: علم وکتاب واٹس ایپ گروپ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے